مندرجات کا رخ کریں

"خطبہ غدیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 147: سطر 147:


===شیعہ نقطہ نظر===
===شیعہ نقطہ نظر===
شیعہ معتقد ہیں کہ لفظ "مولی" اس [[حدیث]] میں "اولی بالتصرف" اور "صاحب اختیار" کے معنی میں ہے۔ اور جس طرح پیغمبر اکرم(ص) مسلمانوں کے امور میں خود ان سے زیادہ سزاوارتر تھے اسی طرح امام علی(ع) بھی تمام مسلمانوں کا مولا اور صاحب اختیار ہے۔ اس مطلب کی اثبات کیلئے پہلے دو نکتے کا ثابت ہونا ضروری ہے:
شیعہ معتقد ہیں کہ لفظ "مولی" اس [[حدیث]] میں "اولی بالتصرف" اور "صاحب اختیار" کے معنی میں ہے۔ اور جس طرح پیغمبر اکرم(ص) مسلمانوں کے امور میں خود ان سے زیادہ سزاوارتر تھے اسی طرح امام علی(ع) بھی تمام مسلمانوں کے مولا اور صاحب اختیار ہے۔ اس مطلب کی اثبات کیلئے پہلے دو نکتے کا ثابت ہونا ضروری ہے:


الف. مولی کے معنی اولی بالتصرف ہے؛
الف. مولی کے معنی اولی بالتصرف ہے؛
سطر 153: سطر 153:
ب. اولی بالتصرف ہونے اور [[امامت]] و [[خلافت]] کے درمیان ملازمہ برقرار ہو۔ <ref>فخر رازی، ''الاربعین فی اصول الدین''، ج‌۲، ص۲۸۳.</ref>
ب. اولی بالتصرف ہونے اور [[امامت]] و [[خلافت]] کے درمیان ملازمہ برقرار ہو۔ <ref>فخر رازی، ''الاربعین فی اصول الدین''، ج‌۲، ص۲۸۳.</ref>


شیعوں کے مطابق اس حدیث کے متن میں ایسے قرائن و شواہد موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے  کہ اس حدیث میں مولا سے مراد صرف اور صرف اولی بالتصرف ہے۔ جب اولی بالتصرف ہونا ثابت ہو جائے تو امامت بھی ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ عرب "اولی بالتصرف" کے لفظ کو صرف اس مورد میں استعمال کرتے ہیں جہاں شخص مولی اپنے مولی علیہ کی سرپرستی کرتا ہو اور اس شخص کے احکامات ان کیلئے معتبر اور مورد قبول ہو۔ <ref>شریف مرتضی، الشافی، ج۲ ص۲۷۷</ref> جب اولی بالتصرف ثابت ہو جائے تو مسلمانوں کے زندگی کے تمام امور میں ان کی الویت ثابت ہوتی ہے جس طرح پیغمبر اکرم کو ایسی اولویت حاصل تھی۔ <font color=green>{{حدیث|اَلنَّبِیُّ أَوْلی بِالْمُؤْمِنینَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ}}</font> ترجمہ:پیغمبر مومنوں کے حوالے سے خود ان سے بھی زیادہ سزاوار ہے۔<ref>سورہ احزاب، آیت نمبر 16۔</ref>
شیعوں کے مطابق اس حدیث کے متن میں ایسے قرائن و شواہد موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے  کہ اس حدیث میں مولا سے مراد صرف اور صرف اولی بالتصرف ہے۔ جب اولی بالتصرف ہونا ثابت ہو جائے تو امامت بھی ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ عرب "اولی بالتصرف" کے لفظ کو صرف اس مورد میں استعمال کرتے ہیں جہاں شخص مولی اپنے مولی علیہ کی سرپرستی کرتا ہو اور اس شخص کے احکامات ان کیلئے معتبر اور مورد قبول ہو۔ <ref>شریف مرتضی، الشافی، ج۲ ص۲۷۷</ref> جب اولی بالتصرف ثابت ہو جائے تو مسلمانوں کے زندگی کے تمام امور میں ان کی اولویت ثابت ہوتی ہے جس طرح پیغمبر اکرم کو ایسی اولویت حاصل تھی۔ <font color=green>{{حدیث|اَلنَّبِیُّ أَوْلی بِالْمُؤْمِنینَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ}}</font> ترجمہ:پیغمبر مومنوں کے حوالے سے خود ان سے بھی زیادہ سزاوار ہے۔<ref>سورہ احزاب، آیت نمبر 16۔</ref>


اس مطلب کو ثابت کرنے کیلئے شیعہ حضرات اس حدیث کی تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔ لفظ "مولی" جو اس حدیث میں کئی دفعہ استعمال ہوا ہے، لفظ "ولی" سے مشتق ہے جو خدا کے اسماء میں سے ہے۔ <ref>ابن منظور، ج۱۵، ص۴۰۷، مادہ ولی</ref><ref>ازہری، ج۱۵، ص۳۲۴-۳۲۷</ref> یہ لفظ چند معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک استعمال میں "ولی" فعیل کے وزن پر فاعل کے معنی میں آتا ہے۔<ref>فیومی، ج۱- ۲، ص۶۷۲</ref> اور والی، حاکم، سرپرست، مدبّر، امور میں تصرف کرنے والا اور ولی نعمت کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔<ref>ابن فارس، ''معجم مقاییس اللغہ''، ج۶، ص۱۴۱.</ref> اس لفظ کے دیگر استعمالات میں اولی و سزاوارتر، نزدیک، بغیر فاصلہ<ref>طریحی، ج۱، ص۴۶۲؛ بستانی، ص۹۸۵؛ فیروز آبادی، ص۱۲۰۹</ref> اور تبعیت کرنے والا اور دوستدار وغیرہ شامل ہیں <ref>ابن منظور، ج۱۵، ص۴۱۱</ref><ref>ازهری، ج۱۵، ص۳۲۲</ref><ref>طریحی، ج۱، ص۴۶۴- ۴۶۵</ref>
اس مطلب کو ثابت کرنے کیلئے شیعہ حضرات اس حدیث کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔ لفظ "مولی" جو اس حدیث میں کئی دفعہ استعمال ہوا ہے، لفظ "ولی" سے مشتق ہے جو خدا کے اسماء میں سے ہے۔ <ref>ابن منظور، ج۱۵، ص۴۰۷، مادہ ولی</ref><ref>ازہری، ج۱۵، ص۳۲۴-۳۲۷</ref> یہ لفظ چند معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک استعمال میں "ولی" فعیل کے وزن پر فاعل کے معنی میں آتا ہے۔<ref>فیومی، ج۱- ۲، ص۶۷۲</ref> اور والی، حاکم، سرپرست، مدبّر، امور میں تصرف کرنے والا اور ولی نعمت کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔<ref>ابن فارس، ''معجم مقاییس اللغہ''، ج۶، ص۱۴۱.</ref> اس لفظ کے دیگر استعمالات میں اولی و سزاوارتر، نزدیک، بغیر فاصلہ<ref>طریحی، ج۱، ص۴۶۲؛ بستانی، ص۹۸۵؛ فیروز آبادی، ص۱۲۰۹</ref> اور تبعیت کرنے والا اور دوستدار وغیرہ شامل ہیں <ref>ابن منظور، ج۱۵، ص۴۱۱</ref><ref>ازهری، ج۱۵، ص۳۲۲</ref><ref>طریحی، ج۱، ص۴۶۴- ۴۶۵</ref>


====شیعہ استدلال کے شواہد====
====شیعہ استدلال کے شواہد====
سطر 163: سطر 163:
*''' جملہ "الست اولی بکم من انفسکم" اور "من کنت مولاه" کا تقارن:'''
*''' جملہ "الست اولی بکم من انفسکم" اور "من کنت مولاه" کا تقارن:'''


اس حدیث میں پیغمبر اکرم(ص) نے مؤمنین کے جان و مال پر ان سے زیادہ پیغمبر کو الویت ہونے کے بارے میں تصریح فرمایا ہے۔ اس ملطب کی تائید قرآن کی آیت کے ذریعے بھی ہوا ہے۔ جہاں فرماتے ہیں:<font color=green>{{حدیث|النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم}}</font> <ref>سورہ احزاب، آیت نمبر 6</ref> اس آیت میں جس اولویت اور برتری کی طرف اشارہ ہوا ہے اس سے مراد مؤمنین کی زندگی کے امور سے متعلق ہیں یعنی ان کی زندگی کے امور کے بارے میں حکم کرنے کا حق خود ان سے زیادہ پیغمبر کو حاصل ہے۔ جب کسی کو ہمارے بارے میں حکم کرنے کا حق اور الویت حاصل ہے تو ہم پر اس حکم کی اطاعت کرنا واجب ہے۔<ref>طوسی، التبیان، ج۸، ص۳۱۷</ref> بعض مفسرین کے مطابق اس آیت میں مذکور اولویت مؤمنین کی [[دین]] اور دنیا دونوں سے مربوط امور میں ہے۔<ref>بیضاوی، ج۴، ص۲۲۵</ref><ref>زمخشری، ج۳، ص۵۲۳</ref>کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) مؤمنین کی دین اور دنیا دونوں سے مربوط امور کی اصلاح فرماتا ہے۔<ref>زمخشری، ج۳، ص۲۲۵</ref>
اس حدیث میں پیغمبر اکرم(ص) نے مؤمنین کے جان و مال پر ان سے زیادہ پیغمبر کو الویت ہونے کے بارے میں تصریح فرمایا ہے۔ اس ملطب کی تائید قرآن کی آیت کے ذریعے بھی ہوا ہے۔ جہاں فرماتے ہیں:<font color=green>{{حدیث|النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم}}</font> <ref>سورہ احزاب، آیت نمبر 6</ref> اس آیت میں جس اولویت اور برتری کی طرف اشارہ ہوا ہے اس سے مراد مؤمنین کی زندگی کے امور سے متعلق ہیں یعنی ان کی زندگی کے امور کے بارے میں حکم کرنے کا حق خود ان سے زیادہ پیغمبر کو حاصل ہے۔ جب کسی کو ہمارے بارے میں حکم کرنے کا حق اور اولویت حاصل ہے تو ہم پر اس کے حکم کی اطاعت کرنا واجب ہے۔<ref>طوسی، التبیان، ج۸، ص۳۱۷</ref> بعض مفسرین کے مطابق اس آیت میں مذکور اولویت مؤمنین کی [[دین]] اور دنیا دونوں سے مربوط امور میں ہے۔<ref>بیضاوی، ج۴، ص۲۲۵</ref><ref>زمخشری، ج۳، ص۵۲۳</ref>کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) مؤمنین کی دین اور دنیا دونوں سے مربوط امور کی اصلاح فرماتے ہیں۔<ref>زمخشری، ج۳، ص۲۲۵</ref>


پس اس جملے کا حضرت علی(ع) کی ولایت و امامت کے اعلان کے ساتھ مقارن ہونا اس بات کی دلیل ہے ہے حدیث کے دوسرے جملے میں موجود لفظ "مولا" بھی مؤمین کے امور میں خود ان سے زیادہ حضرت علی(ع) کی اولویت کو بیان کرتا ہے۔ <ref>فخر رازی، ''الاربعین فی اصول الدین''، ج۲، ص۲۸۳</ref>
پس اس جملے کا حضرت علی(ع) کی ولایت و امامت کے اعلان کے ساتھ مقارن ہونا اس بات کی دلیل ہے۔ حدیث کے دوسرے جملے میں موجود لفظ "مولا" بھی مؤمین کے امور میں خود ان سے زیادہ حضرت علی(ع) کی اولویت کو بیان کرتا ہے۔ <ref>فخر رازی، ''الاربعین فی اصول الدین''، ج۲، ص۲۸۳</ref>


*''' اس خطبے کے ابتدائی جملات:'''
*''' اس خطبے کے ابتدائی جملات:'''


پیغمبر اکرم(ص) اس خطبے کی آغاز میں عنقریب اپنی رحلت کی خبر دیتے ہیں اس کے بعد [[توحید]] کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور یہ پوچھتے ہیں کہ آیا میں نے اپنی [[رسالت]] اور ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا یا نہیں؟ <ref>ابن اثیر، ''اسد الغابہ''، ج۱، ص۴۳۹؛ یعقوب، ج۲، ص۱۱۸؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج‌۷، ص۳۴۸۳۴۹؛ بلاذری، ''انساب الاشراف''، ج۲، ص۱۰۸.</ref> یہ ساری باتیں اس بات کی نشانی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) امت کیلئے اپنے بعد کی زندگی میں کسی راہ حل اور چارہ جوئی کی تلاش میں ہے تاکہ امت بے سرپرست نہ رہے اور خود پیغمر اکرم(ص) نے سالوں سال جو زحمت اٹھائی ہے وہ ضایع نہ ہوجائے۔ گویا آپ  اپنا [[خلافت|جانشین]] تعیین کرنا چاہتے تھے تاکہ امت کے امور کی زمام اپنے  بعد ایک لایق اور تمام اسرار و رموز سے واقف ایک شخصیت کے حوالہ کرنا چاہتے تھے۔ <ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۵۷</ref> اور سورہ مائدہ کی [[آیت]] نمبر67 نیز اسی مطلب پر واضح دلیل ہے۔
پیغمبر اکرم(ص) اس خطبے کی آغاز میں عنقریب اپنی رحلت کی خبر دیتے ہیں اس کے بعد [[توحید]] کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور یہ پوچھتے ہیں کہ آیا میں نے اپنی [[رسالت]] اور ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا یا نہیں؟ <ref>ابن اثیر، ''اسد الغابہ''، ج۱، ص۴۳۹؛ یعقوب، ج۲، ص۱۱۸؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج‌۷، ص۳۴۸۳۴۹؛ بلاذری، ''انساب الاشراف''، ج۲، ص۱۰۸.</ref> یہ ساری باتیں اس بات کی نشانی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) امت کیلئے اپنے بعد کی زندگی میں کسی راہ حل اور چارہ جوئی کی تلاش میں ہے تاکہ امت بے سرپرست نہ رہے اور خود پیغمر اکرم(ص) نے سالوں سال جو زحمت اٹھائی ہے وہ ضایع نہ ہوجائے۔ گویا آپ  اپنا [[خلافت|جانشین]] تعیین کرنا چاہتے تھے تاکہ امت کے امور کی زمام اپنے  بعد ایک لایق اور تمام اسرار و رموز سے واقف شخصیت کے حوالہ کرنا چاہتے تھے۔ <ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۵۷</ref> اور سورہ مائدہ کی [[آیت]] نمبر67 نیز اسی مطلب پر واضح دلیل ہے۔


=====قرائن خارجی=====
=====قرائن خارجی=====
سطر 176: سطر 176:
پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر کے دن مسلمانوں سے کہا: تہمارا نبی اور مولا کون ہے؟
پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر کے دن مسلمانوں سے کہا: تہمارا نبی اور مولا کون ہے؟


سب نے فورا کہا: خداوند عالم ہمارا مولا اور آپ(ص) ہمارے نبی ہیں اور اس حوالے سے ہم سے کوئی نافرمانی نہیں دیکہو گے۔ اس موقع پر پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا: اٹھو میرے بعد تم اس امت کے مولا ہو۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہے تمہیں چاہئے کہ اس کا حقیقی پیروکار بنیں۔
سب نے فورا کہا: خداوند عالم ہمارا مولا اور آپ(ص) ہمارے نبی ہیں اور اس حوالے سے ہم سے کوئی نافرمانی نہیں دیکہو گے۔ اس موقع پر پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا: اٹھو میرے بعد تم اس امت کے مولا ہو۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہے تمہیں چاہئے کہ اس کا حقیقی پیروکار بنو۔


اس موقع پر پیغمبر اکرم(ص) نے [[دعا]] فرمایا کہ خدایا! علی(ع) کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھ۔
اس موقع پر پیغمبر اکرم(ص) نے [[دعا]] فرمائی کہ خدایا! علی(ع) کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھ۔


* '''[[عمر بن خطاب]] اور [[ابوبکر]] کا حضرت علی(ع) کو مبارک باد دینا''':
* '''[[عمر بن خطاب]] اور [[ابوبکر]] کا حضرت علی(ع) کو مبارک باد دینا''':
گمنام صارف