مندرجات کا رخ کریں

"مشہد النقطہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 7: سطر 7:


== تاریخچہ==
== تاریخچہ==
[[سیف الدولہ حمدانی]] نے سال ۳۵۰ق میں خون جاری ہونے والے پتھر  کے مقام پر ایک کمرہ اور مسجد بنوائی اور اس کا نام  مسجدالنقطہ نام رکھا۔<ref>حسینی جلالی، مزارات اہل البیت و تاریخہا، ۱۴۱۵ق، ص۲۳۶-۲۳۷.</ref> لیکن بعض محققین اس عمارت کی تعمیر پہلی صدی ہجری قمری (دوران عبدالعزیز اموی) کے زمانے کی طرف لوٹارتے ہیں اور وہ سیف الدولہ حمدانی کے زمانے یعنی چوتھی صدی ہجری میں تعمیر سے مربوط واقعات اور ملک صالح اسماعیل کے زمانے یعنی چھٹی صدی ہجری کے زمانے کی تعمیرات کو توسعہ اور تعمیر و مرمت سے مربوط سمجھتے ہیں۔<ref>ن. ک: خامہ یار، آثار پيامبر و زيارتگاہ‌ہای اہل بيت در سوريہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۴۲-۱۴۵.</ref>
[[سیف الدولہ حمدانی]] نے سال ۳۵۰ ق میں خون جاری ہونے والے پتھر  کے مقام پر ایک کمرہ اور مسجد بنوائی اور اس کا نام  مسجدالنقطہ نام رکھا۔<ref>حسینی جلالی، مزارات اہل البیت و تاریخہا، ۱۴۱۵ق، ص۲۳۶-۲۳۷.</ref> لیکن بعض محققین اس عمارت کی تعمیر پہلی صدی ہجری قمری (دوران عبدالعزیز اموی) کے زمانے کی طرف لوٹاتے ہیں اور وہ سیف الدولہ حمدانی کے زمانے یعنی چوتھی صدی ہجری میں تعمیر سے مربوط واقعات اور ملک صالح اسماعیل کے زمانے یعنی چھٹی صدی ہجری کے زمانے کی تعمیرات کو توسعہ اور تعمیر و مرمت سے مربوط سمجھتے ہیں۔<ref>ن. ک: خامہ یار، آثار پيامبر و زيارتگاہ‌ہای اہل بيت در سوريہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۴۲-۱۴۵.</ref>


صلاح الدین ایوبی (۵۶۵-۵۸۹) نے اس مقام کی زیارت کی اور کچھ مبلغ رقم کو اس عمارت کو توسعہ دینے کیلئے مخصوص کیا۔اس کے بعد اس کے بیٹے ملک الظاہر غازی نے اس عمارت کیلئے ایک پن چکی وقف کی اور اسی طرح شمس الدین ابوعلی حسین بن زہرہ جو اس زمانے میں حلب کے سادات کا نقیب تھا کو اس عمارت کا متولی بنایا۔ اس زمانے میں زیارت کے شمال میں چار کمرے بنائے گئے۔
صلاح الدین ایوبی (۵۶۵-۵۸۹) نے اس مقام کی زیارت کی اور کچھ رقم کو اس عمارت کی توسیع کیلئے مخصوص کیا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے ملک الظاہر غازی نے اس عمارت کیلئے ایک پن چکی وقف کی اور اسی طرح شمس الدین ابو علی حسین بن زہرہ جو اس زمانے میں حلب کے سادات کا نقیب تھا کو اس عمارت کا متولی بنایا۔ اس زمانے میں زیارت گاہ کے شمال میں چار کمرے بنائے گئے۔


۶۵۸ق  میں مغلوں اس عمارت پر حملہ اور اس کے وقفی اموال لوٹ کر ساتھ لے گئے ۔اس واقعہ کے بعد سلطان ملک الظاہر بیبرس مملوکی نے اس عمارت کی دوبارہ تعمیر کروائی اور ایک [[امام جماعت]]، مؤذن اور متولی مقرر کیا۔<ref>خامہ یار، آثار پيامبر و زيارتگاہ‌ہای اہل بيت در سوريہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۴۲-۱۴۹.</ref>
۶۵۸ ق میں مغلوں اس عمارت پر حملہ اور اس کے وقفی اموال لوٹ کر ساتھ لے گئے۔ اس واقعہ کے بعد سلطان ملک الظاہر بیبرس مملوکی نے اس عمارت کی دوبارہ تعمیر کروائی اور ایک [[امام جماعت]]، مؤذن اور متولی مقرر کیا۔<ref>خامہ یار، آثار پيامبر و زيارتگاہ‌ہای اہل بيت در سوريہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۴۲-۱۴۹.</ref>


[[عثمانی]] دور میں ایک مدت تک اس پر کسی نے توجہ نہیں دی ۔ لیکن تیرھویں صدی ہجری قمری کے آخری پچاس سالوں سے حلب کے اہالیوں نے اس جگہ عزاداری محرم کے مراسم یہیں برپا کرنا شروع کر دئے۔ ان پروگراموں میں داستان ولادت پیامبر اکرم پڑھی جاتی اور نیاز تقسیم کی جاتی۔ سلطان عبدالحمید عثمانی نے اسکے کچھ حصوں کی دوبارہ تعمیر کروائی اور اس پر خرچ ہونے والی رقم املاک سلطان عبدالحمید کے خزانے سے ادا کی گئی۔ پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴-۱۹۱۸م) کے دوران یہ جگہ جنگی ساز و سامان اور اسلحے کے ڈپو میں تبدیل ہو گئی۔<ref>غزی، نہرالذہب، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۲۱۳.</ref>  
[[عثمانی]] دور میں ایک مدت تک اس پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ لیکن تیرھویں صدی ہجری قمری کے آخری پچاس سالوں سے حلب والوں نے اس جگہ عزاداری محرم کے مراسم یہیں برپا کرنا شروع کر دیئے۔ ان پروگراموں میں داستان ولادت پیامبر اکرم پڑھی جاتی اور نیاز تقسیم کی جاتی۔ سلطان عبد الحمید عثمانی نے اسکے کچھ حصوں کی دوبارہ تعمیر کروائی اور اس پر خرچ ہونے والی رقم املاک سلطان عبد الحمید کے خزانے سے ادا کی گئی۔ پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴-۱۹۱۸م) کے دوران یہ جگہ جنگی ساز و سامان اور اسلحے کے ڈپو میں تبدیل ہو گئی۔<ref>غزی، نہر الذہب، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۲۱۳.</ref>  
۱۳۳۷ہ ق میں بم دھماکے کی وجہ سے یہ عمارت خرابے میں تبدیل ہو گئی لیکن وہ پتھر جس پر امام حسین علیہ کے خون کے قطرے جاری ہوئے تھے وہ اسی طرح محفوظ رہی اور پھر یہ پتھر مشہد الحسین میں منتقل کر دیا گیا۔<ref>حسینی جلالی، مزارات اہل البیت و تاریخہا، ۱۴۱۵ق، ص۲۳۷-۲۳۸.</ref>
۱۳۳۷ہ ق میں بم دھماکے کی وجہ سے یہ عمارت خرابے میں تبدیل ہو گئی لیکن وہ پتھر جس پر امام حسین علیہ کے خون کے قطرے جاری ہوئے تھے وہ اسی طرح محفوظ رہا اور پھر یہ پتھر مشہد الحسین میں منتقل کر دیا گیا۔<ref>حسینی جلالی، مزارات اہل البیت و تاریخہا، ۱۴۱۵ق، ص۲۳۷-۲۳۸.</ref>


۱۹۶۰ عیسوی میں اس کی دوبارہ تعمیرات و مرمت کیلئے احسان اسلامی جعفری کے نام سے مؤسسہ کی مشہدالنقطہ میں تأسیس ہوئی۔ اس مؤسسہ ۱۹۶۱م تا ۱۹۶۷م کے دوران زیارتگاہ کی تعمیرات انجام دی گئیں اور  ۱۹۷۹ عیسوی میں باہر کے صحن میں دس کمرے بنائے گئے اور ۱۹۹۰ عیسوی بمطابق ۱۴۱۰ہ ق میں جس پتھر پر امام حسین ع کا خون جاری ہوا تھا اسے واپس اپنی اصلی جگہ لایا گیا۔<ref>خامہ یار، آثار پيامبر و زيارتگاہ‌ہای اہل بيت در سوريہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۴۲-۱۴۹.</ref>
۱۹۶۰ عیسوی میں اس کی دوبارہ تعمیرات و مرمت کیلئے احسان اسلامی جعفری کے نام سے مؤسسہ کی مشہدالنقطہ میں تأسیس ہوئی۔ اس مؤسسہ ۱۹۶۱ ع تا ۱۹۶۷ ع کے دوران زیارتگاہ کی تعمیرات انجام دی گئیں اور  ۱۹۷۹ عیسوی میں باہر کے صحن میں دس کمرے بنائے گئے اور ۱۹۹۰ عیسوی بمطابق ۱۴۱۰ہ ق میں جس پتھر پر امام حسین ع کا خون جاری ہوا تھا اسے واپس اپنی اصلی جگہ لایا گیا۔<ref>خامہ یار، آثار پيامبر و زيارتگاہ‌ہای اہل بيت در سوريہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۴۲-۱۴۹.</ref>


==محل وقوع ==
==محل وقوع ==
گمنام صارف