confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←مآخذ) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 17: | سطر 17: | ||
زیادہ سجدوں کی وجہ سے ذوالثَّفِنات کا لقب ملا تھا۔<ref> ابن حجر، الاصابہ، ج۵، ص۷۸.</ref> زِرِکلی نے ان کو [[اباضیہ]] کے پیشواوں میں سے شمار کرتے ہوئے ان کی [[شجاعت]] اور فصاحت کی تعریف کی ہے۔<ref>زرکلی، الاعلام، ج۴، ص۱۴۳.</ref> | زیادہ سجدوں کی وجہ سے ذوالثَّفِنات کا لقب ملا تھا۔<ref> ابن حجر، الاصابہ، ج۵، ص۷۸.</ref> زِرِکلی نے ان کو [[اباضیہ]] کے پیشواوں میں سے شمار کرتے ہوئے ان کی [[شجاعت]] اور فصاحت کی تعریف کی ہے۔<ref>زرکلی، الاعلام، ج۴، ص۱۴۳.</ref> | ||
{{نقل قول| عنوان = <small>عبداللہ بن وہب کا حضرت علیؑ کے خط کا جواب</small>|: | {{نقل قول| عنوان = <small>عبداللہ بن وہب کا [[حضرت علیؑ]] کے خط کا جواب</small>|: | ||
«تم اپنے اللہ کی خاطر غصہ نہیں بلکہ اپنے لیے غصہ ہورہے ہو۔ اگر تم ابھی اپنے کفر کا اعتراف کرو اور توبہ کرو گے تو تمہاری طرف لوٹ آنے کی خواہش کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ورنہ تم سے جنگ کا اعلان کرتے ہیں۔|تاریخ بایگانی|| منبع = <small> (طبری، تاریخ، ج۵، ص۷۹)</small>| تراز = چپ| عرض = 200px| رنگ پسزمینہ =#ffeebb| اندازہ خط = 20px| گیومہ نقلقول =| تراز منبع = چپ}} | «تم اپنے [[اللہ]] کی خاطر غصہ نہیں بلکہ اپنے لیے غصہ ہورہے ہو۔ اگر تم ابھی اپنے [[کفر]] کا اعتراف کرو اور [[توبہ]] کرو گے تو تمہاری طرف لوٹ آنے کی خواہش کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ورنہ تم سے جنگ کا اعلان کرتے ہیں۔|تاریخ بایگانی|| منبع = <small> (طبری، تاریخ، ج۵، ص۷۹)</small>| تراز = چپ| عرض = 200px| رنگ پسزمینہ =#ffeebb| اندازہ خط = 20px| گیومہ نقلقول =| تراز منبع = چپ}} | ||
==خلفا کا دور == | ==خلفا کا دور == | ||
عبداللہ بن وہب عراق فتح کرنے میں [[سعد بن ابی وقاص]] کے ساتھ تھا<ref> طبری، تاریخ، ج۴، ص۳۷.</ref>اور حضرت علیؑ کی جنگوں میں آپؑ کے ساتھ ہمرکاب رہا اور حکمیت کے واقعے کے بعد حضرت علیؑ سے الگ ہوا۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۳۶۰؛ ابن حجر، الاصابہ، ج۵، ص۷۸.</ref> | عبداللہ بن وہب عراق فتح کرنے میں [[سعد بن ابی وقاص]] کے ساتھ تھا<ref> طبری، تاریخ، ج۴، ص۳۷.</ref>اور حضرت علیؑ کی جنگوں میں آپؑ کے ساتھ ہمرکاب رہا اور حکمیت کے واقعے کے بعد حضرت علیؑ سے الگ ہوا۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۳۶۰؛ ابن حجر، الاصابہ، ج۵، ص۷۸.</ref> |