مندرجات کا رخ کریں

"بلال حبشی" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 64: سطر 64:


===پیغمبر اکرم (ص) کے بعد===
===پیغمبر اکرم (ص) کے بعد===
بلال نے حضرت پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد، صرف چند مرتبہ اذان دی۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۳۶-۲۳۷؛ ابن قتیبہ، کتاب المعارف، ص۸۸؛ ابن بابویہ، من لا یحضره الفقیہ، ج۱، ۱۸۴؛ مفید، الاختصاص، ص۷۳</ref> ایک بار [[حضرت فاطمہ(س)]] کی فرمائش پر، لیکن چونکہ آپ(س) کو اپنے بابا کے بعد ڈھائے گئے ظلم کی یاد آ گئی اور اس پریشانی کی شدت سے آپ(س) تاب نہ لا سکیں، جس کی وجہ سے بلال نے ناچار اذان کو ناتمام چھوڑ دیا۔<ref> ابن بابویہ، من لا یحضره الفقیہ، ج۱، ص۱۹۴</ref>
بلال نے آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد، صرف چند مرتبہ اذان دی۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۳۶-۲۳۷؛ ابن قتیبہ، کتاب المعارف، ص۸۸؛ ابن بابویہ، من لا یحضره الفقیہ، ج۱، ۱۸۴؛ مفید، الاختصاص، ص۷۳</ref> ایک بار [[حضرت فاطمہ(س)]] کی فرمائش پر، لیکن چونکہ آپ(س) کو اپنے بابا کے بعد ڈھائے گئے ظلم کی یاد آ گئی اور اس پریشانی کی شدت سے آپ(س) تاب نہ لا سکیں، جس کی وجہ سے بلال نے ناچار اذان کو ناتمام چھوڑ دیا۔<ref> ابن بابویہ، من لا یحضره الفقیہ، ج۱، ص۱۹۴</ref>
اس کے علاوہ ایک بار، جب حضرت پیغمبر (ص) کی قبر مبارک کی زیارت کے لئے [[مدینہ]] آئے اور [[حسنین(ع)]] نے آپ سے [[اذان]] کی درخواست کی اور آپ نے یہ درخواست قبول کی، مدینہ پر اس واقعہ کا بہت اثر ہوا۔<ref> ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۱، ص۲۴۴-۲۴۵؛ نووی، تہذیب الاسماء، قسم۱، جزء۱، ص۱۳۶؛ مزّی، تہذیب الکمال، ج۴، ص۲۸۹</ref>
اس کے علاوہ ایک بار، جب پیغمبر اکرم (ص) کی قبر مبارک کی زیارت کے لئے [[مدینہ]] آئے اور [[حسنین(ع)]] نے آپ سے [[اذان]] کی درخواست کی اور آپ نے یہ درخواست قبول کی، مدینہ پر اس واقعہ کا بہت اثر ہوا۔<ref> ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۱، ص۲۴۴-۲۴۵؛ نووی، تہذیب الاسماء، قسم۱، جزء۱، ص۱۳۶؛ مزّی، تہذیب الکمال، ج۴، ص۲۸۹</ref>
آخری بار جب دوسرے خلیفہ مدینہ سے [[شام]] گئے (طبری کے قول کے مطابق سنہ 17 ہجری) جادیہ کے مقام پر مسلمانوں نے بلال سے درخواست کی کہ اذان کہیں، اس پر آپ نے یہ دعوت قبول کی اور سب رسول خدا(ص) کے زمانے کو یاد کر کے رونے لگے۔<ref> ابن قتیبہ، کتاب المعارف، ص۸۸؛ طبری، تاریخ، ج۴، ص۶۵-۶۶؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۷۰-۴۷۱</ref>
آخری بار جب دوسرے خلیفہ مدینہ سے [[شام]] گئے (طبری کے قول کے مطابق [[سنہ 17 ہجری]]) جادیہ کے مقام پر مسلمانوں نے بلال سے درخواست کی کہ اذان کہیں، اس پر آپ نے یہ دعوت قبول کی اور سب رسول خدا (ص) کے زمانے کو یاد کر کے رونے لگے۔<ref> ابن قتیبہ، کتاب المعارف، ص۸۸؛ طبری، تاریخ، ج۴، ص۶۵-۶۶؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۷۰-۴۷۱</ref>
اکثر مآخذ میں بلال کے پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد اذان نہ دینے اور مدینہ سے شام جانے کی وجہ [[جہاد]] کی فضیلت جاننا اور مجاہدین کے گروہ میں شامل ہونا ہے اور آپ کی شام سے ہجرت [[ابوبکر]] کی حکومت <ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۳۶-۲۳۷؛ ابن قتیبہ، کتاب المعارف، ص۸۸؛ ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء، ج۱، ص۱۵۰-۱۵۱؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج ۱، ص۱۸۱</ref> یا عمر بن خطاب کی حکومت <ref> ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج۱، ص۱۸۰-۱۸۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۶۷؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۱، ص۲۴۴</ref> کے وقت کہی گئی ہے لیکن بلال کی جنگ میں شرکت یا فتح کرنے کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملتی۔<ref> امین، اعیان الشیعہ، ج ۳، ص۶۰۵</ref> اور بعض قول کے مطابق پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد بعض مقام پر پیش آنے والے واقعات پر اعتراض کرنے کے بعد وہ شام کی طرف چلے گئے۔<ref> نوری، نفس الرحمان، ص۳۷۹؛ قمی، سفینہ البحار، ج۱، ص۱۰۴۱۰۵</ref>
اکثر مآخذ میں بلال کے پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد اذان نہ دینے اور مدینہ سے شام جانے کی وجہ [[جہاد]] کی فضیلت جاننا اور مجاہدین کے گروہ میں شامل ہونا ہے اور آپ کی شام ہجرت [[ابوبکر]] کی حکومت <ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۳۶-۲۳۷؛ ابن قتیبہ، کتاب المعارف، ص۸۸؛ ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء، ج۱، ص۱۵۰-۱۵۱؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج ۱، ص۱۸۱</ref> یا عمر بن خطاب کی حکومت <ref> ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج۱، ص۱۸۰-۱۸۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۶۷؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۱، ص۲۴۴</ref> کے وقت کہی گئی ہے لیکن بلال کے جنگ میں شرکت یا فتح کرنے کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملتی۔<ref> امین، اعیان الشیعہ، ج ۳، ص۶۰۵</ref> اور بعض قول کے مطابق پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد بعض مقام پر پیش آنے والے واقعات پر اعتراض کرنے کے بعد وہ شام کی طرف چلے گئے۔<ref> نوری، نفس الرحمان، ص۳۷۹؛ قمی، سفینہ البحار، ج۱، ص۱۰۴۱۰۵</ref>


==احادیث پیغمبر اکرم (ص) کے راوی==
==احادیث پیغمبر اکرم (ص) کے راوی==
گمنام صارف