مندرجات کا رخ کریں

"سید مرتضی" کے نسخوں کے درمیان فرق

13,544 بائٹ کا اضافہ ،  19 جنوری 2017ء
م
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 91: سطر 91:


===سید مرتضی کی سیاسی تفکرات میں سلاطین کا کردار===
===سید مرتضی کی سیاسی تفکرات میں سلاطین کا کردار===
سید مرتضی نے ایک رسالہ میں "فی العمل مع السلطان" کے عنوان سے حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنے کے جواز سے متعلق جواب<ref> شفیعی، رسالہ فی العمل مع السلطان.</ref> دیا ہے۔ عادل حکمران کہ جو در واقع امام معصوم ہوا کرتا ہے ان کے ساتھ تعاون کرنے میں تو کوئی شک و شبہہ نہیں ہے لیکن سید مرتضی اور دیگر شیعہ فقہاء نے جس مسئلے کو مطرح کیا ہے وہ یہ تھا کہ آیا عصر [[غیبت]] میں کسی حکومتی عہدے کو قبول کرنا جائز ہے یا نہیں؟ سید مرتضی کی نظر میں ظالم حکمران کے ساتھ تعاون کرنا اگر عقلا اور شرعا کوئی فائدہ رکھتا ہو یعنی یہ شخص اس عہدے کی ذریعے کسی ظلم کو روک سکتا ہو یا عدل قائم کر سکتا ہو یا الہی احکام کو جاری کر سکتا ہو تو جائز ہے۔<ref>علیخانی و ہمکاران، اندیشہ سیاسی متفکران مسلمان، ج۲ ، ص۱۵۴-۱۵۵ ، ۱۶۰-۱۶۱.</ref>  
سید مرتضی نے ایک رسالہ میں "فی العمل مع السلطان" کے عنوان سے حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنے کے جواز سے متعلق جواب<ref> شفیعی، رسالہ فی العمل مع السلطان.</ref> دیا ہے۔ عادل حکمران کہ جو در واقع امام معصوم ہوا کرتا ہے ان کے ساتھ تعاون کرنے میں تو کوئی شک و شبہہ نہیں ہے لیکن سید مرتضی اور دیگر شیعہ فقہاء نے جس مسئلے کو مطرح کیا ہے وہ یہ تھا کہ آیا عصر [[غیبت امام زمانہ|غیبت]] میں کسی حکومتی عہدے کو قبول کرنا جائز ہے یا نہیں؟ سید مرتضی کی نظر میں ظالم حکمران کے ساتھ تعاون کرنا اگر عقلا اور شرعا کوئی فائدہ رکھتا ہو یعنی یہ شخص اس عہدے کی ذریعے کسی ظلم کو روک سکتا ہو یا عدل قائم کر سکتا ہو یا الہی احکام کو جاری کر سکتا ہو تو جائز ہے۔<ref>علیخانی و ہمکاران، اندیشہ سیاسی متفکران مسلمان، ج۲ ، ص۱۵۴-۱۵۵ ، ۱۶۰-۱۶۱.</ref>  


بعض شیعہ مصنفین کے مطابق سید مرتضی کا بنی عباس اور آل بویہ کے ساتھ تعاون بھی اسی مبنا کے مطابق تھا۔ ان کا حکمراوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنا اور ان کی تعریف و تمجید حکومتی عہدوں پر فائز رہ کر شیعہ قوم کی خدمت کرنا تھا۔<ref>نصر، تحلیل فقہی رابطہ سلطان و علمای دین از دیدگاہ علم الہدی، ص۱۷۳.</ref>
بعض شیعہ مصنفین کے مطابق سید مرتضی کا بنی عباس اور آل بویہ کے ساتھ تعاون بھی اسی مبنا کے مطابق تھا۔ ان کا حکمراوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنا اور ان کی تعریف و تمجید حکومتی عہدوں پر فائز رہ کر شیعہ قوم کی خدمت کرنا تھا۔<ref>نصر، تحلیل فقہی رابطہ سلطان و علمای دین از دیدگاہ علم الہدی، ص۱۷۳.</ref>
== افکار اور تالیفات ==<!--
سید مرتضی از بزرگترین علمای [[امامیہ|شیعہ امامی]] بود و در بسیاری از علوم عصر خویش چون [[علم کلام|کلام]]، [[فقہ]]، [[علم اصول|اصول]]، [[تفسیر قرآن|تفسیر]]، [[فلسفہ]]، [[علم نجوم|فلک]] و انواع علوم ادبی بہ نگارش اثاری دست زد.<ref>الطوسی، الفہرست، ص۹۹.</ref><ref>نجاشی، رجال، ص۲۷۰.</ref> مسئلہ محوری دراندیشہ سید مرتضی پیروی او از مکتب عقل گرایی است کہ در جنبہ‌ہای مختلف اندیشہ کلامی و فقہی او تاثیر گذاشتہ و اندیشہ‌ہای او را بہ افکار استادش [[شیخ مفید]] نزدیک کردہ است.
{{اصلی|فہرست آثار سید مرتضی}}
===عقل گرایی و اندیشہ کلامی===
سید مرتضی متفکری عقل‌گرا بود. از دیدگاہ سید مرتضی جستجوی عقلانی و استدلالی در مباحث مرتبط بہ خداشناسی واجب است چرا کہ شناخت [[خدا]] بدیہی نیست و در شناخت خدا نمی‌توان بہ شنیدہ‌ہا و دلیل سمعی(روایات و متون دینی) استناد کرد چرا کہ حجیت متون دینی خود حاصل اعتقاد بہ وجود خداوند و شناخت اوست. بہ عقیدہ سید مرتضی اعتقاد بہ خداوند تنہا بر مبنای تقلید و پذیرش سخن دیگری بدون ہیچ حجت و استدلالی قابل قبول نیست.<ref>اسعدی، سید مرتضی٬(ص) .</ref>
سید مرتضی بر حجیت [[عقل]] در عرصہ عقاید و مباحث کلامی تأکید داشتہ و ہر چیزی را کہ مخالف عقل باشد باطل می‌شمرد. از این رو وی در ہنگام تعارض [[حدیث|روایات]] با عقل، جانب عقل را می‌گرفت و معتقد بود ہمہ روایات وارد شدہ در متون صحیح نیستند. برای نمونہ او روایاتی کہ مستلزم قول بہ [[تشبیہ صفات| تشبیہ]] و [[جبر]] و رویت خداوند و قدیم بودن صفات اوست و نیز روایاتی را کہ برخی خرافات مانند ملک بودن رعد و برق را تأیید می‌کنند، نمی‌پذیرفت و بہ [[تاویل]] آیاتی کہ با اصول عقلی ناسازگار بہ نظر می‌رسند می‌پرداخت.<ref>نیاسر، معارف و شاہرودی، عقل و نقل در دیدگاہ سید مرتضی، ص۷۶ و ۸۱- ۸۲ ، .</ref>
'''سید مرتضی و معتزلہ:''' اندیشہ‌ہای سید مرتضی از نظر رویکرد عقل‌گرایانہ، بہ [[معتزلہ]] نزدیک بود، چنان کہ برخی از اہل سنت او را از [[معتزلہ]] بہ حساب آوردہ‌اند. در عصر زندگی سید مرتضی معتزلہ در [[بغداد]] کہ محل زندگی سید بود رواج زیادی داشت و سید مرتضی از این شرایط تاثیر پذیرفت.<ref>نیاسر، معارف و شاہرودی، عقل و نقل در دیدگاہ سید مرتضی، ص۷۵.</ref> با این حال او در مقام متفکری شیعی در برخی از مبانی فکری با معتزلہ مخالفت داشت و در کتاب [[الشافی]] بہ نقد اندیشہ قاضی عبدالجبار معتزلی پرداخت و در عقایدی مانند [[امامت]]، [[عصمت]] پیامبران، منزلہ بین منزلتین و ارادہ الہی با معتزلہ ہم رای نبود.<ref>اسعدی، سید مرتضی، ص۹۱-۹۴.</ref>
در موضوعات کلامی نیز نقل و روایات دینی کاملا بی‌استفادہ نیست و در کنار عقایدی کہ تنہا از طریق عقل بہ دست می‌اید، برخی از باورہای کلامی ہم از طریق نقل و ہم از طریق عقل قابل دریافت است مانند [[امامت]] و در پارہ‌ای از اندیشہ‌ہای کلامی نیز نقل تنہا دلیل است. برای نمونہ از نظر سید مرتضی جاودانہ بودن [[ثواب و عقاب]] از راہ عقل اثبات پذیر نیست و مرجع این اعتقاد تنہا نقل است.<ref>برنجکار و ہاشمی، عقل گرایی در مدرسہ امامیہ بغداد و معتزلہ، ص۷۰-۷۱.</ref>
'''آثار کلامی:'''آثار کلامی سید مرتضی از مہم‌ترین تألیفات اوست:
{{ستون-شروع|۲}}
* [[الشافی فی الامامۃ]] کہ در نقد کتاب المغنی قاضی عبدالجبار در موضوع امامت
* [[تنزیہ الانبیاء (کتاب)| تنزیہ الانبیاء|]] کتابی است در جہت اثبات عصمت مطلقہ پیامبران
* [[المخلص فی اصول الدین]]
* [[الفصول المختارہ]] بدنبال اثبات عقايد شيعہ با بيانى استدلالى و با استناد بہ عقل، قرآن و روايات اہل بيت (ع)است.
* [[الذخیرہ فی علم الکلام]]
* [[الموضح عن جہہ اعجاز القرآن]]
* [[جمل العلم و العمل]] کہ دارای مباحث اعتقادی و فقہی است
* [[المقنع فی الغیبہ]] دربارہ امام زمان و مسئلہ غیبت.
{{پایان}}
===اندیشہ فقہی===
سید مرتضی در عرصہ اندیشہ فقہی نیز رویکردی عقل‌گرایانہ داشت و بہ حجیت عقل در کشف احکام - در صورت نبود قراین نقلی- باور داشت. او ہمچنین یکی از پیشگامان روش اجتہادی در فقہ شیعہ است.<ref>اسعدی، سید مرتضی، ص ۵۰ و ۹۰.</ref> در استنباط احکام از ادلہ [[اصول لفظیہ]] و [[اصول عملیہ|عقلیہ]] استفادہ می‌کرد و با [[محدثین|محدّثین]] و [[اخباریان]] موافق نبود.<ref>گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، صص ۱۴۹-۱۴۸.</ref> او در برخی مسایل فقہی کہ بہ گفتہ او با استناد بہ اصول عقلی قابل دریافت بود، استناد بہ دلایل سمعی را لازم نمی‌دانست با این حال بہ جواز استفادہ از نقل در حیطہ [[فروع دین]] اعتقاد داشت و اثبات برخی از احکام و حتی عقاید را تنہا از طریق نقل ممکن می‌دانست. برای نمونہ بہ اعتقاد او [[امر بہ معروف و نہی از منکر]] وجوب شرعی دارد و نہ عقلی.<ref>نیاسر، معارف و شاہرودی، عقل و نقل در دیدگاہ سید مرتضی، ص ۸۴-۸۷.</ref>
'''عدم حجیت خبر واحد''': سید مرتضی مانند استادش [[شیخ مفید]] حجیت [[خبر واحد]] را نمی‌پذیرفت. بہ عقیدہ او استناد بہ خبر واحد نہ تنہا در موضوعات اعتقادی<ref>جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، ص ۱۰۰.</ref> بلکہ در فقہ نیز جایز نیست.<ref>جعفری، مقایسہ‌ای میان دو مکتب فکری شیعہ در قم و بغداد، ص۲۲-۲۳.</ref> بہ نظر او [[عدالت]] راوی، در حجیت خبر واحد شرط است و یکی از شروط عدالت این است کہ راوی جزء فرقہ‌ہای انحرافی شیعہ نباشد؛ در حالی کہ بسیاری از روایات فقہی را این گروہ از راویان (از جملہ راویان واقفی یا غالی) نقل کردہ‌اند، از این رو شرایط اعتماد بہ خبر واحد برآوردہ نمی‌شود.<ref>ضمیری، دانشنامہ اصولیان شیعہ، ص ۱۵۲.</ref> پژوہشگران معتقدند انکار حجیت خبر واحد، سید مرتضی را بہ استناد بیش از اندازہ بہ اجماع برای دریافت احکام فقہی واداشتہ است.<ref>ضمیری، دانشنامہ اصولیان شیعہ، ۱۵۲-۱۵۳.</ref>
از آثار فقہی سید مرتضی کتاب [[الانتصار]] شامل احکامی است کہ اختصاص بہ شیعہ دارد. این اثر از نخستین نمونہ‌ہای کتب فقہی است کہ بہ مسایل مورد اختلاف [[شیعہ]] و [[اہل سنت]] می‌پردازد. دیگر اثر مہم فقہی سید مرتضی، کتاب [[الناصریات]] است. سید مرتضی این کتاب را در شرح نظریات فقہی جدّ خود [[حسن اطروش]] نگاشتہ است. بخش دیگری از آرای فقہی سید مرتضی، در رسالاتی بیان شدہ کہ او در پاسخ بہ نامہ‌ہا و پرسش‌ہا نگاشتہ است.<ref>نک: گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ص ۱۶۵-۱۶۸.</ref>
سید مرتضی تألیفاتی در علم [[اصول فقہ]] نیز داشتہ کہ مہمترین آنہا [[الذریعہ الی اصول الشریعہ]] است. این اثر نخستین کتاب مفصل و جامع شیعیان در علم اصول است.<ref>ضمیری، دانشنامہ اصولیان شیعہ، ص۱۲۰.</ref> سید مرتضی در این کتاب نظرات اہل سنت را بیان و دربارہ آنہا داوری کردہ و نظر خود را طرح کردہ است. از این رو این کتاب را سرآغاز شکل‌گیری علم اصول شیعہ و استقلال آن از علم اصول اہل سنت بہ شمار آوردہ‌اند.<ref>گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ص۱۷۳ .</ref>
===تفسیر قرآن===
[[پروندہ:مرقد سید مرتضی در کاظمین.jpg|بندانگشتی|250px]]
سید مرتضی رسالات و کتاب‌ہایی در موضوع مرتبط با علوم [[قرآن]] دارد؛ مانند کتابی کہ دربارہ [[اعجاز القرآن|اعجاز قران]] با عنوان الموضح عن وجہ اعجاز القرآن نگاشتہ است. افزون بر آن مباحث متعددی در تفسیر قرآن کریم از سید مرتضی بہ صورت پراکندہ در آثار گوناگون او بہ جای ماندہ است. افزون بر رسالات کوتاہ سید مرتضی در تفسیر برخی آیات قرآن، بخش عمدہ‌ای از تفسیرہای او در کتاب [[الامالی (سید مرتضی)|الامالی]] جمع‌آوری شدہ است کہ در آن حدود ۱۴۰ آیہ قرآن را شرح و تفسیر کردہ است. او ہمچنین در کتاب [[تنزیہ الانبیاء (کتاب)| تنزیہ الانبیاء]] بہ تفسیر آیات قرآن در باب [[انبیا|انبیای]] الہی می‌پردازد.<ref>قربانی زرین، مبانی ادبی-کلامی سید مرتضی در تفسیر قرآن کریم، ص ۱۹.</ref> در سایر آثار سید مرتضی از جملہ آثار کلامی او مانند [[الشافی]] نیز برخی آیات مورد بررسی قرار گرفتہ است.<ref>شکرانی، مقدمہ‌ای بر مباحث تفسیری سید مرتضی، ص۵۱ -۵۲.</ref>
سید مرتضی در تفسیر قرآن نیز روشی عقلگرایانہ دارد و بر اساس اصول عقلی بہ تاویل آیاتی می‌‌پردازد کہ در ظاہر با اصول عقلانی تعارض دارند.<ref>شکرانی، مقدمہ‌ای بر مباحث تفسیری سید مرتضی، ص ۵۸.</ref> وی ہمچنین در تفسیر قرآن رویکردی [[علم کلام|کلامی]] دارد و بیشتر بہ تفسیر آیات اعتقادی پرداختہ و تفسیر آیات در آثارش با ہدف تقویت اندیشہ‌ہای کلامی شیعہ صورت می‌گیرد.<ref>شکرانی، مقدمہ‌ای بر مباحث تفسیری سید مرتضی، ص ۵۷؛ قربانی زرین، مبانی ادبی-کلامی سید مرتضی در قرآن کریم، ص ۲۲.</ref> ویژگی دیگر تفسیر سید مرتضی، رویکرد ادبی و زبانشناختی او و رجوع بہ قالب‌ہای زبان و بیان عربی و نیز مباحث گستردہ لغت ‌شناسانہ برای فہم معانی قرآنی است.<ref>قربانی زرین، مبانی ادبی-کلامی سید مرتضی در قرآن کریم، ص ۲۰-۲۲.</ref>
===آثار ادبی===
سید مرتضی ادیبی ممتاز و سرشناس بود.<ref>ابن جوزی، المنتظم، ج ۱۵، ص ۲۹۴.</ref> از سید مرتضی آثار ادبی متعددی بہ جای ماندہ است. از جملہ شعرہای او در شش جلد است. او ہمچنین کتاب مشہوری با عنوان «الدرر و الغرر» شامل مباحث ادبی و واژہ‌شناختی و نحوی داشتہ است.<ref>امین، اعیان الشیعہ، ج ۸، ص ۲۱۳.</ref> افزون بر آن سید مرتضی رسالاتی در نقد آثار ادبی پیش از خود نگاشتہ است.<ref>نک: محدثی، شخصیت ادبی سید مرتضی، ص ۶۱-۶۳.</ref>
-->


== افکار اور تالیفات ==<!--
== افکار اور تالیفات ==<!--
confirmed، templateeditor
5,869

ترامیم