مندرجات کا رخ کریں

"آیت لاتحزن" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Sajjadsafavi
(«'''آیہ لا تحزن''' سورہ توبہ کی چالیسویں آیت آیہ لا تحزن یا آیہ غار میں پیغم...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
imported>Sajjadsafavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''آیہ لا تحزن'''
'''آیہ لا تحزن'''
[[سورہ توبہ]]  کی چالیسویں آیت آیہ لا تحزن یا آیہ غار میں [[ پیغمبر اکرم]]  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اور  [[ابو بکر]]  کے  مکہ سے مدینہ  کی طرف  [[ہجرت]]  کے موقع  پر [[ غار ثور]]  میں پناہ لینے  کا ذکر ہے۔ اس آیت کےشان نزول میں  بعض مسلمانوں کا  [[غزوہ تبوک ]] میں شرکت نہ کرنے اور  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کا ساتھ نہ دینے کا ذکر  آیا ہے ۔ [[شیعہ]]  اور [[سنی]]  [[مفسرین]]  اس  آیت کے  ابو بکر کی فضیلت کے بارے میں ہونے میں اختلاف رکھتے ہیں۔  
[[سورہ توبہ]]  کی چالیسویں آیت آیہ لا تحزن یا آیہ غار میں [[ پیغمبر اکرم]]  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اور  [[ابو بکر]]  کے  مکہ سے مدینہ  کی طرف  [[ہجرت]]  کے موقع  پر [[ غار ثور]]  میں پناہ لینے  کا ذکر ہے۔ اس آیت کےشان نزول میں  بعض مسلمانوں کا  [[غزوہ تبوک ]] میں شرکت نہ کرنے اور  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کا ساتھ نہ دینے کا ذکر  آیا ہے ۔ [[شیعہ]]  اور [[سنی]]  [[مفسرین]]  اس  آیت کے  ابو بکر کی فضیلت کے بارے میں ہونے میں اختلاف رکھتے ہیں۔  
==آیت  اور ترجمہ ==
==آیت  اور ترجمہ ==
آیت: إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّـهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا...  
آیت: إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّـهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا...  
سطر 11: سطر 11:
==شیعہ مفسرین کا رجحان ==
==شیعہ مفسرین کا رجحان ==
شیعہ مفسرین اور کچھ اہل سنت مفسرین (لاتحزن )کو  ’’خوفزدہ نہ ہونے‘‘کے معنی میں سمجھتے ہیں۔ اس کی توضیح وتفسیر اس طرح  کی ہے: جب  [[قریش]]  پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی مکہ سے  نکل  جانے سے آگاہ ہوتے ہیں توکرز ابن علقمہ ابن ہلال خزاعی جو کہ  ماہر جستجوگر  تھا، کی مدد  اس راستے  کا پتہ لگا لیتے ہیں یہاں تک کہ غار تک پہنچ جاتے ہیں  اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اور ابو بکر کے مل جانے سے متعلق گفتگو کرتے ہیں ۔اسی وجہ سے ابو بکر خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں: اگر  انہوں نے  پیچھے مڑ کر دیکھ لیا تو  ہمیں دیکھ لیں گے ۔پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  فرماتے ہیں :کیا گمان کرتے  ہو ان دو لوگوں کے بارے میں کہ جن کا  تیسرا خد ا ہے۔ اہل سنت کے مآخذ تاریخ  جیسے طبری میں اس طرح ابو بکر کے خوفزدہ ہونے کے بارے میں ذکر  ہوا ہے۔  
شیعہ مفسرین اور کچھ اہل سنت مفسرین (لاتحزن )کو  ’’خوفزدہ نہ ہونے‘‘کے معنی میں سمجھتے ہیں۔ اس کی توضیح وتفسیر اس طرح  کی ہے: جب  [[قریش]]  پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی مکہ سے  نکل  جانے سے آگاہ ہوتے ہیں توکرز ابن علقمہ ابن ہلال خزاعی جو کہ  ماہر جستجوگر  تھا، کی مدد  اس راستے  کا پتہ لگا لیتے ہیں یہاں تک کہ غار تک پہنچ جاتے ہیں  اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اور ابو بکر کے مل جانے سے متعلق گفتگو کرتے ہیں ۔اسی وجہ سے ابو بکر خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں: اگر  انہوں نے  پیچھے مڑ کر دیکھ لیا تو  ہمیں دیکھ لیں گے ۔پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  فرماتے ہیں :کیا گمان کرتے  ہو ان دو لوگوں کے بارے میں کہ جن کا  تیسرا خد ا ہے۔ اہل سنت کے مآخذ تاریخ  جیسے طبری میں اس طرح ابو بکر کے خوفزدہ ہونے کے بارے میں ذکر  ہوا ہے۔  
ان مفسرین  کا«فَاَنْزِلَ اللّهَ سَکینَتَهُ عَلَیهِ»علیہ کی ضمیر کے مرجع کے بارے میں نظریہ یہ ہے کہ  اس آیت  کے پہلےاور بعد کے حصے «تَنْصُروهُ»، «نَصَرَهُ»، «اَخْرَجَهُ»، «یقولُ»، «لِصاحِبِهِ» اور «أَیدَهُ» کی ضمائر کا مرجع  پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  ہیں پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی دلیل کے بغیر اور ایک چیز کے واضح ہوتے ہوئے  (علیہ )کی ضمیر کسی دوسرے کی طرف جیسے ابوبکر کی طرف پلٹے ؟اس بات کے ذیل میں کہ آیت  خدا کی  پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے لئے مدد اور ان  کی تائید  بیان کر رہی ہے نہ کہ کسی دوسری چیز کو ۔<ref> دیکھئے: طباطبائی،المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۹، ص۲۷۹-۲۸۰.</ref>
ان مفسرین  کا«فَاَنْزِلَ اللّهَ سَکینَتَهُ عَلَیهِ»علیہ کی ضمیر کے مرجع کے بارے میں نظریہ یہ ہے کہ  اس آیت  کے پہلےاور بعد کے حصے «تَنْصُروهُ»، «نَصَرَهُ»، «اَخْرَجَهُ»، «یقولُ»، «لِصاحِبِهِ» اور «أَیدَهُ» کی ضمائر کا مرجع  پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  ہیں پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی دلیل کے بغیر اور ایک چیز کے واضح ہوتے ہوئے  (علیہ )کی ضمیر کسی دوسرے کی طرف جیسے ابوبکر کی طرف پلٹے ؟اس بات کے ذیل میں کہ آیت  خدا کی  پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے لئے مدد اور ان  کی تائید  بیان کر رہی ہے نہ کہ کسی دوسری چیز کو ۔<ref> دیکھئے: طباطبائی،المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۹، ص۲۷۹-۲۸۰.</ref>


==بعض اہل سنت مفسرین کا رجحان ==
==بعض اہل سنت مفسرین کا رجحان ==
گمنام صارف