مندرجات کا رخ کریں

"قرآن کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 114: سطر 114:
جب قرآن کی تحریف سے بحث کی جاتی ہے تو معمولا اس سے مراد قرآن میں کسی کلمے کا اضافہ یا کمی ہے۔ [[ابوالقاسم  خوئی|آیت الله خوئی]] لکھتے ہیں: مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن میں کسی لفظ کا اضافہ نہیں ہوا ہے۔ لہذا اس معنی میں قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔ لیکن قرآن سے کسی لفظ یا الفاظ کے حذف ہونے اور کم ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔<ref>خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۳۰ق، ص۲۰۰.</ref> آپ کے بقول شیعہ علماء کے درمیان مشہور نظریہ کے مطابق اس معنی میں بھی قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔<ref>خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۳۰ق، ص۲۰۱.</ref>
جب قرآن کی تحریف سے بحث کی جاتی ہے تو معمولا اس سے مراد قرآن میں کسی کلمے کا اضافہ یا کمی ہے۔ [[ابوالقاسم  خوئی|آیت الله خوئی]] لکھتے ہیں: مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن میں کسی لفظ کا اضافہ نہیں ہوا ہے۔ لہذا اس معنی میں قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔ لیکن قرآن سے کسی لفظ یا الفاظ کے حذف ہونے اور کم ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔<ref>خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۳۰ق، ص۲۰۰.</ref> آپ کے بقول شیعہ علماء کے درمیان مشہور نظریہ کے مطابق اس معنی میں بھی قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔<ref>خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۳۰ق، ص۲۰۱.</ref>


=== قرآن کا چیلنج ===
== قرآن کا چیلنج ==
{{اصلی|قرآن کا چیلنج}}
{{اصلی|قرآن کا چیلنج}}
"<font color=green>{{قرآن کا متن|'''وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُواْ قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاء لَقُلْنَا مِثْلَ هَـذَا إِنْ هَـذَا إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأوَّلِينَ'''|ترجمہ= اور جب ان کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا ہی کلام پیش کریں۔ یہ نہیں ہیں مگر اگلے زمانوں کی فرضی کہانیاں|سورت=[[سورہ انفال]]|آیت=31}}</font>
قرآن کی مختلف آیتوں میں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کے مخالفین سے بارہا یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم پیغمبر اکرم(ص) کو خدا کا حقیقی پیغمبر نہیں مانتے تو قرآن جیسا کوئی کتاب یا دس سورتیں یا کم از کم ایک سورہ قرآن کی مانند لا کر دکھاؤ۔<ref>سورہ اسراء، آیت ۸۸؛ سورہ ہود، آیت ۱۳؛ سورہ یونس، آیت ۳۸.</ref> مسلمان اس مسئلے کو قرآن کی چیلنج کا نام دیتے ہیں۔ اور یہ مسئلہ پہلی مرتبہ تیسری صدی ہجری میں علم کلام کی کتابوں میں قرآن کے چیلنجز کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔<ref>معموری، تحدی، ۱۳۸۵ش، ص۵۹۹.</ref> مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا کوئی فرد قرآن کی مثل نہیں لا سکتا جو قرآن کے معجزہ ہونے اور پیغمبر اکرم(ص) کی نبوت پر بہترین دلیل ہے۔ خود قرآن نے بھی بار بار اس بات کی تاکید کی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کی مثل لانا کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔<ref>سورہ طور، آیت ۳۴.</ref> اعجاز القرآن، [[قرآنی علوم]] کی ایک شاخ ہے جس میں قرآن کے معجزہ ہونے پر بحث کی جاتی ہے۔<ref>معرفت، اعجاز القرآن، ۱۳۷۹ش، ج۹، ص۳۶۳.</ref>
 
کفار [[مکہ]] [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کی دعوت اور کلام اللہ کا سامنا کرنے کے بعد یا تو اس کے استماع سے اجتناب کرتے تھے اور دوسروں کو بھی قرآن سننے سے منع کرتے تھے<ref>فصلت، 26: '''"وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ"۔ ترجمہ: اور کہا ان لوگوں نے جو کافر ہیں کہ اس قرآن کی نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے میں ادھر ادھر کی فضول باتیں کیا کرو، شاید تم فتح پاؤ'''۔</ref> یا پھر کہتے تھے کہ "یہ آدمیوں کا کلام نہیں ہے۔<ref>سورہ مدثر، آیت 25: '''"إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ"۔ ترجمہ: یہ انسانوں کا کلام نہیں ہے ۔'''۔</ref> یا کہتے تھے کہ "اگر ہم چاہتے تو ایسا ہی کلام پیش کرتے، یہ نہیں ہے مگر اگلے زمانوں کی فرضی داستانیں"۔<ref>سورہ انفال، آیت 31۔</ref> اس مقام پر آکر خداوند متعال تحدی فرماتا اور لوگوں کو چیلنج کرتا اور للکارتا ہے؛ یعنی منکرین اور معاندین سے کہتا ہے کہ "اگر قرآن کو غیر وحیانی اور غیر الہی سمجھتے ہو تو اس کے لئے کوئی مثل و نظیر لاؤ"۔<ref>سورہ طور، آیات 33-34: '''"أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ بَل لَّا يُؤْمِنُونَ ٭ فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِينَ"۔ ترجمہ: یا وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے گھڑ لیا ہے؟ بلکہ وہ ایمان لانے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں ٭ تو پھر وہ ایسا ہی کلام لے آئیں، اگر وہ سچے ہیں۔'''</ref> نیز: " کیا وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کو گھڑ لیا ہے؟ کہئے کہ پھر لے آؤ اس کے مثل دس ہی سورہ گھڑے ہوئے اور بلالو جنہیں بلاسکو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو ٭ تو وہ اگر تمہاری دعوت پر لبیک نہ کہیں تو جان لو کہ وہ بس اللہ کے علم سے اتارا گیا ہے، ..."۔<ref>سورہ ہود، آیات 13-14: '''"أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ٭ فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أُنزِلِ بِعِلْمِ اللّهِ وَأَن لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ"۔'''</ref> اور بالآخر ارشاد فرماتا ہے: "اور اگر تم اس کی طرف سے جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا شک میں مبتلاہو تو اس قبیل کا ایک سورہ لے آؤاور جو اللہ کو چھوڑ کے ہمارے حامی ہیں انہیں بھی بلا لو اگر تم سچے ہو ٭ اب اگر تم نے ایسا نہ کیا، اور ہرگز نہ کرو گے، تو پھر بچنے کا سامان کرو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور وہ کافروں کے لیے مہیا ہے"۔<ref>بقره، 23-24؛ ترجمہ سید علی نقی نقوی(نقن)۔ '''"وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ٭ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِين"'''۔</ref> یہ تحدی اور للکار تمام اانسانوں کے لئے ہے خواہ وہ عرب ہوں خواہ غیر عرب ہوں۔ دوران رسالت کے قریب کے زمانے میں بھی اور بعد کے زمانوں میں بھی بعض لوگ ـ منجملہ [[مسیلمہ کذاب]] وغیرہ قرآن کے مقابلے پر آئے اور بعض تاہم وہ کچھ سست الفاظ و کلمات کو اکٹھے کرکے جو نہ تو معمولی کلام سے مشابہت رکھتے تھے اور نہ ہی قرآن کے مشابہ تھے۔ اور یوں قرآن کا اعجاز ثابت ہوچکا ہے۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1638۔</ref>


=== اعجازِ قرآن ===
=== اعجازِ قرآن ===
confirmed، templateeditor
9,057

ترامیم