مندرجات کا رخ کریں

"صارف:E.musavi" کے نسخوں کے درمیان فرق

15,412 بائٹ کا ازالہ ،  10 اگست 2017ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
عبد الکریم حائری یزدی (۱۲۷۶۔ ۱۳۵۵ ق) آیت اللہ، موسس اور حاج شیخ کے نام سے معروف شیعہ مراجع تقلید میں ہیں۔ حوزہ علمیہ قم کے بانی و موسس اور ۱۳۰۱ سے ۱۳۱۵ ش تک اس کے زعیم رہے  ہیں۔


حائری نے ایک طویل مدت تک کربلا و سامرا و نجف کے حوزات علمیہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ سن ۱۳۳۳ ق مطابق ۱۲۹۳ ش میں ہمیشہ کے لئے ایران لوٹ آئے اور ابتدائ میں حوزہ علمیہ اراک کی مدیریت میں مشغول ہوئے۔ آیت اللہ حائری ۱۳۴۰ ق (۱۳۰۰ ش) میں قم کے علمائ کی دعوت پر قم آ گئے اور حوزہ علمیہ قم کی تشکیل و تاسیس اور اس کی مدیریت کے سبب وہیں قیام پذیر ہو گئے۔
ناصر مکارم شیرازی (متولد ۱۳۰۵ ش) شیعہ مراجع تقلید میں سے ہیں اور قم میں فقہ و اصول فقہ کے درس خارج کے اساتذہ میں شامل ہیں۔ ان کا نام ان سات مراجع تقلید کی فہرست میں آتا ہے جسے جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم نے سن ۱۳۷۳ ش میں پیش کیا تھا۔ مکارم شیرازی نے جوانی کے ایام سے ہی کتابوں کی تالیف کا آغاز کر دیا تھا، ۱۳۹۰ ش کی دہائی تک ان کی تالیف و طبع شدہ کتب کی تعداد سو تک پہچ چکی تھی۔ وہ مجلہ مکتب اسلام کے مدیروں میں سے خاص طور پر ایران میں اسلامی اسلامی کی کامیابی سے پہلے، رہ چکے ہیں۔ تفسیر نمونہ، عصر حاضر کی مھم ترین تفاسیر قرآن مجید میں سے ایک ہے جسے ایک گروہ نے ان کی سرپرستی میں تالیف کیا ہے۔ مکارم شیرازی ایسے فتاوی کے مالک ہیں جو فقہ شیعہ امامیہ میں کم سابقہ ہیں، جیسے سگریٹ نوشی کی حرمت اور عدم نجاست ذاتی کفار۔ دینی مدارس جیسے مدرسہ علمیہ امام کاظم (ع)، تحقیقاتی ادارے جیسے مرکز تخصصی شیعہ شناسی، اور اسی طرح سے سٹیلائٹ ٹی وی چینل ولایت ان اداروں میں شامل ہیں جو ان کے دفتر کی طرف سے چلائے جا رہے ہیں۔
 
شیخ حائری اپنی زعامت کے زمانہ میں ہر چیز سے زیادہ حوزہ علمیہ کے ثبات اور ترقی و ارتقائ کے نظام کے سلسلہ میں فکرمند رہتے تھے۔ حوزہ کی تعلیمی روش میں تبدیلی، ابواب فقہی کا تخصصی کرنا، حوزہ کے طلاب کی سطح علمی کو بلند کرنا، حتی خارجی زبانوں کی تعلیم دینا، خلاصہ یہ کہ محقق و مجتہد تربیت کرنا ان کے اہداف میں شامل تھا۔
 
شیخ حائری نے خود کو مراجع تقلید کی فہرست میں شامل نہیں کیا اور سید محمد کاظم یزدی (۱۳۳۷ ق ۔ ۱۲۹۸ ش) کی رحلت کے بعد انہوں نے عتبات عالیات کی زیارت پر جانے اور مرجعیت کے منصب کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ایران میں قیام کرنے کو اپنا فریضہ سمجھا۔ اس کے باوجود قم میں ان کی شہرت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ہی بہت سے ایرانیوں حتی دوسرے ممالک کے افراد نے بھی ان کی تقلید کرنا شروع کر دی۔ 
 
حائری سیاست سے پرہیز کرتے تھے اور انقلاب مشروطہ کے معاملات میں بھی انہوں نے دوری اختیار کی لیکن اپنے سماجی مقام کے سبب آخر عمر میں سیاست میں حصہ لینے پر مجبور پر انہیں مجبور ہونا پڑا اور ۱۳۱۴ ش میں کشف حجاب کے مسئلہ پر انہوں نے اعتراض کیا اور جب تک زندہ رہے رضا شاہ سے ان کے روابط خراب رہے۔
 
ان کے بعض شاگرد جن میں امام خمینی، محمد علی اراکی، سید محمد رضا موسوی گلپایگانی، شریعت مداری اور خوانساری شامل ہیں، مرجعیت کے مقام و منصب تک پہچے۔ شیخ حائرہ سماجی امور میں بھی فعال تھے۔ ان کے منجملہ عام المنفعہ و رفاہی کاموں میں قم کے سہامیہ ہاسپیٹل کی تاسیس اور فاطمی ہاسپیٹل کی تعمیر کی طرف تشویق کرنا شامل ہے۔
 
نسب، ولادت، وفات و اولاد
 
عبد الکریم حائری ۱۲۷۶ ق میں میبد کے علاقہ مہرجرد کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد جعفر کو ایک دیندار اور پرہیز گار انسان بتایا گیا ہے۔
 
ان کے پانچ بچے تھے دو بیٹے جن کے اسمائ مرتضی اور مہدی ہیں، اور تین بیٹیاں جن کی شادیاں محمد تویسرکانی، احمد ہمدانی اور سید محمد محقق داماد سے ہوئیں۔
 
شیخ حائری کی وفات ۱۷ ذی القعدہ ۱۳۵۵ ق (۱۰ بہمن ۱۳۵۵ ش) میں قم میں تقریبا ۱۵ سال قیام کرنے کے بعد ہوئی۔ حکومت کی طرف سے محدودیت ایجاد کئے جانے کے باوجود ان کی جنازہ کی شان کے ساتھ تشییع ہوئی اور آیت اللہ سید صادق قمی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے حرم میں مسجد بالای سر میں دفن کیا گیا۔
 
تعلیم
 
ایران
 
شیخ عبد الکریم حائری کے خالو میر ابو جعفر نے ان میں بے پناہ استعداد دیکھی تو وہ انہیں اپنے ساتھ اپنے شہر اردکان لے گئے اور مکتب میں ان کا داخلہ کرایا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور وہ اپنی والدہ کے پاس مہرجرد میں رہے۔
 
کچھ مدت کے بعد وہ یزد گئے اور مدرسہ محمد تقی خان جو مدرسہ خان کے نام سے معروف تھا، میں سکونت اختیار کی اور وہاں سید حسین وامق، سید یحیی بزرگ جو مجتہد یزدی کے نام سے معروف تھے، جیسے علمائ سے ادبیات عرب پڑھی۔
 
عراق
 
انہوں نے اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے ۱۲۹۸ ق میں اپنی والدہ کے ہمراہ عراق کا سفر کیا۔ پہلے وہ کربلا گئے اور وہاں تقریبا دو سال تک فاضل اردکانی کے زیر نظر اس سلسلہ کو آگے بڑھایا۔ فقہ و اصول فقہ کے سطوح کے دروس کو وہاں پڑھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے تعلیمی سلسلہ کو آگے اور میرزا محمد حسن شیرازی سے استفادہ کرنے کے لئے سامرا کا رخ کیا۔
 
سامرا میں عبد الکریم حائری کا دورہ تعلیمی ۱۳۰۰ سے ۱۳۱۲ ق پر محیط ہے جس میں پہلے دو سے تین سال انہوں نے سطوح عالی کے فقہ و اصول کے دروس شیخ فضل اللہ نوری، میرزا ابراہیم محلاتی زیرازی، میرزا مہدی شیرازی جیسے اساتذہ کے محضر میں مکمل کئے۔ اس کے بعد فقہ و اصول کے درس خارج کے لئے سید محمد فشارکی اصفہانی اور میرزا محمد تقی شیرازی اور کچھ مدت تک میرزا محمد حسن شیرازی کے دروس میں شرکت کی اور میرزا حسین نوری کے اجازہ روایت حاصل کیا۔
 
سید محمد فشارکی اور عبد الکریم حائری نے میرزای بزرگ (متوفی ۱۳۱۲ ق) کے انتقال کے چند ماہ کے بعد سامرا سے نجف اشرف نقل مکان کیا۔ حائری نجف اشرف میں سید محمد فشارکی اور آخوند خراسانی کے دروس میں شرکت کیا کرتے تھے اور وہ سید محمد فشارکی کے آخر عمر میں ان کی دیکھ بھال اور مراقبت کیا کرتے تھے۔
 
ایران واپسی
 
عبد الکریم حائری سید محمد فشارکی کی رحلت کے بعد ۱۳۱۶ ق میں ایران واپس آ گئے اور سلطان آباد (موجودہ اراک) میں انہوں نے حوزہ درس تشکیل دیا۔
 
عراق کا دوبارہ سفر
 
۱۳۲۴ ق میں عبد الکریم حائری حوزہ اراک کی فعالیت میں استقلال نہ ہونے اور انقلاب مشروطہ کی وجہ حالات نا امن ہونے کے سبب نجف واپس لوٹ گئے اور دوبارہ آخوند خراسانی کے درس میں شریک ہونے لگے اور ان کے علاوہ سید محمد کاظم طباطبایی یزدی درس میں بھی شرکت کرتے رہے۔ البتہ وہ انقلاب مشروطہ کے موافقین و مخالفین کے اختلاف و نزاع سے دور رہنے کی غرض سے کچھ ماہ کے بعد کربلا چلے گئے۔
 
وہ تقریبا ۸ سال تک کربلا میں رہے اور اسی زمانہ میں وہ حائری کے لقب سے ملقب ہوئے۔ انہوں نے کربلا میں تدریس کرنا شروع کر دی اور مشروطہ کے سلسلہ کی صف آرایی سے محفوظ رہنے اور اس معاملہ میں اپنی بے طرفی ثابت کرنے کی غرض سے ایک کتاب آخوند خراسانی کی اور ایک کتاب سید محمد کاظم یزدی کی تدریس کیا کرتے تھے۔
 
ایران واپسی
 
ان کے کربلا میں قیام کے دوران ان سے اراک لوٹ آنے سلسلہ میں کئی بار درخواست کی جاری رہی۔ آخر کار وہ اپریل ۱۳۳۳ ق مطابق ۱۲۹۳ ش میں اراک پلٹ آئے اور آٹھ سال کے قیام کے زمانہ میں انہوں نے وہاں حوزہ چلانے کے ساتھ ساتھ فقہ و اصول کی تدریس بھی جاری رکھی۔
 
عبد الکریم حائری نے میرزا محمد تقی شیرازی کے خط کے جواب میں جو انہوں نے سید محمد کاظم یزدی طباطبایی (۱۳۳۷ ق۔ ۱۲۹۸ ش) کے انتقال کے بعد انہیں تحریر کیا تھا اور جس میں انہوں نے ان سے نجف اشرف لوٹ آنے اور منصب مرجعیت کے لئے مہیا ہونے کو کہا تھا، ایران میں قیام کو اپنا فریضہ بتایا اور انہوں نے ایران اور اہل ایران کو گمراہی اور انحطاط فکری کے راستے پر گامزن ہونے کے خدشہ اور تشویس کا اظہار کیا۔
 
حوزہ علمیہ قم کی تاسیس
 
۱۳۳۷ ق میں عبد الکریم حائری نے امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کے قصد سے مشہد مقدس کا سفر کیا اور راستہ میں کچھ دن قم میں قیام کیا اور اس شہر کے حالات اور حوزہ علمیہ سے متعارف ہوئے۔
 
ماہ رجب ۱۳۴۰ ق میں انہوں نے ایک بار پھر قم کے بعض علمائ کی دعوت پر اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے قصد سے قم کا سفر کیا۔ وہاں وہ علمائ اور مومنین کے استقبال اور قم میں قیام کرنے کی خواہش سے روبرو ہوئے۔ پہلے تو وہ کشمکش کا شکار ہوئے لیکن پھر بعد میں انہوں نے بعض علمائ خاص طور پر محمد تقی بافقی کے اسرار پر فیصلہ استخارہ پر چھوڑا اور استخارہ کرنے کے بعد انہوں میں قم میں قیام کرنے کا ارادہ کر لیا۔ اور وہ ارادہ قم میں عظیم حوزہ علمیہ کی تاسیس کا سبب بنا اور عبد الکریم حائری کو آیت اللہ اور موسس کا لقب دیا گیا۔
 
سید محمد تقی خوانساری کے علاوہ جو ان کے ہمراہ قم آئے تھے، ان کے بہت سے شاگرد جن میں سید احمد خوانساری، سید روح اللہ خمینی، سید محمد رضا گلپایگانی اور محمد علی اراکی شامل ہیں، قم منتقل ہو گئے۔
 
سید ابو الحسن اصفہانی اور میرزا محمد حسین نائینی، جنہوں نے ۱۳۰۲ ش میں عراق سے جلا وطن ہونے کے بعد تقریبا آٹھ ماہ قم میں قیام کیا۔ انہوں نے بھی حوزہ علمیہ قم کے استحکام اور ثبات میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔
 
حوزہ علمیہ قم کی شہرت ہونے اور وہاں علمائ و اساتذہ اور مختلف حوزات کے طلاب اور جدید طلاب کے وارد ہونے کی وجہ طلاب کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہو گئے۔
 
عبد الکریم حائری چونکہ شیعوں کے بزرگ حوزات علمیہ سامرا، نجف اور کربلا سے آشنائی رکھتے تھے اور انہیں ان کے مدیریت کے شیوہ اور روش، سابقہ ذمہ داران کی خامی و خوبی کی اطلاع تھی اور وہ اراک کے حوزہ میں اس کا تجربہ حاصل کر چکے تھے، اور وہ ہر چیز سے زیادہ حوزہ کے ثبات اور ارتقائ کے سلسلہ میں فکر اور پلاننگ کرتے تھے۔ حوزہ کی تعلیمی روش میں تبدیلی، ابواب فقہی کا تخصصی کرنا، حوزہ کے طلاب کی سطح علمی کو بلند کرنا، حتی خارجی زبانوں کی تعلیم دینا، خلاصہ یہ کہ محقق و مجتہد تربیت کرنا ان کے اہداف میں شامل تھا۔
 
مرجعیت
 
حالانکہ شیخ عبد الکریم حائری نے کبھی بھی خود کو معرض مرجعیت میں قرار نہیں دیا بلکہ انہوں نے حوزہ عراق کے علمی ماحول کو ترک کرکے اس سے فاصلہ اختیار کر لیا تھا۔ ۱۳۳۷ ش سے ۱۳۳۹ ش تک سید محمد کاظم یزدی، شیخ الشریعہ اصفہانی اور محمد تقی شیرازی کے ارتحال کے بعد تک حائری اراک میں مقیم تھے اور بعض افراد جو مرجع تقلید کی تلاش میں تھے انہوں نے ان کی طرف رجوع کیا۔
 
ان کے قم کی طرف ہجرت اور وہاں سے ان کی شہرت میں اضافہ ہونے کے بعد سے رفتہ رفتہ ان کے مقلدین کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا اور یہاں تک کہ بہت سے ایرانی حتی غیر ایرانی اور دوسرے ممالک کے افراد جیسے عراقی و لبنانی ان کی تقلید کرنے لگے۔
 
شیوہ تدریس
 
شیخ عبد الکریم حائری حوزہ علمیہ سامرا کے مکتب کی روش اور میرزای شیرازی کی روش سے الہام لیتے ہوئے تدریس کیا کرتے تھے۔ اس روش کے مطابق، کسی مسئلہ کو پیش کرنے کے بعد، اس پر بغیر کسی طرح کا اظہار نظر کئے بغیر، پہلے مختلف نظریات اور ان کے دلائل کا بیان ہوتا پھر استاد شاگردوں سے نظر خواہی کرتا اور ان سے تبادلہ خیال کرنے کے بعد، تمام آرائ و نظریات کی جمع بندی پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد اپنا نظریہ پیش کرتا ہے اور آخر میں شاگردوں کو اجازہ ہوتی تھی کہ وہ استاد کے نظریہ پر بحث اور اس پر اعتراض اور تنقید کریں۔
 
اسی طرح وہ روزانہ اگلے درس کے موضوع کے بارے میں اطلاع دے دیتے تھے، موضوع درس معین کر دیتے تھے تا کہ طلاب اس کا پہلے سے مطالعہ کرکے کلاس میں حاضر ہوں۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ اصول فقہ کے مباحث مختصر اور عملی طور پر ذکر کئے جائیں۔ اسی سبب سے انہوں نے اپنی تالیف درر الاصول میں اسی روش پر عمل کیا ہے اور وہ اصول فقہ کا مکمل دورہ چار سال کی مدت میں مکمل کر لیتے تھے۔
 
اساتذہ
 
عبد الکریم حائری نے اپنی زندگی میں بڑے نامور اساتذہ سے استفادہ کیا ہے۔ ان کے بعض اساتذہ درج ذیل ہیں:
 
میرزا حسین نوری
شیخ فضل الله نوری
سید محمد فشارکی
میرزا محمد تقی شیرازی
میرزا محمد حسن شیرازی
آخوند خراسانی
میرزا مهدی شیرازی
فاضل اردکانی
سید محمد کاظم طباطبایی
 
شاگرد
 
عبد الکریم حائری کے دروس سے ایسے علمائ کی تربیت ہوئی جن میں سے بعض اپنے دور میں مرجعیت کے مقام تک پہچے ہیں۔ ذیل میں ان کے شاگردوں کا ذکر کیا جا رہا ہے:
 
  علی اکبر کاشانی
  مصطفی کشمیری
  احمد مازندرانی
  سید صدر الدین صدر
  میرزا هاشم آملى
  محمد علی اراکی
  سید احمد حسینی زنجانی
  سید روح الله موسوی خمینی
  سید احمد خوانساری
  سید محمد تقی خوانساری
  سید محمد داماد
  سید ابوالحسن رفیعی قزوینی
  سید کاظم شریعت مداری
  سید کاظم گلپایگانی
  سید محمد رضا گلپایگانی
  ملا علی معصومی همدانی
  سید شهاب ‌الدین مرعشی نجفی
  سید رضا موسوی زنجانی
گمنام صارف