"نفس لوامہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
←حقیقت انسان کے ایک ہونے اور نفسوں کے متعدد ہونے میں منافات نہ ہونا
سطر 13: | سطر 13: | ||
نفس لوامه در حقیقت، نفس اَمّارہ اور نفس مطمئنہ کے مقابل میں ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۷، ص۳۷؛ مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵-۵۹۶؛ مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۶-۲۷.</ref> نفس امارہ، نفس کی وہ حالت ہے جس میں انسان اپنی عقل کی نہیں سنتا ہے اور گناہ کرنے لگتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۷؛ مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵-۵۹۶.</ref> نفس مطمئنہ وہ حالت ہے جس میں انسان، مسلسل عقل کی طرف توجہ دینے اور اس کی سننے کے سبب اس کام کو اپنی ایک عادت اور ملکہ بنا لیتا ہے اور انسان کو سکون و اطمینان حاصل ہوجاتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۷.</ref> | نفس لوامه در حقیقت، نفس اَمّارہ اور نفس مطمئنہ کے مقابل میں ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۷، ص۳۷؛ مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵-۵۹۶؛ مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۶-۲۷.</ref> نفس امارہ، نفس کی وہ حالت ہے جس میں انسان اپنی عقل کی نہیں سنتا ہے اور گناہ کرنے لگتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۷؛ مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵-۵۹۶.</ref> نفس مطمئنہ وہ حالت ہے جس میں انسان، مسلسل عقل کی طرف توجہ دینے اور اس کی سننے کے سبب اس کام کو اپنی ایک عادت اور ملکہ بنا لیتا ہے اور انسان کو سکون و اطمینان حاصل ہوجاتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۷.</ref> | ||
== حقیقت | == انسان کی حقیقت کے ایک ہونے اور نفسوں کے متعدد ہونے میں منافات نہ ہونا== | ||
مسلمان علما کے اعتبار سے اس میں کوئی منافات نہیں ہے کہ انسان کی حقیقت تو ایک ہے لیکن اس کے نفس مختلف ہیں جیسے نفس امارہ ہے، نفس لوامہ ہے، اور نفس مطمئنہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کی ایک سے زیادہ حقیقت نہیں ہے اور انسان کا نفس بھی ایک ہے اور یہ جو تین اصطلاحات ہیں یہ درحقیقت انسان کے نفس کی مختلف حالتیں ہیں۔<ref> مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۷، ص۳۶-۳۷؛ مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵؛ مصباح یزدی، «اخلاق و عرفان اسلامی»، ص۸.</ref> | مسلمان علما کے اعتبار سے اس میں کوئی منافات نہیں ہے کہ انسان کی حقیقت تو ایک ہے لیکن اس کے نفس مختلف ہیں جیسے نفس امارہ ہے، نفس لوامہ ہے، اور نفس مطمئنہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کی ایک سے زیادہ حقیقت نہیں ہے اور انسان کا نفس بھی ایک ہی ہے اور یہ جو تین اصطلاحات ہیں یہ درحقیقت انسان کے نفس کی مختلف حالتیں ہیں۔<ref> مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۷، ص۳۶-۳۷؛ مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵؛ مصباح یزدی، «اخلاق و عرفان اسلامی»، ص۸.</ref> | ||
محمد تقی مصباح یزدی نے لکھا ہے کہ کبھی نفس برے کاموں کا حکم دیتا ہے اور اس کو نفس امارہ کہتے ہیں اور کبھی کبھی نفس خود اپنے آپ کی ملامت کرتا ہے تو ایسی حالت میں اس کو نفس لوامہ کہتے ہیں۔<ref>مصباح یزدی، «اخلاق و عرفان اسلامی»، ص۸.</ref> | محمد تقی مصباح یزدی نے لکھا ہے کہ کبھی نفس برے کاموں کا حکم دیتا ہے اور اس کو نفس امارہ کہتے ہیں اور کبھی کبھی نفس خود اپنے آپ کی ملامت کرتا ہے تو ایسی حالت میں اس کو نفس لوامہ کہتے ہیں۔<ref>مصباح یزدی، «اخلاق و عرفان اسلامی»، ص۸.</ref> | ||
شہید مطہری کے بقول، انسان کے اندر دو "میں" یا دو "خود" نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ ایک ہی "خود" ہوتا ہے لیکن اس کے درجے الگ الگ ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ نیچے درجہ پر پہنچ جاتا ہے، ایسے موقع پر وہ عقل کی نہیں سنتا، یہ اس کا نفس امارہ ہے، اس سے بالاتر مقام پر ذرا ہوش مند ہے، اور اگر غلط کام کرتا ہے تو خود ہی اپنے اوپر مقدمہ چلاتا ہے اور اس کو نفس لوامہ کہتے ہیں۔<ref>مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۴-۵۹۶.</ref> | شہید مطہری کے بقول، انسان کے اندر دو "میں" یا دو "خود" نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ ایک ہی "خود" ہوتا ہے لیکن اس کے درجے الگ الگ ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ نیچے درجہ پر پہنچ جاتا ہے، ایسے موقع پر وہ عقل کی نہیں سنتا، یہ اس کا نفس امارہ ہے، اس سے بالاتر مقام پر ذرا ہوش مند ہے، اور اگر غلط کام کرتا ہے تو خود ہی اپنے اوپر مقدمہ چلاتا ہے اور اس کو نفس لوامہ کہتے ہیں۔<ref>مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۴-۵۹۶.</ref> | ||
== تفسیر کی کتابوں میں نفس لوامہ == | |||
قرآن کی تفسیر کی کتابوں میں نفس لوامہ کے سلسلے سے کئی طرح کے نظریہ پیش کئے گئے ہیں جن میں سے چند اس طرح سے ہیں: | |||
* نفس امارہ سے مراد، مومن انسان کا نفس ہے جو گناہوں کی وجہ سے یا نیکی کرنے میں سستی کرنے کی وجہ سے اپنی ملامت کرتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۸ق، ج۲۰، ص۱۰۳؛ فخررازی، مفاتیحالغیب، ۱۴۲۰ق، ج۳۰، ص۷۲۰.</ref> علامہ طباطبائی نے اس نظریہ کو قبول کیا ہے <ref> طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۸ق، ج۲۰، ص۱۰۳.</ref> | |||
* نفس لوامہ سے مراد تمام انسانوں کا نفس ہے، چاہے وہ نیک ہوں چاہے وہ برے ہوں۔ اور اس میں قیامت کا منظر مدنظر ہے کیونکہ قیامت میں جو برے ہوں گے وہ اس لئے اپنی ملامت کریں گے کہ انہوں نے دنیا میں تقوی اختیار نہیں کیا اور نیک لوگ اس وجہ سے اپنی ملامت کریں گے کہ اور زیادہ عبادتیں کیوں نہیں کیں۔ اس نظریہ کی نسبت عبداللہ ابن عباس کی طرح دی جاتی ہے. | |||
* نفس امارہ سے مراد، قیامت میں صرف گنہگاروں کا نفس ہے کیونکہ وہی لوگ ہوں گے جو گناہ کی وجہ سے قیامت۔ اپنی ملامت کر رہے ہوں گے. | |||
* اس سے مراد باتقوی اور پرہیز گار لوگ ہیں کہ یہ لوگ قیامت میں گنہگاروں کی ملامت کریں گے.<ref>فخررازی، مفاتیحالغیب، ۱۴۲۰ق، ج۳۰، ص۷۲۰-۷۲۱.</ref> | |||
==متعلقہ صفحات== | |||
*[[نفس امارہ]]*[[نفس مطمئنہ]] | |||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== | ||
{{حوالہ جات2}} | {{حوالہ جات2}} |