مندرجات کا رخ کریں

"قرآن کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

64,379 بائٹ کا ازالہ ،  3 جون 2017ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 180: سطر 180:
</gallery>
</gallery>
</center>
</center>
== ظواہر قرآن کی حجیت ==
'''مفصل مضمون: ''[[ظواہر قرآن کی حجیت]]'''''
"ظواہر کتاب یا قرآن کی حجیت" ایک موضوع بحث اور ایک اصطلاح ہے جو عام طور پر [[علم اصول]] میں زیر بحث آتا ہے؛ اور اس سے مراد یہ ہے کہ کیا قرآن کے مخاطَبین ـ جو کسی حد تک تہذیب و ثقافت رکھتے ہیں اور عربی زبان سے واقف ہیں وہ ـ قرآن کو درست سمجھ سکتے ہیں؟ یا پھر انہیں دوسرے منابع و مآخذ سے رجوع کرنا پڑتا ہے؟ [[آیت اللہ خوئی]] اسی سلسلے میں اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں: اس میں کوئی شک نہیں کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت رسول(ص)]] نے اپنے مقاصد کے افہام و تفہیم کے لئے کوئی خاص طریقہ وضع نہیں کیا تھا بلکہ آپ(ص) بلکہ اپنی قوم سے اسی تکلم اور افہام و تفہیم کی اسی روش سے تکلم فرماتے تھے جس سے افراد قوم واقفیت رکھتے تھے اور آپ(ص) ان کے لئے قرآن لارہے تھے تاکہ وہ اس کے معانی کو سمجھیں اور اس کی آیات میں غور و تدبر کریں اور اس کے اوامر پر عمل کریں اور اس کے نواہی سے باز رہیں۔ اور یہ موضوع قرآن کی متعدد آیات کریمہ میں آشکارا بیان ہوا ہے۔<ref>سورہ محمد(ص) آیت 24: '''"أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا"؛ (ترجمہ: تو کیا وہ قرآن میں غوروفکر سے کام نہیں لیتے یا کچھ دلوں پر ان کے قفل لگے ہوئے ہیں)۔'''</ref>۔<ref>سورہ زمر آیت 27: '''"وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ"۔ (ترجمہ: تو کیا پوچھنا اس کا جو اپنے کو بچائے عذاب کی برائی سے قیامت کے دن، اور کہا جائے گا ظالموں سے کہ چکھو اسے جو تم کرتوت کرتے تھے)۔'''</ref>۔<ref>سورہ شعراء آیات 192 تا 195: '''"وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ٭ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ٭ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ٭ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ"۔ ترجمہ: اور بلاشبہ یہ اسی پروردگار عالمیان کی طرف سے اتاری ہوئی چیز ہے ٭ جسے روح الامین نے آپ کے دل پر اتارا ٭ تاکہ آپ عذاب الٰہی سے ڈرانے والوں میں ہوں ٭ کھلی ہوئی عربی زبان میں)۔'''</ref> اور دوسری آیات کریمہ جو قرآن کے مضامین پر عمل کو واجب سمجھتی ہیں اور ان مفاہیم کو اخذ کرنے کو لازمی سمجھتی ہیں جو اس کے ظاہری سے سمجھے جاتے ہیں۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1639۔</ref>
== تفسیر و تأویل ==
{{تفسیر}}
'''مفصل مضامین : ''[[تفسیر]]، [[تأویل]] و راسخون فی العلم]]'''''
[[تفسیر]] کے لغوی معنی شرح، بیان، توضیح اور تشریح کے ہیں اور قرآن میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے۔<ref>فرقان، 32۔</ref> علوم قرآنی کی اصطلاح میں [[تفسیر]] کی مختلف تعاریف پیش کی گئی ہیں:
# "علم قرآن"۔<ref>کمالی، سیدعلی، قانون تفسیر، ص27؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1639۔</ref>
# "قرآن سے اللہ کی مراد، کی تفہیم ہے جو انسان استطاعت کے مطابق، لسان عرب کے قواعد اور اسلوب اور کتاب اللہ، [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]]  اور آپ(ص) کے اوصیاء کے آثار مرفوعہ سے مستند ہو اور عقل و کتاب و سنت اور اجماع سے متصادم نہ ہو"۔<ref>کمالی، سیدعلی، قانون تفسیر، ص46-47؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640-1639۔</ref>
# "وہ علم ہے جو اپنی دلالت کے لحاظ سے، بنی نوع انسان کی قوت و صلاحیت کے مطابق، کلام اللہ سے اللہ تعالی کی مراد پر بحث کرتا ہے"۔<ref>زرقانی، مناهل العرفان، ج471/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔</ref>
# "وہ علم ہے جو نزول، سند، اداء، الفاظ اور ان کے متعلقہ معانی اور احکام سے متعلق معانی، پر بحث کرتا ہے"۔<ref>زرقانی، مناهل العرفان، ج471/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔</ref>
[[جلال الدین سیوطی|سیوطی]] لکھتے ہیں: مفسر کے لئے لازم ہے کہ 15 علوم اور فنون سے واقفیت کاملہ رکھتا ہو:{{کالم-شروع|2}}
# [[علم لغت|لغت]]
# [[علم نحو|نحو]]
# [[علم صرف|صرف]]
# [[علم اشتقاق|اشتقاق]]
# [[علم معانی|معانی]]
# [[علم بیان|بیان]]
# [[علم بدیع|بدیع]]
# [[علم قرائت]] [اور اختلاف قرائات]
# [[اصول دین]] [اور وسیع تر سطح پر "[[علم کلام]]"]
# [[اصول فقہ]]
# [[اسباب نزول]]
# [[ناسخ و منسوخ]] کی شناخت
# [[علم فقہ|فقہ]]
# وہ [[حدیث|احادیث]] جو مجمل و مبہم کو بیان کرتی ہیں۔
# علم موہبت؛ اور وہ ایسا علم ہو جو اللہ تعالی ایسے افراد کو ورثے کے طور پر عطا کرتا ہے جو اپنے علم پر عمل کرتے ہیں؛ جو [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اکرم(ص)]] کی اس [[حدیث]] کی طرف اشارہ ہے کہ "جو شخص عمل کرے ان چیزوں پر جنہیں وہ جانتا ہے خداوند متعال اسے ان چیزوں کے علم کا وارث قرار دیتا ہے جنہیں وہ نہیں جانتا [بالفاظ دیگر جو اپنی معلومات پر عمل کرے خداوند متعال اس کو مجہولات کا علم عطا کرتا ہے]۔<ref>'''"مَن عَمِلَ بِما يَعلَمُ وَرَّثَهُ اللَّهُ عِلمَ ما لَم يَعلَم"۔''' الکلینی کی "الکافی" پر [[علامہ محمد باقر مجلسی|محمد باقر مجلسی]] کی توشیح: "مِرآةُ العُقول فی شرحِ أخبار آلِ الرَسول، ج3،ص286"۔</ref>{{خاتمہ}}
سیوطی مفسر کے لئے ان علوم و فنون کی ضرورت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہتے ہیں: جو شخص ان علوم و فنون کے بغیر تفسیر قرآن کے سلسلے میں اقدام کرے اس نے گویا [[تفسیر بالرأی|تفسیر بالرأي]] کا ارتکاب کیا ہے اور [[تفسیر بالرأی|تفسیر بالرأي]] سے باز رکھا گیا ہے۔<ref>ترجمه اتقان، ج570/2-572؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔</ref>
[[تأویل|تاویل]] "اول" سے مشتق ہے اور اس کے لغوی معنی "رجوع" [پلٹنے] کے ہیں؛<ref>قاموس۔</ref> یہ لفظ قرآن میں کئی آیات کریمہ کے ضمن میں بروئے کارآیا ہے۔<ref>سورہ آل عمران آیت 7: '''"فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ"'''۔ سورہ نساء آیت 59: '''"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً"۔''' اور دیگر آیات۔</ref> ابتدائی صدیوں میں تاویل اور تفسیر میں کوئی فرق نہ تھا۔ جیساکہ حتی طبری اپنی تفسیر ميں کئی مرتبہ لفظ "تاویل" سے استفادہ کرتے ہیں اور اس سے طبری کی مراد "تفسیر" ہے۔  جیسا کہ [[آیات متشابہ]] اور کبھی [[تعبیر خواب|تعبیر رؤیا]] (تعبیر خواب)، و احکام ـ جیسا [[سورہ یوسف]] میں ہے ـ اور کبھی اعمال کی تاویل میں ـ جیسا کہ [[حضرت موسی علیہ السلام|حضرت موسی]] اور [[حضرت خضر|رجل صالح]] (خضر(ع)) کی داستان میں ہے ـ اور اصطلاح میں تاویل سے مراد یہ ہے کہ لفظ کی دلالت کو حقیقی دلالت سے مجازی دلالت میں منتقل کیا جائے، بغیر اس کے، تجوز کے حوالے سے لسان العرب کے کی عادت اور کارکردگی سے عدول کیا جائے؛ اور بہرحال مجازی تعلق کے متعلقہ قواعد کے عین مطابق ہو؛ جیسے کسی شیئے کو اس کے مشابہ کا نام دینا، یا اس کے سبب کا نام دینا یا اس کے لاحق کا نام دینا، یا اس کے مقارن کا نام دینا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تاویل کا مقصد "متشابہات" کی توجیہ کرنا "اور کلام کے ثانوی معنی کشف کرنا، جس کو "بطن"  بھی کہا جاتا ہے، اس کے ظاہری معنی کے مقابلے میں جس کو "ظہر" کہتے ہیں"۔<ref>التمهید، ج28/3؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔</ref> علامہ محمد ہادی معرفت تاویل کے دیگر معانی پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: تاویل سے مراد ظاہر کلام سے مخفی اور چھپے ہوئے معنی و مفاہیم ہیں جس کے لئے ـ اس لفظ سے باہر سے ـ ایک صریح و آشکار دلالت کی ضرورت ہے۔<ref>محمد هادی معرفت، التمهيد في علوم القرآن، ج30/3-31؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔</ref> [[راغب اصفہانی]] [[مفردات القرآن]] میں لکھتے ہیں: "لفظ "تفسیر" کا اکثر استعمال "الفاظ" میں اور لفظ "تاویل" کا اکثر استعمال معانی میں ہوتا ہے؛ تفسیر کا تعلق الفاظ کے مفردات سے ہے اور تاویل کا جملوں اور فقروں سے"۔ بعض نے کہا ہے کہ تفسیر کا تعلق عبارت کی حالت و صورت سے ہے اور تاویل کا تعلق اس معانی سے ہے جو اشارات سے حاصل ہوتے ہیں۔<ref>قانون تفسیر، ص31؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔</ref> [[محمد حسین ذہبی]] تفسیر و تاویل کی مختلف تعریفیں پیش کرنے اور ان کے درمیان فرق بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "تفسیر روایت کی طرف پلٹی ہے اور تاویل درایت کی طرف"۔<ref>التفسیر و المفسرون، ج22/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔</ref> تاویل کی ضرورت کے سلسلے میں قرآن بھی تصدیق کرتا ہے اور [[ائمہ معصومین|ائمہ(ع)]]، [[صحابہ]] اور بعد کے زمانوں کے قرآنی محققین بھی کردار ادا کرتے ہیں لیکن قرآن کی تاویل ہر کسی کا کام نہیں ہے۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔</ref>
== تجوید اور ترتیل ==
'''مفصل مضمون: ''[[تجوید]]'''''
'''مفصل مضمون: ''[[ترتیل]]'''''
سادہ سی تعریف یہ ہے کہ "تجوید" قرآن درست پڑھنے کا علم اور اس کے قواعد کا نام ہے اور "ترتیل" قرآن مجید کو درست اور صحیح پڑھنے کا فن یا ہنر ہے۔ تجوید شرعی اور قرآنی علوم میں سے ہے۔ اس کی تاریخ عصر نبوی جتنی پرانی ہے کیونکہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت رسول اکرم(ص)]] قرآنی کلمات کی درست قرائت کرنے کا خاص لحاظ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی صحیح تلاوت سکھا دیتے تھے۔  جس طرح کہ اسلامی امت قرآن کے معانی کے فہم و ادراک اور ان کی حدود کی رعایت کے پابند تھے، الفاظ کو درست پڑھنے ـ اور اصطلاحاً حروف کو بپا رکھنے کے لئے اسی طرح کوشاں تھے ـ جس طرح کہ وہ ائمۂ قرائت سے سیکھ لیا کرتے تھے۔ اور یہ زبانی اور شفاہی سینہ بہ سینہ سلسلہ تعلیم و تعلم قاریوں اور مقریوں کے توسط سے بالآخر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کی سنت و قرائت تک پہنچ جایا کرتی تھی جس کی مخالفت اور اس سے روگردانی جائز نہیں ہے اور اسی کی صحیح معنوں میں تقلید اور پیروی [[جوید]] کا مقصد اعلی ہے۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔</ref>
تجوید در اصل [[علم قرائت]] کا ایک شعبہ ہے اور قرائت کے ساتھ اس کا فرق یہ ہے کہ علم قرائت الفاظ قرآن کو صحیح ضبط و ثبت کرنے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لئے ہوئے ہے، جس کا إعراب بھی صحیح ہو اور ثبت و ضبط الفاظ بھی صحیح ہو کہ مثلا "طلح" درست ہے یا "طلع" درست ہے۔ جبکہ تجوید علم قرائت کے بعد اور متن کو ضبط و ثبت کرنے کے بعد میدان میں آنے کے قابل ہوجاتی ہے۔ اس کا تعلق الفاظ کی صحیح زبانی ادائیگی سے ہے۔ [[ترتیل]] قرآن مجید کی صحیح، آہستہ آہستہ اور حسن و خوبصورت سے قرآن مجید کی تلاوت کا نام ہے جس کی قرآن نے ہمیں تلقین بھی کی ہے جیسا کہ [[سورہ مزمل]] میں ارشاد فرماتا ہے: '''"وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً"۔ (ترجمہ: اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پوری طرح واضح کرکے [اور خوبصورتی سے] پڑھا کیجئے)۔''' قرآن کی اس آیت کریمہ کے بارے میں [[امام علی علیہ السلام|حضرت امیرالمؤمنین(ع)]] سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: '''"الترتيل تجويد الحروف ومعرفة الوقوف"۔ (ترجمہ: ترتیل حروف کی صحیح ادائیگی اور قرآن کے وقوف [= جمع وقف] سے صحیح آگہی، کا نام ہے)۔'''<ref>النشر، ابن الجزری، ج209/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔</ref> ابن الجزری ترتیل کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "ترتیل قرآن کو بغیر عجلت کے، پیوستہ اور آہستہ پڑھنا ہے اور قرآن بغیر عجلت کے آہستہ آہستہ نازل ہوا ہے۔ [چنانچہ اس کو آہستہ آہستہ اور بغیر کسی عجلت کے پڑھنا چاہئے]۔<ref>النشر، ابن الجزری، ج207/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔</ref>
== قصص القرآن ==
قرآن کا ایک ہمہ گیر اور مسلسل دہرایا جانے والا موضوع قرآن میں منقولہ قصے اور کہانیاں ہیں جن کا تعلق [[انبیاء علیہم السلام|انبیاء]] اور اقوام سے ہے یا دوسرے قصے کہانیاں، جو نکات اور عبرتوں سے بھرپور ہیں۔ قرآنی قصوں کا جائزہ لینا اور ان کی معرفت پانا، علوم قرآنی کا جزء ہے۔ جیسا کہ اسلوب قرآن میں کہا گیا ہے، قرآنی بیان مسلسل، مربوط اور جاری، پیوستہ اور متحد المضمون نہیں ہے بلکہ ایک گلدستے کی مانند ہے جو رنگ برنگے پھولوں سے تشکیل پایا ہے اور مختلف مضامین کا مجموعہ ہے اور بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ایک داستان ابتداء سے انتہا تک مسلسل یکجا ذکر ہوئی ہو۔ البتہ استثنائات بھی موجود ہیں اور [[حضرت یوسف علیہ السلام|حضرت یوسف]](ع) اور ان کے بھائیوں کی داستان ایک پیوستہ اور ہمہ جہت بیان کی صورت میں پوری [[سورہ یوسف]] میں آئی ہے؛ اور [[حضرت موسی علیہ السلام|حضرت موسی(ع)]] کا قصہ [[سورہ طہ]] میں، [[حضرت داؤد علیہ السلام|داؤود(ع)]] کی دستان [[سورہ ص]] میں، [[حضرت سلیمان علیہ السلام|سلیمان(ع)]] کا قصہ [[سورہ نمل]] میں، [[حضرت نوح علیہ السلام|حضرت نوح(ع)]] کا فصہ [[سورہ نوح]] میں اور [[حضرت ہود علیہ السلام|حضرت ہود(ع)]] کا قصہ [[سورہ ہود]] میں آیا ہے لیکن [[سورہ یونس]] میں [[حضرت یونس علیہ السلام|حضرت یونس(ع)]] کا قصہ صرف چند ہی آیات کریمہ میں آيا ہے اور [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|حضرت ابراہیم(ع) کی داستان صرف [[سورہ ابراہیم]] میں ہی نہیں آئی بلکہ اس داستان کا بڑا حصہ [[سورہ بقرہ]] اور دیگر سورتوں ميں آیا ہے۔ مجموعی طور پر قرآن کی 15 سورتوں میں [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|حضرت ابراہیم(ع)]] کی طرف اشارے موجود ہیں نیز حضرت موسی(ع) کی داستان 21 سورتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔<ref name= "Korram2-1641">خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1641۔</ref>
قرآن میں انبیاء کے قصوں کے ساتھ ساتھ دوسرے قصے بھی ہیں جن میں [[اصحاب کہف]] شامل ہیں اور ان کا ذکر [[سورہ کہف]] میں آیا ہے یا [[قارون]] کی داستان جو [[سورہ قصص]] میں بیان ہوئی ہے۔<ref name= "Korram2-1641"/>
قرآن مجید کے قصص کی بعض شخصیات یا أعلام کے نام کچھ یوں ہیں: [[حضرت آدم علیہ السلام|آدم]]، [[آزر]]، [[ابلیس]]، [[حضرت ادریس علیہ السلام|ادریس]]، [[ارم ذات العماد]]، [[حضرت اسحق علیہ السلام|اسحق]]، [[حضرت اسمعیل علیہ السلام|اسمعیل]]، [[اصحاب الاخدود]]، [[اصحاب الرسّ]]، [[اصحاب الرقیم]] (جو اصحاب کہف ہی ہیں)، [[اصحاب السبت]]، [[اصحاب السفینہ]]، [[اصحاب کہف]]، [[بنو آدم|بنی آدم]]، [[بنو اسرا‏ئیل|بنی اسرائیل]]، [[قوم تبع|تبّع]]، [[قوم ثمود|ثمود]]، [[جالوت]]، [[جن]]، [[حضرت حواء علیہا السلام|حواء]] (جن کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، [[حواریون]]، [[حضرت خضر|خضر]] (رجل صالح)، [[حضرت داؤد علیہ السلام|داؤد]]، [[ذوالقرنین]]، [[ذوالکفل]]، [[روم]]، [[حضرت زکریا علیہ السلام|زکریا]]، [[زلیخا]] (ان کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، [[زید بن حارثہ]]، [[زینب بنت جحش]] (جن کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، [[سامری]]، [[سبأ]]، [[سحرہ]]، [[حضرت سلیمان علیہ السلام|سلیمان]]، [[حضرت شعیب علیہ السلام|شعیب]]، [[حضرت صالح علیہ السلام|صالح]]، [[طالوت]]، [[عاد]]، [[حضرت عزیر علیہ السلام|عزیر]]، [[حضرت عیسی علیہ السلام|عیسی بن مریم]]، [[فرعون]]، [[قارون]]، [[کنعان بن نوح]] (جس کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، [[لقمان]]، [[حضرت لوط علیہ السلام|لوط]]، [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمد(ص)]]، [[مدین]]، [[حضرت مریم سلام اللہ علیہا|مریم]]، [[مؤتفکات]] ([[حضرت لوط علیہ السلام|قوم لوط]] کے شہر)، [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی]]، [[نصاریٰ]]، [[نمرود]]، [[حضرت نوح علیہ السلام|نوح]]، [[ہابیل و قابیل]]، [[ہاروت و ماروت]]، [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]]، [[ہامان]]، [[حضرت ہود علیہ السلام|ہود]]، [[یأجوج و مأجوج]]، [[حضرت یحیح علیہ السلام|یحیی]]، [[حضرت یعقوب علیہ السلام|یعقوب]]، [[حضرت یونس علیہ السلام|یونس]]، [[یہود]]۔<ref name= "Korram2-1641"/>
== فقہ یا احکام قرآن ==
'''مفصل مضمون: ''[[احکام القرآن]]'''''
'''مفصل مضمون: ''[[آیات الاحکام]]'''''
[[فقہ]] اور [[اصول الفقہ|اصول]] کی اصطلاح میں قرآن کو "کتاب" کہا جاتا ہے جو تشریع احکام اور [[فقہ|فقہ اسلامی]] کا اولین اور اصلی ترین ذریعہ اور منشأ و سرچشمہ ہے۔ "قرآن اللہ کے قوانین کا مجموعہ کاملہ اور اخبار (یعنی [[روایت|روایات]] و [[حدیث|احادیث]] کی صحت و سقم جاننے کے لئے معیار اور پیمانے کا کردار ادا کرتا ہے۔ اسی بنا پر قرآن [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] پر نازل ہونے سے لے کر آج تک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فقہائے اسلام کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور رہے گا اور فقاہت و اجتہاد کی تاریخ خود اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے"۔<ref>جناتی، محمدابراهیم، منابع اجتهاد از دیدگاه مذاهب اسلامی، ص6؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1641۔</ref>
مشہور یہی ہے کہ قرآن کی فقہی آیات [[آیات الاحکام]] کی تعداد 500 ہے۔<ref>جناتی، محمدابراهیم، منابع اجتهاد از دیدگاه مذاهب اسلامی، ص13، 14؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1641۔</ref> تاہم قرآن سے استنباط [استخراج] احکام کے لئے بہت سے معارف پر عبور اور بہت سے ادبی علوم (منجملہ لغت، نحو اور معانی و بیان)، اور قرآنی علوم (منجملہ ناسخ  منسوخ اور محکم و متشابہ نیز اسباب نزول کی شناخت)، اور شرعی علوم اور فقہ کے اصول و مبادی پر مکمل احاطہ رکھنا، ضروری ہے؛ تاکہ مثلاً محقق جان لے کہ قرآن میں آیا ہوا ہر امر (حکم) وجوب پر دلالت نہیں کرتا اور ہر وجوب لفظ امر کے واسطے سے بیان نہیں ہوتا۔ اور کبھی حتی نہی، نفی کے سانچے میں آتی ہے اور خبر، انشاء کی جانشین ہوتی ہے۔ عملی طور پر اگر کوئی درجۂ اجتہاد پر فائز نہ ہوا ہو یا کم از کم قریب الاجتہاد نہ ہو، تو قرآن سے اس کا فقہی استنباط علمی استحکام و اعتبار نہیں رکھتا؛ یہی بات ہے کہ ظواہر قرآن کی حجیت کو آسانی سے قبول نہیں کیا جاسکتا؛ اور ظواہر قرآن کی حجیت میں یہ تردد  [[اخباریون]] کے موقف کی تائید یا تقویت کے مترادف نہیں ہے ـ جو کتاب کو سنت کی شرط پر اور صرف و صرف سنت کے واسطے سے قابل فہم سمجھتے ہیں؛ اور اس حقیقت سے غافل ہیں کہ ائمۂ اطہار علیہم السلام نے قرآن کو اپنے اقوال کی صداقت کا معیار و میزان سمجھتے ہیں؛ ـ بلکہ ہمارا مقصد و مطلب اصولیون کے موقف کی تائید اور اجتہاد کی ضرورت و اہمیت بیان کرنا ہے۔ مختصر یہ کہ فقہاء اور قرآنی محققین نے کہا ہے کہ گوکہ قرآن "قطعی الصدور" ہے لیکن "ظنی الدلالہ"<ref>قران قطعی الصدور و ظنی الدلالہ ہے: وضاحت یہ کہ کسی چیز کے بارے میں انسان کی آگہی کی چار حالتیں ہیں: 1۔ یا قطع ہے یعنی 100٪ اطمینان بخش (قطع و یقین)، 2۔ یا ظنّ ہے یعنی اس میں 51٪ سے 99٪ اطمینان کا امکان ہے (احتمال قوی)، 3۔ یا شک ہے یعنی 50٪ تک اطمینان بخش اور 50٪ تک عدم اطمینان (احتمال مساوی)، 4۔ یا وہم ہے یعنی اس میں اطمینان بخشی کی صلاحیت 1٪ سے 49٪ تک ہے۔ (احتمال ضعیف)... قطع حجت اور نافذ العمل ہے، اور ظن کی دو قسموں مں سے ظن معتبر، حجت ہے اور ظن غیر معتبر حجت نہيں ہے؛ شک اور وہم بھی حجت نہیں ہیں۔ چنانچہ جب کہتے ہیں کہ "قرآن قطعی الصدور" ہے یعنی ہمیں 100٪ یقین ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل ہوکر ہم تک آپہنچا ہے؛ اور جب کہتے ہیں کہ "قرآن ظنی الدلالہ" ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی بہت سی آیات کی دلالت ظنی ہے۔ (کیونکہ بہت سے آیات دوسری آیات کی ناسخ ہیں اور بہت سی آیات دوسری آیات کو تخصیص دیتی ہیں اور بہت سی مجمل ہیں...چنانچہ نہیں کہا جاسکتا تمام آیات کی دلالت 100٪ اور قطعی ہے؛ بلکہ بہت سی آیات کی دلالت ظنی ہے یعنی ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ فلاں آیت کے معنی 100٪ یہ یا وہ ہیں کیونکہ نسخ، یا تخصیص یا اجمال کا امکان پایا جاتا ہے)۔ رجوع کریں: [http://osoolefeghh.blog.ir/post/%D9%82%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%82%D8%B7%D8%B9%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D8%B5%D8%AF%D9%88%D8%B1-%D9%88-%D8%B8%D9%86%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D8%AF%D9%84%D8%A7%D9%84%D9%87-%D8%A7%D8%B3%D8%AA| پرتال تخصصی فقه و حقوق]</ref> تمام اسلامی مذاہب کے فقہاء اور قرآن کے فقہی محققین نے [[فقہ القرآن]] اور [[احکام القرآن]] کے موضوع پر متعدد کتب تالیف کی ہیں۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔</ref>
== قرآن کا ترجمہ ==
ترجمۂ قرآن کے جواز کے سلسلے میں اسلامی مذاہب کے علماء اور فقہاء کے درمیان بحث و مباحثہ اور اختلاف رائے صدیوں تک جاری تھا اور چونکہ [[اہل سنت]] کے [[ائمۂ اربعہ]] کے اکثر فقہاء (سوا ابو حنیفہ کے جنہوں نے ابتداء میں جواز کا فتوی دیا تھا اور بعد میں جواز کو عربی سے ناواقفیت سے مشروط کردیا) نے فتوی دیا ہے کہ [[سورہ حمد|سورہ فاتحہ]] نماز میں عربی کے سوا کسی دوسری زبان میں پڑھنا، جائز نہیں ہے؛ لہذا بعض نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اصولی طور پر قرآن کا کسی بھی زبان میں ترجمہ، جائز نہیں ہے۔ اس کے باوجود ترجمۂ قرآن کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اور مشہور ہے کہ [[حضرت سلمان فارسی]] نے [[بسم اللہ الرحمن الرحیم|بسملہ]] کا فارسی میں یوں ترجمہ کیا تھا: "بہ نام یزدان بخشایندہ"۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ص653؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔</ref> اس سلسلے میں ایک اہم قول موجود ہے۔ سرخسی اپنے کتاب "المبسوط"<ref>سرخسی، المبسوط، ط قاهره، 1324ق، 37/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔</ref> میں لکھتے ہیں: "اہلیان فارس نے [[حضرت سلمان فارسی|سلمان فارسی]] کو خط لکھا کہ [[سورہ حمد|فاتحہ]] کو ان کے لئے فارسی میں تحریر کریں؛ چنانچہ انھوں نے [[سورہ حمد|فاتحہ]] کو فارسی میں لکھا۔ اس کے بعد اہلیان فارس [[سلمان فارسی|سلمان]] کے نوشتے کو نماز میں پڑھتے تھے حتی کہ ان کی زبان نرم [ہوکر عربی تلفظ کے لئے آمادہ] ہوئی۔ [[حضرت سلمان فارسی|سلمان فارسی]] نے اس بات کی خبر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کو پہنچادی تو آپ(ص) نے کوئی انکار نہيں فرمایا"۔ [[عبداللطیف طیباوی]] (1910-1981عیسوی) نے "احکام ترجمة القرآن الکریم و تاریخها" کے عنوان کے تحت ایک مقالہ تحریر کیا ہے۔<ref>مجلة مجمع اللغة العربیة بدمشق، المجلد 54، جزء 3، شعبان 1399ق/1979م، ص635-660۔</ref> طیباوی سرخسی کی روایت پر تاریخی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ایرانی [[حضرت محمد صلی علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کے دور میں مسلمان نہيں ہوئے تھے چنانچہ ان کے لئے اس طرح کی کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی" اور یوں اس قول کو رد کرتے ہیں۔ [[محمد حمید اللہ]] جنہوں نے اسی مجلے میں طیباوی کے مقالے پر کچھ استدراکات<ref>مجلة مجمع اللغة العربیة بدمشق، المجلد 55، جزء 1، صفرالخیر 1400ق/1980م، ص362-365۔</ref> تحریر کئے ہیں، طیباوی کی نقد و جرح کو رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں: "روایات میں "بلاد فارس" کا ذکر نہيں ہوا بلکہ "قومٌ مِنَ الفُرسِ" (فارسی بولنے والوں کی ایک جماعت) کا ذکر آیا ہے اور [[صحابہ]] اور [[یمن]] کے باشندوں میں مسلم ایرانیوں کی کافی تعداد تھی۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔</ref>
[[ابو حنیفہ]] پہلے مشہور فقیہ ہیں جنہوں نے نماز میں فارسی قرائت کے جواز کا فتوی دیا ہے اور ان کی رائے کی بنیاد پر ان کے بعض اصحاب نے نماز میں قرآن کے ترکی، ہندی، سریانی اور عبری وغیرہ جیسی زبانوں میں تراجم کے جواز کے فتاوی جاری کئے۔ [[ابو یوسف]] اور [[الشیبانی]] جو [[ابو حنیفہ]] کے معاصرین میں سے تھے، نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے فارسی میں قرائت قرآن کا جواز ایسے افراد سے مشروط کیا جو عربی زبان سے واقف نہیں ہیں۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ [[ابو حنیفہ]] بعد میں اپنے فتوے سے پلٹ گئے تھے۔<ref>ر.ک:المرغینانی، علی، الهدایه فی الفروع، هند، 1302ق، ج86/1؛ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔</ref> قدماء میں سے السیوطی اور معاصرین میں [[محمد رشید رضا]]، [[تفسیر المنار]] میں<ref>ج 313/9، 319-320۔</ref> اس حکم سے [[ابو حنیفہ]] کے پلٹنے کے قائل ہوئے ہیں۔ گویا [[ابو حنیفہ]] کے پیروکاروں نے ـ نہ ماضی میں اور نہ ہی حال میں ـ ان کے اس فتوے پر عمل نہيں کیا ہے اور اپنی نمازیں عربی میں پڑھتے رہے ہیں۔ ترجمۂ قرآن کے جواز کے قائلین کی قوی ترین دلیل قرآن مجید کی آیت کریمہ ہے کہ: '''"<font color=green>{{حدیث|لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا}}</font>"۔'''<ref>سورہ بقرہ آیت 286: ترجمہ: اﷲ کسی پر اس کی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری عائد نہیں کرتا۔</ref> اس کے باوجود [[محمد بن ادریس|شافعی]] نے فتوی دیا ہے کہ "قرائت قرآن عربی زبان کے سوا کسی دوسری زبان میں جائز نہیں ہے، کیونکہ عربی میں نازل ہوا ہے اور اور دوسری زبان میں اور ترجمے میں یہ مزید قرآن نہیں ہوگا؛ اور قرآن کا اعجاز [اور معجزہ ہونا] اس کے عربی میں ہونے پر موقوف ہے اور جب اس کا دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے تو اس کی صفت اعجاز ختم ہوکر رہ جاتی ہے؛ تاہم جو عربی کی قرائت [اور عربی کو پڑھنے] سے عاجز ہو، اس کو نماز میں قرآنی سورتوں کے بجائے [[تسبیح]] (سبحان اللہ) اور [[تہلیل]] (لا الہ الا اللہ) پر اکتفا کرنا چاہئے۔ [[جاحظ]] کا کہنا ہے کہ عربی شاعری کا دوسری زبان میں ترجمہ ممکن نہیں ہے کیونکہ جب عربی حکمت غیر عرب زبان میں منتقل ہوجائے تو اس کا اعجاز اور ہنر برباد ہوکر رہ جاتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ قرآن کا ترجمہ عربی اشعار کے ترجمے سے بھی زیادہ دشوار ہے اور اس کا خطرہ عظیم تر ہے۔<ref>رجوع کریں: کتاب الحیوان، تحقیق عبدالسلام محمد هارون، قاهره، 1353ق، ج74/1-75؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1643۔</ref>
[[شیعہ علماء]] ـ سوائے نماز کے ـ ہمیشہ قرآن کے دوسری زبانوں میں تراجم اور ان کے جواز حتی ضرورت پر تاکید کرتے آئے ہیں۔<ref>منجملہ دیکھئے: آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی کی رائے: تفسیر البیان، تعلیقة 5؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1643۔</ref>
== قرآنی علوم ==
[[علوم قرآنی]] ایک اصطلاح ہے جو نسبتاً تازہ اور جدید ہے گوکہ اس کا مصداق قدیم اور اس کی تاریخ،  قرآن جتنی پرانی ہے اور علوم قرآنی سے مراد وہ علوم ہیں جن کا محور اور مرکزہ قرآن ہے اور یہ علوم قرآن کے مدار میں ہی پروان چڑھے اور پھلے پھولے ہیں اور ان کا ہدف و مقصد یہ ہے کہ قرآن کی تاریخ، تفسیر، ظاہری صورت، مفاہیم و مضامین اور تفسیر و تاویل کی شناخت ممکن ہوسکے اور شرعی علوم اور دینی تعلیمات و معارف میں قرآن سے بہترین انداز سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ درج ذیل قرآنی علوم کے زمرے میں آتے ہیں:
# [[تاریخ قرآن]]
# [[علم تفسیر]]
# [[علم قرائت|علم قرأت]، [[تجوید]] اور [[ترتیل]]
# رسم عثمانی کا علم؛ یعنی قرآن کے پرانے اور ثابت رسم الخط کی کیفیت و املا کا علم
# [[اعجاز قرآن]] کا علم
# [[اسباب نزول]] کا علم
# [[ناسخ و منسوخ]] کا علم
# [[محکم و متشابہ]] کا علم
# [[مکی و مدنی]] کی شناخت کا علم
# علم اعراب
# [[غریب القرآن]]، [[مفردات قرآن]] اور وجوہ و نظائر قرآن کا علم (اصطلاحات و الفاظ کی شناخت)
# [[قصص قرآن]] کا علم
# [[فقہ قرآن]] یا [[احکام القرآن]]
شاید [[ترجمۂ قرآن]] کو [[علم تفسیر]] کے ملحقات میں شمار کیا جاسکے۔
علوم قرآنی کا پس منظر بہت قدیم ہے اور بعض قرآنی علوم ـ جو عام طور پر نقلی ہیں اور حدیث پر مبنی ہیں جیسے [[ناسخ و منسوخ]] کا علم، [[اسباب النزول]] کا علم ـ  [[علم حدیث]] اور معصومین علیہم السلام سے مروی احادیث جتنے پرانے ہیں؛ تاہم رسم عثمانی کا علم عثمانی جمع و تدوین اور قرآن کے باضآبطہ نسخے (مصحف امام یا مصحف عثمانی کی تیاری) کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے اور بہت سے مسلم فقہاء نے اس رسم کی تبدیلی کو شرعی لحاظ سے جائز قرار نہيں دیا ہے اور موجودہ زمانے میں عالم اسلام کا باضآبطہ قرآنی نسخہ ـ عصر جدید میں قدیمی منابع و ذرائع کے سہارے چھپ کر شائع ہوا ہے ـ اسی رسم یا عثمانی رسم الخط کی بنیاد پر استوار ہے۔ ظاہر ہے کہ اس رسم الخط اور موجودہ زمانے کے عربی اور فارسی رسم الخط میں کئی حوالوں سے فرق پایا جاتا ہے؛ اور فارسی [اور اردو پڑھنے والوں] کے لئے ـ خواہ وہ پڑھے لکھے کیوں نہ ہوں ـ یہ رسم الخط پڑھنے میں کافی مشکل ہے کیونکہ عثمانی رسم میں بہت سے الفاظ پر "الف" درج نہيں کیا جاتا مثلاً "سلطان" کو "سلطن" لکھا جاتا ہے (جس کے حرف "ط" پر چھوٹا الف یا کھڑا زبر درج کیا جاتا ہے)، اور "یا نوح" کے بجائے "ینوح" ("ی" پر کھڑے زبر کے ساتھ) لکھا جاتا ہے تاہم وہی لوگ حق بجانب ہیں جو رسم عثمانی کو معیار و پیمانہ سمجھتے ہیں کیونکہ مختلف قسم کے  زبانی اور زبان شناسانہ مکاتب کے تفکرات اور سلائق اور ذائقوں کی بنیاد پر املائی اصلاحات یا رسم الخط میں اصلاح و تصحیح کا سلسلہ کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے اور اصولی طور پر ہم جو بھی کریں اور جو بھی تدبیر کریں صحیح قرآن خوانی کے لئے خاص قسم کی تعلیم کی ضرورت ہے اور صرف قرآن خوانی کے لئے صرف تعلیم یافتہ اور مہذب ہونا کافی نہیں ہے۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1643۔</ref>
[[علم قرائت|علم قرأت]] اور قرائتوں کے اختلاف کی شناخت کے علم کا پس منظر صدر اول اور عصر نبوی و عصر صحابہ سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن [[علم اعجاز قرآن]] اور [[اعراب قرآن]] جیسے علوم کا زمانہ علم قرائت کی نسبت مؤخر ہے۔ [[زرقانی]] لکھتے ہیں: علوم القرآن میں سب سے پہلے تالیف ہونے والی کاوش "[[البرهان فی علوم القرآن]] ہے جس کے مؤلف کا نام [[علی بن ابراہیم بن سعید]] المعروف [[الحوفی]] (متوفّی' 330ہجری) ہے۔ یہ کتاب 30 مجلدات پر مشتمل تھی اور اس کا 15 مجلدات پر مشتمل نسخہ مصر کے دارالکتب میں محفوظ ہے۔ قرآنی علوم کے سلسلے میں لکھی گئی کتب ـ جو مذکورہ تمام یا اکثر قرآنی علوم و فنون پر مشتمل ہیں ـ میں سے بعض کچھ یوں ہیں:
* [[فنون الافنان فی علوم القرآن]]؛ مؤلف: [[ابن جوزی]] (متوفّی' 597ہجری)
* [[المجتبی فی علوم القرآن]]؛ اثر ابن جوزی (متوفّی' 597ہجری) (یہ دونوں کتب [[قاہرہ]] کے دارالکتب المصریہ میں محفوظ ہیں)۔
* [[جمال القرّاء]]، مؤلف: [[علم الدین سخاوی]] (متوفّی' 641ہجری)
* [[المرشد الوجیز]]، مؤلف:  [[ابوشامه]] (متوفّی' 665ہجری) (یہ کتاب مطبوعہ ہے)۔
* [[البرہان فی علوم القرآن]]، مؤلف: [[بدرالدین زرکشی]] (متوفّی' 794ہجری)، یہ کتاب جو نہایت عمدہ انداز سے تالیف و تدوین ہوئی ہے چار مجلدات میں محمد ابوالفضل ابراہیم کی تصحیح کے ساتھ زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے اور تفسیر [[الاتقان فی علوم القرآن]] کا اصل منبع ہے۔
* [[مواقع العلوم من مواقع النجوم]]، مؤلف: [[جلال الدین بلقینی]] (متوفّی' 824ہجری)
* [[الاتقان فی علوم القرآن]]، مؤلف: [[جلال الدین سیوطی]] (متوفّی' 911ہجری)۔ [[جلال الدین سیوطی]] محدث اور قرآنی محقق و مفسر اور عالم لغت ہیں۔ وہ ایرانی نژاد مصری عالم ہیں اور ان کی یہ کاوش ([[الاتقان فی علوم القرآن]]) علوم قرآنی کے زمرے میں بہت اہم اور عمدہ کاوش ہے جس کا فارسی سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔
جدید دور میں بھی عالم اسلام میں علوم القرآن کے ضمن ميں کئی عمدہ اور قابل توجہ کتب شائع ہوئی ہیں جن میں اہم ترین کاوشیں درج ذیل ہیں:
* [[مناہل العرفان فی علوم القرآن]]، مؤلف: [[محمد عبدالعظیم زرقانی]] 2 مجلدات۔
* [[مباحث فی علوم القرآن]]، مؤلف: [[صبحی صالح]].
* [[المعجزة الکبری]]، مؤلف: [[محمد ابو زہرہ]] (اس کاوش کا فارسی ترجمہ بعنوان "معجزہ بزرگ، پژوہشی در علوم قرآنی"، محمود ذبیحی کے قلم سے منظر عام پر آیا ہے۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1643-1644۔</ref>
== قرآن کی طباعت ==
قرآن کی طباعت کی تاریخ [[یورپ]] اور دنیا میں طباعت کے رواج کی تاریخ جتنی پرانی ہے [جبکہ عربی زبان میں کسی بھی متن کی طباعت [[سلطنت عثمانیہ]] کی حدود میں ممنوع تھا اور اس کے لئے (1483 سے 1729 عیسوی تک) سزائے موت مقرر تھی]۔ قرآن کا عربی متن سب سے پہلے "پاگانینو پاگانینی (Paganino Paganini) آلیساندرو پاگانینی (Alessandro Paganini) نے 1503 سے 1523 عیسوی (اور بقولے 1537 سے 1538 عیسوی) کے اٹلی کے شہر ونیس (Venice) دوران زیور طبع سے آراستہ کیا ہے۔<ref>دائرة المعارف فارسی؛ صبحی صالح، کا کہنا ہے کہ پہلی طباعت 1538 عیسوی میں ہوئی ہے۔ بحوالۂ خرمشاهی، بهاء الدین، دانشنامه قرآن...،  ج2، ص1646۔</ref> اور اس زمانے میں قرآن کے تمام مطبوعہ نسخے "پوپ جولیوس 2" (Pope Julius II) کے حکم پر جمع کرکے نابود کئے گئے۔ اس کے بعد [[Abraham Hinckelmann|ابراہام ہنکلمین]] نے سنہ 1694عیسوی میں جرمن شہر [[Hamburg|ہیمبرگ]] سے طباعت قرآن کا اہتمام کیا۔ [[یورپ]] میں چھپنے والا معتبر ترین اور صحیح ترین قرآنی نسخہ "[[Gustav Leberecht Flügel|گوستاو فلوگل]]" کا تھا جو انھوں نے سنہ 1834 میں جرمن شہر "[[Leipzig|لیپزگ]]" سے شائع کیا۔ [[اٹلی]] اور [[جرمنی]] کے علاوہ سب سے پہلے قرآن کا متن مسلمانوں کے لئے 1787 میں [[روس]] کے شہر [[St Petersburg| سینٹ پیٹرز برگ]] سے شائع ہوا۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1644۔</ref>۔<ref> [http://en.wikipedia.org/wiki/Quran#Printing| طباعت قرآن کی مختصر تاریخ]</ref>
ایران میں قرآن کی سب سے پہلی طباعت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ قرآن کریم ایران میں پہلی بار سنہ 1242 ہجری (1827عیسوی) میں شہر [[تبریز]] میں زیور طبع سے آراستہ ہوا(اور بقولے ایران میں قرآن کی طباعت 1828عیسوی<ref> [http://en.wikipedia.org/wiki/Quran#Printing| طباعت قرآن کی مختصر تاریخ]۔</ref>)۔<ref>تاریخ جمع قرآن کریم، جلالی نایینی، 406؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1644۔</ref> اور بعض محققین نے کہا ہے کہ [ایران میں] قرآن کی پہلی طباعت کا کام 1246 ہجری کو انجام پایا ہے۔<ref>"قرآنهای چاپی" تالیف [[کاظم مدیر شانه چی]]، مشکوة، شماره 2، ص135؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1644۔</ref>
قرآن کریم کی طباعت میں اہم نقطۂ عود (اور نقطۂ عروج) [[قاہرہ]] کی علمی اور منقح و مہذب طباعت ہے۔ [[صبحی صالح]] لکھتے ہیں: "قاہرہ میں سنہ 1342ہجری/بمطابق1923عیسوی کو [[جامعۃ الازہر|الازہر]] کے مشائخ کے زیر نگرانی اور [[ملک فؤاد اول]] کے تعیین کردہ بورڈ کے زیر اہتمام، قرآن مجید کی نہایت حسین و جمیل طباعت و اشاعت انجام پائی۔ یہ مصحف [[حفص بن سلیمان|حفص]] کی روایت اور [[عاصم بن ابی النجود|عاصم]] کی قرائت کے مطابق تدوین ہوا تھا اور عالم اسلام نے اس کا زبردست خیر مقدم کیا"۔<ref>مباحث في علوم القرآن، ص100؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1644۔</ref> یوں "مصحف قاہرہ" [[شام]] کے نامور خُوش نَويس [[عثمان طٰہٰ]] کی کتابت کی بنیاد ٹہرا اور [[شام]] ميں وسیع سطح پر شائع ہوا؛ اور اس کے بعد پندرہویں صدی ہجری کے آغاز میں "ملک فہد کمپلیکس برائے طباعت مصحف شریف، [[مدینہ|مدینہ منورہ]]" <ref>[King Fahd Complex for the Printing of the Holy Quran|مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف بالمدينة المنورة]۔</ref> نے قرآن شناس علماء کا ایک بورڈ متعین کرکے بہت زیادہ باریک بینیوں کے بعد [[عثمان طٰہٰ]] کے کتابت کردہ مصحف کو ـ جو درحقیقت وہی "مصحف قاہرہ ہی ہے ـ بہترین فنی اور جدید ترین وسائل کی مدد سے بہترین روش سے طبع کیا اور طباعت کا یہ سلسلہ جاری ہے اور ہر سال قرآن کریم کے 20 لاکھ نسخے اس ادارے کے توسط سے طباعت و اشاعت کے مراحل سے گذر کر دنیا بھر کے حجاج کرام اور دینی اداروں میں بانٹ دیئے جاتے ہیں۔ یوں یہ مصحف عثمانی رسم الخط کے مطابق لکھا گیا ہے اور خوش قسمتی سے اس کی قرائت (جو حفص کی قرائت ہے اور اس کے راوی عاصم ہیں) [[شیعہ|امامیہ]] کے نزدیک بھی قابل قبول ہے اور [[شیعہ امامیہ]] اس سے استناد کرتے چلے آئے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یہ نسخہ دنیا بھر میں مقبول عام و خاص واقع ہوا ہے اور اس کو عالم اسلام کا رسمی اور تسلیم شدہ نسخہ قرار دیا جاسکتا ہے اور یہ امر پوری دنیا میں [[شیعہ]] [[سنی]] اتحاد و ائتلاف]] میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1644۔</ref>
== قرآن تحقیق و مطالعہ کے مآخذ ==
=== الف) لغات قرآن ===
"لسان العرب" اور اس سے قبل شائع ہونے والے سے لے کر "المعجم الوسیط" اور اس کے بعد شائع ہونے والے لغت ناموں تک، اکثر عربی لغت نامے، سب کے سب قرآن کے مفردات اور ترکیبات کے نمونوں پر مشتمل ہیں۔ ان عمومی مآخذ کے علاوہ، قرآن کے خاص لغتنامے بھی صدر اول ہی سے مدون ہوتے آئے ہیں۔ قدیم ترین قرآنی لغت نامہ "مسائل نافع بن الأزرق" (یعنی [[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]] سے نافع بن ازرق کے لغوی سوالات) ہے جو پورا کا پورا "عبدالرحمن سیوطی" کی کتاب "[[ﺍﻹﺗﻘﺎﻥ ﻓﻲ ﻋﻠﻮﻡ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ]]" میں درج ہوا ہے۔<ref>متن اصلی، ج2/ 67ـ105۔</ref> ان لغات کی دوسری روایت وہی ہے جو "[[معجم غریب القرآن]]" ہے جو [[صحیح بخاری]] سے استخراج ہوکر طبع ہوئی ہے اور تقریبا ان ہی اصطلاحات کو [[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]] سے "ابن ابی طلحہ" کے توسط سے نقل کرتی ہے۔ قرآن کے دوسرے لغت ناموں میں درج ذیل لغت نامے قابل ذکر ہیں:
:"ابوعبید معمر بن مثنیٰ" (متوفٰی سنہ 210ہجری) کی کتاب "[[مجاز القرآن]]" (جو درحقیقت لغتنامے سے زیادہ وسیع ہے اور دشوار عبارات و ترکیبات کی وضاحت بھی کرتی ہے)؛ * "ابن قتیبہٰ" (متوفٰی سنہ 276ہجری) کی کتابیں "[[تاویل مشکل القرآن]] اور [[تفسیر غریب القرآن]]۔ مذکورہ لغت ناموں کے بعد مفرداتِ [[راغب اصفہانی]] (متوفٰی سنہ 410ہجری) کی باری آتی ہے جس کا مکمل نام [[معجم مفردات الفاظ القرآن]] ہے۔ بعض دوسرے لغت ناموں میں "دامغانی" کی [[قاموس القرآن]]، اور "ابو الفضل‌ حبيش‌ ‌بن‌ ابراهيم‌ تفليسي‌" کی کتاب "[[وجوہ القرآن]]" ـ جو [[لسان التنزیل]] (مجہول المؤلف) اور [[میر سید علی جرجانی]] کی کتاب "[[ترجمان القرآن]]" کی طرح ـ عربی ـ فارسی لغنتامہ ہے۔ [[شیعہ]] مؤلفین میں سے [[شیخ فخر الدين الطریحی]] (متوفى 1085ہجری) کی کتاب [[مجمع البحرین]] ـ جو قرآن و [[حدیث]] کا لغت نامہ ہے ـ نیز ان ہی کی کتاب "[[تفسیر غریب القرآن]] معتبر ہیں۔ عصر جدید میں [[شیعہ]] مؤلفین کے [[سید علی اکبر قرشی]] (ولادت 1928عیسوی) کی سات مجلدات پر مشتمل، [[قاموس قرآن]] اور مرحوم [[علامه میرزا حسن مصطفوی]] 1426- 1334 ہجری) کی 14 مجلدات پر مشتمل کتاب [[التحقیق فی کلمات القرآن الکریم]] خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
=== ب) قرآنی موسوعات اور دوائر المعارف ===
# [[الموسوعۃ القرآنیۃ]]،  تجمیع و تصنیف: [[ابراہیم الابیاری]] (11 مجلد، 1405ہجری)؛
# [[دایرة الفرائد|دائرة الفرائد در فرہنگ قرآن]]، [[سید محمد باقر محقق]].
=== ج) فہارسِ قرآن ===
قرآنی فہرستیں دو قسموں پر منقسم ہیں: یا وہ لفظی ہیں یا موضوعی۔ لفظی فہرست سے مراد ـ یعنی کلمات قرآنی کی فہرست ـ کو [[کشاف الآیات]] (یا کشف الآیات) بھی کہا گیا ہے جن کی تدوین کی تاریخ تین سے چار صدیوں تک پرانی ہے۔ کشف الآیات ـ جس کے ذریعے آیات کو ڈھونڈا جاتا ہے ـ فنی لحاظ سے [[کشف الکلمات]] (یا لفظ نما (= Concordance) سے مختلف ہے؛ کیونکہ اول الذکر آیت کا کچھ حصہ ذکر کرکے اس کو ڈھونڈ لیتا ہے، صرف کلیدی الفاظ کو فہرست کی صورت میں مرتب کرتا ہے اور غیر کلیدی الفاظ (جیسے الذی اور الذین تک) کو نظر انداز کرتا ہے جبکہ مؤخر الذکر تمام قرآنی الفاظ (حتی واو تک) پر مشتمل فہرست فراہم کرتا ہے۔ تاہم خواہ ناخواہ ان کے درمیان کچھ اشتراکات اور ساخت کے لحاظ سے بعض شباہتیں موجود ہیں:۔
* قرآن کریم کے اہم ترین کواشف الکلمات میں سے ایک، جرمن مستشرق اور قرآنی محقق "[[Gustav Leberecht Flügel|گوستاو فلوگل]]" (1802ـ1870 عیسوی) کا [[کشف الکلمات]] ہے جس کو انھوں اپنے تصحیح کردہ قرآن کریم کے ہمراہ شائع کیا ہے۔ [ان کے قرآن کو یورپ میں شائع ہونے والے قرآن کا بہترین اور صحیح ترین نسخہ قرار دیا گیا ہے۔
* جدید دور میں قرآنی مطالعات کے نامور محقق اور فارسی زبان میں بہترین "[[تاریخ قرآن]]" کے مؤلف مرحوم [[محمود رامیار|ڈاکٹر محمود رامیار]] (1922-1984) نے "فہرست الفاظ" (یا فہرست کلمات) تدوین کی جو کشف الآیات کی طرف "ابجدی" (اور الفبائی) ہے۔ اس کاوش کی الفبائی ترتیب الفاظ و کلمات کے ظواہر سے مطابقت رکھتی ہے نہ کہ مادۂ الفاظ سے۔ چنانچہ یہ فارسی دانوں [اور حقیقی معنوں میں اردو پڑھنے والوں] کو زیادہ آسان طریقے سے کلمات قرآنی تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ کتاب مصطفی نظیف (قدرغه‌لی) کے کتابت کردہ  قرآنی نسخے کے ہمراہ سنہ 1966 (لگ بھگ) شائع ہوئی ہے؛ بعنوان: "قرآن مبین و فہارس القرآن).
* مشہور ترین اور معروف ترین کشف الآیات [[محمد فؤاد عبد الباقی]] (1882-1967عیسوی) کی کتاب [[المعجم المفہرس|المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الکریم]]، ہے جس میں قرآن کے کلیدی الفاظ و کلمات کو بمع "مادہ" (اور جڑ) کے الفبائی ترتیب سے ـ آیات کے کچھ حصے کے ہمراہ ـ مرتب کیا گیا ہے۔ یہ حجم و ضخامت کے لحاظ سے ہلکی اور افادیت کے لحاظ سے بہت گرانقدر کتاب ہے۔ واضح رہے کہ اس کتاب کے مطابق آیات کی تعداد ملک فؤاد کے قرآن (=مصحف قاہرہ) کے عین مطابق ہے اور (چونکہ مصحف مدینہ، درحقیقت مصحف قاہرہ کی نقل ہے لہذا) مصحف مدینہ کے ساتھ بھی مطابقت رکھتی ہے۔
* اس سلسلے میں تازہ ترین حصول یابی قرآن کریم کا تین مجلدات پر مشتمل شماریاتی لغت نامہ "[[المعجم الاحصائی لالفاظ القرآن الکریم]]" جس کے مؤلف "ڈاکٹر سید محمود روحانی" ہیں۔ یہ لغت نامہ ظاہری الفاظ کی بنیاد پر الفبائی ترتیب سے مدون کیا گیا ہے ( اور الفاظ کا مادہ مد نظر نہیں رکھا گیا ہے)۔
'''قرآن کریم کی بعض موضوع فہرستوں کو "فہرس المطالب"، یا "کشف المطالب" یا "تفصیل الآیات" کے نام سے تدوین کیا گیا ہے۔'''
* اس سلسلے میں مشہور ترین ـ مگر ـ کم مفید ترین، کاوش  فرانسیسی مستشرق "[[ژولس لابومے|Jules La Beaume]]" (1806-1876) کی کتاب [[(تفصيل آيات القرآن الحكيم)]] ہے۔  انھوں نے قرآن کریم کو 18 ابواب اور مجموعی طور پر 350 موضوعات میں تقسیم کیا ہے۔
* [[اعتماد السلطنہ|محمد حسن خان صنیع الدولہ|اعتماد السلطنہ]] (1843-1896) کی کتاب [[کشف المطالب]] بھی وسیع تر موضوعی فہرست ہے جس میں ژولس لابومے کی [[تفصیل الآیات القرآن کریم|کتاب]] کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
* مرحوم [[محمود رامیار]] کی کتاب [[فہرس المطالب]] جو مذکورہ بالا فہرس الالفاظ یا فہرست کلمات کے ساتھ وہی فہرست ہے جو وسیع تر انداز سے الفاظ و کلمات کو مرتب کرکے پیش کرتی ہے۔
* قرآن کریم کی سب سے زيادہ جامع اور منظم و باضابطہ موضوعی فہرست ـ جو تجزیاتی فہرست سازی کی تازہ ترین روشوں سے فائدہ اٹھا کر تدوی کی گئی ہے ـ قرآن مجید کی موضوعی فہرست [[الفہرس الموضوعی للقرآن الکریم]] کی تالیف و تدوین کا کام [[بہاء الدین خرمشاہی]] (پیدائش 1945عیسوی) اور [[کامران فانی]] (پیدائش 1944عیسوی) نے سرانجام دیا ہے۔
=== د) مطالعہ قرآنی کی کاوشوں کی فہرست اور قرآنی کتابیات ===
تحقیق کے مفید ترین اور ضروری ترین اوزاروں میں سے ایک کتابیات اور فہرستیں ہیں جن میں قرآنی مطالعات و تحقیقات کے سلسلے میں مکتوبہ و مطبوعہ کاوشوں اور آثار کی فہرستیں ثبت و درج ہوئی ہیں۔ [[فہرست ابن ندیم]]، [[حاجی خلیفہ]] کی [[کشف الظنون]] اور [[آقا بزرگ طہرانی]] کی کاوش [[الذریعہ الی تصانیف الشیعہ|الذریعہ]] میں سینکڑوں قرآنی کاوشوں کو فہرست وار ـ مگر غیر منظم انداز سے، متعلقہ عناوین یا موضوعات کے ذیل میں ـ متعارف کرایا گیا ہے؛ جیسا کہ [[الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ|الذریعہ]] میں لفظ "تفسیر" کے ذیل میں 340 شیعہ تفاسیر کا تعارف کرایا گیا ہے؛ چنانچہ مستقل و منفرد کاوش کی حیثیت سے قرآنی کتابیات شناسی کا کام ـ جس میں صرف قرآنی کاوشوں کا تعارف کرایا گیا ہو ـ نئے زمانے کی تخلیق ہے۔ بعض کتب خانوں اور بعض عام کتابیات کے ضمن میں قرآن مطالعات کے سلسلے میں معرض وجود میں آنے والی بہت سی کاوشوں کو ثبت کیا گیا ہے۔ ان فہرستوں میں اہم ترین اور بامعنی ترین فہارس کتب درج ذیل ہیں:
# تاريخ التراث العربي. تالیف: فؤاد سرگین، ج1۔
# فارسی کے قلمی نسخوں کی فہرست، بقلم [[احمد منزوی]](تہران، 1348ہجری شمسی)  ج1/1ـ1310 میں قرآنی مطالعات کے حوالے سے 1151 تالیفات کا تعارف کرایا گیا ہے۔
# "فهرس مخطوطات دارالکتب الظاهریة، وضع و تدوین صلاح محمد الخیمی (دمشق، 1404ـ1405ہجری)، اس کتب ظاہریہ کی طویل فہرست پیش کرنے والی اس تفصیلی فہرست نامے کی تین جلدوں کو قرآنی کتب و تالیفات کے لئے مختص کیا گیا ہے۔
# ادبیات فارسی، [[Charles Ambrose) Storey|سی اے اسٹوری]] (1888-1967) کی تالیف کی بنیاد پر۔ ترجمہ یو اے برگل،۔ ترجمہ یحی آرین پور و دیگر۔ تحریر احمد منزوی (تہران 1362 ہجری شمسی)۔ (واضح رہے کہ یہاں ادبیات سے ادبی فن و ہنر نہیں بلکہ منابع و مآخذ اور متون مراد ہیں)۔
# اسلامی جمہوریہ ایران کے کتب خانوں میں موجودہ عربی زبانی کے قلمی نسخوں کی موضوعی فہرست، علوم قرآنی، حصہ اول: قرائت و تجوید۔ تالیف: [[سید محمد باقر حجتی]]، (تهران، 1370ہجری شمسی)۔
نیز قرآنی کتابیات یا کتاب شناسی کے سلسلے میں عصر جدید میں بھی بعض کوششیں ہوئی ہیں جن میں اہم ترین درج ذیل ہیں:
# "معجم مصنفات القرآن الکریم"، تدوین شواخ اسحق (4 مجلدات، الریاض، 1403ہجری).
# "معجم الدراسات القرآنیة"، جو ہر زبان میں لکھی گئی کتب، مقالات  و مضامین کے تقریبا 20000 مطبوعہ و غیر مطبوعہ (قلمی) نسخوں پر مشتمل ہے۔ یہ کاوش "عبدالجبار الرفاعی" کی ہے جس کے دو مجلدات ایران کے "قرآن کے ثقافتی اور تعلیمی مرکز" کی جانب سے 1990 کے عشرے کے نصف اول میں زیور طبع سے آراستہ ہوئے ہیں اور باقی مجلدات کی طباعت جاری ہے۔
# [[معجم الدراسات القرآنیة عندالشیعة الامامیة]]، تالیف: عامر الحلو۔
# جامع ترین اور اہم ترین کتابیاتی مجموعوں میں سے ایک "محمد حسن بکائی کا "[[کتابنامہ بزرگ قرآن کریم]]" (قرآن کریم کا بڑا کتاب نامہ) ہے۔ جو شائع ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں اردو میں بھی قرآنی کتابیات کے سلسلے میں ایک مجموعہ شائع ہوا ہے [جس کا نام و نشان مضمون ہذا کے فارسی متن میں مذکور نہ تھا]۔


== متعلقہ مآخذ ==
== متعلقہ مآخذ ==
confirmed، templateeditor
9,057

ترامیم