مندرجات کا رخ کریں

"بلال حبشی" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 54: سطر 54:
اکثر مآخذ میں بلال کے پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد اذان نہ دینے اور مدینہ سے شام جانے کی وجہ [[جہاد]] کی فضیلت جاننا اور مجاہدین کے گروہ میں شامل ہونا ہے اور آپ کی شام سے ہجرت [[ابوبکر]] کی حکومت <ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۳۶-۲۳۷؛ ابن قتیبہ، کتاب المعارف، ص۸۸؛ ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء، ج۱، ص۱۵۰-۱۵۱؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج ۱، ص۱۸۱</ref> یا عمر بن خطاب کی حکومت <ref> ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج۱، ص۱۸۰-۱۸۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۶۷؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۱، ص۲۴۴</ref> کے وقت کہی گئی ہے لیکن بلال کی جنگ میں شرکت یا فتح کرنے کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملتی۔<ref> امین، اعیان الشیعہ، ج ۳، ص۶۰۵</ref> اور بعض قول کے مطابق پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد بعض مقام پر پیش آنے والے واقعات پر اعتراض کرنے کے بعد وہ شام کی طرف چلے گئے۔<ref> نوری، نفس الرحمان، ص۳۷۹؛ قمی، سفینہ البحار، ج۱، ص۱۰۴۱۰۵</ref>
اکثر مآخذ میں بلال کے پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد اذان نہ دینے اور مدینہ سے شام جانے کی وجہ [[جہاد]] کی فضیلت جاننا اور مجاہدین کے گروہ میں شامل ہونا ہے اور آپ کی شام سے ہجرت [[ابوبکر]] کی حکومت <ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۳۶-۲۳۷؛ ابن قتیبہ، کتاب المعارف، ص۸۸؛ ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء، ج۱، ص۱۵۰-۱۵۱؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج ۱، ص۱۸۱</ref> یا عمر بن خطاب کی حکومت <ref> ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج۱، ص۱۸۰-۱۸۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۶۷؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۱، ص۲۴۴</ref> کے وقت کہی گئی ہے لیکن بلال کی جنگ میں شرکت یا فتح کرنے کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملتی۔<ref> امین، اعیان الشیعہ، ج ۳، ص۶۰۵</ref> اور بعض قول کے مطابق پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد بعض مقام پر پیش آنے والے واقعات پر اعتراض کرنے کے بعد وہ شام کی طرف چلے گئے۔<ref> نوری، نفس الرحمان، ص۳۷۹؛ قمی، سفینہ البحار، ج۱، ص۱۰۴۱۰۵</ref>


==احادیث پیغمبر اکرم(ص) کا راوی==
==احادیث پیغمبر اکرم (ص) کے راوی==
بلال [[حدیث]] کے راوی بھی تھے۔ [[صحابہ]] اور تابعین کی ایک جماعت نے آپ سے حدیث نقل کی ہے۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ج ۷، ص۵۰۹؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج ۱، ص۱۸۰؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۲۹، ۴۳۵؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۱، ص۲۴۴؛ نووی، تہذیب الاسماء، قسم۱، جزء۱، ص۱۳۶-۱۳۷؛ مزّی، تہذیب الکمال، ج۴، ص۲۸۸-۲۸۹</ref> مثال کے طور پر، پیغمبر اکرم (ص) سے اذان کی فضیلت کو نقل کیا ہے۔<ref> ابن بابویہ، من لا یحضره الفقیہ، ج ۱، ص۱۸۹-۱۹۴؛ فتّال نیشابوری، روضہ الواعظین، ج۲، ص۳۴۳-۳۴۵</ref>
بلال [[حدیث]] کے راوی بھی تھے۔ [[صحابہ]] اور تابعین کی ایک جماعت نے آپ سے حدیث نقل کی ہے۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ج ۷، ص۵۰۹؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج ۱، ص۱۸۰؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۲۹، ۴۳۵؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۱، ص۲۴۴؛ نووی، تہذیب الاسماء، قسم۱، جزء۱، ص۱۳۶-۱۳۷؛ مزّی، تہذیب الکمال، ج۴، ص۲۸۸-۲۸۹</ref> مثال کے طور پر، پیغمبر اکرم (ص) سے اذان کی فضیلت کو نقل کیا ہے۔<ref> ابن بابویہ، من لا یحضره الفقیہ، ج ۱، ص۱۸۹-۱۹۴؛ فتّال نیشابوری، روضہ الواعظین، ج۲، ص۳۴۳-۳۴۵</ref>


گمنام صارف