مندرجات کا رخ کریں

"آستانہ حضرت معصومہ (ع)" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 129: سطر 129:
===گنبد===
===گنبد===


حضرت معصومہ کی قبر پر پہلا گنبد ۴۵۷ ھ، ۱۰۶۴ ء میں ابو الفضل عراقی نے بنوایا تھا۔ ۹۲۵ ھ، ۱۵۱۹ ء میں شاہ بیگم صفوی نے اسے ختم کرکے وہاں ایک دوسرا گنبد بنوایا جو آج تک باقی ہے۔ ۱۵۱۸ ھ، ۱۸۰۳ ء میں فتح علی شاہ کے حکم سے اسے ۱۲۰۰۰ سونے کی اینٹوں سے آراستہ کیا گیا۔ اس گنبد کی اونچائی چھت کی سطح سے ۱۶ میٹر اور سطح زمین سے ۳۲ میٹر ہے۔ اس کا خارجی احاطہ ۶،۳۵ و داخلی احاطہ ۶۶،۲۸ اور قطر ۱۲ میٹر ہے۔
حضرت معصومہ کی قبر پر پہلا گنبد 457 ھ، 1064 ء میں ابو الفضل عراقی نے بنوایا تھا۔ 925 ھ، 1519 ء میں شاہ بیگم صفوی نے اسے ختم کرکے وہاں ایک دوسرا گنبد بنوایا جو آج تک باقی ہے۔ 1518 ھ، 1803 ء میں فتح علی شاہ کے حکم سے اسے 12000 سونے کی اینٹوں سے آراستہ کیا گیا۔ اس گنبد کی اونچائی چھت کی سطح سے 16 میٹر اور سطح زمین سے 32 میٹر ہے۔ اس کا خارجی احاطہ 6،35 و داخلی احاطہ 66،28 اور قطر 12 میٹر ہے۔


===گلدستے===
===گلدستے===
حضرت معصومہ کے روضہ میں مجموعی طور پر ۶ گلدستے ہیں۔ حرم کے دو گلدستے صفویہ دور کے اوائل میں شاہ بیگم نے بنوائے۔ ۱۱۸۹ ھ، ۱۷۸۳ ء میں ان دونوں کی تجدید بناء لطف علی خان زند نے کرائی۔ اس لئے کہ ھاتف اصفہانی کے قصیدہ سے جو ایوان طلا کی پیشانی پر ایک کتیبہ کی صورت میں موجود ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاہ بیگم کے تعمیر کردہ یہ دونوں گلدستے لطف علی خان زند کی تعمیر سے پہلے بوسیدہ ہو چکے تھے۔  
حضرت معصومہ کے روضہ میں مجموعی طور پر 6 گلدستے ہیں۔ حرم کے دو گلدستے صفویہ دور کے اوائل میں شاہ بیگم نے بنوائے۔ 1189 ھ، 1783 ء میں ان دونوں کی تجدید بناء لطف علی خان زند نے کرائی۔ اس لئے کہ ھاتف اصفہانی کے قصیدہ سے جو ایوان طلا کی پیشانی پر ایک کتیبہ کی صورت میں موجود ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاہ بیگم کے تعمیر کردہ یہ دونوں گلدستے لطف علی خان زند کی تعمیر سے پہلے بوسیدہ ہو چکے تھے۔  


*'''روضے کے اصلی گلدستے'''
*'''روضے کے اصلی گلدستے'''


۱۲۱۸ ھ، ۱۸۰۳ ء میں فتح علی شاہ ان گلدستوں پر سونے کا ملمع کرایا۔ ناصر الدین شاہ کے دور میں ان گلدستوں کی حسین خان شاہ سوند جو شہاب الملک کے نام سے معروف ہے، نے ۱۲۸۶ ھ، ۱۸۶۹ ء میں تجدید بناء کرائی اور اس کی زمین کو کاشی سے مزین کیا۔ ۱۲۹۹ ھ، ۱۸۸۱ ء میں کامران میرزا قاچار نے انہیں سونے کی اینٹوں سے آراستہ کیا۔ صحن سے ان گلدستوں کی اونچائی ۲۰۔۳۲ اور چھت کی سطح سے ۴۰۔۱۷ اور ان کا قطر ۳۰۔۱ میٹر ہے۔
1218 ھ، 1803 ء میں فتح علی شاہ ان گلدستوں پر سونے کا ملمع کرایا۔ ناصر الدین شاہ کے دور میں ان گلدستوں کی حسین خان شاہ سوند جو شہاب الملک کے نام سے معروف ہے، نے 1286 ھ، 1869 ء میں تجدید بناء کرائی اور اس کی زمین کو کاشی سے مزین کیا۔ 1299 ھ، 1881 ء میں کامران میرزا قاچار نے انہیں سونے کی اینٹوں سے آراستہ کیا۔ صحن سے ان گلدستوں کی اونچائی 20۔32 اور چھت کی سطح سے 40۔17 اور ان کا قطر 30۔1 میٹر ہے۔


*'''صحن اتابکی کے گلدستے'''
*'''صحن اتابکی کے گلدستے'''


۱۳۰۳ھ، ۱۸۸۵ ء میں دو اور گلدستے اصغر علی خان اتابک نے صحن جدید میں ایوان طلا کے دونوں طرف تعمیر کرائے جو گلدستہ اتابکی کے نام سے مشہور ہیں۔ صحن سے ان کی بلندی ۸۰۔۴۲ اور چھت کی سطح سے ۲۸ میٹر اور ان کا قطر ۳۰۔۳ میٹر ہے۔
1303 ھ، 1885 ء میں دو اور گلدستے اصغر علی خان اتابک نے صحن جدید میں ایوان طلا کے دونوں طرف تعمیر کرائے جو گلدستہ اتابکی کے نام سے مشہور ہیں۔ صحن سے ان کی بلندی 80۔42 اور چھت کی سطح سے 28 میٹر اور ان کا قطر 30۔3 میٹر ہے۔


*'''چھوٹے گلدستے'''
*'''چھوٹے گلدستے'''


دو دوسرے گلدستے جنہیں چھوٹے گلدستوں کا نام دیا گیا ہے۔ صحن جدید کے اندرونی حصے کے دونوں اطراف میں واقع ہیں جن کا استعمال ہمیشہ اذان دینے کے لئے کیا جاتا تھا۔ سطح صحن سے ان کی بلندی ۵۰۔۱۳ اور قطر ۳ میٹر ہے اور اس کا احاطہ ۹۔۹۰ میٹر منظم ۸ ضلعی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔
دو دوسرے گلدستے جنہیں چھوٹے گلدستوں کا نام دیا گیا ہے۔ صحن جدید کے اندرونی حصے کے دونوں اطراف میں واقع ہیں جن کا استعمال ہمیشہ اذان دینے کے لئے کیا جاتا تھا۔ سطح صحن سے ان کی بلندی 50۔13 اور قطر 3 میٹر ہے اور اس کا احاطہ 9۔90 میٹر منظم 8 ضلعی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔


==صحن و ایوان==
==صحن و ایوان==
گمنام صارف