"مصحف عثمانی" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←خصوصیات
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←شیوہ تدوین) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←خصوصیات) |
||
سطر 39: | سطر 39: | ||
[[محمد ہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] کے مطابق مُصحَف عثمانی میں بھی دوسرے صحیفوں کی طرح جو مختلف [[صحابہ]] کے پاس موجود تھے، [[سورت|سورتوں]] کی ترتیب بڑی سورتوں سے چھوٹی سورتوں کی طرف تھی اور دوسرے صحیفوں سے بعض چیزوں میں مختلف بھی تھا مثلا دوسرے صحیفوں میں [[سورہ یونس]] [[طولانی سورت|طولانی سورتوں]] میں شامل تھی اس بنا پر یہ قرآن کی ساتویں یا آٹھویں سورت شمار ہوتی تھی لیکن مصحف عثمانی اس سورت کی جگہ [[سورہ انفال]] اور [[سورہ توبہ]] موجود ہیں؛ کیونکہ [[عثمان]] ان دو سورتوں کو ایک سورت شمار کرتا تھا اس بنا پر یہ [[سورہ یونس]] سے طولانی سورت شمار ہوتی ہے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۴و۳۵۵۔</ref> کہا جاتا ہے کہ [[ابن عباس]] نے اس کام کی وجہ سے عثمان پر اعتراض کیا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> | [[محمد ہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] کے مطابق مُصحَف عثمانی میں بھی دوسرے صحیفوں کی طرح جو مختلف [[صحابہ]] کے پاس موجود تھے، [[سورت|سورتوں]] کی ترتیب بڑی سورتوں سے چھوٹی سورتوں کی طرف تھی اور دوسرے صحیفوں سے بعض چیزوں میں مختلف بھی تھا مثلا دوسرے صحیفوں میں [[سورہ یونس]] [[طولانی سورت|طولانی سورتوں]] میں شامل تھی اس بنا پر یہ قرآن کی ساتویں یا آٹھویں سورت شمار ہوتی تھی لیکن مصحف عثمانی اس سورت کی جگہ [[سورہ انفال]] اور [[سورہ توبہ]] موجود ہیں؛ کیونکہ [[عثمان]] ان دو سورتوں کو ایک سورت شمار کرتا تھا اس بنا پر یہ [[سورہ یونس]] سے طولانی سورت شمار ہوتی ہے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۴و۳۵۵۔</ref> کہا جاتا ہے کہ [[ابن عباس]] نے اس کام کی وجہ سے عثمان پر اعتراض کیا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> | ||
مصحف عثمانی کی دوسرری خصوصیات میں ایک حروف پر نقطوں کا نہ ہونا ہے؛<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اس بنا پر "باء"، "تاء"، "یاء" اور "ثاء" سب بغیر نقطہ کے ایک جیسے لکھے جاتے تھے۔ اس طرح "جیم"، "حاء" اور "خاء" بھی بغیر نقطہ کے ایک جیسے لکھے جاتے تھے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اسی طرح کلمات اعراب (زبر، زیر اور پیش) بھی موجود نہیں تھا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اس بنا پر "یُعَلِّمُہ" (اسے تعلیم دیتا ہے) اور "نَعْلَمُہ" (اسے جانتا ہوں) دونوں ایک طرح سے لکھے جاتے تھے۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اس بنا پر اس زمانے میں قرآن کی تعلیم کیلئے [[قراء سبعہ]] سے قرآن سننا پڑھتا تھا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵و۳۵۶۔</ref> کتاب [[التمہید]] کے مطابق [[قرائت سبعہ]] کے وجود میں آنے کی عمدہ دلیل اس وقت کے صحیفوں میں نقطوں اور اعراب کا نہ ہونا ہے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> | مصحف عثمانی کی دوسرری خصوصیات میں سے ایک حروف پر نقطوں کا نہ ہونا ہے؛<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اس بنا پر "باء"، "تاء"، "یاء" اور "ثاء" سب بغیر نقطہ کے ایک جیسے لکھے جاتے تھے۔ اس طرح "جیم"، "حاء" اور "خاء" بھی بغیر نقطہ کے ایک جیسے لکھے جاتے تھے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اسی طرح کلمات پر اعراب (زبر، زیر اور پیش) بھی موجود نہیں تھا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اس بنا پر "یُعَلِّمُہ" (اسے تعلیم دیتا ہے) اور "نَعْلَمُہ" (اسے جانتا ہوں) دونوں ایک طرح سے لکھے جاتے تھے۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اس بنا پر اس زمانے میں قرآن کی تعلیم کیلئے [[قراء سبعہ]] سے قرآن سننا پڑھتا تھا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵و۳۵۶۔</ref> کتاب [[التمہید]] کے مطابق [[قرائت سبعہ]] کے وجود میں آنے کی عمدہ دلیل اس وقت کے صحیفوں میں نقطوں اور اعراب کا نہ ہونا ہے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> | ||
بہت زیادہ املائی غلطیوں کا پایا جانا بھی مصحف عثمانی کی ایک اور خصوصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۶۔</ref> [[محمد ہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] کے مطابق مصحف عثمانی میں 7000 سے بھی زیادہ املائی غلطیاں موجود تھیں۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۸۶۔</ref> البتہ انہوں نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ ان غلطیوں کے باوجود قرآن کی عظمت اپنی جگہ باقی ہے کیونکہ قرآن کی حقیقت اس کا تلفظ یعنی وہ چیز جسے پڑھا جاتا ہے، | بہت زیادہ املائی غلطیوں کا پایا جانا بھی مصحف عثمانی کی ایک اور خصوصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۶۔</ref> [[محمد ہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] کے مطابق مصحف عثمانی میں 7000 سے بھی زیادہ املائی غلطیاں موجود تھیں۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۸۶۔</ref> البتہ انہوں نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ ان غلطیوں کے باوجود بھی قرآن کی عظمت اپنی جگہ باقی ہے کیونکہ قرآن کی حقیقت اس کا تلفظ یعنی وہ چیز جسے پڑھا جاتا ہے، نہ مکتوب اور لکھائی اور قرآن کی تلفظ صحیح صورت میں اب بھی باقی ہے اور اسی طرح پڑھا اور تلاوت کی جاتی ہے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۸۔</ref> | ||
==تعداد== | ==تعداد== |