مندرجات کا رخ کریں

"خطبہ غدیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 127: سطر 127:
اس کے مقابلے میں اس حدیث کے موافقین کا موقف جس طرح اہل سنت منابع میں ذکر ہوا ہے، یہ ہے کہ امام علی(ع) اس وقت یمن سے مکہ تشریف لائے تھے اور آپ نے باقاعدہ رسول اکرم(ص) کے ساتھ حج کے مراسم میں بھی شرکت کی تھی۔<ref>واقدی، ''المغازی''، ج۳، ص۱۰۷۹۱۰۸۰؛ حلبی، ''السیرہ الحلبیہ''، ج۳، ص۲۸۹.</ref>
اس کے مقابلے میں اس حدیث کے موافقین کا موقف جس طرح اہل سنت منابع میں ذکر ہوا ہے، یہ ہے کہ امام علی(ع) اس وقت یمن سے مکہ تشریف لائے تھے اور آپ نے باقاعدہ رسول اکرم(ص) کے ساتھ حج کے مراسم میں بھی شرکت کی تھی۔<ref>واقدی، ''المغازی''، ج۳، ص۱۰۷۹۱۰۸۰؛ حلبی، ''السیرہ الحلبیہ''، ج۳، ص۲۸۹.</ref>


==حدیثد کی دلالت ==
==حدیث کی دلالت ==
حدیث غدیر ابتداء ہی سے بہت ساری عقیدتی ابحاث کا سرچشمہ بنا۔ [[حضرت علی(ع)]] اور [[اہل بیت]] اطہار علیہم السلام کی طرف سے اس حدیث کے ذریعے استدلال اور احتجاج اس حدیث سے بہرہ مندی کی پہلی سیڑھی سمجھی جاتی ہے۔ [[کلام امامیہ|شیعہ متکلمین]] نیز [[خلافت]] پر حضرت علی(ع) کی برای حقانیت اور برتری کو ثابت کرنے کیلئے اس حدیث سے استناد کرتے تھے۔ علم کلام کے منابع سے جو چیز معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ [[شیعہ متکلمین]] میں [[شیخ مفید]] پہلا شخص تھا جس نے مفصل طور پر اس حدیث سے استدلال کیا۔<ref> مفید، ''اقسام المولی''، ص۲۸بہ بعد</ref><ref> مفید، ''الافصاح''، ص۳۲.</ref> [[شیخ طوسی]]<ref> طوسی، الاقتصاد، ص۳۴۵</ref> اور [[علامہ حلی]]<ref>حلی، ''کشف المراد''، ص۳۶۹.</ref> نے بھی اس حدیث پر مفصل بحث کی ہے۔ اہل سنت متکلمین میں [[فخر رازی]]،<ref> فخر رازی، ''الاربعین فی اصول الدین''، ج‌۲، ص۲۸۳</ref> [[عضدالدین ایجی|قاضی ایجی]]،<ref>جرجانی، ''شرح المواقف''، ج۸، ص۳۶۰-۳۶۵.</ref> [[سعدالدین تفتازانی|تَفتازانی]]،<ref> تفتازانی، ج۵، ص۲۷۳-۲۷۵</ref> [[میر سید شریف جرجانی|جُرجانی]]<ref>جرجانی، ''شرح المواقف''، ج۸، ص۳۶۰-۳۶۵</ref> وغیرہ نے شیعہ علماء کو جواب دیتے ہوئے بہت ہی لمبی اور پرپیچ و خم ابحاث کو وجود میں لایا ہے۔
حدیث غدیر ابتداء ہی سے بہت ساری عقیدتی ابحاث کا سرچشمہ بنا۔ [[حضرت علی(ع)]] اور [[اہل بیت]] اطہار علیہم السلام کی طرف سے اس حدیث کے ذریعے استدلال اور احتجاج اس حدیث سے بہرہ مندی کی پہلی سیڑھی سمجھی جاتی ہے۔ [[کلام امامیہ|شیعہ متکلمین]] نیز [[خلافت]] پر حضرت علی(ع) کی برای حقانیت اور برتری کو ثابت کرنے کیلئے اس حدیث سے استناد کرتے تھے۔ علم کلام کے منابع سے جو چیز معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ [[شیعہ متکلمین]] میں [[شیخ مفید]] پہلا شخص تھا جس نے مفصل طور پر اس حدیث سے استدلال کیا۔<ref> مفید، ''اقسام المولی''، ص۲۸بہ بعد</ref><ref> مفید، ''الافصاح''، ص۳۲.</ref> [[شیخ طوسی]]<ref> طوسی، الاقتصاد، ص۳۴۵</ref> اور [[علامہ حلی]]<ref>حلی، ''کشف المراد''، ص۳۶۹.</ref> نے بھی اس حدیث پر مفصل بحث کی ہے۔ اہل سنت متکلمین میں [[فخر رازی]]،<ref> فخر رازی، ''الاربعین فی اصول الدین''، ج‌۲، ص۲۸۳</ref> [[عضدالدین ایجی|قاضی ایجی]]،<ref>جرجانی، ''شرح المواقف''، ج۸، ص۳۶۰-۳۶۵.</ref> [[سعدالدین تفتازانی|تَفتازانی]]،<ref> تفتازانی، ج۵، ص۲۷۳-۲۷۵</ref> [[میر سید شریف جرجانی|جُرجانی]]<ref>جرجانی، ''شرح المواقف''، ج۸، ص۳۶۰-۳۶۵</ref> وغیرہ نے شیعہ علماء کو جواب دیتے ہوئے بہت ہی لمبی اور پرپیچ و خم ابحاث کو وجود میں لایا ہے۔


گمنام صارف