مندرجات کا رخ کریں

"خطبہ غدیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 2: سطر 2:
[[ملف:غدیر2.jpg|تصغیر|غدیر خم کا محل وقوع]]
[[ملف:غدیر2.jpg|تصغیر|غدیر خم کا محل وقوع]]
{{شیعہ}}
{{شیعہ}}
'''خطبہ غدیر''' [[پیغمبر اسلام(ص)]] کے اس [[خطبہ|خطبے]]‌ کو کہا جاتا ہے جس میں آپ(ص) نے حضرت [[علی(ع)]] کو [[مسلمان|مسلمانوں]] کا ولی اور اپنا جانشین پہچنوایا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اس خطبے کو [[18 ذوالحجہ]] سنہ ۱۰ہجری قمری کو [[حجۃ الوداع]] سے واپسی پر [[غدیر خم]] کے مقام پر ارشاد فرمایا۔ بہت سارے [[شیعہ]] اور [[اہل سنت|سنی]] علماء نے اس خطبے کو نقل کیا ہے۔
'''خطبہ غدیر''' [[پیغمبر اسلامؐ]] کے اس [[خطبہ|خطبے]]‌ کو کہا جاتا ہے جس میں آپؐ نے حضرت [[علیؑ]] کو [[مسلمان|مسلمانوں]] کا ولی اور اپنا جانشین پہچنوایا۔ پیغمبر اکرم ؐ نے اس خطبے کو [[18 ذوالحجہ]] سنہ ۱۰ہجری قمری کو [[حجۃ الوداع]] سے واپسی پر [[غدیر خم]] کے مقام پر ارشاد فرمایا۔ بہت سارے [[شیعہ]] اور [[اہل سنت|سنی]] علماء نے اس خطبے کو نقل کیا ہے۔


یہ خطبہ [[شیعہ|شیعوں]] کے یہاں پیغمبر [[اسلام]] کے [[امام علی(ع)]] کی امامت اور ولایت کے دلائل میں سے ایک ہے۔شیعہ اپنے اس مدعا کو مختلف قرائن و شواہد کے ساتھ ثابت کرتے ہیں۔
یہ خطبہ [[شیعہ|شیعوں]] کے یہاں پیغمبر [[اسلام]] کے [[امام علیؑ]] کی امامت اور ولایت کے دلائل میں سے ایک ہے۔شیعہ اپنے اس مدعا کو مختلف قرائن و شواہد کے ساتھ ثابت کرتے ہیں۔


'''حدیث غدیر'''  
'''حدیث غدیر'''  
سطر 13: سطر 13:
==واقعہ غدیر==
==واقعہ غدیر==
{{اصلی|واقعہ غدیر}}
{{اصلی|واقعہ غدیر}}
[[ہجرت]] کے دسویں سال [[پیغمبر اکرم(ص)]] نے [[حج]] بیت اللہ کا ارادہ فرمایا۔ چونکہ یہ حج پیغمبر اکرم(ص) کا آخری حج تھا اسلئے اسے بعد میں [[حجۃ الوداع]] کا نام دیا گیا۔<ref> بخاری، ''تاریخ الکبیر''، ج۴، ص۱۵۹۹؛ طبری، ''تاریخ الامم و الملوک''، ج۳، ص۱۵۲؛ حلبی، ''السیرہ الحلبیہ''، ج۳، ص۳۶۰.</ref> تمام [[اسلام|مسلمانوں]] کو اطلاع دی گئی کہ پیغمبر اس سال حج پر تشریف لے جا رہے ہیں <ref> طبری، ''تاریخ الامم و الملوک''، ج۳، ص۱۴۹.</ref> اسلئے تمام مسلمانوں سے بھی حج پر جانے کیلئے کہا گیا۔<ref>ابن ہشام، ''السیرہ النبویہ''، ج۲، ص۶۰۱.</ref> بہت سارے مسلمانوں پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ اس  حج میں شریک ہونے کیلئے [[مدینہ]] جمع ہوئے۔<ref>واقدی، ''المغازی''، ج۳ ص۱۰۸۹؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۵ ص۱۱۰.</ref> یوں آپ(ص) [[25 ذوالقعدہ]] کو مدینے سے [[مکہ]] کی طرف روانہ ہوئے۔<ref> طبری، ''تاریخ الامم و الملوک''، ج۳، ص۱۴۹.</ref>
[[ہجرت]] کے دسویں سال [[پیغمبر اکرمؐ]] نے [[حج]] بیت اللہ کا ارادہ فرمایا۔ چونکہ یہ حج پیغمبر اکرمؐ کا آخری حج تھا اسلئے اسے بعد میں [[حجۃ الوداع]] کا نام دیا گیا۔<ref> بخاری، ''تاریخ الکبیر''، ج۴، ص۱۵۹۹؛ طبری، ''تاریخ الامم و الملوک''، ج۳، ص۱۵۲؛ حلبی، ''السیرہ الحلبیہ''، ج۳، ص۳۶۰.</ref> تمام [[اسلام|مسلمانوں]] کو اطلاع دی گئی کہ پیغمبر اس سال حج پر تشریف لے جا رہے ہیں <ref> طبری، ''تاریخ الامم و الملوک''، ج۳، ص۱۴۹.</ref> اسلئے تمام مسلمانوں سے بھی حج پر جانے کیلئے کہا گیا۔<ref>ابن ہشام، ''السیرہ النبویہ''، ج۲، ص۶۰۱.</ref> بہت سارے مسلمانوں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اس  حج میں شریک ہونے کیلئے [[مدینہ]] جمع ہوئے۔<ref>واقدی، ''المغازی''، ج۳ ص۱۰۸۹؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۵ ص۱۱۰.</ref> یوں آپؐ [[25 ذوالقعدہ]] کو مدینے سے [[مکہ]] کی طرف روانہ ہوئے۔<ref> طبری، ''تاریخ الامم و الملوک''، ج۳، ص۱۴۹.</ref>


امام علی(ع) بھی اسی سال [[ماہ رمضان|رمضان]] کو [[کفر|کفار]] کے ساتھ جنگ کیلئے [[یمن]] میں [[مذحج]] نامی مقام کی طرف روانہ ہوئے۔<ref> طبری، ''تاریخ الامم و الملوک''، ج‌۳، ص۱۳۲؛ یعقوبی، ''تاریخ الیعقوبی''، ج۲ ص؛ حلبی، ''السیره الحلبیه''، ج۳، ص۲۸۹.</ref> دشمن کو شکست دینے  اور جنگی [[غنیمت|غنائم]] اکھٹا کرنے کے بعد آپ(ع) بھی رسول اکرم(ص) کے حکم سے اعمال حج کی ادائیگی کیلئے مکہ تشریف لائے۔  <ref> واقدی، ''المغازی''، ج۳، ص۱۰۷۹۱۰۸۰؛ حلبی، ''السیرہ الحلبیہ''، ج۳، ص۲۸۹.</ref>
امام علیؑ بھی اسی سال [[ماہ رمضان|رمضان]] کو [[کفر|کفار]] کے ساتھ جنگ کیلئے [[یمن]] میں [[مذحج]] نامی مقام کی طرف روانہ ہوئے۔<ref> طبری، ''تاریخ الامم و الملوک''، ج‌۳، ص۱۳۲؛ یعقوبی، ''تاریخ الیعقوبی''، ج۲ ص؛ حلبی، ''السیره الحلبیه''، ج۳، ص۲۸۹.</ref> دشمن کو شکست دینے  اور جنگی [[غنیمت|غنائم]] اکھٹا کرنے کے بعد آپؑ بھی رسول اکرمؐ کے حکم سے اعمال حج کی ادائیگی کیلئے مکہ تشریف لائے۔  <ref> واقدی، ''المغازی''، ج۳، ص۱۰۷۹۱۰۸۰؛ حلبی، ''السیرہ الحلبیہ''، ج۳، ص۲۸۹.</ref>


[[روز عرفہ]] کو پیغمبر اکرم(ص) نے حاجیوں کے درمیان ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اہم امور منجملہ مسلمان کی جان و مال کا احترام، امانتداری، [[ربا]] کی [[حرام|حرمت]]، عورتوں کے حقوق اور [[ابلیس|شیطان]] کی اطاعت سے پرہیز وغیرہ پر سیر حاصل بحث فرمائی۔<ref> طبری، ''تاریخ الامم و الملوک''، ج‌۳، ص۱۵۰-۱۵۲؛ ابن ہشام، ''السیرہ النبویہ''، ج۲، ص۶۰۳۶۰۴.</ref>
[[روز عرفہ]] کو پیغمبر اکرمؐ نے حاجیوں کے درمیان ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اہم امور منجملہ مسلمان کی جان و مال کا احترام، امانتداری، [[ربا]] کی [[حرام|حرمت]]، عورتوں کے حقوق اور [[ابلیس|شیطان]] کی اطاعت سے پرہیز وغیرہ پر سیر حاصل بحث فرمائی۔<ref> طبری، ''تاریخ الامم و الملوک''، ج‌۳، ص۱۵۰-۱۵۲؛ ابن ہشام، ''السیرہ النبویہ''، ج۲، ص۶۰۳۶۰۴.</ref>


حج کے مراسم سے فارغ ہونے کے بعد تمام مسلمان مکہ سے خارج ہو کر اپنے اپنے سرزمینوں کی طرف روانہ ہوئے لگے۔ حاجیوں کے یہ قافلے [[18 ذوالحجہ]] کو [[غدیر خم]] نامی جگہے پر پہنچے۔ <ref> یعقوبی، ''تاریخ الیعقوبی''، ج۲، ص۱۱۸.</ref> غدیر خم، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہے کا نام ہے جو [[جحفہ|جُحفہ]] سے دو کلومیتر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں سے مختلف راستے جدا ہوتے ہیں۔<ref> یاقوت، ''معجم البلدان''، ج۲، ص۱۰۳.</ref> جب رسول اکرم(ع) کا قافلہ غدیر خم پہونچا تو [[جبرئیل|فرشتہ وحی]] [[سورہ مائدہ]] کی [[آیت]] نمبر 67 <font color=green>{{حدیث|یا أَیهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَیک مِنْ رَبِّک وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ یعْصِمُک مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لایهْدِی الْقَوْمَ الْکافِرینَ}}</font> اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔ اور اسی سورے کی آیت نمبر 3 <font color=green>{{حدیث|الْیوْمَ یئِسَ الَّذینَ کفَرُوا مِنْ دینِکمْ فَلاتَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ الْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکمُ الْإِسْلامَ دیناً}}</font> آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو -آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔ لے کر رسول اکرم (ص) پر نازل ہوا اور آپ(ص) کو [[امام علی(ع)|حضرت علی]](ع) کی [[ولایت]] و [[امامت]] کا اعلان کرنے پر مأمور کیا۔<ref>مفید، ''تفسیر القرآن''، ج۱، ص۱۸۴؛ عیاشی، ''تفسیر عیاشی''، ج۱، ص۳۳۲.</ref> اس موقع پر رسول اکرم(ص) نے آگے جانے والے قافلوں کو رکنے اور پیچھے والے قافلوں کی انتظار کا حکم دیا۔ نماز ظہر کا وقت ہوا تو رسول اکرم(ص) کی امامت میں نماز ظہر ادا کی گئی اس کے بعد اونٹوں کے پالانوں سے آپ کیلئے ایک ممبر تیار کیا گیا جس پر چڑھ کر آپ(ص) نے ایک تاریخی خطبہ دیا جس میں آپ نے فرمایا کہ میں عنقریب تمہارے درمیان سے جارہا ہوں لیکن میں تمہارے درمیان دو گرانبہا چیزیں بطور امانت چھوڑے جا رہا ہوں  ان میں سے ایک کتاب خدا اور دوسری میری عترت ہیں۔ اس موقع پر آپ نے لوگوں کے جانوں پر خود ان سے زیادہ آپ کو اختیار ہونے کا اقرار لیا۔<ref>یعقوبی، ''تاریخ الیعقوبی''، ج‌۲، ص۱ب۱۲.</ref> اس کے بعد حضرت علی(ع) کو اپنے پاس ممبر پر بلایا اور حضرت علی کا ہاتھ بلند کرکے لوگوں کو دکھا کر فرمایا:'''<font color=green>{{حدیث|مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ }}</font> ترجمہ: جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔''' <ref>ابن اثیر، ''أُسدالغابۃ''،ج‌۵، ص۲۵۳؛ کلینی، ''الکافی''، ج۲، ص۲۷.</ref> اس کے بعد حضرت علی(ع) کے دوستوں کے حق میں [[دعا]] اور ان کے دشمنوں کے حق میں بد دعا فرمائی۔<ref> بلاذری،''انساب الاشراف''، ج۲، ص۱۱۱؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹؛ نسائی، ج۵، ص۴۵.</ref> اس وقت [[حسان بن ثابت]] نے آپ(ص) کی اجازت سے اس واقعے کے بارے میں ایک شعر کہا۔<ref>صدوق، ''الامالی''، ص۵۷۵؛ مفید، ''اقسام المولی''، ص۳۵؛ طوسی، ''الاقتصاد''، ص۳۵۱؛ طوسی، ''الرسائل''، ص۱۳۸.</ref> اس کے بعد [[عمر بن خطاب|خلیفہ دثانی]] نے اس مسئلے پر امام علی(ع) کو [[حدیث تہنیت|مبارک باد]] دیا۔<ref>ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹.</ref>
حج کے مراسم سے فارغ ہونے کے بعد تمام مسلمان مکہ سے خارج ہو کر اپنے اپنے سرزمینوں کی طرف روانہ ہوئے لگے۔ حاجیوں کے یہ قافلے [[18 ذوالحجہ]] کو [[غدیر خم]] نامی جگہے پر پہنچے۔ <ref> یعقوبی، ''تاریخ الیعقوبی''، ج۲، ص۱۱۸.</ref> غدیر خم، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہے کا نام ہے جو [[جحفہ|جُحفہ]] سے دو کلومیتر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں سے مختلف راستے جدا ہوتے ہیں۔<ref> یاقوت، ''معجم البلدان''، ج۲، ص۱۰۳.</ref> جب رسول اکرمؑ کا قافلہ غدیر خم پہونچا تو [[جبرئیل|فرشتہ وحی]] [[سورہ مائدہ]] کی [[آیت]] نمبر 67 <font color=green>{{حدیث|یا أَیهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَیک مِنْ رَبِّک وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ یعْصِمُک مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لایهْدِی الْقَوْمَ الْکافِرینَ}}</font> اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔ اور اسی سورے کی آیت نمبر 3 <font color=green>{{حدیث|الْیوْمَ یئِسَ الَّذینَ کفَرُوا مِنْ دینِکمْ فَلاتَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ الْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکمُ الْإِسْلامَ دیناً}}</font> آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو -آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔ لے کر رسول اکرم ؐ پر نازل ہوا اور آپؐ کو [[امام علیؑ|حضرت علی]]ؑ کی [[ولایت]] و [[امامت]] کا اعلان کرنے پر مأمور کیا۔<ref>مفید، ''تفسیر القرآن''، ج۱، ص۱۸۴؛ عیاشی، ''تفسیر عیاشی''، ج۱، ص۳۳۲.</ref> اس موقع پر رسول اکرمؐ نے آگے جانے والے قافلوں کو رکنے اور پیچھے والے قافلوں کی انتظار کا حکم دیا۔ نماز ظہر کا وقت ہوا تو رسول اکرمؐ کی امامت میں نماز ظہر ادا کی گئی اس کے بعد اونٹوں کے پالانوں سے آپ کیلئے ایک ممبر تیار کیا گیا جس پر چڑھ کر آپؐ نے ایک تاریخی خطبہ دیا جس میں آپ نے فرمایا کہ میں عنقریب تمہارے درمیان سے جارہا ہوں لیکن میں تمہارے درمیان دو گرانبہا چیزیں بطور امانت چھوڑے جا رہا ہوں  ان میں سے ایک کتاب خدا اور دوسری میری عترت ہیں۔ اس موقع پر آپ نے لوگوں کے جانوں پر خود ان سے زیادہ آپ کو اختیار ہونے کا اقرار لیا۔<ref>یعقوبی، ''تاریخ الیعقوبی''، ج‌۲، ص۱ب۱۲.</ref> اس کے بعد حضرت علیؑ کو اپنے پاس ممبر پر بلایا اور حضرت علی کا ہاتھ بلند کرکے لوگوں کو دکھا کر فرمایا:'''<font color=green>{{حدیث|مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ }}</font> ترجمہ: جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔''' <ref>ابن اثیر، ''أُسدالغابۃ''،ج‌۵، ص۲۵۳؛ کلینی، ''الکافی''، ج۲، ص۲۷.</ref> اس کے بعد حضرت علیؑ کے دوستوں کے حق میں [[دعا]] اور ان کے دشمنوں کے حق میں بد دعا فرمائی۔<ref> بلاذری،''انساب الاشراف''، ج۲، ص۱۱۱؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹؛ نسائی، ج۵، ص۴۵.</ref> اس وقت [[حسان بن ثابت]] نے آپؐ کی اجازت سے اس واقعے کے بارے میں ایک شعر کہا۔<ref>صدوق، ''الامالی''، ص۵۷۵؛ مفید، ''اقسام المولی''، ص۳۵؛ طوسی، ''الاقتصاد''، ص۳۵۱؛ طوسی، ''الرسائل''، ص۱۳۸.</ref> اس کے بعد [[عمر بن خطاب|خلیفہ دثانی]] نے اس مسئلے پر امام علیؑ کو [[حدیث تہنیت|مبارک باد]] دیا۔<ref>ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹.</ref>


==خطبہ غدیر کا خلاصہ==
==خطبہ غدیر کا خلاصہ==
سطر 25: سطر 25:
* خطبے کے آغاز میں خدا کی حمد و ثنا کے بعد خدا کی صفات پر نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ تفصیلی بحث فرمایا۔
* خطبے کے آغاز میں خدا کی حمد و ثنا کے بعد خدا کی صفات پر نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ تفصیلی بحث فرمایا۔
* [[آیت تبلیغ]] کا نزول اور ایک اہم کام کی ابلاغ کا حکم۔
* [[آیت تبلیغ]] کا نزول اور ایک اہم کام کی ابلاغ کا حکم۔
* پیغمبر اکرم(ص) کا منافقین کے فتنے کے خوف سے اس آیت کی تبلیغ میں تردید کا اظہار اور جبرئیل کی کئی بار اس آیت کی تبلیغ پر تاکید اور خدا کی طرف سے پیغمبر کو منافقین کے فتنے سے بچانے کا وعدہ۔
* پیغمبر اکرمؐ کا منافقین کے فتنے کے خوف سے اس آیت کی تبلیغ میں تردید کا اظہار اور جبرئیل کی کئی بار اس آیت کی تبلیغ پر تاکید اور خدا کی طرف سے پیغمبر کو منافقین کے فتنے سے بچانے کا وعدہ۔
* ایسے محافل میں پیغمبر اکرم(ص) کی شرکت کا یہ آخری بار ہونا اور امت کی [[امامت]] [[قیامت]] تک حضرت علی علیہ السلام اور آپ(ع) کی فرزندوں کے ذمے ہونے کا اعلان۔
* ایسے محافل میں پیغمبر اکرمؐ کی شرکت کا یہ آخری بار ہونا اور امت کی [[امامت]] [[قیامت]] تک حضرت علی علیہ السلام اور آپؑ کی فرزندوں کے ذمے ہونے کا اعلان۔
* [[حرام]] محمد کا قیامت تک حرام رہنے اور [[حلال]] محمد کا قیامت تک حلال رہنے کا اعلان۔
* [[حرام]] محمد کا قیامت تک حرام رہنے اور [[حلال]] محمد کا قیامت تک حلال رہنے کا اعلان۔
* حضرت علی کا علمی مقام اور آپ کی فضیلت کا بیان۔
* حضرت علی کا علمی مقام اور آپ کی فضیلت کا بیان۔
* علی(ع)کی [[ولایت]] کا انکار غیر قابل بخشش گناہ ہے۔  
* علیؑکی [[ولایت]] کا انکار غیر قابل بخشش گناہ ہے۔  
* پیغمبر اکرم اور کسی بھی امام کی گفتار میں شک و تردید کرنے والا زمانہ [[جاہلیت]] کے کافروں کی طرح ہے۔
* پیغمبر اکرم اور کسی بھی امام کی گفتار میں شک و تردید کرنے والا زمانہ [[جاہلیت]] کے کافروں کی طرح ہے۔
* اس تاریخی جلمے کا بیان:<font color =green>{{حدیث| مَن کُنتَ مَولاهُ فهذا علی مَولاهُ}}</font>
* اس تاریخی جلمے کا بیان:<font color =green>{{حدیث| مَن کُنتَ مَولاهُ فهذا علی مَولاهُ}}</font>
* [[حدیث ثقلین]] کا بیان اور [[قرآن]] و [[اہل بیت]] کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونا۔
* [[حدیث ثقلین]] کا بیان اور [[قرآن]] و [[اہل بیت]] کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونا۔
* حضرت علی(ع) کی [[وصایت]]، [[خلافت]] اور پیغمبر کی جانشین ہونے کا اعلان
* حضرت علیؑ کی [[وصایت]]، [[خلافت]] اور پیغمبر کی جانشین ہونے کا اعلان
* حضرت علی(ع) کے دوستوں کے حق میں [[دعا]] اور آپ کے دشمنوں کلئے نفرین : <font color =green>{{حدیث|اَللهمَّ والِ مَن والاهُ و عادِ مَن عاداهُ}}</font>
* حضرت علیؑ کے دوستوں کے حق میں [[دعا]] اور آپ کے دشمنوں کلئے نفرین : <font color =green>{{حدیث|اَللهمَّ والِ مَن والاهُ و عادِ مَن عاداهُ}}</font>
* جبرئیل اور [[آیت اکمال|اکمال دین]] کا نزول۔  
* جبرئیل اور [[آیت اکمال|اکمال دین]] کا نزول۔  
* حضرت کی امامت کی اہمیت اور لوگوں کا آپ کے ساتھ [[حسد]] کرنا۔
* حضرت کی امامت کی اہمیت اور لوگوں کا آپ کے ساتھ [[حسد]] کرنا۔
* منافقین کی کار شکنی کی طرف اشارہ۔
* منافقین کی کار شکنی کی طرف اشارہ۔
* حضرت علی(ع) کے ذریت میں سے [[امام مہدی(عج)]] کے اوپر امامت کی اختتام کا اعلان۔
* حضرت علیؑ کے ذریت میں سے [[امام مہدی(عج)]] کے اوپر امامت کی اختتام کا اعلان۔
* لوگوں کو اپنے خود ساختہ جھوٹے اماموں کی بعیت اور پیروی سے ممانعت۔
* لوگوں کو اپنے خود ساختہ جھوٹے اماموں کی بعیت اور پیروی سے ممانعت۔
* حاضرین کو اس پیغام کو غائبین تک پنہچانے کا حکم۔
* حاضرین کو اس پیغام کو غائبین تک پنہچانے کا حکم۔
* لوگوں کو اہل بیت(ع) کے ساتھ دوستی اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھنے کی سفارش ۔
* لوگوں کو اہل بیتؑ کے ساتھ دوستی اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھنے کی سفارش ۔
* امام مہدی(ع) اور آپ کی حکومت کے بارے میں تقریبا 20 جملے۔
* امام مہدیؑ اور آپ کی حکومت کے بارے میں تقریبا 20 جملے۔
* سب سے بڑی نیکی غدیر میں آپ کے کلام کو سمجھنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔  
* سب سے بڑی نیکی غدیر میں آپ کے کلام کو سمجھنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔  
* امام علی(ع) کے دیگر اوصاف کا بیان اور لوگوں سے باقاعدہ آپ کی بعنوان امام و جانشین پیغمبر بیعت کرنے کا حکم ۔
* امام علیؑ کے دیگر اوصاف کا بیان اور لوگوں سے باقاعدہ آپ کی بعنوان امام و جانشین پیغمبر بیعت کرنے کا حکم ۔
ٍٍ
ٍٍ


== منابع خطبہ غدیر ==
== منابع خطبہ غدیر ==
اس خطبے کا مضمون صدیوں سے کئی صورتوں میں شیعہ سنی حدیثی اور تاریخی منابع میں نقل ہوتے رہے ہیں۔ ان منابع میں یہ خطبہ [[پیغمبر(ص)|پیغمبر اسلام(ص)]] سے کئی طریقوں سے نقل ہوا ہے: روایت [[امام باقر(ع)]]،<ref>ابن فتال، ''روضۃالواعظین''، ج۱، ص۹؛ طبرسی، ج۱، ص۶۶؛ ابن طاووس، ''الیقین''، ص۳۴۳؛ علم الہدی، ''نزہۃالکرام''، ج۱، ص۱۸۶.</ref>[[حذیفۃ بن یمان]]،<ref>ابن طاووس، ''الاقبال''، ص۴۵۴ و ۴۵۶</ref>[[زید بن ارقم]].<ref>حلی، ''العُدَدُ القَویۃ''، ص۱۶۹؛ ابن طاووس، ''التحصین''، ص۵۷۸؛ بیاضی، ''الصراط المستقیم''، ج۱، ص۳۰۱؛ حسین بن جبور، ''نہج الایمان''، ورقہ ۲۶۳۴.</ref>
اس خطبے کا مضمون صدیوں سے کئی صورتوں میں شیعہ سنی حدیثی اور تاریخی منابع میں نقل ہوتے رہے ہیں۔ ان منابع میں یہ خطبہ [[پیغمبرؐ|پیغمبر اسلامؐ]] سے کئی طریقوں سے نقل ہوا ہے: روایت [[امام باقرؑ]]،<ref>ابن فتال، ''روضۃالواعظین''، ج۱، ص۹؛ طبرسی، ج۱، ص۶۶؛ ابن طاووس، ''الیقین''، ص۳۴۳؛ علم الہدی، ''نزہۃالکرام''، ج۱، ص۱۸۶.</ref>[[حذیفۃ بن یمان]]،<ref>ابن طاووس، ''الاقبال''، ص۴۵۴ و ۴۵۶</ref>[[زید بن ارقم]].<ref>حلی، ''العُدَدُ القَویۃ''، ص۱۶۹؛ ابن طاووس، ''التحصین''، ص۵۷۸؛ بیاضی، ''الصراط المستقیم''، ج۱، ص۳۰۱؛ حسین بن جبور، ''نہج الایمان''، ورقہ ۲۶۳۴.</ref>


[[متن خطبہ غدیر]] ان کتابوں میں آیا ہے: [[روضۃ الواعظین]]، [[الاحتجاج علی اہل اللجاج|الاحتجاج]]، [[الیقین]]، [[نزہۃ الکرام]]، [[اقبال الاعمال|الاقبال]]، [[العدد القویۃ|العُدَدُ القَویۃ]]، [[التحصین]]، [[الصراط المستقیم الی مستحقی التقدیم|الصراط المستقیم]] و [[نہج الایمان]].
[[متن خطبہ غدیر]] ان کتابوں میں آیا ہے: [[روضۃ الواعظین]]، [[الاحتجاج علی اہل اللجاج|الاحتجاج]]، [[الیقین]]، [[نزہۃ الکرام]]، [[اقبال الاعمال|الاقبال]]، [[العدد القویۃ|العُدَدُ القَویۃ]]، [[التحصین]]، [[الصراط المستقیم الی مستحقی التقدیم|الصراط المستقیم]] و [[نہج الایمان]].


==حدیث غدیر==
==حدیث غدیر==
خطبہ غدیر کا مضمون صدیوں سے کئی صورتوں میں شیعہ سنی حدیثی اور تاریخی منابع میں نقل ہوتے رہے ہیں۔ اور ان تمام میں جو چیز مشترک ہے وہ  [[حضرت علی(ع)]] کی [[ولایت]] اور امامت کا اعلان ہے: <font color=green>{{حدیث|مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ}}</font> ترجمہ: جس جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔ خطبہ غدیر کا یہ حصہ حدیث غدیر کے نام سے مشہور ہے۔
خطبہ غدیر کا مضمون صدیوں سے کئی صورتوں میں شیعہ سنی حدیثی اور تاریخی منابع میں نقل ہوتے رہے ہیں۔ اور ان تمام میں جو چیز مشترک ہے وہ  [[حضرت علیؑ]] کی [[ولایت]] اور امامت کا اعلان ہے: <font color=green>{{حدیث|مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ}}</font> ترجمہ: جس جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔ خطبہ غدیر کا یہ حصہ حدیث غدیر کے نام سے مشہور ہے۔


=== اس حدیث کا براہ راست نقل ===
=== اس حدیث کا براہ راست نقل ===
سطر 64: سطر 64:


=== حدیث غدیر کے راوی ===
=== حدیث غدیر کے راوی ===
خطبہ غدیر بعض جزئیات اور تعابیر میں اختلاف کے ساتھ [[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] منابع میں نقل ہوا ہے۔ بہت سے منابع میں خطبے کا پورا متن نہیں آیا ہے اور مؤلفین نے صرف اس حصے کو بعنوان حدیث غدیر نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے جس میں امام علی(ع) کو بعنوان امام اور ولی معرفی فرمایا ہے۔
خطبہ غدیر بعض جزئیات اور تعابیر میں اختلاف کے ساتھ [[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] منابع میں نقل ہوا ہے۔ بہت سے منابع میں خطبے کا پورا متن نہیں آیا ہے اور مؤلفین نے صرف اس حصے کو بعنوان حدیث غدیر نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے جس میں امام علیؑ کو بعنوان امام اور ولی معرفی فرمایا ہے۔


[[علامہ امینی]] نے [[الغدیر]] میں 110 [[صحابہ]]، 84 [[تابعین]] اور [[اہل سنت]] کے دوسری صدی ہجری سے چودہویں صدی ہجری تک کے 360 علماء کا کا نام لیتے ہیں۔ <ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۱۴-۱۵.</ref> بعض مشہور اصحاب، تابعین اور راویوں کے نام درج ذیل ہیں:
[[علامہ امینی]] نے [[الغدیر]] میں 110 [[صحابہ]]، 84 [[تابعین]] اور [[اہل سنت]] کے دوسری صدی ہجری سے چودہویں صدی ہجری تک کے 360 علماء کا کا نام لیتے ہیں۔ <ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۱۴-۱۵.</ref> بعض مشہور اصحاب، تابعین اور راویوں کے نام درج ذیل ہیں:
سطر 72: سطر 72:
! اہل بیت !! صحابہ !! تابعین !! متاخرین
! اہل بیت !! صحابہ !! تابعین !! متاخرین
|-
|-
| [[امام علی(ع)]]<ref>ابن مغازلی، ''مناقب''، ص۱۱۲، ح ۱۵۵؛ ابن اثیر، ''اسدالغابہ''، ج۳، ص۳۰۷؛ ہیثمی، ج۹، ص۱۰۷</ref> || [[ابوبکر بن ابوقحافہ]] || ابوسلیمان مؤذن || [[محمد بن اسماعیل بخاری]]<ref>بخاری، ج۱، ص۳۷۵</ref>
| [[امام علیؑ]]<ref>ابن مغازلی، ''مناقب''، ص۱۱۲، ح ۱۵۵؛ ابن اثیر، ''اسدالغابہ''، ج۳، ص۳۰۷؛ ہیثمی، ج۹، ص۱۰۷</ref> || [[ابوبکر بن ابوقحافہ]] || ابوسلیمان مؤذن || [[محمد بن اسماعیل بخاری]]<ref>بخاری، ج۱، ص۳۷۵</ref>
|-
|-
| [[حضرت فاطمہ(س)]]<ref>ابن جزری، ''أسنی المطالب''، ص۴۹.</ref> || [[عمر بن خطاب]] || ابوصالح سمّان ذکوان مدنی || احمدبن یحیی [[بلاذری|بلاذری]]<ref>بلاذری، ''انساب الاشراف''، ص۱۰۸</ref>
| [[حضرت فاطمہ(س)]]<ref>ابن جزری، ''أسنی المطالب''، ص۴۹.</ref> || [[عمر بن خطاب]] || ابوصالح سمّان ذکوان مدنی || احمدبن یحیی [[بلاذری|بلاذری]]<ref>بلاذری، ''انساب الاشراف''، ص۱۰۸</ref>
|-
|-
| [[امام حسن(ع)]]<ref>قندوزی، ج۳، ص۳۶۹</ref> || [[عایشہ]] بنت ابی بکر || [[اصبغ بن نباتہ|اصبغ بن نباتہ]] کوفی || احمدبن شعیب نسائی<ref>نسائی، ص۱۳۲ _۱۰۴ _۱۰۳ _۱۰۱ _۱۰۰ _۹۶ _۹۳</ref>
| [[امام حسنؑ]]<ref>قندوزی، ج۳، ص۳۶۹</ref> || [[عایشہ]] بنت ابی بکر || [[اصبغ بن نباتہ|اصبغ بن نباتہ]] کوفی || احمدبن شعیب نسائی<ref>نسائی، ص۱۳۲ _۱۰۴ _۱۰۳ _۱۰۱ _۱۰۰ _۹۶ _۹۳</ref>
|-
|-
| [[امام حسین(ع)]]<ref>سلیم بن قیس، ص۳۲۱</ref> || عثمان بن عفّان || [[سلیم بن قیس ہلالی|سلیم بن قیس ہلالی]] || حسکانی حنفی<ref>حاکم حسکانی، ج۱، ص۲۰۱، ح ۲۱۱</ref>
| [[امام حسینؑ]]<ref>سلیم بن قیس، ص۳۲۱</ref> || عثمان بن عفّان || [[سلیم بن قیس ہلالی|سلیم بن قیس ہلالی]] || حسکانی حنفی<ref>حاکم حسکانی، ج۱، ص۲۰۱، ح ۲۱۱</ref>
|-
|-
| [[امام باقر(ع)]]<ref>ابن فتال، ''روضۃالواعظین''، ج۱، ص۸۹؛ طبرسی، ج۱، ص۶۶؛ ابن طاووس، ''الیقین''، ص۳۴۳؛ علم الہدی، ''نزہۃالکرام''، ج۱، ص۱۸۶</ref> || [[ام سلمہ (زوجہ پیغمبر اکرم)|ام سلمہ (زوجہ پیغمبر)]] || [[طاووس بن کیسان]] || [[ابن عساکر|ابن عساکر]] دمشقی<ref>ابن عساکر، ''ترجمۃ الامام الحسین''، ج۲، ص۷۰.</ref>
| [[امام باقرؑ]]<ref>ابن فتال، ''روضۃالواعظین''، ج۱، ص۸۹؛ طبرسی، ج۱، ص۶۶؛ ابن طاووس، ''الیقین''، ص۳۴۳؛ علم الہدی، ''نزہۃالکرام''، ج۱، ص۱۸۶</ref> || [[ام سلمہ (زوجہ پیغمبر اکرم)|ام سلمہ (زوجہ پیغمبر)]] || [[طاووس بن کیسان]] || [[ابن عساکر|ابن عساکر]] دمشقی<ref>ابن عساکر، ''ترجمۃ الامام الحسین''، ج۲، ص۷۰.</ref>
|-
|-
| || [[زید بن ارقم]]<ref>حلی، ''العُدَدُ القَویۃ''، ص۱۶۹؛ ابن طاووس، ''التحصین''، ص۵۷۸؛ بیاضی، ''الصراط المستقیم''، ج۱، ص۳۰۱؛ حسین بن جبور، ''نہج الایمان''، ورقہ۲۶ ۳۴</ref> || [[عمر بن عبدالعزیز]]، [[خلافت|خلیفہ]] [[بنی امیہ|اموی]]<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۱۴-۱۵</ref> || فخرالدین رازی شافعی<ref>فخر رازی، ج۱۲، ص۴۹</ref>
| || [[زید بن ارقم]]<ref>حلی، ''العُدَدُ القَویۃ''، ص۱۶۹؛ ابن طاووس، ''التحصین''، ص۵۷۸؛ بیاضی، ''الصراط المستقیم''، ج۱، ص۳۰۱؛ حسین بن جبور، ''نہج الایمان''، ورقہ۲۶ ۳۴</ref> || [[عمر بن عبدالعزیز]]، [[خلافت|خلیفہ]] [[بنی امیہ|اموی]]<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۱۴-۱۵</ref> || فخرالدین رازی شافعی<ref>فخر رازی، ج۱۲، ص۴۹</ref>
سطر 124: سطر 124:


====خطبے کی صحت پر اعتراض====
====خطبے کی صحت پر اعتراض====
اس حدیث کے مخالفین کی جانب سے اٹھائے جانے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ [[امام علی(ع)|علی(ع)]] اس وقت مکے میں نہیں تھے جس وقت [[غدیر خم]] میں یہ واقعہ پیش آیا بلکہ آپ(ع) اس وقت [[یمن]] کسی مشن پر گئے ہوئے تھے۔<ref>جرجانی، ''شرح المواقف''، ج۸، ص۳۶۱؛ طحاوی، ج۴، ص۲۱۲.</ref>
اس حدیث کے مخالفین کی جانب سے اٹھائے جانے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ [[امام علیؑ|علیؑ]] اس وقت مکے میں نہیں تھے جس وقت [[غدیر خم]] میں یہ واقعہ پیش آیا بلکہ آپؑ اس وقت [[یمن]] کسی مشن پر گئے ہوئے تھے۔<ref>جرجانی، ''شرح المواقف''، ج۸، ص۳۶۱؛ طحاوی، ج۴، ص۲۱۲.</ref>
اس کے مقابلے میں اس حدیث کے موافقین کا موقف جس طرح اہل سنت منابع میں ذکر ہوا ہے، یہ ہے کہ امام علی(ع) اس وقت یمن سے مکہ تشریف لائے تھے اور آپ نے باقاعدہ رسول اکرم(ص) کے ساتھ حج کے مراسم میں بھی شرکت کی تھی۔<ref>واقدی، ''المغازی''، ج۳، ص۱۰۷۹۱۰۸۰؛ حلبی، ''السیرہ الحلبیہ''، ج۳، ص۲۸۹.</ref>
اس کے مقابلے میں اس حدیث کے موافقین کا موقف جس طرح اہل سنت منابع میں ذکر ہوا ہے، یہ ہے کہ امام علیؑ اس وقت یمن سے مکہ تشریف لائے تھے اور آپ نے باقاعدہ رسول اکرمؐ کے ساتھ حج کے مراسم میں بھی شرکت کی تھی۔<ref>واقدی، ''المغازی''، ج۳، ص۱۰۷۹۱۰۸۰؛ حلبی، ''السیرہ الحلبیہ''، ج۳، ص۲۸۹.</ref>


==حدیث کی دلالت ==
==حدیث کی دلالت ==
حدیث غدیر ابتداء ہی سے بہت ساری عقیدتی ابحاث کا سرچشمہ بنا۔ [[حضرت علی(ع)]] اور [[اہل بیت]] اطہار علیہم السلام کی طرف سے اس حدیث کے ذریعے استدلال اور احتجاج اس حدیث سے بہرہ مندی کی پہلی سیڑھی سمجھی جاتا ہے۔ [[کلام امامیہ|شیعہ متکلمین]] نیز [[خلافت]] پر حضرت علی(ع) اپنی حقانیت اور برتری کو ثابت کرنے کیلئے اس حدیث سے استناد کرتے تھے۔ علم کلام کے منابع سے جو چیز معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ [[شیعہ متکلمین]] میں [[شیخ مفید]] پہلے شخص تھے جس نے مفصل طور پر اس حدیث سے استدلال کیا۔<ref> مفید، ''اقسام المولی''، ص۲۸بہ بعد</ref><ref> مفید، ''الافصاح''، ص۳۲.</ref> [[شیخ طوسی]]<ref> طوسی، الاقتصاد، ص۳۴۵</ref> اور [[علامہ حلی]]<ref>حلی، ''کشف المراد''، ص۳۶۹.</ref> نے بھی اس حدیث پر مفصل بحث کی ہے۔ اہل سنت متکلمین میں [[فخر رازی]]،<ref> فخر رازی، ''الاربعین فی اصول الدین''، ج‌۲، ص۲۸۳</ref> [[عضدالدین ایجی|قاضی ایجی]]،<ref>جرجانی، ''شرح المواقف''، ج۸، ص۳۶۰-۳۶۵.</ref> [[سعدالدین تفتازانی|تَفتازانی]]،<ref> تفتازانی، ج۵، ص۲۷۳-۲۷۵</ref> [[میر سید شریف جرجانی|جُرجانی]]<ref>جرجانی، ''شرح المواقف''، ج۸، ص۳۶۰-۳۶۵</ref> وغیرہ نے شیعہ علماء کو جواب دیتے ہوئے بہت ہی لمبی اور پرپیچ و خم بحثیں کی ہیں۔
حدیث غدیر ابتداء ہی سے بہت ساری عقیدتی ابحاث کا سرچشمہ بنا۔ [[حضرت علیؑ]] اور [[اہل بیت]] اطہار علیہم السلام کی طرف سے اس حدیث کے ذریعے استدلال اور احتجاج اس حدیث سے بہرہ مندی کی پہلی سیڑھی سمجھی جاتا ہے۔ [[کلام امامیہ|شیعہ متکلمین]] نیز [[خلافت]] پر حضرت علیؑ اپنی حقانیت اور برتری کو ثابت کرنے کیلئے اس حدیث سے استناد کرتے تھے۔ علم کلام کے منابع سے جو چیز معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ [[شیعہ متکلمین]] میں [[شیخ مفید]] پہلے شخص تھے جس نے مفصل طور پر اس حدیث سے استدلال کیا۔<ref> مفید، ''اقسام المولی''، ص۲۸بہ بعد</ref><ref> مفید، ''الافصاح''، ص۳۲.</ref> [[شیخ طوسی]]<ref> طوسی، الاقتصاد، ص۳۴۵</ref> اور [[علامہ حلی]]<ref>حلی، ''کشف المراد''، ص۳۶۹.</ref> نے بھی اس حدیث پر مفصل بحث کی ہے۔ اہل سنت متکلمین میں [[فخر رازی]]،<ref> فخر رازی، ''الاربعین فی اصول الدین''، ج‌۲، ص۲۸۳</ref> [[عضدالدین ایجی|قاضی ایجی]]،<ref>جرجانی، ''شرح المواقف''، ج۸، ص۳۶۰-۳۶۵.</ref> [[سعدالدین تفتازانی|تَفتازانی]]،<ref> تفتازانی، ج۵، ص۲۷۳-۲۷۵</ref> [[میر سید شریف جرجانی|جُرجانی]]<ref>جرجانی، ''شرح المواقف''، ج۸، ص۳۶۰-۳۶۵</ref> وغیرہ نے شیعہ علماء کو جواب دیتے ہوئے بہت ہی لمبی اور پرپیچ و خم بحثیں کی ہیں۔


===اہل سنت کا نظریہ===
===اہل سنت کا نظریہ===
سطر 147: سطر 147:


===شیعہ نقطہ نظر===
===شیعہ نقطہ نظر===
شیعہ معتقد ہیں کہ لفظ "مولی" اس [[حدیث]] میں "اولی بالتصرف" اور "صاحب اختیار" کے معنی میں ہے۔ اور جس طرح پیغمبر اکرم(ص) مسلمانوں کے امور میں خود ان سے زیادہ سزاوارتر تھے اسی طرح امام علی(ع) بھی تمام مسلمانوں کے مولا اور صاحب اختیار ہے۔ اس مطلب کی اثبات کیلئے پہلے دو نکتے کا ثابت ہونا ضروری ہے:
شیعہ معتقد ہیں کہ لفظ "مولی" اس [[حدیث]] میں "اولی بالتصرف" اور "صاحب اختیار" کے معنی میں ہے۔ اور جس طرح پیغمبر اکرمؐ مسلمانوں کے امور میں خود ان سے زیادہ سزاوارتر تھے اسی طرح امام علیؑ بھی تمام مسلمانوں کے مولا اور صاحب اختیار ہے۔ اس مطلب کی اثبات کیلئے پہلے دو نکتے کا ثابت ہونا ضروری ہے:


الف. مولی کے معنی اولی بالتصرف ہے؛
الف. مولی کے معنی اولی بالتصرف ہے؛
سطر 163: سطر 163:
*''' جملہ "الست اولی بکم من انفسکم" اور "من کنت مولاه" کا تقارن:'''
*''' جملہ "الست اولی بکم من انفسکم" اور "من کنت مولاه" کا تقارن:'''


اس حدیث میں پیغمبر اکرم(ص) نے مؤمنین کے جان و مال پر ان سے زیادہ پیغمبر کو الویت ہونے کے بارے میں تصریح فرمایا ہے۔ اس ملطب کی تائید قرآن کی آیت کے ذریعے بھی ہوا ہے۔ جہاں فرماتے ہیں:<font color=green>{{حدیث|النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم}}</font> <ref>سورہ احزاب، آیت نمبر 6</ref> اس آیت میں جس اولویت اور برتری کی طرف اشارہ ہوا ہے اس سے مراد مؤمنین کی زندگی کے امور سے متعلق ہیں یعنی ان کی زندگی کے امور کے بارے میں حکم کرنے کا حق خود ان سے زیادہ پیغمبر کو حاصل ہے۔ جب کسی کو ہمارے بارے میں حکم کرنے کا حق اور اولویت حاصل ہے تو ہم پر اس کے حکم کی اطاعت کرنا واجب ہے۔<ref>طوسی، التبیان، ج۸، ص۳۱۷</ref> بعض مفسرین کے مطابق اس آیت میں مذکور اولویت مؤمنین کی [[دین]] اور دنیا دونوں سے مربوط امور میں ہے۔<ref>بیضاوی، ج۴، ص۲۲۵</ref><ref>زمخشری، ج۳، ص۵۲۳</ref>کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) مؤمنین کی دین اور دنیا دونوں سے مربوط امور کی اصلاح فرماتے ہیں۔<ref>زمخشری، ج۳، ص۲۲۵</ref>
اس حدیث میں پیغمبر اکرمؐ نے مؤمنین کے جان و مال پر ان سے زیادہ پیغمبر کو الویت ہونے کے بارے میں تصریح فرمایا ہے۔ اس ملطب کی تائید قرآن کی آیت کے ذریعے بھی ہوا ہے۔ جہاں فرماتے ہیں:<font color=green>{{حدیث|النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم}}</font> <ref>سورہ احزاب، آیت نمبر 6</ref> اس آیت میں جس اولویت اور برتری کی طرف اشارہ ہوا ہے اس سے مراد مؤمنین کی زندگی کے امور سے متعلق ہیں یعنی ان کی زندگی کے امور کے بارے میں حکم کرنے کا حق خود ان سے زیادہ پیغمبر کو حاصل ہے۔ جب کسی کو ہمارے بارے میں حکم کرنے کا حق اور اولویت حاصل ہے تو ہم پر اس کے حکم کی اطاعت کرنا واجب ہے۔<ref>طوسی، التبیان، ج۸، ص۳۱۷</ref> بعض مفسرین کے مطابق اس آیت میں مذکور اولویت مؤمنین کی [[دین]] اور دنیا دونوں سے مربوط امور میں ہے۔<ref>بیضاوی، ج۴، ص۲۲۵</ref><ref>زمخشری، ج۳، ص۵۲۳</ref>کیونکہ پیغمبر اکرمؐ مؤمنین کی دین اور دنیا دونوں سے مربوط امور کی اصلاح فرماتے ہیں۔<ref>زمخشری، ج۳، ص۲۲۵</ref>


پس اس جملے کا حضرت علی(ع) کی ولایت و امامت کے اعلان کے ساتھ مقارن ہونا اس بات کی دلیل ہے۔ حدیث کے دوسرے جملے میں موجود لفظ "مولا" بھی مؤمین کے امور میں خود ان سے زیادہ حضرت علی(ع) کی اولویت کو بیان کرتا ہے۔ <ref>فخر رازی، ''الاربعین فی اصول الدین''، ج۲، ص۲۸۳</ref>
پس اس جملے کا حضرت علیؑ کی ولایت و امامت کے اعلان کے ساتھ مقارن ہونا اس بات کی دلیل ہے۔ حدیث کے دوسرے جملے میں موجود لفظ "مولا" بھی مؤمین کے امور میں خود ان سے زیادہ حضرت علیؑ کی اولویت کو بیان کرتا ہے۔ <ref>فخر رازی، ''الاربعین فی اصول الدین''، ج۲، ص۲۸۳</ref>


*''' اس خطبے کے ابتدائی جملات:'''
*''' اس خطبے کے ابتدائی جملات:'''


پیغمبر اکرم(ص) اس خطبے کی آغاز میں عنقریب اپنی رحلت کی خبر دیتے ہیں اس کے بعد [[توحید]] کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور یہ پوچھتے ہیں کہ آیا میں نے اپنی [[رسالت]] اور ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا یا نہیں؟ <ref>ابن اثیر، ''اسد الغابہ''، ج۱، ص۴۳۹؛ یعقوب، ج۲، ص۱۱۸؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج‌۷، ص۳۴۸۳۴۹؛ بلاذری، ''انساب الاشراف''، ج۲، ص۱۰۸.</ref> یہ ساری باتیں اس بات کی نشانی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) امت کیلئے اپنے بعد کی زندگی میں کسی راہ حل اور چارہ جوئی کی تلاش میں ہے تاکہ امت بے سرپرست نہ رہے اور خود پیغمر اکرم(ص) نے سالوں سال جو زحمت اٹھائی ہے وہ ضایع نہ ہوجائے۔ گویا آپ  اپنا [[خلافت|جانشین]] تعیین کرنا چاہتے تھے تاکہ امت کے امور کی زمام اپنے  بعد ایک لایق اور تمام اسرار و رموز سے واقف شخصیت کے حوالہ کرنا چاہتے تھے۔ <ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۵۷</ref> اور سورہ مائدہ کی [[آیت]] نمبر67 نیز اسی مطلب پر واضح دلیل ہے۔
پیغمبر اکرمؐ اس خطبے کی آغاز میں عنقریب اپنی رحلت کی خبر دیتے ہیں اس کے بعد [[توحید]] کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور یہ پوچھتے ہیں کہ آیا میں نے اپنی [[رسالت]] اور ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا یا نہیں؟ <ref>ابن اثیر، ''اسد الغابہ''، ج۱، ص۴۳۹؛ یعقوب، ج۲، ص۱۱۸؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج‌۷، ص۳۴۸۳۴۹؛ بلاذری، ''انساب الاشراف''، ج۲، ص۱۰۸.</ref> یہ ساری باتیں اس بات کی نشانی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ امت کیلئے اپنے بعد کی زندگی میں کسی راہ حل اور چارہ جوئی کی تلاش میں ہے تاکہ امت بے سرپرست نہ رہے اور خود پیغمر اکرمؐ نے سالوں سال جو زحمت اٹھائی ہے وہ ضایع نہ ہوجائے۔ گویا آپ  اپنا [[خلافت|جانشین]] تعیین کرنا چاہتے تھے تاکہ امت کے امور کی زمام اپنے  بعد ایک لایق اور تمام اسرار و رموز سے واقف شخصیت کے حوالہ کرنا چاہتے تھے۔ <ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۵۷</ref> اور سورہ مائدہ کی [[آیت]] نمبر67 نیز اسی مطلب پر واضح دلیل ہے۔


=====قرائن خارجی=====
=====قرائن خارجی=====
*'''پیغمبر اکرم(ص) کا مسلمانوں سے اقرار لینا''':
*'''پیغمبر اکرمؐ کا مسلمانوں سے اقرار لینا''':


پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر کے دن مسلمانوں سے کہا: تہمارا نبی اور مولا کون ہے؟
پیغمبر اکرمؐ نے غدیر کے دن مسلمانوں سے کہا: تہمارا نبی اور مولا کون ہے؟


سب نے فورا کہا: خداوند عالم ہمارا مولا اور آپ(ص) ہمارے نبی ہیں اور اس حوالے سے ہم سے کوئی نافرمانی نہیں دیکہو گے۔ اس موقع پر پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا: اٹھو میرے بعد تم اس امت کے مولا ہو۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہے تمہیں چاہئے کہ اس کا حقیقی پیروکار بنو۔
سب نے فورا کہا: خداوند عالم ہمارا مولا اور آپؐ ہمارے نبی ہیں اور اس حوالے سے ہم سے کوئی نافرمانی نہیں دیکہو گے۔ اس موقع پر پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا: اٹھو میرے بعد تم اس امت کے مولا ہو۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہے تمہیں چاہئے کہ اس کا حقیقی پیروکار بنو۔


اس موقع پر پیغمبر اکرم(ص) نے [[دعا]] فرمائی کہ خدایا! علی(ع) کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھ۔
اس موقع پر پیغمبر اکرمؐ نے [[دعا]] فرمائی کہ خدایا! علیؑ کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھ۔


* '''[[عمر بن خطاب]] اور [[ابوبکر]] کا حضرت علی(ع) کو مبارک باد دینا''':
* '''[[عمر بن خطاب]] اور [[ابوبکر]] کا حضرت علیؑ کو مبارک باد دینا''':


اس حدیث کے بعض راویوں نے نقل کیا ہے کہ اس خطبے کے آخر میں [[ابوبکر بن ابی قحافہ]] اور [[عمر بن خطاب]] نے [[امام علی(ع)]] کے پاس آکر انہیں [[ولایت]] اور امامت پر فائز ہونے پر مبارک باد دی۔<ref>مناوی، ج۶، ص۲۱۷</ref> عمر بن خطاب نے آپ(ع) سے کہا:
اس حدیث کے بعض راویوں نے نقل کیا ہے کہ اس خطبے کے آخر میں [[ابوبکر بن ابی قحافہ]] اور [[عمر بن خطاب]] نے [[امام علیؑ]] کے پاس آکر انہیں [[ولایت]] اور امامت پر فائز ہونے پر مبارک باد دی۔<ref>مناوی، ج۶، ص۲۱۷</ref> عمر بن خطاب نے آپؑ سے کہا:


{{حدیث|بَخٍّ بَخٍّ لَکَ یا ابنَ أبی طالب، أصبَحتَ مَولای و مَولی کُلِّ مُسلمٍ}}:‌اے اباالحسن، آپ کو مبارک ہو آپ میرے اور تمام مسلمان مرد اور عورت کے مولا بن گئے ہو۔<ref>ابن حنبل، ''مسند احمد''، ج۴، ص۲۸۱.</ref><ref>ابن مغازلی، ''مناقب''، ج۱، ص۴۶؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹.</ref>
{{حدیث|بَخٍّ بَخٍّ لَکَ یا ابنَ أبی طالب، أصبَحتَ مَولای و مَولی کُلِّ مُسلمٍ}}:‌اے اباالحسن، آپ کو مبارک ہو آپ میرے اور تمام مسلمان مرد اور عورت کے مولا بن گئے ہو۔<ref>ابن حنبل، ''مسند احمد''، ج۴، ص۲۸۱.</ref><ref>ابن مغازلی، ''مناقب''، ج۱، ص۴۶؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹.</ref>


اصحاب کا اس طرح حضرت علی(ع) کو مبارک باد دینا خود ایک واضح نشانی ہے کہ صدر اسلام کے مسلمان لفظ "مولا" سے [[خلافت]] اور اولی بالتصرف کے معنی سمجھتے تھے۔<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۶۷.</ref>
اصحاب کا اس طرح حضرت علیؑ کو مبارک باد دینا خود ایک واضح نشانی ہے کہ صدر اسلام کے مسلمان لفظ "مولا" سے [[خلافت]] اور اولی بالتصرف کے معنی سمجھتے تھے۔<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۶۷.</ref>


*''' صدر اسلام کے شعراء کے اشعار:'''
*''' صدر اسلام کے شعراء کے اشعار:'''


متعدد مسلمانوں نے اس واقعے کی اشعار کے ذریعے منظر کشی کی ہے جن میں سے پہلا شخص [[حسان بن ثابت]] تھا۔ حسان بن ثابت وہاں موجود تھا اور پیغمبر اکرم(ص) سے اجازت لے کر اس واقعے کی توصیف میں چند اشعار کہے۔ ان اشعار میں اس نے اس واقعے میں حضرت علی(ع) کا بعنوان امام و ہادی امت نصب ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref>طوسی، الاقتصاد، ص۳۵۱</ref><ref>سید رضی، ص۴۳</ref>
متعدد مسلمانوں نے اس واقعے کی اشعار کے ذریعے منظر کشی کی ہے جن میں سے پہلا شخص [[حسان بن ثابت]] تھا۔ حسان بن ثابت وہاں موجود تھا اور پیغمبر اکرمؐ سے اجازت لے کر اس واقعے کی توصیف میں چند اشعار کہے۔ ان اشعار میں اس نے اس واقعے میں حضرت علیؑ کا بعنوان امام و ہادی امت نصب ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref>طوسی، الاقتصاد، ص۳۵۱</ref><ref>سید رضی، ص۴۳</ref>


واقعہ غدیر کے متعلق [[حسان بن ثابت]] کے اشعار:{{شعر2  
واقعہ غدیر کے متعلق [[حسان بن ثابت]] کے اشعار:{{شعر2  
|ینادیہم یوم الغدیر [[نبی(ص)|نبیہم]] | [[غدیر خم|بخم]] و أسمع بالرسول منادیا
|ینادیہم یوم الغدیر [[نبیؐ|نبیہم]] | [[غدیر خم|بخم]] و أسمع بالرسول منادیا
|فقال فمن [[ولایت|مولاکم]] و ولیکم | فقالوا و لم یبدوا ہناک التعادیا
|فقال فمن [[ولایت|مولاکم]] و ولیکم | فقالوا و لم یبدوا ہناک التعادیا
|[[خدا|إلہک]] مولانا و أنت ولینا | و لم‌تر منا فی المقالۃ عاصیا
|[[خدا|إلہک]] مولانا و أنت ولینا | و لم‌تر منا فی المقالۃ عاصیا
| فقال لہ قم یا [[علی(ع)|علی]] فإننی |رضیتک من بعدی [[امامت|إماما]] و ہادیا
| فقال لہ قم یا [[علیؑ|علی]] فإننی |رضیتک من بعدی [[امامت|إماما]] و ہادیا
| فمن کنت مولاہ فہذا ولیہ| فکونوا لہ [[انصار|أنصار]] صدق موالیا
| فمن کنت مولاہ فہذا ولیہ| فکونوا لہ [[انصار|أنصار]] صدق موالیا
| ہناک دعا اللہم وال ولیہ | و کن للذی عادی علیا معادیا}}
| ہناک دعا اللہم وال ولیہ | و کن للذی عادی علیا معادیا}}
سطر 202: سطر 202:
اس واقعے کے کئی سال بعد [[عمرو عاص]]، [[قیس بن سعد بن عبادہ]]،<ref> سید رضی، ص۴۳</ref><ref>دلائل الصدق، ج‌۴، ص۳۴۰</ref> [[کمیت بن زید اسدی]]،<ref>سید رضی، ص۴۳</ref> [[محمد بن عبداللہ حمیری]]،<ref>مجلسی، ج۳، ص۲۷۰</ref> [[اسماعیل بن محمد حمیری|سید بن محمد بن حمیری]]،<ref>سید رضی، ص۴۳</ref> وغیرہ نے اس واقعے کو اشعار میں بیان کیا ہے۔
اس واقعے کے کئی سال بعد [[عمرو عاص]]، [[قیس بن سعد بن عبادہ]]،<ref> سید رضی، ص۴۳</ref><ref>دلائل الصدق، ج‌۴، ص۳۴۰</ref> [[کمیت بن زید اسدی]]،<ref>سید رضی، ص۴۳</ref> [[محمد بن عبداللہ حمیری]]،<ref>مجلسی، ج۳، ص۲۷۰</ref> [[اسماعیل بن محمد حمیری|سید بن محمد بن حمیری]]،<ref>سید رضی، ص۴۳</ref> وغیرہ نے اس واقعے کو اشعار میں بیان کیا ہے۔


حضرت علی(ع) نے نیز اس واقعے کے بارے میں چند اشعار ارشاد فرمائے ہیں۔<ref>طبرسی، ''الاحتجاج''، ج۱، ص۱۸۱.</ref>
حضرت علیؑ نے نیز اس واقعے کے بارے میں چند اشعار ارشاد فرمائے ہیں۔<ref>طبرسی، ''الاحتجاج''، ج۱، ص۱۸۱.</ref>
{{شعر2
{{شعر2
| فأوجبَ لی ولایتَہ علیکمْ| رسولُ اللَّہ یومَ غدیرِ خُمّ  
| فأوجبَ لی ولایتَہ علیکمْ| رسولُ اللَّہ یومَ غدیرِ خُمّ  
سطر 216: سطر 216:
*''' اہل بیت کا اس حدیث کے ذریعے احتجاج اور استدلال''':
*''' اہل بیت کا اس حدیث کے ذریعے احتجاج اور استدلال''':


امام علی(ع) نے کئی مواقع پر اس [[حدیث]] سے استناد کرتے ہوئے خلافت اور امامت کیلئے سب سے زیادہ اپنے آپ کا سزاوار ہونا ثابت کیا ہے۔ مثلا  [[جنگ جمل]] میں [[طلحہ بن عبید اللہ|طلحہ]] کے ساتھ اسی حدیث کے ذریعے استدلال فرمایا،<ref>حاکم نیشابوری، ج۳، ص۴۱۹</ref> اسی طرح [[مسجد کوفہ]] میں معاویہ کو لکھے گئے ایک خط میں چند اشعار کے ضمن میں اس حدیث کے ساتھ استدلال فرمایا <ref>ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۵، ص۲۱۱.</ref> <ref>طبرسی، ''الاحتجاج''، ج۱، ص۱۸۱؛</ref> اسی طرح جنگ صفین میں آ پ احتجاج اور استدلال فرمایا<ref>مجلسی، ج۳۳، ص۴۱</ref> [[حضرت فاطمہ زہرا]] نے بھی مخالفین کے مقابلے میں حضرت علی(ع) کی خلافت اور امامت پر اس حدیث کے ذریعے استدلال فرمائی ہے۔ <ref>ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۰۴.</ref>
امام علیؑ نے کئی مواقع پر اس [[حدیث]] سے استناد کرتے ہوئے خلافت اور امامت کیلئے سب سے زیادہ اپنے آپ کا سزاوار ہونا ثابت کیا ہے۔ مثلا  [[جنگ جمل]] میں [[طلحہ بن عبید اللہ|طلحہ]] کے ساتھ اسی حدیث کے ذریعے استدلال فرمایا،<ref>حاکم نیشابوری، ج۳، ص۴۱۹</ref> اسی طرح [[مسجد کوفہ]] میں معاویہ کو لکھے گئے ایک خط میں چند اشعار کے ضمن میں اس حدیث کے ساتھ استدلال فرمایا <ref>ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۵، ص۲۱۱.</ref> <ref>طبرسی، ''الاحتجاج''، ج۱، ص۱۸۱؛</ref> اسی طرح جنگ صفین میں آ پ احتجاج اور استدلال فرمایا<ref>مجلسی، ج۳۳، ص۴۱</ref> [[حضرت فاطمہ زہرا]] نے بھی مخالفین کے مقابلے میں حضرت علیؑ کی خلافت اور امامت پر اس حدیث کے ذریعے استدلال فرمائی ہے۔ <ref>ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۰۴.</ref>


*'''اس حدیث کے بعض منکرین کا لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہونا:'''
*'''اس حدیث کے بعض منکرین کا لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہونا:'''


بعض صحابہ جو اس واقعے کے چشم دید گواہ تھے لیکن اس پر گواہی دینے سے انکار کرنے پر [[اہل بیت]] کی لعن میں گرفتار ہوئے۔ ان لعنتوں کے نتیجے میں یہ بیمار ہوئے۔ مثال کے طور پر [[انس بن مالک]] برس کی بیماری میں مبتلاء ہو گیا۔<ref>صدوق، امالی، ص۲۲</ref><ref>ابن قتیبہ، ''الامامۃ والسیاسۃ''، ج۱، ص۵۸۰</ref> [[زید بن ارقم]]<ref>ابن مغازلی، ''مناقب''، ج۱، ص۶۲.</ref> اور [[اشعث بن قیس]] <ref>صدوق، امالی، ص۱۶۲.</ref> نابینا ہو گیا۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ صرف حضرت علی(ع) سے دوستی اور محبت کے اظہار کرنے کی سفارش پر مشتمل نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم کام کا اعلان ہونا تھا اسی لئے بعض اس کا انکار کرتے تھے جس کی وجہ سے اہل بیت کی لعنت کے مستحق قرار پاتے جو بعد میں ایک لا علاج بیماری کی صورت اختیار کر جاتی۔<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۶۴.</ref>
بعض صحابہ جو اس واقعے کے چشم دید گواہ تھے لیکن اس پر گواہی دینے سے انکار کرنے پر [[اہل بیت]] کی لعن میں گرفتار ہوئے۔ ان لعنتوں کے نتیجے میں یہ بیمار ہوئے۔ مثال کے طور پر [[انس بن مالک]] برس کی بیماری میں مبتلاء ہو گیا۔<ref>صدوق، امالی، ص۲۲</ref><ref>ابن قتیبہ، ''الامامۃ والسیاسۃ''، ج۱، ص۵۸۰</ref> [[زید بن ارقم]]<ref>ابن مغازلی، ''مناقب''، ج۱، ص۶۲.</ref> اور [[اشعث بن قیس]] <ref>صدوق، امالی، ص۱۶۲.</ref> نابینا ہو گیا۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ صرف حضرت علیؑ سے دوستی اور محبت کے اظہار کرنے کی سفارش پر مشتمل نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم کام کا اعلان ہونا تھا اسی لئے بعض اس کا انکار کرتے تھے جس کی وجہ سے اہل بیت کی لعنت کے مستحق قرار پاتے جو بعد میں ایک لا علاج بیماری کی صورت اختیار کر جاتی۔<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۶۴.</ref>


*''آیت تبلیغ کا نزول:'''
*''آیت تبلیغ کا نزول:'''
سطر 226: سطر 226:
[[ملف:آیه تبلیغ.jpg|LEFT|تصغیر|سورہ مائدہ کی آیت نمبر 67۔ (آیت تبلیغ]]
[[ملف:آیه تبلیغ.jpg|LEFT|تصغیر|سورہ مائدہ کی آیت نمبر 67۔ (آیت تبلیغ]]


بعض احادیث <ref>قمی، ج۱، ص۱۷۱</ref><ref>طبرسی، ''جوامع الجامع''، ج۱، ص۳۴۳</ref> اور مفسرین کے مطابق <ref>سیوطی، ج۲، ص۲۹۸</ref><ref>عیاشی، ج۱، ص۳۳۲</ref> سورہ مائدہ کی [[آیت]] نمبر 67،[[حجۃ الوداع]] کے موقع پر [[مکہ]] اور [[مدینہ]] نازل ہوئی۔ جس میں ایک اہم کام کی تبلیغ کی ذمہ داری رسول اکرم(ص) کے گردن پر ڈالا گیا جو پیغمبر(ص) کی 23 سالہ زندگی میں انجام دینے والی رسالت کے کام کے برابر تھا۔ چنانچہ اگر اس کام کی تبلیغ نہیں کی گئی تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔ البتہ یہ تبلیغ بہت ساری مشکلات اور خطرات سے روبروی ہوں گے لیکن خداوند عالم نے خود پیغمبر(ص) کو ان خطرات سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دی ہے۔ اس آیت میں استعمال ہونے والی تاکیدیں اور سفارشیں بھی اس کام کی اہمیت اور مقام و منزلت پر واضح دلیل ہے اور یہ آیت جس امر مہم کی تبلیغ کا حکم دی رہی ہے وہ صرف اور صرف حضرت علی(ع) کی امامت اور ولایت کے اعلان کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔<ref>عیاشی، ج۱، ص۳۳۱</ref><ref>طبرسی، ''مجمع البیان''، ج۱، ص۳۳۴.</ref> [[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]]، [[براء بن عاذب]] و محمد بن علی وغیرہ اسی عقیدے پر قائم تھے۔<ref>فخر رازی، ج۱۲، ص۴۰۱</ref>
بعض احادیث <ref>قمی، ج۱، ص۱۷۱</ref><ref>طبرسی، ''جوامع الجامع''، ج۱، ص۳۴۳</ref> اور مفسرین کے مطابق <ref>سیوطی، ج۲، ص۲۹۸</ref><ref>عیاشی، ج۱، ص۳۳۲</ref> سورہ مائدہ کی [[آیت]] نمبر 67،[[حجۃ الوداع]] کے موقع پر [[مکہ]] اور [[مدینہ]] نازل ہوئی۔ جس میں ایک اہم کام کی تبلیغ کی ذمہ داری رسول اکرمؐ کے گردن پر ڈالا گیا جو پیغمبرؐ کی 23 سالہ زندگی میں انجام دینے والی رسالت کے کام کے برابر تھا۔ چنانچہ اگر اس کام کی تبلیغ نہیں کی گئی تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔ البتہ یہ تبلیغ بہت ساری مشکلات اور خطرات سے روبروی ہوں گے لیکن خداوند عالم نے خود پیغمبرؐ کو ان خطرات سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دی ہے۔ اس آیت میں استعمال ہونے والی تاکیدیں اور سفارشیں بھی اس کام کی اہمیت اور مقام و منزلت پر واضح دلیل ہے اور یہ آیت جس امر مہم کی تبلیغ کا حکم دی رہی ہے وہ صرف اور صرف حضرت علیؑ کی امامت اور ولایت کے اعلان کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔<ref>عیاشی، ج۱، ص۳۳۱</ref><ref>طبرسی، ''مجمع البیان''، ج۱، ص۳۳۴.</ref> [[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]]، [[براء بن عاذب]] و محمد بن علی وغیرہ اسی عقیدے پر قائم تھے۔<ref>فخر رازی، ج۱۲، ص۴۰۱</ref>


اگرچہ بعض یہ مانتے ہیں کہ اس آیت میں جس امر کی تبلیغ پر تاکید کی گئی تھی وہ بعض احکام جیسے [[قصاص]]،[[رجم]]، رسول کے لے پالے گئے بیٹے [[زید بن حارثہ|زید]] کی بیوی سے شادی کرنے کا حکم، وجوب [[جہاد]] کا حکم یا  [[یہود|یہودیوں]] اور [[قریش]] اور [[شرک|مشرکین]] کے بتوں کے عیب کا بیان تھا۔<ref>فخر رازی، ج۱۲، ص۴۰۰-۴۰۲</ref> لیکن مذکورہ قرائن و شواہد کے بعد اس نظریے کا غلط اور باطل ہونا واضح ہے۔
اگرچہ بعض یہ مانتے ہیں کہ اس آیت میں جس امر کی تبلیغ پر تاکید کی گئی تھی وہ بعض احکام جیسے [[قصاص]]،[[رجم]]، رسول کے لے پالے گئے بیٹے [[زید بن حارثہ|زید]] کی بیوی سے شادی کرنے کا حکم، وجوب [[جہاد]] کا حکم یا  [[یہود|یہودیوں]] اور [[قریش]] اور [[شرک|مشرکین]] کے بتوں کے عیب کا بیان تھا۔<ref>فخر رازی، ج۱۲، ص۴۰۰-۴۰۲</ref> لیکن مذکورہ قرائن و شواہد کے بعد اس نظریے کا غلط اور باطل ہونا واضح ہے۔
سطر 233: سطر 233:
[[ملف:آیه اکمال از آیات غدیر.png|LEFT|تصغیر|سورہ مائدہ کی آیت نمیر 3 (آیت اکمال دین)]]
[[ملف:آیه اکمال از آیات غدیر.png|LEFT|تصغیر|سورہ مائدہ کی آیت نمیر 3 (آیت اکمال دین)]]
<!--
<!--
پیغمبر اکرم(ص) کا خطبہ جب اپنے اختتام کو پہتچا تو اس وقت سورہ مائدہ کی [[آیت]] نمبر 3 نازل ہوئی۔۳ سوره مائده نازل شد.<ref>بحرانی، ج۲، ص۲۲۷</ref> این مطلب، نشان دهنده ویژگی‌هایی برای این روز است. مأیوس شدن [[کفر|کافران]] از دین [[اسلام]]؛ کامل شدن معارف دین؛ تمام شدن نعمت خداوند و رضایت خداوند به اینکه اسلام دین نهایی مردم باشد.<ref>طباطبایی، ج۵، ص۱۸۱</ref><ref>مکارم شیرازی، ج۴، ص۲۵۸</ref>
پیغمبر اکرمؐ کا خطبہ جب اپنے اختتام کو پہتچا تو اس وقت سورہ مائدہ کی [[آیت]] نمبر 3 نازل ہوئی۔۳ سوره مائده نازل شد.<ref>بحرانی، ج۲، ص۲۲۷</ref> این مطلب، نشان دهنده ویژگی‌هایی برای این روز است. مأیوس شدن [[کفر|کافران]] از دین [[اسلام]]؛ کامل شدن معارف دین؛ تمام شدن نعمت خداوند و رضایت خداوند به اینکه اسلام دین نهایی مردم باشد.<ref>طباطبایی، ج۵، ص۱۸۱</ref><ref>مکارم شیرازی، ج۴، ص۲۵۸</ref>


این آیه، به تعبیر برخی، آخرین [[واجبات|فریضه]] در اسلام را بیان کرد و بعد از آن امر واجب دیگری بیان نشده است.<ref>عیاشی، ج۱، ص۲۹۳</ref><ref>قمی، ج۱، ص۱۶۲</ref><ref>فخر رازی، ج۱۱، ص۲۸۸</ref> پیامبر(ص) نیز پس از نزول این آیه، حمد و سپاس خداوند را به خاطر کامل شدن دین به جای آورد.<ref>سیوطی، ج۲، ص۲۵۹</ref> با توجه به اینکه در آن زمان حکمی باقی نمانده بود که کامل کننده دین و مأیوس کننده کفار باشد، اعلام ولایت حضرت علی(ع) تنها مسأله‌ای بود که تمام این خصوصیات را دارا بود.<ref>طباطبایی، ج۵، ص۱۶۸-۱۷۵</ref> همانطور که چند روایت به این مسأله اشاره شده است.<ref>عیاشی، ج۱، ص۲۹۳</ref>
این آیه، به تعبیر برخی، آخرین [[واجبات|فریضه]] در اسلام را بیان کرد و بعد از آن امر واجب دیگری بیان نشده است.<ref>عیاشی، ج۱، ص۲۹۳</ref><ref>قمی، ج۱، ص۱۶۲</ref><ref>فخر رازی، ج۱۱، ص۲۸۸</ref> پیامبرؐ نیز پس از نزول این آیه، حمد و سپاس خداوند را به خاطر کامل شدن دین به جای آورد.<ref>سیوطی، ج۲، ص۲۵۹</ref> با توجه به اینکه در آن زمان حکمی باقی نمانده بود که کامل کننده دین و مأیوس کننده کفار باشد، اعلام ولایت حضرت علیؑ تنها مسأله‌ای بود که تمام این خصوصیات را دارا بود.<ref>طباطبایی، ج۵، ص۱۶۸-۱۷۵</ref> همانطور که چند روایت به این مسأله اشاره شده است.<ref>عیاشی، ج۱، ص۲۹۳</ref>


در مقابل این دیدگاه، عده‌ای معتقدند کامل شدن دین به خاطر کامل شدن [[شریعت]] و [[احکام]] دین با بیان احکامی بوده که احتیاج آیندگان را نیز برطرف کرده و نیازی به آمدن دین جدید نیست.<ref>طبری، ''جامع البیان''، ج۵، ص۵۱.</ref>
در مقابل این دیدگاه، عده‌ای معتقدند کامل شدن دین به خاطر کامل شدن [[شریعت]] و [[احکام]] دین با بیان احکامی بوده که احتیاج آیندگان را نیز برطرف کرده و نیازی به آمدن دین جدید نیست.<ref>طبری، ''جامع البیان''، ج۵، ص۵۱.</ref>
سطر 243: سطر 243:
'''*آیات ابتدایی [[سوره معارج]]:'''
'''*آیات ابتدایی [[سوره معارج]]:'''


پس از آنکه پیامبر(ص)، مسأله ولایت علی علیه‌السلام را به مردم اعلان کرد، شخصی به نام [[نعمان بن حارث فهری]] نزد ایشان آمد و با حالت اعتراض به پیامبر(ص) گفت: ما را به توحید و قبول رسالتت و انجام [[جهاد]] و [[حج]] و [[روزه]] و [[نماز]] و [[زکات]] امر کردی، ماهم قبول کردیم. اما به این مقدار راضی نشدی تا اینکه این جوان را منصوب کردی و او را ولی ما قرار دادی. آیا این اعلام ولایت از ناحیه خودت بود یا از سوی خدا؟ به محض اینکه حضرت به او فرمود که از ناحیه خداوند است، با حالت انکار از خداوند خواست که اگر این حکم از جانب اوست، سنگی از آسمان بر سرش فرود آید. در این هنگام سنگی از آسمان بر سرش فرود آمد و در دم جان باخت. در این هنگام آیات ابتدایی [[سوره معارج]] نازل شد:<ref>طبرسی، ''مجمع البیان''، ج۱۰، ص۵۳۰؛ قرطبی، ج۱۹، ص۲۷۸؛ ثعلبی، ج۱۰، ص۳۵.</ref>
پس از آنکه پیامبرؐ، مسأله ولایت علی علیه‌السلام را به مردم اعلان کرد، شخصی به نام [[نعمان بن حارث فهری]] نزد ایشان آمد و با حالت اعتراض به پیامبرؐ گفت: ما را به توحید و قبول رسالتت و انجام [[جهاد]] و [[حج]] و [[روزه]] و [[نماز]] و [[زکات]] امر کردی، ماهم قبول کردیم. اما به این مقدار راضی نشدی تا اینکه این جوان را منصوب کردی و او را ولی ما قرار دادی. آیا این اعلام ولایت از ناحیه خودت بود یا از سوی خدا؟ به محض اینکه حضرت به او فرمود که از ناحیه خداوند است، با حالت انکار از خداوند خواست که اگر این حکم از جانب اوست، سنگی از آسمان بر سرش فرود آید. در این هنگام سنگی از آسمان بر سرش فرود آمد و در دم جان باخت. در این هنگام آیات ابتدایی [[سوره معارج]] نازل شد:<ref>طبرسی، ''مجمع البیان''، ج۱۰، ص۵۳۰؛ قرطبی، ج۱۹، ص۲۷۸؛ ثعلبی، ج۱۰، ص۳۵.</ref>


<blockquote>{{متن قرآن|{{قلم رنگ۱|سیاه|سَأَلَ سائِلٌ بِعَذابٍ واقِع}}|ترجمه= سؤال کنندهای درخواست عذابی کرد که واقع شد.|سوره=۷۰|آیه=۱}}</blockquote>
<blockquote>{{متن قرآن|{{قلم رنگ۱|سیاه|سَأَلَ سائِلٌ بِعَذابٍ واقِع}}|ترجمه= سؤال کنندهای درخواست عذابی کرد که واقع شد.|سوره=۷۰|آیه=۱}}</blockquote>


به اعتقاد شیعیان این شخص چیزی جز اعلام خلافت و صاحب اختیاری علی(ع) بعد از رسول الله از حدیث نفهمیده است و گرنه اگر منظور از این خطبه، دعوت مردم به دوستی حضرت علی(ع) بوده، معنا نداشت که آن شخص از این امر ناراحت شود و نیز چنین مجازاتی برایش در پی داشته باشد.
به اعتقاد شیعیان این شخص چیزی جز اعلام خلافت و صاحب اختیاری علیؑ بعد از رسول الله از حدیث نفهمیده است و گرنه اگر منظور از این خطبه، دعوت مردم به دوستی حضرت علیؑ بوده، معنا نداشت که آن شخص از این امر ناراحت شود و نیز چنین مجازاتی برایش در پی داشته باشد.
-->
-->


سطر 283: سطر 283:
== متعلقہ صفحات ==
== متعلقہ صفحات ==
{{ستون آ|7}}
{{ستون آ|7}}
* [[امام علی(ع)]]
* [[امام علیؑ]]
* [[واقعہ غدیر]]
* [[واقعہ غدیر]]
* [[عید غدیر]]
* [[عید غدیر]]
سطر 357: سطر 357:
*حر عاملی، ''جواہر السنیۃ''، ابوالقاسم محمدصادق حسینی، بمبئی.
*حر عاملی، ''جواہر السنیۃ''، ابوالقاسم محمدصادق حسینی، بمبئی.
*حر عاملی، ''اثبات الہداۃ''، بیروت، مؤسسہ اعلمی للمطبوعات.
*حر عاملی، ''اثبات الہداۃ''، بیروت، مؤسسہ اعلمی للمطبوعات.
*حسین بن جبور، ''نہج الایمان''، مشہد، نسخہ خطی کتابخانہ امام ہادی(ع).
*حسین بن جبور، ''نہج الایمان''، مشہد، نسخہ خطی کتابخانہ امام ہادیؑ.
*حلبی، ''السیرہ الحلبیہ''، بیروت، دارالمعرفہ.
*حلبی، ''السیرہ الحلبیہ''، بیروت، دارالمعرفہ.
*حلی، حسن بن یوسف، ''کشف المراد''، قم، نشر اسلامی، ۱۴۱۳ق، چاپ چہارم.
*حلی، حسن بن یوسف، ''کشف المراد''، قم، نشر اسلامی، ۱۴۱۳ق، چاپ چہارم.
سطر 406: سطر 406:
*مسعودی، ''مُرُوج الذہب و معادن الجواہر''، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی.
*مسعودی، ''مُرُوج الذہب و معادن الجواہر''، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی.
*مسلم نیشابوری، ''صحیح مسلم''، بیروت، دارالفکر.
*مسلم نیشابوری، ''صحیح مسلم''، بیروت، دارالفکر.
*مظفر، محمد حسین، ''دلائل الصدق''، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، ۱۴۲۲ق.
*مظفر، محمد حسین، ''دلائل الصدق''، قم، مؤسسہ آل البیتؑ، ۱۴۲۲ق.
*مفید، محمد بن محمد، ''اقسام المولی''، قم، الموتمر العالمی للشیخ المفید، ۱۴۱۳ق.
*مفید، محمد بن محمد، ''اقسام المولی''، قم، الموتمر العالمی للشیخ المفید، ۱۴۱۳ق.
*مفید، محمد بن محمد، ''الاختصاص''، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی.
*مفید، محمد بن محمد، ''الاختصاص''، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی.
سطر 463: سطر 463:
[[زمرہ:فضائل امام علی]]
[[زمرہ:فضائل امام علی]]
[[زمرہ:حائز اہمیت درجہ اول مقالات]]
[[زمرہ:حائز اہمیت درجہ اول مقالات]]
[[زمرہ:متواتر احادیث]]
confirmed، templateeditor
5,869

ترامیم