مندرجات کا رخ کریں

"ابو موسی اشعری" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 13: سطر 13:
| نسب  =یمنی قبیلے قحطان کی شاخ:قبیلۂ اشعر
| نسب  =یمنی قبیلے قحطان کی شاخ:قبیلۂ اشعر
| مشہوراقارب  =بیٹا: ابو بردہ، پوتا: بلال،ابو الحسن اشعری
| مشہوراقارب  =بیٹا: ابو بردہ، پوتا: بلال،ابو الحسن اشعری
| شہادت/وفات    =[[ذی الحجہ]]، سال ۴۴
| شہادت/وفات    =[[ذی الحجہ]]، سنہ 44 ھ
| کیفیت شہادت  =
| کیفیت شہادت  =
| مدفن          = کوفہ یا مکہ
| مدفن          = کوفہ یا مکہ
سطر 23: سطر 23:
| دینی                  =
| دینی                  =
}}
}}
[[ابو موسی اشعری]] کے نام سے مشہور [[رسول اللہ]] کا [[صحابی]] ہے جس  کا نام '''عبد الله بن قیس''' (متوفا۴۴ ق) تھا۔ تاریخی منابع میں اس کی شہرت [[جنگ صفین]] میں [[حکمیت]] کیلئے [[حضرت علی]] کی طرف سے نمائندہ منتخب ہونے کی وجہ سے ہے۔ [[حضرت امام علی عليہ السّلام|امام]] اس کے انتخاب سے راضی نہیں تھے لیکن اپنے لشکر کے چند سپاہیوں کے اصرار کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہوئے۔ آخرکار ابو موسی نے [[معاویہ]] کے نمائندے [[عمرو بن عاص]] سے حکمیت میں دھوکہ کھا کر حکومت معاویہ کے حوالے کر دی۔
[[ابو موسی اشعری]] کے نام سے مشہور [[رسول اللہ]] کا [[صحابی]] ہے جس  کا نام '''عبد الله بن قیس''' (متوفی 44 ھ) تھا۔ تاریخی منابع میں اس کی شہرت [[جنگ صفین]] میں [[حکمیت]] کیلئے [[حضرت علی]] کی طرف سے نمائندہ منتخب ہونے کی وجہ سے ہے۔ [[حضرت امام علی عليہ السّلام|امام]] اس کے انتخاب سے راضی نہیں تھے لیکن اپنے لشکر کے چند سپاہیوں کے اصرار کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہوئے۔ آخرکار ابو موسی نے [[معاویہ]] کے نمائندے [[عمرو بن عاص]] سے حکمیت میں دھوکہ کھا کر حکومت معاویہ کے حوالے کر دی۔
==نسب==
==نسب==
اس کی اصل [[یمن]] کے قبائل میں سے [[قبیلہ اشعر|اشعر]] سے تھی جو خود [[قحطان]] قبیلے کا حصہ شمار ہوتا تھا۔<ref>ر.ک: ابن سعد، ج۴، ص۱۰۵؛ خلیفہ الطبقات، ج۱، ص۴۲۸؛ ابن عبدالبر، ج۴، ص۱۷۶</ref> اس کی ماں '''ظبیہ''' عدنان قبیلے سے تھی جس نے بعد میں [[اسلام]] قبول کیا اور [[مدینہ]] میں فوت ہوئی۔ <ref>ابن سعد، ج۴، ص۱۰۵</ref>
اس کی اصل [[یمن]] کے قبائل میں سے [[قبیلہ اشعر|اشعر]] سے تھی جو خود [[قحطان]] قبیلے کا حصہ شمار ہوتا تھا۔<ref> ر.ک: ابن سعد، ج۴، ص۱۰۵؛ خلیفہ الطبقات، ج۱، ص۴۲۸؛ ابن عبد البر، ج۴، ص۱۷۶</ref> اس کی ماں ظبیہ عدنان قبیلے سے تھی جس نے بعد میں [[اسلام]] قبول کیا اور [[مدینہ]] میں فوت ہوئی۔<ref> ابن سعد، ج۴، ص۱۰۵</ref>


== عصر پیامبر(ص)==
== عصر پیامبر(ص)==
سطر 31: سطر 31:
=== اسلام لانا===
=== اسلام لانا===
تاریخ میں اس کے مسلمان ہونے کے ضد و نقیض واقعات بیان ہوئے ہیں:
تاریخ میں اس کے مسلمان ہونے کے ضد و نقیض واقعات بیان ہوئے ہیں:
* چند روایات کی بنا پر وہ  [[مکہ]] گیا اور وہاں [[سعید بن ابی العاص|سعید بن عاص بن امیہ]] کا ہم‌ پیمان (حلیف) ہوا اور [[اسلام]] لے آیا۔ مسلمانوں کی دوسری ہجرت کے موقع پر ان کے ساتھ [[حبشہ]] گیا۔<ref>ابن سعد، ج۴، ص۱۰۵؛ ابن هشام، ج۱، ص۳۴۷؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۲۰۱</ref> لیکن ابن سعد<ref>ابن سعد، ج۴، ص۱۰۵</ref> تصریح کرتا ہے کہ وہ ہر گز حلیف نہیں تھا۔ وہ اسلام لانے کے بعد یمن واپس لوٹ گیا۔ قدیمی ترین سیرت نگار [[موسی بن عقبہ]]، [[ابن اسحاق]] اور [[ابو مشعر]] کا اسے حبشہ کے مہاجروں میں شمار نہ کرنا ابن سعد کی تائید کرتا ہے۔ <ref>ر.ک: بلاذری، انساب، ج۱، ص۲۰۱؛ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۳۱۴</ref>
* چند روایات کی بنا پر وہ  [[مکہ]] گیا اور وہاں [[سعید بن ابی العاص|سعید بن عاص بن امیہ]] کا ہم‌ پیمان (حلیف) ہوا اور [[اسلام]] لے آیا۔ مسلمانوں کی دوسری ہجرت کے موقع پر ان کے ساتھ [[حبشہ]] گیا۔<ref> ابن سعد، ج۴، ص۱۰۵؛ ابن هشام، ج۱، ص۳۴۷؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۲۰۱</ref> لیکن ابن سعد<ref> ابن سعد، ج۴، ص۱۰۵</ref> تصریح کرتا ہے کہ وہ ہر گز حلیف نہیں تھا۔ وہ اسلام لانے کے بعد یمن واپس لوٹ گیا۔ قدیمی ترین سیرت نگار [[موسی بن عقبہ]]، [[ابن اسحاق]] اور [[ابو مشعر]] کا اسے حبشہ کے مہاجروں میں شمار نہ کرنا ابن سعد کی تائید کرتا ہے۔ <ref> ر.ک: بلاذری، انساب، ج۱، ص۲۰۱؛ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۳۱۴</ref>
*  نیز احمد بن حنبل<ref>احمد بن حنبل، ج۴، ص۴۰۶ـ۴۰۵</ref> ابو موسی کے نواسے سے نقل کرتا ہے کہ وہ اور اس کی قوم [[غزوه خیبر|فتح خیبر]] کے تین دن بعد  [[پیامبر(ص)]] کے پاس آئے اور آپ (ص) سے مال غنیمت حاصل کیا جبکہ انہوں نے جنگ میں شرکت نہیں کی تھی۔
*  نیز احمد بن حنبل<ref> احمد بن حنبل، ج۴، ص۴۰۶ـ۴۰۵</ref> ابو موسی کے نواسے سے نقل کرتا ہے کہ وہ اور اس کی قوم [[غزوه خیبر|فتح خیبر]] کے تین دن بعد  [[پیامبر(ص)]] کے پاس آئے اور آپ (ص) سے مال غنیمت حاصل کیا جبکہ انہوں نے جنگ میں شرکت نہیں کی تھی۔
* ایک اور روایت اس بات کی حکایت کرتی ہے کہ ابو موسی نے [[سال 7 ہجری قمری]] میں ۵۰ افراد کے ایک گروہ کے ساتھ شہر یمن: زبید سے دریائی سفر کا آغاز کیا۔ جس میں سمندری طوفان نے انہیں حبشہ پہنچا دیا اور یہ وہی وقت تھا جب [[جعفر بن ابی طالب]] اپنے اصحاب کے ساتھ حبشہ سے واپسی کا رخت سفر باندھ رہے تھے۔<ref>ابن عماد، ج۵۴ـ۵۳</ref> پس  یہودیان خیبر کے مطیع ہونے کے موقع پر اچانک یہ سب لوگ پیغمبر اکرم کے پاس  پہنچ گئے۔ مہاجرین کے ساتھ اتفاقی طور پر آنا اس بات کا سب بنا کہ وہ اسے مہاجر سمجھیں۔(ورنہ وہ مہاجرین میں سے نہیں تھا)<ref>ابن سعد، ج۴، ص۱۰۶؛ ابن عبدالبر، ج۴، ص۱۷۶</ref>
* ایک اور روایت اس بات کی حکایت کرتی ہے کہ ابو موسی نے [[سال 7 ہجری]] میں 50 افراد کے ایک گروہ کے ساتھ شہر [[یمن]]: زبید سے دریائی سفر کا آغاز کیا۔ جس میں سمندری طوفان نے انہیں [[حبشہ]] پہنچا دیا اور یہ وہی وقت تھا جب [[جعفر بن ابی طالب]] اپنے اصحاب کے ساتھ حبشہ سے واپسی کا رخت سفر باندھ رہے تھے۔<ref> ابن عماد، ج۵۴ـ۵۳</ref> پس  یہودیان خیبر کے مطیع ہونے کے موقع پر اچانک یہ سب لوگ پیغمبر اکرم کے پاس  پہنچ گئے۔ مہاجرین کے ساتھ اتفاقی طور پر آنا اس بات کا سب بنا کہ وہ اسے مہاجر سمجھیں۔(ورنہ وہ مہاجرین میں سے نہیں تھا)<ref> ابن سعد، ج۴، ص۱۰۶؛ ابن عبد البر، ج۴، ص۱۷۶</ref>


===عہدیدار===
===عہدیدار===
ابو موسی ایک مرتبہ لشکر کا جانشین سپہ سالار بنا جب پیامبر(ص) نے [[شوال]] [[سال 8 ہجری قمری]] میں [[ہوازن]] قبائل کی سرکوبی کیلئے دوبارہ لشکر روانہ کیا۔ سپہ سالار کی [[شہادت]] کے بعد اس کی کمان میں لشکر نے فتح حاصل کی۔<ref>واقدی، ج۳، ص۹۱۶ـ۹۱۵؛ ابن حبیب، ص۱۲۴؛ ابن سعد، ج۲، ص۱۵۲ـ۱۵۱؛ طبری، ج۳، ص۸۰ـ۷۹</ref> اسی سال اسے اور [[معاذ بن جبل]] کو رسول اللہ نے مکیوں کی تعلیم [[قرآن]] اور احکام دین کیلئے مامور کیا۔<ref>ر.ک: واقدی، ج۳، ص۹۵۹</ref> ابو موسی ۱۰ویں ہجری قمری میں [[حجۃ الوداع]] سے پہلے  پیامبر(ص) کی جانب سے یمن کے ایک حصے کا والی مقرر ہوا۔<ref>ابن حبیب، ص۱۲۶؛ احمد بن حنبل، ج۴، ص۳۹۷؛ طبری، ج۳، ص۲۲۸</ref>
ابو موسی ایک مرتبہ لشکر کا جانشین سپہ سالار بنا جب پیامبر(ص) نے [[شوال]] [[سال 8 ہجری قمری]] میں [[ہوازن]] قبائل کی سرکوبی کیلئے دوبارہ لشکر روانہ کیا۔ سپہ سالار کی [[شہادت]] کے بعد اس کی کمان میں لشکر نے فتح حاصل کی۔<ref> واقدی، ج۳، ص۹۱۶ـ۹۱۵؛ ابن حبیب، ص۱۲۴؛ ابن سعد، ج۲، ص۱۵۲ـ۱۵۱؛ طبری، ج۳، ص۸۰ـ۷۹</ref> اسی سال اسے اور [[معاذ بن جبل]] کو رسول اللہ نے مکیوں کی تعلیم [[قرآن]] اور احکام دین کیلئے مامور کیا۔<ref> ر.ک: واقدی، ج۳، ص۹۵۹</ref> ابو موسی ۱۰ویں ہجری میں [[حجۃ الوداع]] سے پہلے  پیامبر(ص) کی جانب سے یمن کے ایک حصے کا والی مقرر ہوا۔<ref> ابن حبیب، ص۱۲۶؛ احمد بن حنبل، ج۴، ص۳۹۷؛ طبری، ج۳، ص۲۲۸</ref>


== خلفا کا زمانہ==
== خلفا کا زمانہ==


:''' خلیفۂ اول'''
:''' خلیفۂ اول'''
ابو موسی  خلافت [[ابوبکر]] کے زمانے تک یمن کے ایک حصہ کا والی رہا اور [[یمن]] کے اطراف میں مرتدوں کے فتنے کا اس نے سامنا کیا۔<ref>ر.ک: طبری، ج۳، ص۳۱۸؛ ذہبی، تاریخ، ص۱۶</ref>
ابو موسی  خلافت [[ابوبکر]] کے زمانے تک یمن کے ایک حصہ کا والی رہا اور [[یمن]] کے اطراف میں مرتدوں کے فتنے کا اس نے سامنا کیا۔<ref> ر.ک: طبری، ج۳، ص۳۱۸؛ ذہبی، تاریخ، ص۱۶</ref>


:''' خلیفۂ دوم'''
:''' خلیفۂ دوم'''
ابو موسی [[عمر بن خطاب|عمر]] کی [[خلافت]] کے زمانے میں سیاسی میدان میں زیادہ نمایاں ہوا۔ حضرت عمر نے ۱۷ ق میں [[مغیرہ بن شعبہ]] کو [[بصرہ]] کی حکومت سے واپس بلا لیا اور ابو موسی اشعری کو اس کی جگہ وہاں حاکم مقرر کیا۔ وہ عمر کی طرف بصرے کا چوتھا حاکم تھا جو کچھ مدت کے وقفے کے ۱۲ سال سے زیادہ وہاں حاکم رہا۔<ref>خلیفہ، تاریخ، ج۱، ص۱۲۶؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۴۶؛ طبری، ج۴، ص۵۰، ۷۱ـ۶۹</ref>
ابو موسی [[عمر بن خطاب|عمر]] کی [[خلافت]] کے زمانے میں سیاسی میدان میں زیادہ نمایاں ہوا۔ حضرت عمر نے [[سنہ 17 ہجری]] میں [[مغیرہ بن شعبہ]] کو [[بصرہ]] کی حکومت سے واپس بلا لیا اور ابو موسی اشعری کو اس کی جگہ وہاں حاکم مقرر کیا۔ وہ عمر کی طرف بصرے کا چوتھا حاکم تھا جو کچھ مدت کے وقفے کے 12 سال سے زیادہ وہاں حاکم رہا۔<ref> خلیفہ، تاریخ، ج۱، ص۱۲۶؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۴۶؛ طبری، ج۴، ص۵۰، ۷۱ـ۶۹</ref>


بصرہ کی حاکمیت کے دوران کچھ مدت کیلئے حضرت عمر نے اسے [[عمار یاسر]] کی جگہ [[کوفہ]] کا حاکم بنایااور پھر دوبارہ اسے بصرہ کا حاکم بنا کر بھیج دیا۔<ref>طبری، ج۴، ص۱۶۱، ۱۶۴ـ۱۶۳</ref> بصرے کی قضاوت کا عہدہ بھی اسی کے پاس تھا۔ تاریخی متون میں حضرت عمر کی جانب سے وہاں کی قضاوت کی راہنمائی میں لکھے گئے خطوط ملتے ہیں۔<ref>ابویوسف، ص۱۱۷، ۱۳۵؛ جاحظ، ص۲۳۷؛ ابن قتیبہ، عیون، ج۱، ص۱۱، ۶۶، ج۳، ص۸۸</ref>
بصرہ کی حاکمیت کے دوران کچھ مدت کیلئے حضرت عمر نے اسے [[عمار یاسر]] کی جگہ [[کوفہ]] کا حاکم بنایااور پھر دوبارہ اسے بصرہ کا حاکم بنا کر بھیج دیا۔<ref> طبری، ج۴، ص۱۶۱، ۱۶۴ـ۱۶۳</ref> بصرے کی قضاوت کا عہدہ بھی اسی کے پاس تھا۔ تاریخی متون میں حضرت عمر کی جانب سے وہاں کی قضاوت کی راہنمائی میں لکھے گئے خطوط ملتے ہیں۔<ref>ابویوسف، ص۱۱۷، ۱۳۵؛ جاحظ، ص۲۳۷؛ ابن قتیبہ، عیون، ج۱، ص۱۱، ۶۶، ج۳، ص۸۸</ref>
ابو موسی طویل مدت تک بہت سی لشکر کشیوں، خوزستان اور فارس کے محاصروں کو توڑنے نیز بلاد جزیرہ کی جنگوں میں شریک رہا۔
ابو موسی طویل مدت تک بہت سی لشکر کشیوں، خوزستان اور فارس کے محاصروں کو توڑنے نیز بلاد جزیرہ کی جنگوں میں شریک رہا۔


:''' خلیفۂ سوم'''
:''' خلیفۂ سوم'''
[[عثمان بن عفان|عثمان]] کے ابتدائی سالوں میں بصرہ کی حکومت پر باقی رہا جس کی وصیت عمر بن خطاب نے کی تھی اور وہ مدت ۴ سال<ref>ابن سعد، ج۵، ص۴۵؛ ذہبی، سیر، ج۲، ص۳۹۱</ref> یا ایک اور روایت کے مطابق ایک سال<ref>ابن سعد، ج۴، ص۱۰۹</ref> تھی۔ یہ بات  خلیفۂ دوم کے اس پر اعتماد کی عکاسی کرتی ہے۔ عثمان نے وہاں کی امارت اور قضاوت کا بھی اس کے وظائف میں اضافہ کر دیا۔<ref>خلیفہ، تاریخ، ج۱، ص۱۹۶؛ وکیع، ج۱، ص۲۸۳</ref>
[[عثمان بن عفان|عثمان]] کے ابتدائی سالوں میں بصرہ کی حکومت پر باقی رہا جس کی وصیت عمر بن خطاب نے کی تھی اور وہ مدت 4 سال<ref> ابن سعد، ج۵، ص۴۵؛ ذہبی، سیر، ج۲، ص۳۹۱</ref> یا ایک اور روایت کے مطابق ایک سال<ref> ابن سعد، ج۴، ص۱۰۹</ref> تھی۔ یہ بات  خلیفۂ دوم کے اس پر اعتماد کی عکاسی کرتی ہے۔ عثمان نے وہاں کی امارت اور قضاوت کا بھی اس کے وظائف میں اضافہ کر دیا۔<ref> خلیفہ، تاریخ، ج۱، ص۱۹۶؛ وکیع، ج۱، ص۲۸۳</ref>


بصرہ پر اس کی امارت عمر کی وفات کے بعد ۶ سال کے لگ بھگ باقی رہی چونکہ وہاں کے لوگوں کی شکایات کی بنا پر اس کے عزل کا سال مؤرخین ۲۹ قمری سمجھتے ہیں۔<ref>خلیفہ، تاریخ، ج۱، ص۱۶۷؛ طبری، ج۴، ص۲۶۴ـ۲۶۵</ref> ابو موسی نے معزولیت کے بعد خلیفہ کی مزید معاونت سے انکار کیا اور کوفہ میں ساکن ہو گیا۔<ref>ابن سعد، ج۵، ص۴۵</ref> ۵ سال کے بعد کوفیوں نے ۳۴ ہجری قمری میں [[یزید بن قیس]] اور [[مالک اشتر نخعی]] کی قیادت میں [[سعید بن عاص]] کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اسے کوفہ سے باہر نکال کر وہاں امارت ابو موسی کے حوالے کر دی۔ سیف<ref>طبری، ج۴، ص۳۳۲ـ۳۳۱، ۳۳۶</ref> کی روایت کے مطابق باغی عثمان کے خلع کرنے کے در پے تھے لیکن ابو موسی نے عثمان بن عفان کا دفاع کیا اور اپنی حاکمیت کی قبولیت کو عثمان کی دوبارہ بیعت سے مشروط کیا۔ عثمان بن عفان اس بات سے نہایت خوشحال ہوا اور اسے کہا کہ وہ اسے سالوں تک حاکمیت پر باقی رکھے گا۔ اس طرح بار دیگر ابو موسی اشعری حکومت کوفہ کی کرسی پر بیٹھا اور قتل عثمان تک اس عہدے پر باقی رہا۔<ref>ر.ک: ابن سعد، ج۵، ص۳۵ـ۳۴؛ خلیفہ، تاریخ، ج۱، ص۱۸۰؛ بلاذری، انساب، ج۴، ص۵۳۶ـ۵۳۵</ref>
بصرہ پر اس کی امارت عمر کی وفات کے بعد 6 سال کے لگ بھگ باقی رہی چونکہ وہاں کے لوگوں کی شکایات کی بنا پر اس کے عزل کا سال مؤرخین ۲۹ ہجری سمجھتے ہیں۔<ref> خلیفہ، تاریخ، ج۱، ص۱۶۷؛ طبری، ج۴، ص۲۶۴ـ۲۶۵</ref> ابو موسی نے معزولیت کے بعد خلیفہ کی مزید معاونت سے انکار کیا اور کوفہ میں ساکن ہو گیا۔<ref>ابن سعد، ج۵، ص۴۵</ref> ۵ سال کے بعد کوفیوں نے 34 ہجری میں [[یزید بن قیس]] اور [[مالک اشتر نخعی]] کی قیادت میں [[سعید بن عاص]] کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اسے کوفہ سے باہر نکال کر وہاں امارت ابو موسی کے حوالے کر دی۔ سیف<ref> طبری، ج۴، ص۳۳۲ـ۳۳۱، ۳۳۶</ref> کی روایت کے مطابق باغی عثمان کے خلع کرنے کے در پے تھے لیکن ابو موسی نے عثمان بن عفان کا دفاع کیا اور اپنی حاکمیت کی قبولیت کو عثمان کی دوبارہ بیعت سے مشروط کیا۔ عثمان بن عفان اس بات سے نہایت خوشحال ہوا اور اسے کہا کہ وہ اسے سالوں تک حاکمیت پر باقی رکھے گا۔ اس طرح بار دیگر ابو موسی اشعری حکومت کوفہ کی کرسی پر بیٹھا اور قتل عثمان تک اس عہدے پر باقی رہا۔<ref> ر.ک: ابن سعد، ج۵، ص۳۵ـ۳۴؛ خلیفہ، تاریخ، ج۱، ص۱۸۰؛ بلاذری، انساب، ج۴، ص۵۳۶ـ۵۳۵</ref>


==خلافت حضرت علی(ع) ==
==خلافت حضرت علی(ع) ==
[[علی(ع)]] خلیفہ منتخب ہوئے تو ابو موسی نے ایک خط کے ذریعے کوفے کے لوگوں کی بیعت کا اعلان کیا۔<ref>طبری، ج۴، ص۴۴۳</ref> حضرت علی(ع) عثمان کے مقرر کردہ تمام عمّال کو برطرف کیا لیکن [[مالک اشتر]] کی درخواست پر نہ چاہتے ہوئے بھی اسے باقی رکھا۔<ref>یعقوبی، ج۲، ص۱۷۹؛ طبری، ج۴، ص۴۹۹</ref> اس کے بعد کے واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ابو موسی کی طرف سے حضرت علی کی بیعت رضائے و رغبت سے نہ تھی جیسا کہ [[طلحہ بن عبیداللہ|طلحہ]] و [[زبیر بن عوام|زبیر]] کی طرف سے پیش آنے والے باغیانہ اقدام میں کوفہ کی حاکمیت کے دوران ابو موسی نے کہا تھا کہ حکومت اسی کی ہے جو حکم دے اور غلبہ حاصل کر لے۔<ref>ر.ک: بلاذری، انساب، ج۲، ص۲۱۳</ref>
[[علی(ع)]] خلیفہ منتخب ہوئے تو ابو موسی نے ایک خط کے ذریعے کوفے کے لوگوں کی بیعت کا اعلان کیا۔<ref> طبری، ج۴، ص۴۴۳</ref> حضرت علی(ع) عثمان کے مقرر کردہ تمام عمّال کو برطرف کیا لیکن [[مالک اشتر]] کی درخواست پر نہ چاہتے ہوئے بھی اسے باقی رکھا۔<ref> یعقوبی، ج۲، ص۱۷۹؛ طبری، ج۴، ص۴۹۹</ref> اس کے بعد کے واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ابو موسی کی طرف سے حضرت علی کی بیعت رضائے و رغبت سے نہ تھی جیسا کہ [[طلحہ بن عبیداللہ|طلحہ]] و [[زبیر بن عوام|زبیر]] کی طرف سے پیش آنے والے باغیانہ اقدام میں کوفہ کی حاکمیت کے دوران ابو موسی نے کہا تھا کہ حکومت اسی کی ہے جو حکم دے اور غلبہ حاصل کر لے۔<ref>ر.ک: بلاذری، انساب، ج۲، ص۲۱۳</ref>


===جنگ جمل===   
===جنگ جمل===   
جب حضرت [[علی(ع)]] طلحہ و زبیر کے فتنے سے نپٹنے کیلئے [[بصره]] جانے کیلئے مصمم ہوئے تو آپ نے کوفہ کے نزدیک [[ذی قار]] کے مقام سے [[محمد بن جعفر طیار|محمد بن جعفر]] اور [[محمد بن ابی بکر]] کو کوفہ روانہ کیا تا کہ کوفیوں کو اس غائلہ کے خاتمے کیلئے تیار کریں ابو موسی نے اس جنگی تیاری کے دوران یہ کہہ: آخرت کا راستہ خانہ نشینی میں اور جنگ دنیا طلبی ہے نیز ابھی تو عثمان بن عفان کی بیعت ہماری گردن میں ہے جب تک اس کے قاتلوں کو سزا نہیں دی جاتی ہم کسی سے جنگ نہیں لڑیں گے، اپنے آپ کو جنگ سے علیحدہ کر لیا بلکہ حضرت علی کی جانب سے آنے والوں کو قتل اور قید کرنے کی دھمکی دی۔<ref>طبری، ج۴، ص۴۸۲ـ۴۸۱؛ مفید، ۲۴۳ـ۲۴۲؛ ابن ابی الحدید، ج۱۴، ص۹ـ۸</ref> حضرت علی نے دوبارہ [[عبد اللہ بن عباس]] اور [[مالک اشتر]] کو کوفہ روانہ کیا۔ ابو موسی اشعری نے خود [[پیامبر(ص)]] سے حدیث نقل کی کہ جس کے مطابق ان حالات کو ایسے فتنہ سے تشبیہ دی کہ جس میں لوگوں کو حقیقت کے واضح ہونے تک بے جان جسدوں کی مانند رہنا چاہئے۔<ref>طبری، ج۴، ص۴۸۲ـ۴۸۱</ref>
جب حضرت [[علی(ع)]] طلحہ و زبیر کے فتنے سے نپٹنے کیلئے [[بصره]] جانے کیلئے مصمم ہوئے تو آپ نے کوفہ کے نزدیک [[ذی قار]] کے مقام سے [[محمد بن جعفر طیار|محمد بن جعفر]] اور [[محمد بن ابی بکر]] کو کوفہ روانہ کیا تا کہ کوفیوں کو اس غائلہ کے خاتمے کیلئے تیار کریں ابو موسی نے اس جنگی تیاری کے دوران یہ کہہ: آخرت کا راستہ خانہ نشینی میں اور جنگ دنیا طلبی ہے نیز ابھی تو عثمان بن عفان کی بیعت ہماری گردن میں ہے جب تک اس کے قاتلوں کو سزا نہیں دی جاتی ہم کسی سے جنگ نہیں لڑیں گے، اپنے آپ کو جنگ سے علیحدہ کر لیا بلکہ حضرت علی کی جانب سے آنے والوں کو قتل اور قید کرنے کی دھمکی دی۔<ref> طبری، ج۴، ص۴۸۲ـ۴۸۱؛ مفید، ۲۴۳ـ۲۴۲؛ ابن ابی الحدید، ج۱۴، ص۹ـ۸</ref> حضرت علی نے دوبارہ [[عبد اللہ بن عباس]] اور [[مالک اشتر]] کو کوفہ روانہ کیا۔ ابو موسی اشعری نے خود [[پیامبر(ص)]] سے حدیث نقل کی کہ جس کے مطابق ان حالات کو ایسے فتنہ سے تشبیہ دی کہ جس میں لوگوں کو حقیقت کے واضح ہونے تک بے جان جسدوں کی مانند رہنا چاہئے۔<ref> طبری، ج۴، ص۴۸۲ـ۴۸۱</ref>
تیسری مرتبہ حضرت علی نے اپنے بیٹے [[امام حسن مجتبی|حسن(ع)]] کو اسے معزول کرنے حکم دیا اور ان کے ساتھ [[عمار یاسر]] کو کوفہ بھیجا۔ ابو موسی نے دوباره کوفیوں کو ایک خطبے کے ذریعے اس جھگڑے میں دخالت کرنے سے منع کیا اور اسے قریش کا ایک داخلی معاملہ کہا مزید کہا انہیں یہ خود حل کرنا چاہئے۔ آخر کار امام حسن نے اس کی معزولی کا حکم نامہ سنایا، مالک اشتر نے اسے حکومتی قصر سے باہر نکال دیا اور لوگوں کی مدد سے اس کے اموال کو غارت گیری سے بچایا۔<ref>بلاذری، انساب، ج۲، ص۲۳۱ـ۲۳۰؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۸۱؛ دینوری، ص۱۴۵؛ طبری، ج۴، ص۴۸۷ـ۴۸۶، ۴۹۹ ـ ۵۰۰؛ مفید ص۲۵۳ـ۲۴۳</ref> ایک اور روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کچھ مدت تک پنہاں رہا لیکن بعد میں شاید جنگ جمل کے بعد امام علی نے اسے امان دی۔ <ref>ر.ک: ابن اعثم، ج۴، ص۲</ref>
تیسری مرتبہ حضرت علی نے اپنے بیٹے [[امام حسن مجتبی|حسن(ع)]] کو اسے معزول کرنے حکم دیا اور ان کے ساتھ [[عمار یاسر]] کو کوفہ بھیجا۔ ابو موسی نے دوباره کوفیوں کو ایک خطبے کے ذریعے اس جھگڑے میں دخالت کرنے سے منع کیا اور اسے قریش کا ایک داخلی معاملہ کہا مزید کہا انہیں یہ خود حل کرنا چاہئے۔ آخر کار امام حسن نے اس کی معزولی کا حکم نامہ سنایا، مالک اشتر نے اسے حکومتی قصر سے باہر نکال دیا اور لوگوں کی مدد سے اس کے اموال کو غارت گیری سے بچایا۔<ref>بلاذری، انساب، ج۲، ص۲۳۱ـ۲۳۰؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۸۱؛ دینوری، ص۱۴۵؛ طبری، ج۴، ص۴۸۷ـ۴۸۶، ۴۹۹ ـ ۵۰۰؛ مفید ص۲۵۳ـ۲۴۳</ref> ایک اور روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کچھ مدت تک پنہاں رہا لیکن بعد میں شاید جنگ جمل کے بعد امام علی نے اسے امان دی۔ <ref> ر.ک: ابن اعثم، ج۴، ص۲</ref>


===جنگ صفین===  
===جنگ صفین===  
سطر 66: سطر 66:
=== حَکَم کے لئے ابو موسی کے انتخاب کی وجہ===
=== حَکَم کے لئے ابو موسی کے انتخاب کی وجہ===


واضح ہے ابو موسی کے یمانی ہونے اور اس کی جنگ سے علیحدگی اور لا تعلقی کو حکم منتخب ہونے کی علت سمجھنا چاہئے: شام کے رصافہ اور تدمر  نامی علاقوں کے درمیان [[جنگ عُرض]] ہو رہی تھی۔ وہ ہر ایک کو اس فتنے سے دور رہنے کی ترغیب اور اہل قبلہ سے جنگ کو ناجائز کہہ رہا تھا۔ اسی دوران جب غلام نے آ کر خبر دی کہ لوگوں نے صلح کر لی ہے تواس وقت کہا: خدا کا شکر ہے کہ اس طرح ہوا۔ غلام نے مزید کہا: لوگوں نے تجھے حکم مقرر کیا ہے۔ اس نے اسے قبول کیا اور حضرت علی کے لشکر کی اقامت  گاہ میں آ گیا۔<ref>نصر بن مزاحم،وقعۃ صفین ص۵۰۰</ref> [[امام علی]] نے ایک خطبے میں اس کی متناقض رفتار کی جانب اشارہ کیا ہے۔ <ref>نہج البلاغہ، خطبہ ۲۳۸</ref>
واضح ہے ابو موسی کے یمانی ہونے اور اس کی جنگ سے علیحدگی اور لا تعلقی کو حکم منتخب ہونے کی علت سمجھنا چاہئے: شام کے رصافہ اور تدمر  نامی علاقوں کے درمیان [[جنگ عُرض]] ہو رہی تھی۔ وہ ہر ایک کو اس فتنے سے دور رہنے کی ترغیب اور اہل قبلہ سے جنگ کو ناجائز کہہ رہا تھا۔ اسی دوران جب غلام نے آ کر خبر دی کہ لوگوں نے صلح کر لی ہے تواس وقت کہا: خدا کا شکر ہے کہ اس طرح ہوا۔ غلام نے مزید کہا: لوگوں نے تجھے حکم مقرر کیا ہے۔ اس نے اسے قبول کیا اور حضرت علی کے لشکر کی اقامت  گاہ میں آ گیا۔<ref> نصر بن مزاحم،وقعۃ صفین ص۵۰۰</ref> [[امام علی]] نے ایک خطبے میں اس کی متناقض رفتار کی جانب اشارہ کیا ہے۔ <ref> نہج البلاغہ، خطبہ ۲۳۸</ref>


===واقعۂ حکمیت===
===واقعۂ حکمیت===
ابو موسی اور عمرو عاص دمشق کے نزدیک [[دومۃ الجندل]] میں اکٹھے ہوں اور زیادہ سے زیادہ ایک سال تک [[قرآن|کتاب]] و سنت [[رسول اکرم|رسول خدا(ص)]] کے مطابق اظہار نظر کریں اور اس اعلان کے بعد طرفین کی جانب سے ہمیشہ کی امنیت کی تضمین ہونا چاہئے۔ ابو موسی اور [[عمرو بن عاص|عمروعاص]] نے باہمی چند روز مسلسل گفتگو کی۔ ابو موسی اشعری نے بالآخر علی (ع) اور معاویہ دونوں کو خلافت سے برطرف کرنے اور ان کی جگہ عبد اللہ بن عمر کا نام خلافت کیلئے پیش کیا کہ جس کی عمرو بن عاص نے بھی موافقت۔ لیکن اعلان کے موقع پر عمرو بن عاص نے ابو موسی کو اسلام میں سبقت رکھنے کے حیلے کے ذریعے فریفتہ کیا اور اسے پیش کش کی کہ وہ پہلے اعلان کرے۔ ابو موسی نے پہلے باہمی طے شدہ پروگرام کے مطابق علی کو خلافت سے خلع کرنے کا اعلان کیا لیکن عمرو بن عاص نے بعد میں کہا: ابو موسی نے علی کو خلع کیا اور معاویہ کو خلافت کیلئے منتخب کرنے کا اعلان کیا۔ ابو موسی نے جب دیکھا کہ وہ دھوکہ کھا گیا ہے اس نے عمرو کو دشنام دی اور عمرو نے اسے ناسزا کہا۔ سر انجام ابو موسی نے [[مکہ]] کی راہ لی اور خانۂ خدا میں پناہ لی۔ <ref>برای تفصیل نصر بن مزاحم، ۵۰۷ـ۴۹۹، ۵۳۳ اور اسکے بعد؛ بلاذری، انساب، ج۲، ص۳۳۶ـ۳۴۳، ۳۵۱ـ۳۴۳؛ طبری ج۵ ص۵۴ـ۵۳، ۶۷ کے بعد؛ دینوری ۱۹۳ـ۱۹۲، ۲۰۱ـ۱۹۹؛ یعقوبی ج۲ ص۱۸۹</ref>
ابو موسی اور عمرو عاص دمشق کے نزدیک [[دومۃ الجندل]] میں اکٹھے ہوں اور زیادہ سے زیادہ ایک سال تک [[قرآن|کتاب]] و سنت [[رسول اکرم|رسول خدا(ص)]] کے مطابق اظہار نظر کریں اور اس اعلان کے بعد طرفین کی جانب سے ہمیشہ کی امنیت کی تضمین ہونا چاہئے۔ ابو موسی اور [[عمرو بن عاص|عمروعاص]] نے باہمی چند روز مسلسل گفتگو کی۔ ابو موسی اشعری نے بالآخر علی (ع) اور معاویہ دونوں کو خلافت سے برطرف کرنے اور ان کی جگہ عبد اللہ بن عمر کا نام خلافت کیلئے پیش کیا کہ جس کی عمرو بن عاص نے بھی موافقت۔ لیکن اعلان کے موقع پر عمرو بن عاص نے ابو موسی کو اسلام میں سبقت رکھنے کے حیلے کے ذریعے فریفتہ کیا اور اسے پیش کش کی کہ وہ پہلے اعلان کرے۔ ابو موسی نے پہلے باہمی طے شدہ پروگرام کے مطابق علی کو خلافت سے خلع کرنے کا اعلان کیا لیکن عمرو بن عاص نے بعد میں کہا: ابو موسی نے علی کو خلع کیا اور معاویہ کو خلافت کیلئے منتخب کرنے کا اعلان کیا۔ ابو موسی نے جب دیکھا کہ وہ دھوکہ کھا گیا ہے اس نے عمرو کو دشنام دی اور عمرو نے اسے ناسزا کہا۔ سر انجام ابو موسی نے [[مکہ]] کی راہ لی اور خانۂ خدا میں پناہ لی۔ <ref> برای تفصیل نصر بن مزاحم، ۵۰۷ـ۴۹۹، ۵۳۳ اور اسکے بعد؛ بلاذری، انساب، ج۲، ص۳۳۶ـ۳۴۳، ۳۵۱ـ۳۴۳؛ طبری ج۵ ص۵۴ـ۵۳، ۶۷ کے بعد؛ دینوری ۱۹۳ـ۱۹۲، ۲۰۱ـ۱۹۹؛ یعقوبی ج۲ ص۱۸۹</ref>


حکمیت میں ابو موسی کے کردار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ رای کے لحاظ سست رای رکھنے والا، کوتاہ فکر اور ہوشیار شخص نہیں تھا۔ امام علی(ع) نے بھی اسے لشکریوں کے مجبور کرنے پر اسے [[حکمیت]] کیلئے انتخاب کیا ورنہ [[ابن عباس]] کے مطابق اس میں کوئی ایسی خصوصیت نہیں تھی کہ جس کی بنا پر اسے حکم کے معاملے میں دوسروں پر فضیلت دی جاتی۔<ref>مسعودی، ج۲، ص۳۹۵</ref>
حکمیت میں ابو موسی کے کردار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ رای کے لحاظ سست رای رکھنے والا، کوتاہ فکر اور ہوشیار شخص نہیں تھا۔ امام علی(ع) نے بھی اسے لشکریوں کے مجبور کرنے پر اسے [[حکمیت]] کیلئے انتخاب کیا ورنہ [[ابن عباس]] کے مطابق اس میں کوئی ایسی خصوصیت نہیں تھی کہ جس کی بنا پر اسے حکم کے معاملے میں دوسروں پر فضیلت دی جاتی۔<ref> مسعودی، ج۲، ص۳۹۵</ref>


== معاویہ کا زمانہ==
== معاویہ کا زمانہ==


اس کی زندگی کے آخری ایام کی خبر۴۰ قمری کے اس وقت کی طرف لوٹتی ہے کہ جب [[معاویہ بن ابو سفیان|معاویہ]] کی طرف سے [[بسر بن ارطاة]] کو یہ فریضہ سونپا گیا کہ وہ حکمیت کے نہائی اعلان کو قبول نہ کرنے والوں سے بیعت لے۔ ابو موسی معاویہ کے اس حکم سے  [[مکہ]] میں ہراساں ہوا لیکن بُسر نے اسے امان دی۔<ref>طبری، ج۵، ص۱۳۹</ref> بعد میں اس نے خلافت معاویہ کی بیعت کر لی اور وہ شام میں معاویہ کے پاس آتا جاتا رہتا لیکن معاویہ اس سے بے اعتنائی برتتا اور اس نے کبھی اس کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ <ref>بلاذری، انساب، ج۴، ص۴۳، ۴۸ـ۴۷؛ طبری، ج۵، ص۳۳۲</ref>
اس کی زندگی کے آخری ایام کی خبر 40 ہجری کے اس وقت کی طرف لوٹتی ہے کہ جب [[معاویہ بن ابو سفیان|معاویہ]] کی طرف سے [[بسر بن ارطاة]] کو یہ فریضہ سونپا گیا کہ وہ حکمیت کے نہائی اعلان کو قبول نہ کرنے والوں سے بیعت لے۔ ابو موسی معاویہ کے اس حکم سے  [[مکہ]] میں ہراساں ہوا لیکن بُسر نے اسے امان دی۔<ref> طبری، ج۵، ص۱۳۹</ref> بعد میں اس نے خلافت معاویہ کی بیعت کر لی اور وہ شام میں معاویہ کے پاس آتا جاتا رہتا لیکن معاویہ اس سے بے اعتنائی برتتا اور اس نے کبھی اس کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ <ref> بلاذری، انساب، ج۴، ص۴۳، ۴۸ـ۴۷؛ طبری، ج۵، ص۳۳۲</ref>


==وفات==
==وفات==
ابو موسی کی تاریخ وفات ۴۲، ۴۴، ۵۰، ۵۲، ۵۳، ہجری قمری ذکر کرتے ہیں۔ <ref>ابن سعد، ج۴، ص۱۱۶؛ خلیفہ، الطبقات، ج۱، ص۱۵۶؛ طبری، ج۵، ص۲۴۰</ref> [[ذہبی]]<ref>سیر، ج۲، ص۳۹۸</ref> لیکن اس کی وفات [[ذی الحجہ]] اور سال ۴۴ میں ہونے کو واقعیت کے نزدیک تر سمجھتے ہیں۔ وفات کے وقت اس کا سن ۶۳ سال تھا۔<ref>ابن حبان، ج۳، ص۲۲۲؛ حاکم، ج۳، ص۴۶۴</ref> مقام وفات اور مقام دفن میں ([[کوفہ]] ہے یا [[مکہ]]) میں بھی اختلاف ہے۔<ref>خلیفہ، الطبقات، ج۱، ص۱۵۶؛ ابن عبدالبر، ج۴، ص۱۷۶۴؛ ابو اسحاق، ص۲۵</ref> اگرچہ قدیمی مآخذ کوفے میں جہاں اس کا گھر تھا اسے مقام وفات کہتے ہیں۔ <ref>بلاذری، انساب، ج۴، ص۲۸۰</ref>
ابو موسی کی تاریخ وفات 42، 44، 50، 52، 53، ہجری ذکر کرتے ہیں۔<ref> ابن سعد، ج۴، ص۱۱۶؛ خلیفہ، الطبقات، ج۱، ص۱۵۶؛ طبری، ج۵، ص۲۴۰</ref> [[ذہبی]]<ref> سیر، ج۲، ص۳۹۸</ref> لیکن اس کی وفات [[ذی الحجہ]] اور سال 44 میں ہونے کو واقعیت کے نزدیک تر سمجھتے ہیں۔ وفات کے وقت اس کا سن ۶۳ سال تھا۔<ref> ابن حبان، ج۳، ص۲۲۲؛ حاکم، ج۳، ص۴۶۴</ref> مقام وفات اور مقام دفن میں ([[کوفہ]] ہے یا [[مکہ]]) میں بھی اختلاف ہے۔<ref> خلیفہ، الطبقات، ج۱، ص۱۵۶؛ ابن عبدالبر، ج۴، ص۱۷۶۴؛ ابو اسحاق، ص۲۵</ref> اگرچہ قدیمی مآخذ کوفے میں جہاں اس کا گھر تھا اسے مقام وفات کہتے ہیں۔ <ref> بلاذری، انساب، ج۴، ص۲۸۰</ref>


==اشعری خاندان==
==اشعری خاندان==


اس کا بیٹا ابو بُرده [[حجاج بن یوسف]] کا کوفے میں قاضی تھا اور ابوبُرده کا  بیٹا بلال نیز  [[بصره]] میں قضاوت کے مقام پر تھا۔<ref>ابن حبیب، ص۳۷۸؛ ابن قتیبہ، المعارف، ص۵۸۹</ref> اس کے خاندان کا اہم ترین شخص [[ابوالحسن اشعری]] تھا جو اپنے زمانے کا مشہور متکلم تھا اور اس کا نسب ۸ واسطوں سے ابو موسی تک پہنچتا ہے۔ <ref>ر.ک سمعانی، ج۱، ص۲۶۷ـ۲۶۶</ref>
اس کا بیٹا ابو بُرده [[حجاج بن یوسف]] کا کوفے میں قاضی تھا اور ابوبُرده کا  بیٹا بلال نیز  [[بصره]] میں قضاوت کے مقام پر تھا۔<ref> ابن حبیب، ص۳۷۸؛ ابن قتیبہ، المعارف، ص۵۸۹</ref> اس کے خاندان کا اہم ترین شخص [[ابو الحسن اشعری]] تھا جو اپنے زمانے کا مشہور متکلم تھا اور اس کا نسب 8 واسطوں سے ابو موسی تک پہنچتا ہے۔<ref> ر.ک سمعانی، ج۱، ص۲۶۷ـ۲۶۶</ref>


==خصوصیات==
==خصوصیات==
[[اہل سنت]] اور [[امامیہ]] کے تاریخی اور حدیثی مآخذوں میں اس کی شخصیت کے متعلق مختلف آرا پائی جاتی ہیں :
[[اہل سنت]] اور [[امامیہ]] کے تاریخی اور حدیثی مآخذوں میں اس کی شخصیت کے متعلق مختلف آرا پائی جاتی ہیں :
* بعض روایات کے مطابق اس کے اور اس کی قوم کے حق میں مدح کی آیت نازل ہوئی تھی۔ <ref>ابن سعد، ج۴، ص۱۰۷</ref> اسی طرح اسے رسول کے عالم ترین ۶ اصحاب میں سے ایک سمجھا گیا۔ <ref>بخاری، التاریخ، ۳ (۱) /۲۲؛ ذہبی، سیر، ج۲، ص۳۸۹ـ۳۸۸</ref> اور عمر بن خطاب کی خلافت میں اسے ان اشخاص میں کہا گیا ہے جس سے لوگ فقہ حاصل کرتے تھے۔<ref>یعقوبی، ج۲، ص۱۶۱</ref>
* بعض روایات کے مطابق اس کے اور اس کی قوم کے حق میں مدح کی آیت نازل ہوئی تھی۔ <ref> ابن سعد، ج۴، ص۱۰۷</ref> اسی طرح اسے رسول کے عالم ترین 6 اصحاب میں سے ایک سمجھا گیا۔ <ref> بخاری، التاریخ، ۳ (۱) /۲۲؛ ذہبی، سیر، ج۲، ص۳۸۹ـ۳۸۸</ref> اور عمر بن خطاب کی خلافت میں اسے ان اشخاص میں کہا گیا ہے جس سے لوگ فقہ حاصل کرتے تھے۔<ref> یعقوبی، ج۲، ص۱۶۱</ref>
* لیکن اس کے مقابلے میں علمائے [[امامیہ]] کے یہاں اس کے بارے میں [[رسول اللہ]] اور [[آئمہ معصومین]] کی سخت تعبریں استعمال ہوئی ہیں اور اسے ان افراد میں گنا گیا ہے کہ جن پر [[حضرت علی]] نے حکمیت کے واقعے کے بعد دعائے قنوت میں لعن کی۔<ref>ر.ک: ابن بابویہ، الخصال، ص۴۸۵، ۴۹۹؛ عیون، ج۲، ص۱۲۶؛ الایضاح ص۶۴ـ۶۱</ref>
* لیکن اس کے مقابلے میں علمائے [[امامیہ]] کے یہاں اس کے بارے میں [[رسول اللہ]] اور [[آئمہ معصومین]] کی سخت تعبریں استعمال ہوئی ہیں اور اسے ان افراد میں گنا گیا ہے کہ جن پر [[حضرت علی]] نے حکمیت کے واقعے کے بعد دعائے قنوت میں لعن کی۔<ref>ر.ک: ابن بابویہ، الخصال، ص۴۸۵، ۴۹۹؛ عیون، ج۲، ص۱۲۶؛ الایضاح ص۶۴ـ۶۱</ref>
*کہا گیا ہے کہ وہ خوش لحن تھا اور [[قرآن]] دلکش  آواز میں تلاوت کرتا تھا۔ <ref>ر.ک: ابن سعد، ج۴، ص۱۰۹ـ۱۰۷؛ ابو زرعه، ج۱، ص۲۳۱؛ حاکم، ج۳، ص۴۶۶؛ ذہبی، سیر، ج۲، ص۳۸۲، ۳۹۲ـ۳۹۱، ۳۹۸</ref>
*کہا گیا ہے کہ وہ خوش لحن تھا اور [[قرآن]] دلکش  آواز میں تلاوت کرتا تھا۔<ref> ر.ک: ابن سعد، ج۴، ص۱۰۹ـ۱۰۷؛ ابو زرعه، ج۱، ص۲۳۱؛ حاکم، ج۳، ص۴۶۶؛ ذہبی، سیر، ج۲، ص۳۸۲، ۳۹۲ـ۳۹۱، ۳۹۸</ref>


===روایت حدیث===
===روایت حدیث===
ابو موسی نے رسول اللہ سے کئی موضوعات میں روایتیں نقل کی ہیں۔<ref>ر.ک: احمد بن حنبل، ج۴، ص۴۱۹ـ۳۹۱</ref> [[ذہبی]]<ref>ذہبی، المعین، ص۲۴</ref> ابو موسی کو [[محدث|محدثین]] اور ان چند افراد میں سے سمجھتے ہیں جنہوں نے [[رسول خدا]] کے سامنے [[قرآن]] کی قرات کی۔ <ref>ر.ک: سیر، ج۲، ص۳۸۱</ref> ابو موسی سے بہت سے روات نے روایت نقل کی ہے ان میں سے [[انس بن مالک]]، [[ابو سعید خدری]]، [[ابو امامہ باہلی]]، [[بریدہ بن حصیب|بریدہ اسلمی]]، [[عبد الرحمان بن نافع]]، [[سعید بن مسیب]]، [[زید بن وہب]] اور دیگر افراد کے نام لئے جا سکتے ہیں۔<ref>ابن ابی حاتم، ۲ (۲) ص۱۳۸؛ ذہبی، المعین، ص۲۴</ref>
ابو موسی نے رسول اللہ سے کئی موضوعات میں روایتیں نقل کی ہیں۔<ref> ر.ک: احمد بن حنبل، ج۴، ص۴۱۹ـ۳۹۱</ref> [[ذہبی]]<ref> ذہبی، المعین، ص۲۴</ref> ابو موسی کو [[محدث|محدثین]] اور ان چند افراد میں سے سمجھتے ہیں جنہوں نے [[رسول خدا]] کے سامنے [[قرآن]] کی قرات کی۔<ref>ر.ک: سیر، ج۲، ص۳۸۱</ref> ابو موسی سے بہت سے روات نے روایت نقل کی ہے ان میں سے [[انس بن مالک]]، [[ابو سعید خدری]]، [[ابو امامہ باہلی]]، [[بریدہ بن حصیب|بریدہ اسلمی]]، [[عبد الرحمان بن نافع]]، [[سعید بن مسیب]]، [[زید بن وہب]] اور دیگر افراد کے نام لئے جا سکتے ہیں۔<ref> ابن ابی حاتم، ۲ (۲) ص۱۳۸؛ ذہبی، المعین، ص۲۴</ref>


== حوالہ جات==
== حوالہ جات==
سطر 101: سطر 101:


* نہج البلاغہ.
* نہج البلاغہ.
* ابن ابی حاتم رازی، عبدالرحمان، الجرح و التعدیل، حیدرآباد دکن، ۱۳۷۲، ق/ ۱۹۵۳م.
* ابن ابی حاتم رازی، عبد الرحمان، الجرح و التعدیل، حیدر آباد دکن، ۱۳۷۲، ق/ ۱۹۵۳ء
* ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نہج البلاغہ، کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۷۹ق/۱۹۵۹م.
* ابن ابی الحدید، عبد الحمید، شرح نہج البلاغہ، کوشش محمد ابو الفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۷۹ق/۱۹۵۹ء
* ابن اعثم کوفی، احمد، فتوح، حیدرآباد دکن، ۱۳۹۱ق/۱۹۷۱م.
* ابن اعثم کوفی، احمد، فتوح، حیدر آباد دکن، ۱۳۹۱ق/۱۹۷۱ء
* ابن بابویہ، محمد، الخصال، کوشش علی اکبر غفاری، تہران، ۱۴۰۳ق/۱۳۶۲ش.
* ابن بابویہ، محمد، الخصال، کوشش علی اکبر غفاری، تہران، ۱۴۰۳ق/۱۳۶۲ش.
* ابن بابویہ، عیون اخبارالرضا(ع)، نجف ۱۳۹۰ق/۱۹۷۰م
* ابن بابویہ، عیون اخبارالرضا (ع)، نجف ۱۳۹۰ق/۱۹۷۰ء
* ابن حبان، محمد، ثقات، حیدرآباد دکن، ۱۳۹۷ق/۱۹۴۲م.
* ابن حبان، محمد، ثقات، حیدر آباد دکن، ۱۳۹۷ق/۱۹۴۲ء
* ابن حبیب، محمد، المحبر، کوشش لیشتن اشتتر، حیدرآباد دکن، ۱۳۶۱ق/۱۹۴۲م.
* ابن حبیب، محمد، المحبر، کوشش لیشتن اشتتر، حیدرآباد دکن، ۱۳۶۱ق/۱۹۴۲ء
* ابن حزم، علی، جمہرۃ انساب العرب، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م.
* ابن حزم، علی، جمہرۃ انساب العرب، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ء
* ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارصادر.
* ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر.
* ابن عبدالبر، یوسف، الاستیعاب، کوشش علی محمد بجاوی، قاہرہ، ۱۳۸۰ق/۱۹۶۰م.
* ابن عبد البر، یوسف، الاستیعاب، کوشش علی محمد بجاوی، قاہرہ، ۱۳۸۰ق/۱۹۶۰ء
* ابن عبد ربہ، احمد، العقد الفرید، کوشش احمد امین و دیگران، قاہرہ، ۱۹۴۰ق/۱۹۵۳م.
* ابن عبد ربہ، احمد، العقد الفرید، کوشش احمد امین و دیگران، قاہرہ، ۱۹۴۰ق/۱۹۵۳ء
* ابن عماد، عبدالحی، شدرات الذہب، قاہرہ، ۱۳۵۰ق.
* ابن عماد، عبدالحی، شدرات الذہب، قاہرہ، ۱۳۵۰ق.
* ابن قتیبہ، عبدالله، عیون الاخبار، قاہرہ، ۱۳۴۳ق/۱۹۲۵م.
* ابن قتیبہ، عبدالله، عیون الاخبار، قاہرہ، ۱۳۴۳ق/۱۹۲۵ء
* ابن قتیبہ، المعارف، کوشش ثروت عکاشہ، قاہرہ، ۱۹۶۰م.
* ابن قتیبہ، المعارف، کوشش ثروت عکاشہ، قاہرہ، ۱۹۶۰ء
* ابن ہاشم، عبدالملک، السیرة النبویة، کوشش ابراهیم ابیاری و دیگران، قاہرہ، ۱۳۷۵ق/۱۹۵۵م.
* ابن ہاشم، عبدالملک، السیرة النبویة، کوشش ابراهیم ابیاری و دیگران، قاہرہ، ۱۳۷۵ق/۱۹۵۵ء
* ابواسحاق شیرازی، ابراہیم، طبقات الفقہاء، کوشش احسان عباس، بیروت، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۰م.
* ابواسحاق شیرازی، ابراہیم، طبقات الفقہاء، کوشش احسان عباس، بیروت، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۰ء
* ابوزرعه دمشقی، عبدالرحمان، تاریخ، کوشش شکر الله قوچانی، دمشق، ۱۴۰۰ق/۱۹۸۰م.
* ابوزرعه دمشقی، عبدالرحمان، تاریخ، کوشش شکر الله قوچانی، دمشق، ۱۴۰۰ق/۱۹۸۰ء
* ابویوسف، یعقوب، الخراج، بیروت، دارالمعرفہ.
* ابویوسف، یعقوب، الخراج، بیروت، دار المعرفہ.
* احمد بن حنبل، مسند، قاہرہ، ۱۳۱۳ق.
* احمد بن حنبل، مسند، قاہرہ، ۱۳۱۳ق.
* الایضاح، منسوب ابن شاذان، کوشش جلال الدین محدث ارموی، تہران، ۱۳۵۰ش.
* الایضاح، منسوب ابن شاذان، کوشش جلال الدین محدث ارموی، تہران، ۱۳۵۰ش.
* بخاری، محمد، التاریخ الکبیر، حیدرآباد دکن، ۱۳۷۷ق/۱۹۵۸م.
* بخاری، محمد، التاریخ الکبیر، حیدرآباد دکن، ۱۳۷۷ق/۱۹۵۸ء
* بخاری، محمد، صحیح، بولاق، ۱۳۱۵ق.
* بخاری، محمد، صحیح، بولاق، ۱۳۱۵ق.
* بلاذری، احمد، انساب الاشراف، ج۱، کوشش محمد حمیدالله، قاہرہ، ۱۹۵۹م، ج۲، کوشش محمد باقر محمودی، بیروت، ۱۳۹۴ق/۱۹۷۳م، ج۴ (۱)، کوشش احسان عباس، بیروت، ۱۴۰۰ق/۱۹۷۹م.
* بلاذری، احمد، انساب الاشراف، ج۱، کوشش محمد حمیدالله، قاہرہ، ۱۹۵۹م، ج۲، کوشش محمد باقر محمودی، بیروت، ۱۳۹۴ق/۱۹۷۳م، ج۴ (۱)، کوشش احسان عباس، بیروت، ۱۴۰۰ق/۱۹۷۹ء
* بلاذری، احمد، فتوح البلدان، کوشش رضوان محمد رضوان، بیروت، ۱۹۷۸م.
* بلاذری، احمد، فتوح البلدان، کوشش رضوان محمد رضوان، بیروت، ۱۹۷۸ء
* جاحظ، البیان و التبیین، کوشش فوزی عطری، بیروت، ۱۹۶۸م.
* جاحظ، البیان و التبیین، کوشش فوزی عطری، بیروت، ۱۹۶۸ء
* حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، ۱۳۹۸ق.
* حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، ۱۳۹۸ق.
* خلیفه بن خیاط، تاریخ، کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۹۶۸م.
* خلیفه بن خیاط، تاریخ، کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۹۶۸ء
* خلیفه بن خیاط، طبقات، کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۹۶۶م.
* خلیفه بن خیاط، طبقات، کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۹۶۶ء
* دینوری، احمد، اخبارالطوال، کوشش عبدالمنعم عامر، قاہرہ، ۱۳۷۹ق/۱۹۵۹م.
* دینوری، احمد، اخبارالطوال، کوشش عبدالمنعم عامر، قاہرہ، ۱۳۷۹ق/۱۹۵۹ء
* ذہبی، محمد، تاریخ الاسلام، واقعات سال: ۱۱ـ ۴۰ ق، کوشش عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۷م.
* ذہبی، محمد، تاریخ الاسلام، واقعات سال: ۱۱ـ ۴۰ ق، کوشش عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۷ء
* ذہبی، محمد، سیراعلام النبلاء، کوشش شعیب ارنووط و دیگران، بیروت، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۶.
* ذہبی، محمد، سیراعلام النبلاء، کوشش شعیب ارنووط و دیگران، بیروت، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۶ء
* ذہبی، محمد، المعین فی طبقات المحدثین، کوشش همام عبدالرحیم سعید، اردن، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۴م.
* ذہبی، محمد، المعین فی طبقات المحدثین، کوشش همام عبدالرحیم سعید، اردن، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۴ء
* زیاب خویی، عباس، بزم آورد، تہران، ۱۳۶۸ش.
* زیاب خویی، عباس، بزم آورد، تہران، ۱۳۶۸ش.
* سمعانی، عبدالکریم، الانساب، حیدرآباد دکن، ۱۳۸۲ق/۱۹۶۲م.
* سمعانی، عبدالکریم، الانساب، حیدرآباد دکن، ۱۳۸۲ق/۱۹۶۲ء
* طبری، تاریخ.
* طبری، تاریخ.
* قدامہ بن جعفر، الخراج و صناعۃ الکتابہ، کوشش جلال الدین تہرانی، تہران، ۱۳۱۳ش.
* قدامہ بن جعفر، الخراج و صناعۃ الکتابہ، کوشش جلال الدین تہرانی، تہران، ۱۳۱۳ش.
* مسعودی، علی، مروج الذہب، کوشش یوسف اسعد داغر، بیروت، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م.
* مسعودی، علی، مروج الذہب، کوشش یوسف اسعد داغر، بیروت، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵ء
* مفید، محمد، الجمل، کوشش کلمان ہوار، پیرس، ۱۸۹۹م.
* مفید، محمد، الجمل، کوشش کلمان ہوار، پیرس، ۱۸۹۹ء
* نصربن مزاحم، وقعہ صفین، کوشش عبدالسلام محمد ہارون، قاہرہ، ۱۳۸۲ق.
* نصربن مزاحم، وقعہ صفین، کوشش عبدالسلام محمد ہارون، قاہرہ، ۱۳۸۲ق.
* واقدی، محمد، المغازی، کوشش مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶م.
* واقدی، محمد، المغازی، کوشش مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶ء
* وکیع، محمد، اخبارالقضاة، بیروت، ۱۹۵۰م.
* وکیع، محمد، اخبارالقضاة، بیروت، ۱۹۵۰ء
* یعقوبی، احمد، تاریخ، نجف، ۱۳۵۸ق.
* یعقوبی، احمد، تاریخ، نجف، ۱۳۵۸ق.
{{col-end}}
{{col-end}}
گمنام صارف