"بت شکنی کا واقعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
←واقعہ کی تفصیل
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
|||
سطر 6: | سطر 6: | ||
==واقعہ کی تفصیل== | ==واقعہ کی تفصیل== | ||
بت شکنی کا واقعہ یا کسر اصنام | بت شکنی کا واقعہ یا کسر اصنام کا ماجرا یا «حدیث کسر الاصنام» <ref> علامہ حلی، نہجالحق، ۱۹۸۲ء، ص۲۲۳۔</ref> اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں [[رسول خدا]] صلی اللہ علیہ وآلہ نے [[حضرت علی]] علیہ السّلام کو کعبہ کی چھت پر موجود بتوں کو توڑنے کے لئے اپنے دوش پر اٹھایا۔<ref> شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱۸، ص۱۶۲۔</ref> اس واقعہ میں ہبل جیسے کچھ بتوں کی سرنگونی کا تذکرہ ملتا ہے۔<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۵۳–۴۵۴؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref> البتہ اس واقعہ کے جزئیات کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ | ||
کچھ روایتوں کے مطابق پہلے حضرت علی نے چاہا کہ حضور کو اپنے کاندھوں پر اٹھائیں لیکن آپ اٹھا نہیں سکے، اس لئے حضرت علی علیہ السّلام خود دوش پیغمبر پر سوار ہوئے<ref> نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابییعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲۔</ref> اور بتوں کو کعبہ کے اوپر سے زمین پر گرادیا۔ دوسری کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السّلام نے شروع میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے اپنے کاندھوں پر سوار ہونے کی گزارش کی تو آپ نے فرمایا کہ یہ کام کوئی نہیں کرسکتا۔<ref> بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ھ، ج۳، ص۵۷۹-۵۸۰۔</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]] کے بقول یہ بار رسالت کی سنگینی کی وجہ سے تھا۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref> اسی طرح اس بارے میں دوسری وجوہات بھی ذکر ہوئی ہیں <ref> صدوق، معانی الأخبار، ۱۴۰۳ھ، ص۳۵۰–۳۵۲؛ بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ھ، ج۳، ص۵۷۶–۵۷۸؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۲-۸۴۔</ref> ایک اور نقل کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے شروع میں ہی حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے کاندھوں پر سوار ہونے کے لئے حکم دیا۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶، ۱۴۱۔</ref> | |||
کچھ روایات میں ہے کہ حضور اکرم اس موقع پر آیہ {{قرآن کا متن|«وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَہقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کاَنَ زَہوقًا»}}<ref>سورہ اسراء، آيہ۸۱۔</ref> کی تلاوت فرما رہے تھے۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸؛ ج۳، ص۶۔</ref> اس لحاظ سے کسر اصنام کے واقعہ کو اس آیت کا [[سبب نزول]] بھی بیان کیا گیا ہے۔<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۵۳–۴۵۴؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۶۔</ref> سی طرح [[ابن شہر آشوب]] کی نقل کردہ روایت کی بنیاد پر آیہ «وَ رَفَعْناہ مَكاناً عَلِيًّا»<ref>سورہ مریم، آیہ ۵۷۔</ref> اسی واقعے کی طرف سے اشارہ کرتی ہے۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref> | |||
بام کعبہ سے حضرت علیہ السّلام کے نیچے آنے کی کیفیت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ کچھ احادیث کے مطابق حضرت علیہ السّلام کعبہ کی چھت سے کودے اور اس وقت کعبہ کی چھت چالیس زراع{{نوٹ| ہر زراع کو 45 سے 75 سینٹی میٹر تک بیان کیا گیا ہے۔(عاملی بیاضی، الأوزان و المقادیر، ۱۳۸۱ھ، ص۵۶۔)}} کی ہوتی تھی<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۴۱۔</ref> لیکن آپ کو کوئی چوٹ نہیں لگی۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸۔</ref> دوسرے نقل کے مطابق، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ [[جبرئیل]] نے تمہیں کعبہ کی چھت سے نیچے اتارا۔<ref> بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ھ، ج۳، ص۵۸۰۔</ref> | |||
کچھ روایات میں ہے کہ حضور اکرم اس موقع پر آیہ {{قرآن کا متن|«وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَہقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کاَنَ زَہوقًا»}}<ref>سورہ اسراء، آيہ۸۱۔</ref> کی تلاوت فرما رہے تھے۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸؛ ج۳، ص۶۔</ref> اس لحاظ سے کسر اصنام کے واقعہ کو اس آیت کا [[سبب نزول]] بھی بیان کیا گیا ہے۔<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۵۳–۴۵۴؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۶۔</ref> سی طرح [[ابن شہر آشوب]] کی نقل کردہ روایت کی بنیاد پر آیہ {{قرآن کا متن|«وَ رَفَعْناہ مَكاناً عَلِيًّا»}}<ref>سورہ مریم، آیہ ۵۷۔</ref> اسی واقعے کی طرف سے اشارہ کرتی ہے۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref> | |||
بت شکنی کا واقعہ [[شیعہ]]<ref>برای نمونہ: ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵–۱۴۲؛ شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱۸، ص۱۶۲-۱۶۸۔</ref> و [[سنی]]<ref> ابن ابیشیبہ، المصنف، ۱۴۲۹ھ، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابییعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲؛ طبری، تہذیب الآثار، مسند علی بن ابیطالب(ع)، بیتا، ص۲۳۶-۲۴۰؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸، ج۳، ص۶۔</ref> دونوں کتب میں نقل ہوا ہے۔ [[عبداللہ بن عباس]]،<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶، ۱۴۱۔</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۵۳؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref> اور ابو مریم<ref>برای نمونہ: ابن ابیشیبہ، المصنف، ۱۴۲۹ھ، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابییعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲۔</ref> نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ [[علامہ امینی]] نے [[الغدیر (کتاب)|الغدیر]] میں ان علمائے اہل سنت کی فہرست ذکر کی ہے جنھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔<ref> امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۷، ص۱۸–۲۴۔</ref> | بت شکنی کا واقعہ [[شیعہ]]<ref>برای نمونہ: ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵–۱۴۲؛ شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱۸، ص۱۶۲-۱۶۸۔</ref> و [[سنی]]<ref> ابن ابیشیبہ، المصنف، ۱۴۲۹ھ، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابییعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲؛ طبری، تہذیب الآثار، مسند علی بن ابیطالب(ع)، بیتا، ص۲۳۶-۲۴۰؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸، ج۳، ص۶۔</ref> دونوں کتب میں نقل ہوا ہے۔ [[عبداللہ بن عباس]]،<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶، ۱۴۱۔</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۵۳؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref> اور ابو مریم<ref>برای نمونہ: ابن ابیشیبہ، المصنف، ۱۴۲۹ھ، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابییعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲۔</ref> نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ [[علامہ امینی]] نے [[الغدیر (کتاب)|الغدیر]] میں ان علمائے اہل سنت کی فہرست ذکر کی ہے جنھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔<ref> امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۷، ص۱۸–۲۴۔</ref> |