گمنام صارف
"مہر السنۃ" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
imported>E.musavi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 6: | سطر 6: | ||
==تعریف== | ==تعریف== | ||
{{اصلی|حق مہر}} | {{اصلی|حق مہر}} | ||
مہر السنہ اس حق مہر کو کہا جاتا ہے جسے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اسلامؐ]] اپنی [[ازواج رسول خدا|ازواج]] اور اسی طرح [[شیخ صدوق]] کی نقل کے مطابق اپنی بیٹیوں کے لئے حق مہر<ref> شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۳۰۲۔</ref> قرار دیا کرتے تھے۔<ref> ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۳۰۲؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۳۴۴۔</ref> | |||
== مقدار== | == مقدار== | ||
[[حدیث|احادیث]] کے مطابق مہر السنہ کی مقدار 500 [[شرعی درہم|درہم]] تھی۔<ref>مجلسی، | [[حدیث|احادیث]] کے مطابق مہر السنہ کی مقدار 500 [[شرعی درہم|درہم]] تھی۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۰۰، ص۳۴۷-۳۴۸؛ شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۳۰۲؛ شہید ثانی، ۱۴۱۰، ج۵، ص۳۴۴۔</ref> ان احادیث کو [[تواتر|متواتر]] جانا گیا ہے۔<ref> مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۳۔</ref> | ||
بعض احادیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی ازواج اور بیٹیوں میں سے کسی کا حق مہر ساڑھے 12 اوقیہ (500 درہم کے برابر) سے زیادہ مقرر نہیں فرمایا ہے۔<ref>حمیری، قربالاسناد، ۱۴۱۳ق، ص۱۶-۱۷۔</ref> | بعض احادیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی ازواج اور بیٹیوں میں سے کسی کا حق مہر ساڑھے 12 اوقیہ (500 درہم کے برابر) سے زیادہ مقرر نہیں فرمایا ہے۔<ref> حمیری، قربالاسناد، ۱۴۱۳ق، ص۱۶-۱۷۔</ref> | ||
===چند مختلف احادیث=== | ===چند مختلف احادیث=== | ||
[[حدیث|حدیثی]] منابع میں بعض روایات، مہر السنہ سے متعلق احادیث سے مختلف دیکھائی دیتی ہیں۔ من جملہ ان میں سے ایک وہ حدیث ہے جسے [[شیخ صدوق]] نے [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام باقرؑ]] سے نقل کی ہیں اور اس حدیث میں [[ام حبیبہ]] (زوجہ پیغمر اکرمؐ) کا حق مہر 4 ہزار درہم نقل ہوا ہے۔<ref>شیخ صدوق، من | [[حدیث|حدیثی]] منابع میں بعض روایات، مہر السنہ سے متعلق احادیث سے مختلف دیکھائی دیتی ہیں۔ من جملہ ان میں سے ایک وہ حدیث ہے جسے [[شیخ صدوق]] نے [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام باقرؑ]] سے نقل کی ہیں اور اس حدیث میں [[ام حبیبہ]] (زوجہ پیغمر اکرمؐ) کا حق مہر 4 ہزار درہم نقل ہوا ہے۔<ref> شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۴۷۳۔</ref> کہا جاتا ہے کہ اس حدیث میں [[امام باقرؑ]] نے اس حق مہر کو ایک استثنائی حق مہر قرار دیا ہے جسے [[حبشہ]] کے حکمران نجاشی جو ام حبیبہ کا رشتہ مانگنے میں رسول خداؐ کا وکیل تھا، نے قرار دیا تھا اور اس نے خود یہ حق مہر ادا کر دیا تھا اور پیغمبر اکرمؐ نے اس کی ممانعت نہیں فرمائی۔<ref> مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۳۔</ref> | ||
اسی طرح [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت زہراؑ]] کے حق مہر کے بارے میں مختلف گزارشات منقول ہیں۔ من جملہ ان میں 480 درہم، 400 مثقال چاندی اور 500 درہم نقل ہوئے ہیں۔<ref> | اسی طرح [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت زہراؑ]] کے حق مہر کے بارے میں مختلف گزارشات منقول ہیں۔ من جملہ ان میں 480 درہم، 400 مثقال چاندی اور 500 درہم نقل ہوئے ہیں۔<ref> ابن شہرآشوب، مناقب آلابی طالب، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۳۵۱۔</ref> [[شیعہ]] [[محدث]] [[ابن شہر آشوب]] (488-588ھ) اپنی کتاب [[مناقب آل ابی طالب (کتاب)|مَناقِب آل ابی طالب]] میں اس اختلاف کی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ اصل میں حضرت زہراؑ کا حق مہر کچھ اور چیز تھی جس کی قیمت کے بارے میں مذکورہ اختلافات وجود میں آئے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے کچھ احادیث کو نقل کیا ہے جن میں سے بعض کے مطابق حضرت زہراؑ کے حق مہر میں یمنی بافت کا عبا، چمڑا اور ایک خشبودار جڑی بوٹی شامل تھی بعض اور گزارشات کی بنا پر آپ کے حق مہر میں ایک زرہ اور گوسفند یا اونٹ کا چمڑا شامل تھا۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۳۵۱۔</ref> | ||
بعض مصنفین مذکورہ احادیث، پیغمبر اکرمؐ کی سیرت اور [[امام جواد علیہ السلام|امام جوادؑ]] کی ایک حدیث جس میں آپ نے اپنی زوجہ [[ام فضل بنت مأمون|ام فضل]] کا حق مہر حضرت زہراؑ کے حق مہر کے برابر معین فرمایا تھا،<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۸۴۔</ref> سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت زہراؑ کا حق مہر 500 درہم سے زیادہ نہیں تھا۔<ref>مروج طبسی، فاطمہ الگوی حیات زیبا، ۱۳۸۰ش، ص۳۵-۳۶۔</ref> | بعض مصنفین مذکورہ احادیث، پیغمبر اکرمؐ کی سیرت اور [[امام جواد علیہ السلام|امام جوادؑ]] کی ایک حدیث جس میں آپ نے اپنی زوجہ [[ام فضل بنت مأمون|ام فضل]] کا حق مہر حضرت زہراؑ کے حق مہر کے برابر معین فرمایا تھا،<ref> مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۸۴۔</ref> سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت زہراؑ کا حق مہر 500 درہم سے زیادہ نہیں تھا۔<ref> مروج طبسی، فاطمہ الگوی حیات زیبا، ۱۳۸۰ش، ص۳۵-۳۶۔</ref> | ||
== مہر السنہ کا وجوب یا استحباب == | == مہر السنہ کا وجوب یا استحباب == | ||
تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ [[محمد حسن نجفی|صاحب جواہر]] کے مطابق [[فقیہ|فقہاء]] کے درمیان مشہور نظریہ یہ ہے کہ خواتین کے [[حق مہر]] کی کوئی مقدار مشخص نہیں ہے اور حق مہر کا مہر السنۃ سے زیادہ قرار دینا جائز ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۱۳۔</ref> فقہاء کے [[فتوا|فتوا]] کے مطابق حق مہر کا مہر السنہ سے زیادہ معین کرنا صرف [[مکروہ]] ہے۔<ref>ملاحظہ کریں حلی، شرایعالاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۶۹؛ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق ج۳۱، ص۴۷۔</ref> | تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ [[محمد حسن نجفی|صاحب جواہر]] کے مطابق [[فقیہ|فقہاء]] کے درمیان مشہور نظریہ یہ ہے کہ خواتین کے [[حق مہر]] کی کوئی مقدار مشخص نہیں ہے اور حق مہر کا مہر السنۃ سے زیادہ قرار دینا جائز ہے۔<ref> نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۱۳۔</ref> فقہاء کے [[فتوا|فتوا]] کے مطابق حق مہر کا مہر السنہ سے زیادہ معین کرنا صرف [[مکروہ]] ہے۔<ref> ملاحظہ کریں حلی، شرایعالاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۶۹؛ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق ج۳۱، ص۴۷۔</ref> | ||
صاحب جواہر کے مطابق بعض فقہاء من جملہ چوتھی اور پانجویں صدی کے شیعہ فقیہ [[سید مرتضی|سیدِ مرتَضی]]<ref>ملاحظہ کریں: سید مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵، ص۲۹۲۔</ref> مہر السنہ سے زیادہ حق مہر قرار دینے کو باطل شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر حق مہر، مہر السنۃ سے زیادہ ہو تو مرد پر صرف مہر السنہ کی مقدار کے برابر ادا کرنا واجب ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۱۵۔</ref> | صاحب جواہر کے مطابق بعض فقہاء من جملہ چوتھی اور پانجویں صدی کے شیعہ فقیہ [[سید مرتضی|سیدِ مرتَضی]]<ref> ملاحظہ کریں: سید مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵، ص۲۹۲۔</ref> مہر السنہ سے زیادہ حق مہر قرار دینے کو باطل شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر حق مہر، مہر السنۃ سے زیادہ ہو تو مرد پر صرف مہر السنہ کی مقدار کے برابر ادا کرنا واجب ہے۔<ref> نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۱۵۔</ref> | ||
==موجودہ دور میں مہر السنہ کی مالیت== | ==موجودہ دور میں مہر السنہ کی مالیت== | ||
سطر 29: | سطر 29: | ||
مثال کے طور پر گذشتہ زمانوں میں بعض [[فقیہ|فقہاء]] 500 [[شرعی درہم|درہم]] کو [[شرعی دینا|دینار]] کے ساتھ موازنہ کرتے تھے اور چونکہ ان کے دور میں دس درہم ایک دینار کے برابر ہوتی تھی، مہر السنۃ کو 50 دینار یعنی 50 مثقال سونا قرار دیتے تھے۔ اسی طرح بعض فقہاء یہ تجویز دیتے ہیں کہ موجودہ دور میں مہر السنۃ کی مالیت کا اندازہ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں 500 درہم کی قدرت خرید کے مطابق معین کی جانی چاہئے، کیونکہ بعض احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے حضرت زہرا(س) کے حق مہر کے پیسے سے آپ اور حضرت علیؑ کی مشترکہ زندگی کے لئے کچھ وسائل مہیا کئے تھے، موجودہ دور میں مہر السنۃ کی مالیت معین کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔<ref> مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۴-۱۱۵۔</ref> | مثال کے طور پر گذشتہ زمانوں میں بعض [[فقیہ|فقہاء]] 500 [[شرعی درہم|درہم]] کو [[شرعی دینا|دینار]] کے ساتھ موازنہ کرتے تھے اور چونکہ ان کے دور میں دس درہم ایک دینار کے برابر ہوتی تھی، مہر السنۃ کو 50 دینار یعنی 50 مثقال سونا قرار دیتے تھے۔ اسی طرح بعض فقہاء یہ تجویز دیتے ہیں کہ موجودہ دور میں مہر السنۃ کی مالیت کا اندازہ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں 500 درہم کی قدرت خرید کے مطابق معین کی جانی چاہئے، کیونکہ بعض احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے حضرت زہرا(س) کے حق مہر کے پیسے سے آپ اور حضرت علیؑ کی مشترکہ زندگی کے لئے کچھ وسائل مہیا کئے تھے، موجودہ دور میں مہر السنۃ کی مالیت معین کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔<ref> مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۴-۱۱۵۔</ref> | ||
50 مثقال سونے کی مالیت اور حضرت زہرا(س) کے حق مہر سے خریدے گئے وسائل کی سادگی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ لیا گیا ہے کہ مہر السنۃ کوئی بھاری اور غیر قابل برداشت حق مہر نہیں ہے۔<ref>مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۵-۱۱۶۔</ref> | 50 مثقال سونے کی مالیت اور حضرت زہرا (س) کے حق مہر سے خریدے گئے وسائل کی سادگی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ لیا گیا ہے کہ مہر السنۃ کوئی بھاری اور غیر قابل برداشت حق مہر نہیں ہے۔<ref> مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۵-۱۱۶۔</ref> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== | ||
سطر 35: | سطر 35: | ||
==مآخذ== | ==مآخذ== | ||
{{مآخذ}} | {{مآخذ}} | ||
* | * ابن شہر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب علیہمالسلام، قم، علامہ، چاپ اول، ۱۳۷۹ق۔ | ||
* حمیری، عبد اللہ بن جعفر، | * حمیری، عبد اللہ بن جعفر، قرب الاسناد، تحقیق و تصحیح مؤسسہ آل البیت، قم، مؤسسہ آل البیت، چاپ اول، ۱۴۱۳ق۔ | ||
* سید مرتضی، علی بن حسین، الانتصار فی انفرادات الامامیہ، تصحیح و تحقیق گروہ پژوہش دفتر انتشارات اسلامی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، ۱۴۱۵ق۔ | * سید مرتضی، علی بن حسین، الانتصار فی انفرادات الامامیہ، تصحیح و تحقیق گروہ پژوہش دفتر انتشارات اسلامی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، ۱۴۱۵ق۔ | ||
* شہید ثانی، | * شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تحقیق سید محمد کلانتر، قم، کتاب فروشی داوری، چاپ اول، ۱۴۱۰ق۔ | ||
* شیخ صدوق، محمد بن علی، المقنع، قم، مؤسسہ امام ہادی(ع)، چاپ اول، ۱۴۱۵ق۔ | * شیخ صدوق، محمد بن علی، المقنع، قم، مؤسسہ امام ہادی (ع)، چاپ اول، ۱۴۱۵ق۔ | ||
* شیخ صدوق، محمد بن علی، من | * شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، تحقیق و تصحیح علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق۔ | ||
* مجلسی، | * مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق۔ | ||
* محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ق۔ | * محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ق۔ | ||
* مروجی طبسی، | * مروجی طبسی، محمد جواد، فاطمہ الگوی حیات زیبا، قم، بوستان کتاب، چاپ اول، ۱۳۸۰ش۔ | ||
* مسعودی، عبدالہادی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، در محمدی | * مسعودی، عبدالہادی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، در محمدی ری شہری، محمد، تحکیم خانوادہ از نگاہ قرآن و حدیث، ترجمہ حمید رضا شیخی، قم، سازمان چاپ و نشر دار الحدیث، چاپ دوم، ۱۳۸۹ش۔ | ||
* مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ على العباد، تحقیق و تصحیح مؤسسہ | * مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ على العباد، تحقیق و تصحیح مؤسسہ آل البیت، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق۔ | ||
* نجفى، | * نجفى، محمد حسن، جواہر الكلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، ۱۴۰۴ق۔ | ||
{{خاتمہ}} | {{خاتمہ}} | ||
{{عائلی احکام}} | {{عائلی احکام}} |