مندرجات کا رخ کریں

"واقعہ کربلا" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 5: سطر 5:
[[امام حسینؑ]] نے چار ماہ کے قریب [[مکہ]] میں قیام فرمایا۔ اس دوران کوفیوں کی طرف سے آپ کو کوفہ آنے کے دعوت نامے ارسال کیے گئے اور دوسری طرف سے یزید کے کارندے آپؑ کو حج کے دوران مکہ میں شہید کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے اس بناء پر آپؑ نے یزیدی سپاہیوں کے ہاتھوں قتل کے اندیشے اور اہل کوفہ کے دعوت ناموں کے پیش نظر [[8 ذی‌ الحجہ]] کو کوفہ کی جانب سفر اختیار کیا۔ کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی آپؑ کوفیوں کی عہد شکنی اور [[مسلم بن عقیل|مسلم]] کی شہادت سے آگاہ ہو گئے کہ جنہیں آپ نے کوفہ کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے کوفہ روانہ کیا تھا۔ تاہم آپؑ نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ [[حر بن یزید]] نے آپ کا راستہ روکا تو آپ [[کربلا]] کی طرف چلے گئے جہاں کوفہ کے گورنر [[عبیدالله بن زیاد]] کی فوج سے آمنا سامنا ہوا۔ اس فوج کی قیادت [[عمر بن سعد]] کے ہاتھ میں تھی۔
[[امام حسینؑ]] نے چار ماہ کے قریب [[مکہ]] میں قیام فرمایا۔ اس دوران کوفیوں کی طرف سے آپ کو کوفہ آنے کے دعوت نامے ارسال کیے گئے اور دوسری طرف سے یزید کے کارندے آپؑ کو حج کے دوران مکہ میں شہید کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے اس بناء پر آپؑ نے یزیدی سپاہیوں کے ہاتھوں قتل کے اندیشے اور اہل کوفہ کے دعوت ناموں کے پیش نظر [[8 ذی‌ الحجہ]] کو کوفہ کی جانب سفر اختیار کیا۔ کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی آپؑ کوفیوں کی عہد شکنی اور [[مسلم بن عقیل|مسلم]] کی شہادت سے آگاہ ہو گئے کہ جنہیں آپ نے کوفہ کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے کوفہ روانہ کیا تھا۔ تاہم آپؑ نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ [[حر بن یزید]] نے آپ کا راستہ روکا تو آپ [[کربلا]] کی طرف چلے گئے جہاں کوفہ کے گورنر [[عبیدالله بن زیاد]] کی فوج سے آمنا سامنا ہوا۔ اس فوج کی قیادت [[عمر بن سعد]] کے ہاتھ میں تھی۔


[[10 محرم]]، [[روز عاشورا]] کو دونوں فوجوں کے درمیان جنگ ہوئی جس میں [[امام حسینؑ]]، آپؑ کے بھائی [[عباس بن علی]]،  شیرخوار بچوں [[عبدالله بن حسین|علی اصغر]] سمیت بنی ہاشم کے  17 افراد اور 50 سے زیادہ اصحاب [[شہید]] ہوئے۔ بعض [[مقتل نگاری|مقتل نگار]] [[شمر بن ذی الجوشن]] کو امام حسینؑ کا قاتل قرار دیتے ہیں۔ [[عمر بن سعد]] کے لشکر نے اپنے گھوڑوں کے سموں تلے شہیدوں کے اجساد کو پامال کیا۔ عاشورا کے روز عصر کے وقت سپاه یزید امام حسینؑ کی خیام پر حملہ کر کے انھیں نذر آتش کیا۔ [[شیعہ]] حضرات اس رات کو [[شام غریباں]] کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ [[امام سجاد علیہ السلام|امام سجادؑ]] نے بیماری کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لیا لہذا آپؑ اس جنگ میں زندہ بچ گئے اور  [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|حضرت زینب]]، خواتین اہل بیت اور بچوں کے ساتھ دشمن کے ہاتھوں اسیر ہوئے۔ عمر بن سعد کے سپاہیوں نے شہدا کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا اور اسیروں کو عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں پیش کیا اور وہاں سے انہیں [[یزید]] کے پاس [[شام]] بھیجا گیا۔
[[10 محرم]]، [[روز عاشورا]] کو دونوں فوجوں کے درمیان جنگ ہوئی جس میں [[امام حسینؑ]]، آپؑ کے بھائی [[عباس بن علی]]اور شیرخوار [[عبدالله بن حسین|علی اصغر]] سمیت بنی ہاشم کے  17 افراد اور 50 سے زیادہ اصحاب [[شہید]] ہوئے۔ بعض [[مقتل نگاری|مقتل نگار]] [[شمر بن ذی الجوشن]] کو امام حسینؑ کا قاتل قرار دیتے ہیں۔ [[عمر بن سعد]] کے لشکر نے اپنے گھوڑوں کے سموں تلے شہیدوں کے اجساد کو پامال کیا۔ روز عاشور عصر کے وقت سپاه یزید نے امام حسینؑ کے خیموں پر حملہ کر کے انہیں نذر آتش کیا۔ [[شیعہ]] حضرات اس رات کو [[شام غریباں]] کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ [[امام سجاد علیہ السلام|امام سجادؑ]] نے بیماری کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لیا لہذا آپؑ اس جنگ میں زندہ بچ گئے اور  [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|حضرت زینبؑ]]، اہل بیت کی خواتین اور بچوں کے ساتھ دشمن کے ہاتھوں اسیر ہوئے۔ عمر بن سعد کے سپاہیوں نے شہدا کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا اور اسیروں کو عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں پیش کیا اور وہاں سے انہیں [[یزید]] کے پاس [[شام]] بھیجا گیا۔


== بیعت سے انکار ==
== بیعت سے انکار ==
15 [[رجب المرجب|رجب]] سنہ 60 ہجری کو [[معاویہ]] کی موت کے بعد، لوگوں سے یزید کی بیعت لی گئی۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، خامسہ۱، ص۴۴۲؛ بَلاذُری، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۵۵؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۲.</ref> [[یزید]] نے بر سر اقتدار آنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ان چیدہ چیدہ افراد سے بیعت لینے کا فیصلہ کیا جنہوں نے [[معاویہ]] کے زمانے میں یزید کی بیعت کرنے سے انکار کیا تھا۔<ref> محمد بن جریرالطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص338۔</ref> اسی بنا پر اس نے [[مدینہ]] کے گورنر [[ولید بن عتبہ|ولید بن عتبہ بن ابی سفیان]] کو ایک خط کے ذریعے [[معاویہ]] کی موت کی خبر دی اور ساتھ ہی ایک مختصر تحریر میں [[ولید بن عتبہ|ولید]] کو "[[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]]، [[عبداللہ بن عمر]] اور [[عبداللہ بن زبیر]] سے زبردستی [[بیعت]] لینے اور نہ ماننے کی صورت میں اس کا سر قلم کرنے کی ہدایت کی"۔ <ref>ابومخنف الازدی، مقتل الحسینؑ،ص3؛ الطبری، وہی، ص338؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، صص9-10؛ الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج1، ص180 اور علی بن ابی الکرم ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص14۔</ref>  
15 [[رجب المرجب|رجب]] سنہ 60 ہجری کو [[معاویہ]] کی موت کے بعد، لوگوں سے یزید کی بیعت لی گئی۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، خامسہ۱، ص۴۴۲؛ بَلاذُری، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۵۵؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۲.</ref> [[یزید]] نے بر سر اقتدار آنے کے بعد ان چیدہ چیدہ افراد سے بیعت لینے کا فیصلہ کیا جنہوں نے [[معاویہ]] کے زمانے میں یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔<ref> محمد بن جریرالطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص338۔</ref> اسی بنا پر اس نے [[مدینہ]] کے گورنر [[ولید بن عتبہ|ولید بن عتبہ بن ابی سفیان]] کے نام ایک خط ارسال کر کے [[معاویہ]] کی موت کی خبر دی اور ساتھ ہی ایک مختصر تحریر میں [[ولید بن عتبہ|ولید]] کو "[[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]]، [[عبداللہ بن عمر]] اور [[عبداللہ بن زبیر]] سے زبردستی [[بیعت]] لینے اور نہ ماننے کی صورت میں ان کا سر قلم کرنے کی ہدایت کی"۔ <ref>ابومخنف الازدی، مقتل الحسینؑ،ص3؛ الطبری، وہی، ص338؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، صص9-10؛ الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج1، ص180 اور علی بن ابی الکرم ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص14۔</ref>  


اس کی بعد [[یزید]] کی طرف سے ایک اور خط پہنچا جس میں موافقین اور مخالفین کے نام اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علیؑ]] کا سر بھی اس خط کے جواب کے ساتھ بھیجوانے کی تاکید کی گئی تھی۔<ref>شیخ صدوق؛ الامالی،ص152؛ ابن اعثم؛ وہی ماخذ، ص18 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص185۔</ref> چنانچہ [[ولید بن عتبہ|ولید]] نے [[مروان بن حکم|مروان]] سے [[مشورہ]] کیا؛<ref>ابومخنف؛ وہی ماخذ، صص3-4؛ الدینوری، وہی ماخذ، ص227 و الطبری، وہی ماخذ، صص338-339 اور رجوع کریں: ابن اعثم، وہی ماخذ، ص10؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص181 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص14۔</ref> اور اس کی تجویز پر مذکورہ افراد کو دارالامارہ بلوایا گیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ج5، صص338-339؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص10؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص181 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص14۔</ref>
اس کے بعد [[یزید]] کی طرف سے ایک اور خط لکھا گیا کہ جس میں حامیوں اور مخالفین کے نام اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علیؑ]] کا سر بھی اس خط کے جواب کے ساتھ بھجوانے کی تاکید کی گئی تھی۔<ref>شیخ صدوق؛ الامالی،ص152؛ ابن اعثم؛ وہی ماخذ، ص18 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص185۔</ref> چنانچہ [[ولید بن عتبہ|ولید]] نے [[مروان بن حکم|مروان]] سے [[مشورہ]] کیا؛<ref>ابومخنف؛ وہی ماخذ، صص3-4؛ الدینوری، وہی ماخذ، ص227 و الطبری، وہی ماخذ، صص338-339 اور رجوع کریں: ابن اعثم، وہی ماخذ، ص10؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص181 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص14۔</ref> اور اس کی تجویز پر مذکورہ افراد کو دارالامارہ بلوایا گیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ج5، صص338-339؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص10؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص181 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص14۔</ref>


[[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] اپنے 30<ref>ابن اعثم؛ مقتل الحسینؑ، وہی ماخذ، ص18 و سید بن طاوس؛ اللہوف، تہران، جہان، 1348ش، ص17۔</ref> عزیز و اقارب کے ہمراہ دارالامارہ پہنچے۔<ref>الخوارزمی، وہی ماخذ، ص183۔الدینوری، وہی ماخذ، ص227؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص183 و ابن شهرآشوب؛ وہی ماخذ، ص88</ref> ولید نے ابتداء میں [[معاویہ]] کی موت کی خبر سنائی اور پھر یزید کا خط پڑھ کر سنایا جس میں اس نے  "[[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] سے اپنے لئے [[بیعت]] لینے کی تاکید کی تھی"۔ اس موقع پر [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے ولید سے کہا: "کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میں رات کی تاریکی میں یزید کی بیعت کروں؟ میرا خیال ہے کہ تمہارا مقصد یہ ہے کہ میں لوگوں کے سامنے یزید کی بیعت کروں"۔ ولید نے کہا: "میری رائے بھی یہی ہے"۔ <ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص228؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص32 و عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، ج5، ص323۔</ref> [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]]، نے فرمایا: "پس، کل تک مجھے مہلت دو تا کہ میں اپنی رائے کا اعلان کروں"۔<ref>ابومخنف، وہی ماخذ، ص5؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص33 و ابن اعثم؛ مقتل الحسینؑ، وہی ماخذ، ص19۔</ref>
[[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] اپنے 30<ref>ابن اعثم؛ مقتل الحسینؑ، وہی ماخذ، ص18 و سید بن طاوس؛ اللہوف، تہران، جہان، 1348ش، ص17۔</ref> عزیز و اقارب کے ہمراہ دارالامارہ پہنچے۔<ref>الخوارزمی، وہی ماخذ، ص183۔الدینوری، وہی ماخذ، ص227؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص183 و ابن شهرآشوب؛ وہی ماخذ، ص88</ref> ولید نے ابتداء میں [[معاویہ]] کی موت کی خبر سنائی اور پھر یزید کا خط پڑھ کر سنایا جس میں اس نے  "[[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] سے اپنے لئے [[بیعت]] لینے کی تاکید کی تھی"۔ اس موقع پر [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے ولید سے کہا: "کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میں رات کی تاریکی میں یزید کی بیعت کروں؟ میرا خیال ہے کہ تمہارا مقصد یہ ہے کہ میں لوگوں کے سامنے یزید کی بیعت کروں"۔ ولید نے کہا: "میری رائے بھی یہی ہے"۔ <ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص228؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص32 و عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، ج5، ص323۔</ref> [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]]، نے فرمایا: "پس، کل تک مجھے مہلت دو تا کہ میں اپنی رائے کا اعلان کروں"۔<ref>ابومخنف، وہی ماخذ، ص5؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص33 و ابن اعثم؛ مقتل الحسینؑ، وہی ماخذ، ص19۔</ref>
گمنام صارف