گمنام صارف
"کن فیکون" کے نسخوں کے درمیان فرق
←مختلف تفسیریں
imported>E.musavi (←منابع) |
imported>E.musavi |
||
سطر 29: | سطر 29: | ||
==مختلف تفسیریں== | ==مختلف تفسیریں== | ||
تفسیر [[مجمع البیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|مجمع البیان]] میں اس عبارت کی تفیسر سے متعلق [[تفسیر قرآن|مفسرین]] کے تین نظریات بیان | تفسیر [[مجمع البیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|مجمع البیان]] میں اس عبارت کی تفیسر سے متعلق [[تفسیر قرآن|مفسرین]] کے تین نظریات بیان ہوئے ہیں: | ||
*'''پہلا نظریہ''': اس عبارت کو ایک قسم کی تمثیل قرار دیتے ہیں کیونکہ جو چیز ابھی موجود ہی نہیں اسے مخاطب قرار دے کر امر کرنا معقول نہیں ہے۔ | *'''پہلا نظریہ''': اس عبارت کو ایک قسم کی تمثیل قرار دیتے ہیں کیونکہ جو چیز ابھی موجود ہی نہیں اسے مخاطب قرار دے کر امر کرنا معقول نہیں ہے۔ | ||
*'''دوسرا نظریہ''': خدا حقیقتا کسی چیز کے موجود ہونے کا امر کرتا ہے اور یہ کام خدا اس لئے انجام دیتا ہے تاکہ فرشتے جان لیں کہ کوئی نئی موجود خلق ہوئی ہے۔ | *'''دوسرا نظریہ''': خدا حقیقتا کسی چیز کے موجود ہونے کا امر کرتا ہے اور یہ کام خدا اس لئے انجام دیتا ہے تاکہ فرشتے جان لیں کہ کوئی نئی موجود خلق ہوئی ہے۔ | ||
*'''تیسرا نظریہ''': اس نظریے میں بھی امر خداوندی کو حقیقی قرار دیتے ہیں کیونکہ ہر موجود خلق ہونے سے پہلے بھی خدا کو معلوم ہے اس بنا پر خدا اسے مخاطب قرار دے کر امر کر سکتا ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۳۶۸۔</ref> | *'''تیسرا نظریہ''': اس نظریے میں بھی امر خداوندی کو حقیقی قرار دیتے ہیں کیونکہ ہر موجود خلق ہونے سے پہلے بھی خدا کو معلوم ہے اس بنا پر خدا اسے مخاطب قرار دے کر امر کر سکتا ہے۔<ref> طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۳۶۸۔</ref> | ||
آٹھویں صدی کے شیعہ مفسر [[فضل بن حسن طبرسی|طَبرسی]] ان تین نظریات میں سے پہلے نظریے کو قبول کرتے ہوئے باقی دو تفسیر کو بعض اہل سنت علماء کی طرف نسبت دیتے ہیں۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۳۶۸۔</ref> تیرہویں صدی ہجری کے اہل سنت مفسر [[آلوسی]] کہتے ہیں کہ اکثر اہل سنت مفسرین اس بات کے خدا حقیقتا لفظ "کُنْ" کہتا ہے کیونکہ آیت کا لفظی معنا یہی کہتا ہے۔<ref>آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۲، ص۵۵۔</ref> ان کے مقابلے میں شیعہ مفسرین اس بات کے معتقد ہیں اس طرح کے بیانات کا | آٹھویں صدی کے شیعہ مفسر [[فضل بن حسن طبرسی|طَبرسی]] ان تین نظریات میں سے پہلے نظریے کو قبول کرتے ہوئے باقی دو تفسیر کو بعض اہل سنت علماء کی طرف نسبت دیتے ہیں۔<ref> طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۳۶۸۔</ref> تیرہویں صدی ہجری کے اہل سنت مفسر [[آلوسی]] کہتے ہیں کہ اکثر اہل سنت مفسرین اس بات کے خدا حقیقتا لفظ "کُنْ" کہتا ہے کیونکہ آیت کا لفظی معنا یہی کہتا ہے۔<ref> آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۲، ص۵۵۔</ref> ان کے مقابلے میں شیعہ مفسرین اس بات کے معتقد ہیں اس طرح کے بیانات کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی خدا کسی چیز کی خلقت کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز خلق ہو جاتی ہے۔<ref> طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۲، ص۲۴۹؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۵۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ ش، ج۱۱، ص۲۳۳۔</ref> | ||
[[ | [[سید محمد حسین طباطبایی|علامہ طباطبائی]] [[تفسیر المیزان]] میں اس عبارت کے تمثیل ہونے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: [[خداوند عالم]] موجودات کی خلقت میں حقیقتا لفظ "کن" استعمال نہیں کرتا کیونکہ اس سے [[تسلسل|تَسَلسُل]] لازم آتا ہے اور دوسری طرف سے یہ ایک بے فائدہ کام ہے۔ تسلسل اس طرح لازم آتا ہے کہ اسی "کن" کو کہنے کیلئے بھی "کن" کہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بھی لفظ کا ایجاد ہے پھر اس آخری "کن" کیلئے ایک اور "کن" کہنے کی ضرورت ہے اسی طرح یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا اور یہ باطل ہے۔ اس کا بے فائدہ ہونا اس طرح ہے کہ شروع میں کوئی موجود ہی نہیں ہے تاکہ اسے مخاطب قرار دے اور اسے کہیں "کن" لیکن اگر وہ چیز موجود ہے تو پھر "کن" کہنے کی ضرورت نی نہیں ہے کیونکہ اس سے "کن" کہنے سے پہلے سے ہو موجود ہو چکا ہے۔<ref> طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۱۱۵۔</ref> | ||
یعنی معنا بعض شیعہ احادیث میں بھی آیا ہے۔ مثلا [[بحار الانوار]] میں [[امام علیؑ]] سے نقل ہوئی ہے کہ [[ | یعنی معنا بعض شیعہ احادیث میں بھی آیا ہے۔ مثلا [[بحار الانوار]] میں [[امام علیؑ]] سے نقل ہوئی ہے کہ [[خدا|خداوند عالم]] جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتے ہیں: "ہو جاؤ" تو وہ چیز بغیر کسی فاصلے کی ہو جاتا ہے؛ اس کا معنا یہ نہیں ہے ہے کہ خدا سے کوئی آواز آتی ہو، بلکہ خدا کا یہ "کن" کہنا حقیقت میں ان چیزوں کی ایجاد اور انہیں صورت بخشنا ہے جن کا خدا نے ارادہ کیا تھا جو اس سے پہلے موجود نہیں تھیں۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۲۵۴و۲۵۵۔</ref> | ||
===اشیاء کا وجود ہی خدا کا تکلم ہے=== | ===اشیاء کا وجود ہی خدا کا تکلم ہے=== |