مندرجات کا رخ کریں

"خطبہ غدیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،  7 اگست 2017ء
م
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 121: سطر 121:
حدیث غدیر کی سند کا مختلف طریقوں سے [[متواتر|تواتر]] کے ساتھ ذکر ہونے کے باوجود بعض اہل سنت علماء کہتے ہیں کہ اسے متواتر اور [[حدیث صحیح|صحیح]] نہیں قرار دے سکتے۔<ref>تفتازانی، ج۵، ص۲۷۲</ref> ان افراد کی دلیل یہ ہے کہ اکثر محدّثین جیسے [[محمد بن اسماعیل بخاری|بخاری]] اور [[مسلم نیشابوری|مسلم]] نے اس حدیث کو نقل نہیں کیا جبکہ بعض جیسے [[سلیمان بن اشعث سجستانی|ابی داود]] اور [[ابی حاتم رازی]] وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔<ref>جرجانی، ''شرح المواقف''، ج‌۸، ص۳۶۱.</ref>
حدیث غدیر کی سند کا مختلف طریقوں سے [[متواتر|تواتر]] کے ساتھ ذکر ہونے کے باوجود بعض اہل سنت علماء کہتے ہیں کہ اسے متواتر اور [[حدیث صحیح|صحیح]] نہیں قرار دے سکتے۔<ref>تفتازانی، ج۵، ص۲۷۲</ref> ان افراد کی دلیل یہ ہے کہ اکثر محدّثین جیسے [[محمد بن اسماعیل بخاری|بخاری]] اور [[مسلم نیشابوری|مسلم]] نے اس حدیث کو نقل نہیں کیا جبکہ بعض جیسے [[سلیمان بن اشعث سجستانی|ابی داود]] اور [[ابی حاتم رازی]] وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔<ref>جرجانی، ''شرح المواقف''، ج‌۸، ص۳۶۱.</ref>


اس ادعا کے جواب میں اہل سنت ہی کے بہت سارے علماء جیسے [[محمد ترمذی|تِرمِذی]](۲۷۹ق)،<ref>ترمذی، ج۵، ص۵۶۳</ref> [[احمد بن محمد طحاوی|طَحاوی]](۲۷۹ق)،<ref>طحاوی، ج۴ ص۲۱۲</ref> [[محمد بن عبداللہ (حاکم نیشابوری)|حاکم نیشابوری]](۴۰۵ق)،<ref> حاکم نیشابوری،ج ۳، ص ۱۱۸</ref> [[اسماعیل بن عمر ابن کثیر|ابن کثیر]](۷۷۴ق)،<ref>ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۵، ص۲۰۹.</ref> [[احمد بن علی(ابن حجر عسقلانی)|ابن حجر عسقلانی]](۸۵۲ق)،<ref>ابن حجر عسقلانی، ''فتح الباری''، ج۷، ص۷۴.</ref> [[احمد بن بدرالدین (ابن حجر ہیتمی)|ابن حجر ہیتمی]](۹۷۴ق)<ref>ابن حجر ہیتمی، ''الصواعق المحرقۃ''،ج۱، ص۱۰۶.</ref>  نے اس حدیث کی سند کی صحت کی گواہی دی ہے۔ اس کے علاوہ اصحاب اور تابعین کے توسط سے مختلف کتابوں میں براہ راست یا با واسطہ اس حدیث کو نقل کرنا خود اس حدیث کی سند کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ لیکن مسلم اور بخاری جیسے محدثین کا از حدیث کو ذکر نہ کرنے اور اس کی سند میں شک و تردی کرنے کی علت کو کسی اور زاویے سے تحقیق اور بررسی کرنی چاہئے۔
اس ادعا کے جواب میں اہل سنت ہی کے بہت سارے علماء جیسے [[محمد ترمذی|تِرمِذی]](۲۷۹ق)،<ref>ترمذی، ج۵، ص۵۶۳</ref> [[احمد بن محمد طحاوی|طَحاوی]](۲۷۹ق)،<ref>طحاوی، ج۴ ص۲۱۲</ref> [[محمد بن عبداللہ (حاکم نیشابوری)|حاکم نیشابوری]](۴۰۵ق)،<ref> حاکم نیشابوری،ج ۳، ص ۱۱۸</ref> [[اسماعیل بن عمر ابن کثیر|ابن کثیر]](۷۷۴ق)،<ref>ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۵، ص۲۰۹.</ref> [[احمد بن علی(ابن حجر عسقلانی)|ابن حجر عسقلانی]](۸۵۲ق)،<ref>ابن حجر عسقلانی، ''فتح الباری''، ج۷، ص۷۴.</ref> [[احمد بن بدرالدین (ابن حجر ہیتمی)|ابن حجر ہیتمی]](۹۷۴ق)<ref>ابن حجر ہیتمی، ''الصواعق المحرقۃ''،ج۱، ص۱۰۶.</ref>  نے اس حدیث کی سند کی صحت کی گواہی دی ہے۔ اس کے علاوہ اصحاب اور تابعین کے توسط سے مختلف کتابوں میں براہ راست یا با واسطہ اس حدیث کو نقل کرنا خود اس حدیث کی سند کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ لیکن مسلم اور بخاری جیسے محدثین کا اس حدیث کو ذکر نہ کرنے اور اس کی سند میں شک و تردی کرنے کی علت کو کسی اور زاویے سے تحقیق اور بررسی کرنی چاہئے۔


====خطبے کی صحت پر اعتراض====
====خطبے کی صحت پر اعتراض====
گمنام صارف