مندرجات کا رخ کریں

"حمزہ بن موسی الکاظم" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 35: سطر 35:


==شہادت یا وفات==
==شہادت یا وفات==
آپ کی تاریخ شہادت کے سلسلہ میں کوئی معتبر اطلاع دسترس میں نہیں ہے، آپ کی حیات پر لکھے جانے والے مصادر میں اس موضوع کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے اور علمائ و مورخین نے اس بارے میں کوئی تحقیق انجام نہیں دی ہے۔
بعض روایات کے مطابق، مامون کی طرف داری کرنے والے ایک گروہ نے آپ کے خلاف شورش برپا کرکے آپ کو قتل کر ڈالا اور آپ کے جاننے والوں اور دوستوں نے آپ کو ری کے ایک باغ میں دفن کر دیا۔
[[سید محسن امین عاملی]] اپنی کتاب [[اعیان الشیعہ]] میں [[بحار الانوار]] سے نقل کرتے ہیں:
حمزہ بن موسی علیہ السلام اپنے بھائی [[امام علی رضا علیہ السلام]] کی خدمت کے لئے خراسان کی طرف محو سفر تھے۔ آپ ہمیشہ امام کی خدمت میں منہمک رہتے تھے اور امام کے ضروری امور کو انجام دینے کی سعی کرتے تھے۔ جب آپ سوسمر (ایک قریہ کا نام ہے جس کے محل وقوع کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے) نامی مقام پر پہچے تو مامون کے کاروندوں میں سے بعض نے ان پر حملہ کر دیا اور انہیں قتل کر ڈالا۔ آپ کے بھائی امام رضا علیہ السلام نے آپ کو ایک باغ میں دفن کیا۔
==اولاد==
'''علی:''' انتقال کے وقت لا ولد تھے، شہر شیراز میں باب اسطخر میں مدفون ہیں۔
'''قاسم:''' قاسم اعرابی کے نام سے معروف تھے، ان کی نسل سے بہت سے سادات باقی ہیں۔
'''حمزہ:''' ان کی نسل سے بہت سے سادات خراسان و بلخ میں باقی ہیں، شاہان صفویہ حمزہ بن حمزہ کی اولاد میں سے تھے۔
==آپ سے منسوب روضے==
ایران اور دوسرے ممالک میں بہت سے روضے حمزہ بن موسی الکاظم علیہ السلام سے منسوب ہیں۔ جن میں سے بعض یہ ہیں: کاشمر، ماہ شہر اور ھندیجان کے درمیان، شیراز، بوانات فارس، کازرون، قم، اسفراین، سیرجان کرمان، حلہ، شیروان، کاخران (شمال اردبیل سے تین کیلو میٹر کے فاصلہ پر)، تبریز، قزوین اور شہر ری۔
==ری کے روضہ پر موجود قرائن==
محمد حسین حسینی جلالی اپنی کتاب مزارات اھل و تایخھا میں تحریر کرتے ہیں: شہر ری میں [[سید عبد العظیم حسنی]] کے سکونت اختیار کرنے کے دلائل میں سے ایک حمزہ بن موسی الکاظم علیہ السلام ہیں۔ یہ واقعیت ان کے زیارت نامہ میں اس طرح سے بیان ہوئی ہے: اے موسی بن جعفر (ع) کی اولاد میں سے بہترین کی زیارت کرنے والے۔
بعض روایات کے مطابق، مامون کی طرف داری کرنے والے ایک گروہ نے آپ کے خلاف شورش برپا کرکے آپ کو قتل کر ڈالا اور آپ کے جاننے والوں اور دوستوں نے آپ کو ری کے ایک باغ میں دفن کر دیا۔
حرز الدین کہتے ہیں: حمزہ کا مقبرہ شہر ری میں معروف اور مشہور ہے اور وہ سید عبد العظیم حسنی کے جنوبی رواق کی سمت میں واقع ہے۔ اس کے اوپر ایک بلند و استوار گنبد اور قیمتی ضریح موجود ہے۔ کسی کے لئے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ حمزہ بن موسی بن جعفر (ع) کے روضے کے سلسلے میں مختلف شہروں کے روضات کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔ جن میں سے مشہور ترین روضوں میں شہر ری کا روضہ ہے۔ ان کا شمار علمائ، بزرگان، فقہائ اور متقی انسان میں ہوتا ہے۔انہوں نے اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کی امامت کو قبول کیا تھا، وہ مدینہ میں امام کی خدمت بجا لاتے تھے اور امام کے حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ ان کا شمار امام رضا (ع) کے اصحاب میں ہوتا ہے اور آپ سفر و حضر میں امام کی خدمت بجا لاتے تھے۔
خوانساری نے اپنی کتاب روضات الجنات میں اور رضا قلی خان ھدایت نے اپنی تالیف روضۃ الصفای ناصری میں حمزہ کا روضہ شہر ری میں تحریر کیا ہے۔
سید عبد الرزاق کمونہ حسینی تحریر کرتے ہیں: شہر ری میں حمزہ بن موسی کا روضہ واقع ہے جیسا کہ سید مھدی قزوینی نے اپنی تالیف فلک النجاۃ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ان محقق اور ماہر نسب کے قول کے مطابق، حمزہ ایک فاضل اور پرہیز گار انسان تھے اور وہ اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کی صادقانہ پیروی کرتے تھے اور ہمیشہ ان کی رضایت کے طلبگار تھے۔
===دوسرے شواہد===
ایک عالم دین اپنے والد کا قول نقل کرتے ہیں: میں عراق کے شہر حلہ کے اطراف میں تبلیغ کے لئے گیا ہوا تھا۔ وہاں پر ایک مزار ہے جو حمزہ بن موسی الکاظم کے نام سے معروف ہے۔
لوگ ان کے سلسلہ میں کرامات نقل کرتے ہیں، میں ان کی زیارت کے لئے گیا کیونکہ میرے نزدیک ثابت ہو چکا تھا کہ ان کا روضہ شہر ری ہے۔
ایک قریہ کے لوگوں نے مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ میں ان کی زیارت کے لئے جاوں تو میں انہیں جواب دیا کہ میں جس روضہ کے بارے میں نہیں جانتا ہوں اس کی زیارت کے لئے نہیں جاتا ہوں۔ میرے انکار کی وجہ سے لوگوں کی رغبت اس روضہ کی زیارت کے سلسلہ میں کم ہوگئی۔
اس شب اچانک ایک سید میرے پاس آئے، سلام کیا اور میرے پاس بیٹھ کر گویا ہوئے: مولانا، کل آپ حمزہ بن موسی الکاظم کے علاقہ میں مومنین کے مہمان تھے لیکن آپ وہاں زیارت کے لئے نہیں گئے؟ میں نے کہا: ہاں، تو انہوں نے پوچھا کیوں؟ میں نے کہا: میں انہیں نہیں پہچانتا ہوں، میرے خیال میں حمزہ بن موسی الکاظم (ع) کا روضہ شہر ری میں ہے تو انہوں نے کہا: بہت سی باتیں مشہور ہو جاتی ہیں جبکہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ یہ حمزہ کی قبر نہیں ہے بلکہ ابو علی حمزہ بن قاسم علوی عباسی کی قبر ہے جو حضرت ابو الفضل العباس کی اولاد میں سے ہیں، وہ صاحب اجازہ علما اور محدثین میں سے ہیں، سوانح نگار علما نے ان کے علم اور تقوی کی تعریف کی ہے۔
جب صبح ہوئی اور میں نے رجال کی کتابوں کا مطالعہ کیا تو پایا کہ ان سید کی بات صحیح تھی اور یہ روضہ ابو علی حمزہ بن قاسم علوی کا ہے۔
جس وقت قریہ کے لوگ میرے پاس ملاقات کے لئے آئے تو وہ سید بھی ان کے ساتھ تھے، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ آپ رات میں میرے پاس اور آپ نے مجھے اس حقیقت سے آگاہ کیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو اس حقیقت کا علم کیسے اور کہاں سے ہوا؟ انہوں نے جواب دیا: خدا کی قسم، میں رات میں آپ کے پاس نہیں آیا بلکہ آج میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور کل کی شب تو میں بستی میں تھا ہی نہیں بلکہ باہر گیا ہوا تھا۔
مجھے شک نہیں ہے کہ وہ شخص جو سحر کے وقت میرے پاس تشریف لائے تھے وہ [[امام زمانہ علیہ السلام]] تھے اور ان کی فرمان یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ امام زادہ حمزہ بن موسی علیہ السلام شہر ری میں مدفون ہیں۔
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات|2}}
==منابع==
* امین سید محسن، اعیان الشیعه، بیروت، دارالتعارف، ۱۴۰۶.
* حسینی جلالی محمد حسین، خاک پاکان، ترجمه: قربان علی اسماعیلی، ص۳۱۴.
* رازی محمد شریف، اختران فروزان ری و تهران، ص۵۸و۵۹.
* ضامن بن شدقم، تحفه الازهار، تحقیق کامل سلمان الجبوری، تهران، دفتر نشر مکتوب، ۱۳۷۸.
* فخررازی، الشجره المبارکه فی انساب الطالبیه، قم، منشورات کتابخانه آیه الله مرعشی، ۱۴۰۹ق.
* قمی شیخ عباس، منتهی الامال، تحقیق ناصر باقری بیدهندی، انتشارات دلیل، قم، ۱۳۷۹.
* الکتبی الحسنی انس، الاصول فی ذریه البضه الرسول، مدینه، دارالمجتبی، ۱۴۲۰ق.
* کمونه حسینی سید عبدالرزاق، آرامگاه‌های خاندان پاک پیامبر و بزرگان
* صحابه و تابعین، ترجمه عبد العلی صاحبی، ص۱۲۹.
* گیلانی، سید احمد بن محمد بن عبدالرحمن، سراج الانساب، منشورات کتابخانه آیه الله مرعشی، قم، ۱۴۰۹.
* مروزی الازورقانی اسماعیل، الفخری فی انساب الطالبین، قم، منشورات کتابخانه آیه الله مرعشی، ۱۰۴۹ق.
گمنام صارف