مندرجات کا رخ کریں

"حمزہ بن موسی الکاظم" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 5: سطر 5:


==نسب و ولادت==
==نسب و ولادت==
حمزہ کے والد ساتویں امام حضرت [[موسی بن جعفر الکاظم]] (ع) اور ان کی والدہ کتاب منتخب التواریخ کے مولف کے مطابق ام احمد تھیں۔ اس قول کی بنیاد پر حمزہ، حضرت [[احمد بن موسی]]، جن کا لقب [[شاہ چراغ]] ہیں، کے بھائی ہیں۔ اور ایک دوسرے قول کے مطابق ان کے والدہ ام ولد تھیں۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم ذکر ہوئی ہے۔
حمزہ کے والد ساتویں امام حضرت [[موسی بن جعفر الکاظم]] (ع) اور ان کی والدہ کتاب منتخب التواریخ کے مولف کے مطابق ام احمد تھیں۔ اس قول کی بنیاد پر حمزہ، حضرت [[احمد بن موسی]]، جن کا لقب [[شاہ چراغ]] ہیں، کے بھائی ہیں۔ اور ایک دوسرے قول کے مطابق ان کے والدہ ام ولد تھیں۔<ref>انس الکتبی الحسنی، ص۱۱۲</ref> آپ کی کنیت ابوالقاسم ذکر ہوئی ہے۔


تاریخی منابع میں آپ کے بارے میں اطلاعات اور مطالب کم ہونے کی وجہ سے آپ کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں کوئی اطلاع موجود نہیں ہے۔
تاریخی منابع میں آپ کے بارے میں اطلاعات اور مطالب کم ہونے کی وجہ سے آپ کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں کوئی اطلاع موجود نہیں ہے۔
سطر 14: سطر 14:
ھذا قبر خیر رجل من ولد موسی بن جعفر (ع)
ھذا قبر خیر رجل من ولد موسی بن جعفر (ع)


شاہ عبد العظیم حسنی اپنی تمام تر جلالت و قدر و منزلت کے ساتھ مستقل ان کی زیارت کو جاتے تھے اور وہاں مدفون شخصیت کا تعارف اپنے مورد اطمینان اصحاب اور شاگرد کے طور پر کراتے تھے۔  
شاہ عبد العظیم حسنی اپنی تمام تر جلالت و قدر و منزلت کے ساتھ مستقل ان کی زیارت کو جاتے تھے اور وہاں مدفون شخصیت کا تعارف اپنے مورد اطمینان اصحاب اور شاگرد کے طور پر کراتے تھے۔<ref>بحارالانوار، ج۴۸، ص۳۱۲</ref>


چوتھی صدی ہجری کے ایک دانشمند صاحب بن عباد کی طرف ایک رسالہ منسوب ہے جو انہوں نے حضرت شاہ عبد العظیم حسنی (ع) کے سلسلہ میں تالیف کیا تھا، اس میں انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
چوتھی صدی ہجری کے ایک دانشمند صاحب بن عباد کی طرف ایک رسالہ منسوب ہے جو انہوں نے حضرت شاہ عبد العظیم حسنی (ع) کے سلسلہ میں تالیف کیا تھا، اس میں انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref>مستدرک الوسایل، محدث نوری، ج۱۳، ص۶۱۲ و۶۱۳</ref>


ضامن بن شدقم ان کے سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں:
ضامن بن شدقم ان کے سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں:


ایک ایسے فاضل دانشمند تھے جو دین کا تحفظ کرتے تھے، جلیل القدر، عالی رتبہ اور بلند مرتبہ تھے۔ جن کے اقتدار اور عزت کا شہرہ زبانزد خاص و عام تھا۔ عوام کے مختلف طبقوں میں ایک غیر معمولی اور خاص محبوبیت و مقبولیت کے حامل تھے۔  
ایک ایسے فاضل دانشمند تھے جو دین کا تحفظ کرتے تھے، جلیل القدر، عالی رتبہ اور بلند مرتبہ تھے۔ جن کے اقتدار اور عزت کا شہرہ زبانزد خاص و عام تھا۔ عوام کے مختلف طبقوں میں ایک غیر معمولی اور خاص محبوبیت و مقبولیت کے حامل تھے۔<ref>تحفةالازهار جلد دوم، قسم دوم، ۳۲۲</ref>


[[علامہ مجلسی]] اپنی کتاب تحفۃ الزائر میں تحریر کرتے ہیں:
[[علامہ مجلسی]] اپنی کتاب تحفۃ الزائر میں تحریر کرتے ہیں:
سطر 28: سطر 28:
[[محدث قمی]] آپ کی شان میں فرماتے ہیں:  
[[محدث قمی]] آپ کی شان میں فرماتے ہیں:  


یقینا حمزہ بن موسی (ع) ایک جلیل القدر سید تھے۔ اور جناب شاہ عبد العظیم حسنی کے جوار میں ایک قبر ہے جس پر شاندار قبہ موجود ہے وہ آپ کی طرف منسوب ہے اور مومنین کی زیارت گاہ ہے۔
یقینا حمزہ بن موسی (ع) ایک جلیل القدر سید تھے۔ اور جناب شاہ عبد العظیم حسنی کے جوار میں ایک قبر ہے جس پر شاندار قبہ موجود ہے وہ آپ کی طرف منسوب ہے اور مومنین کی زیارت گاہ ہے۔<ref>منتهی الامال، ج۳ ص۱۵۶۷</ref>


[[نجاشی]] کی روایت میں ذکر ہوا ہے کہ جس وقت حضرت شاہ عبد العظیم حسنی شہر ری میں عباسیوں اور ان کے کارندوں کی نظروں سے بچ کر خفیہ طور پر زندگی گزار رہے تھے۔ دن میں آپ روزہ رکھتے تھے اور شب میں نماز میں مشغول رہتے تھے اور خفیہ طور پر باہر نکلتے تھے اور ایک قبر کی زیارت کو جاتے تھے اور فرماتے تھے: یہ قبر امام [[موسی بن جعفر]] کی اولاد میں سے ایک فرزند کی ہے۔
[[نجاشی]] کی روایت میں ذکر ہوا ہے کہ جس وقت حضرت شاہ عبد العظیم حسنی شہر ری میں عباسیوں اور ان کے کارندوں کی نظروں سے بچ کر خفیہ طور پر زندگی گزار رہے تھے۔ دن میں آپ روزہ رکھتے تھے اور شب میں نماز میں مشغول رہتے تھے اور خفیہ طور پر باہر نکلتے تھے اور ایک قبر کی زیارت کو جاتے تھے اور فرماتے تھے: یہ قبر امام [[موسی بن جعفر]] کی اولاد میں سے ایک فرزند کی ہے۔<ref>منتهی الآمال، حاج شیخ عباس قمی، ج۳ ص۱۵۶۷</ref>


==شہادت یا وفات==
==شہادت یا وفات==
آپ کی تاریخ شہادت کے سلسلہ میں کوئی معتبر اطلاع دسترس میں نہیں ہے، آپ کی حیات پر لکھے جانے والے مصادر میں اس موضوع کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے اور علمائ و مورخین نے اس بارے میں کوئی تحقیق انجام نہیں دی ہے۔
آپ کی تاریخ شہادت کے سلسلہ میں کوئی معتبر اطلاع دسترس میں نہیں ہے، آپ کی حیات پر لکھے جانے والے مصادر میں اس موضوع کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے اور علمائ و مورخین نے اس بارے میں کوئی تحقیق انجام نہیں دی ہے۔
   
   
بعض روایات کے مطابق، مامون کی طرف داری کرنے والے ایک گروہ نے آپ کے خلاف شورش برپا کرکے آپ کو قتل کر ڈالا اور آپ کے جاننے والوں اور دوستوں نے آپ کو ری کے ایک باغ میں دفن کر دیا۔  
بعض روایات کے مطابق، مامون کی طرف داری کرنے والے ایک گروہ نے آپ کے خلاف شورش برپا کرکے آپ کو قتل کر ڈالا اور آپ کے جاننے والوں اور دوستوں نے آپ کو ری کے ایک باغ میں دفن کر دیا۔<ref>خاک پاکان، ص۳۱۴</ref>


[[سید محسن امین عاملی]] اپنی کتاب [[اعیان الشیعہ]] میں [[بحار الانوار]] سے نقل کرتے ہیں:  
[[سید محسن امین عاملی]] اپنی کتاب [[اعیان الشیعہ]] میں [[بحار الانوار]] سے نقل کرتے ہیں:  


حمزہ بن موسی علیہ السلام اپنے بھائی [[امام علی رضا علیہ السلام]] کی خدمت کے لئے خراسان کی طرف محو سفر تھے۔ آپ ہمیشہ امام کی خدمت میں منہمک رہتے تھے اور امام کے ضروری امور کو انجام دینے کی سعی کرتے تھے۔ جب آپ سوسمر (ایک قریہ کا نام ہے جس کے محل وقوع کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے) نامی مقام پر پہچے تو مامون کے کاروندوں میں سے بعض نے ان پر حملہ کر دیا اور انہیں قتل کر ڈالا۔ آپ کے بھائی امام رضا علیہ السلام نے آپ کو ایک باغ میں دفن کیا۔  
حمزہ بن موسی علیہ السلام اپنے بھائی [[امام علی رضا علیہ السلام]] کی خدمت کے لئے خراسان کی طرف محو سفر تھے۔ آپ ہمیشہ امام کی خدمت میں منہمک رہتے تھے اور امام کے ضروری امور کو انجام دینے کی سعی کرتے تھے۔ جب آپ سوسمر (ایک قریہ کا نام ہے جس کے محل وقوع کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے) نامی مقام پر پہچے تو مامون کے کاروندوں میں سے بعض نے ان پر حملہ کر دیا اور انہیں قتل کر ڈالا۔ آپ کے بھائی امام رضا علیہ السلام نے آپ کو ایک باغ میں دفن کیا۔<ref>امین، ج۶ ص۲۵۱</ref>


==اولاد==
==اولاد==
'''علی:''' انتقال کے وقت لا ولد تھے، شہر شیراز میں باب اسطخر میں مدفون ہیں۔  
'''علی:''' انتقال کے وقت لا ولد تھے، شہر شیراز میں باب اسطخر میں مدفون ہیں۔<ref>سراج الانساب، ۷۶</ref>


'''قاسم:''' قاسم اعرابی کے نام سے معروف تھے، ان کی نسل سے بہت سے سادات باقی ہیں۔
'''قاسم:''' قاسم اعرابی کے نام سے معروف تھے، ان کی نسل سے بہت سے سادات باقی ہیں۔<ref>فخر رازی،۹۶؛ الفخری، ص۲۰</ref>
   
   
'''حمزہ:''' ان کی نسل سے بہت سے سادات خراسان و بلخ میں باقی ہیں، شاہان صفویہ حمزہ بن حمزہ کی اولاد میں سے تھے۔  
'''حمزہ:''' ان کی نسل سے بہت سے سادات خراسان و بلخ میں باقی ہیں، شاہان صفویہ حمزہ بن حمزہ کی اولاد میں سے تھے۔<ref>فخررازی، ۹۶؛ الفخری، ص۲۰</ref>


==آپ سے منسوب روضے==
==آپ سے منسوب روضے==
سطر 52: سطر 52:


==ری کے روضہ پر موجود قرائن==
==ری کے روضہ پر موجود قرائن==
محمد حسین حسینی جلالی اپنی کتاب مزارات اھل و تایخھا میں تحریر کرتے ہیں: شہر ری میں [[سید عبد العظیم حسنی]] کے سکونت اختیار کرنے کے دلائل میں سے ایک حمزہ بن موسی الکاظم علیہ السلام ہیں۔ یہ واقعیت ان کے زیارت نامہ میں اس طرح سے بیان ہوئی ہے: اے موسی بن جعفر (ع) کی اولاد میں سے بہترین کی زیارت کرنے والے۔  
محمد حسین حسینی جلالی اپنی کتاب مزارات اھل و تایخھا میں تحریر کرتے ہیں: شہر ری میں [[سید عبد العظیم حسنی]] کے سکونت اختیار کرنے کے دلائل میں سے ایک حمزہ بن موسی الکاظم علیہ السلام ہیں۔ یہ واقعیت ان کے زیارت نامہ میں اس طرح سے بیان ہوئی ہے: اے موسی بن جعفر (ع) کی اولاد میں سے بہترین کی زیارت کرنے والے۔<ref>خاک پاکان، محمد حسین حسینی جلالی، ترجمه: قربان علی اسماعیلی، ص۳۱۴</ref>


بعض روایات کے مطابق، مامون کی طرف داری کرنے والے ایک گروہ نے آپ کے خلاف شورش برپا کرکے آپ کو قتل کر ڈالا اور آپ کے جاننے والوں اور دوستوں نے آپ کو ری کے ایک باغ میں دفن کر دیا۔  
بعض روایات کے مطابق، مامون کی طرف داری کرنے والے ایک گروہ نے آپ کے خلاف شورش برپا کرکے آپ کو قتل کر ڈالا اور آپ کے جاننے والوں اور دوستوں نے آپ کو ری کے ایک باغ میں دفن کر دیا۔  


حرز الدین کہتے ہیں: حمزہ کا مقبرہ شہر ری میں معروف اور مشہور ہے اور وہ سید عبد العظیم حسنی کے جنوبی رواق کی سمت میں واقع ہے۔ اس کے اوپر ایک بلند و استوار گنبد اور قیمتی ضریح موجود ہے۔ کسی کے لئے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ حمزہ بن موسی بن جعفر (ع) کے روضے کے سلسلے میں مختلف شہروں کے روضات کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔ جن میں سے مشہور ترین روضوں میں شہر ری کا روضہ ہے۔ ان کا شمار علمائ، بزرگان، فقہائ اور متقی انسان میں ہوتا ہے۔انہوں نے اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کی امامت کو قبول کیا تھا، وہ مدینہ میں امام کی خدمت بجا لاتے تھے اور امام کے حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ ان کا شمار امام رضا (ع) کے اصحاب میں ہوتا ہے اور آپ سفر و حضر میں امام کی خدمت بجا لاتے تھے۔  
حرز الدین کہتے ہیں: حمزہ کا مقبرہ شہر ری میں معروف اور مشہور ہے اور وہ سید عبد العظیم حسنی کے جنوبی رواق کی سمت میں واقع ہے۔ اس کے اوپر ایک بلند و استوار گنبد اور قیمتی ضریح موجود ہے۔ کسی کے لئے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ حمزہ بن موسی بن جعفر (ع) کے روضے کے سلسلے میں مختلف شہروں کے روضات کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔ جن میں سے مشہور ترین روضوں میں شہر ری کا روضہ ہے۔ ان کا شمار علمائ، بزرگان، فقہائ اور متقی انسان میں ہوتا ہے۔انہوں نے اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کی امامت کو قبول کیا تھا، وہ مدینہ میں امام کی خدمت بجا لاتے تھے اور امام کے حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ ان کا شمار امام رضا (ع) کے اصحاب میں ہوتا ہے اور آپ سفر و حضر میں امام کی خدمت بجا لاتے تھے۔<ref>مراقد المعارف، حرزالدین، ج۱، ص۲۶۲ و۲۶۷</ref>


خوانساری نے اپنی کتاب روضات الجنات میں اور رضا قلی خان ھدایت نے اپنی تالیف روضۃ الصفای ناصری میں حمزہ کا روضہ شہر ری میں تحریر کیا ہے۔  
خوانساری نے اپنی کتاب روضات الجنات میں<ref>مراقد المعارف، حرزالدین،ج۴، ص۲۱۲</ref> اور رضا قلی خان ھدایت نے اپنی تالیف روضۃ الصفای ناصری میں<ref>مراقد المعارف، حرزالدین ج۱۱، ص۶۳۴</ref> حمزہ کا روضہ شہر ری میں تحریر کیا ہے۔  


سید عبد الرزاق کمونہ حسینی تحریر کرتے ہیں: شہر ری میں حمزہ بن موسی کا روضہ واقع ہے جیسا کہ سید مھدی قزوینی نے اپنی تالیف فلک النجاۃ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔  
سید عبد الرزاق کمونہ حسینی تحریر کرتے ہیں: شہر ری میں حمزہ بن موسی کا روضہ واقع ہے جیسا کہ سید مھدی قزوینی نے اپنی تالیف فلک النجاۃ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔  


ان محقق اور ماہر نسب کے قول کے مطابق، حمزہ ایک فاضل اور پرہیز گار انسان تھے اور وہ اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کی صادقانہ پیروی کرتے تھے اور ہمیشہ ان کی رضایت کے طلبگار تھے۔  
ان محقق اور ماہر نسب کے قول کے مطابق، حمزہ ایک فاضل اور پرہیز گار انسان تھے اور وہ اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کی صادقانہ پیروی کرتے تھے اور ہمیشہ ان کی رضایت کے طلبگار تھے۔<ref>ق کمونه حسینی، ترجمه عبدالعلی صاحبی، ص۱۲۹</ref>


===دوسرے شواہد===
===دوسرے شواہد===
سطر 77: سطر 77:
جس وقت قریہ کے لوگ میرے پاس ملاقات کے لئے آئے تو وہ سید بھی ان کے ساتھ تھے، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ آپ رات میں میرے پاس اور آپ نے مجھے اس حقیقت سے آگاہ کیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو اس حقیقت کا علم کیسے اور کہاں سے ہوا؟ انہوں نے جواب دیا: خدا کی قسم، میں رات میں آپ کے پاس نہیں آیا بلکہ آج میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور کل کی شب تو میں بستی میں تھا ہی نہیں بلکہ باہر گیا ہوا تھا۔  
جس وقت قریہ کے لوگ میرے پاس ملاقات کے لئے آئے تو وہ سید بھی ان کے ساتھ تھے، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ آپ رات میں میرے پاس اور آپ نے مجھے اس حقیقت سے آگاہ کیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو اس حقیقت کا علم کیسے اور کہاں سے ہوا؟ انہوں نے جواب دیا: خدا کی قسم، میں رات میں آپ کے پاس نہیں آیا بلکہ آج میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور کل کی شب تو میں بستی میں تھا ہی نہیں بلکہ باہر گیا ہوا تھا۔  


مجھے شک نہیں ہے کہ وہ شخص جو سحر کے وقت میرے پاس تشریف لائے تھے وہ [[امام زمانہ علیہ السلام]] تھے اور ان کی فرمان یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ امام زادہ حمزہ بن موسی علیہ السلام شہر ری میں مدفون ہیں۔
مجھے شک نہیں ہے کہ وہ شخص جو سحر کے وقت میرے پاس تشریف لائے تھے وہ [[امام زمانہ علیہ السلام]] تھے اور ان کی فرمان یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ امام زادہ حمزہ بن موسی علیہ السلام شہر ری میں مدفون ہیں۔<ref>محمد شریف رازی، ص۵۸ و ۵۹</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
گمنام صارف