مندرجات کا رخ کریں

"استغفار" کے نسخوں کے درمیان فرق

112 بائٹ کا ازالہ ،  20 فروری 2018ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{دعا و مناجات}}
{{دعا و مناجات}}
'''استغفار'''، کے معنی، خداوند متعال سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں۔ استغفار سے مراد جملہ: <font color = blue>{{حدیث|'''اللّهُمَّ إغفِرلي'''}}</font> یا <font color = blue>{{حدیث|'''خدایا مجھے بخش دے'''}}</font> کہنا اور دہرانا، نہیں ہے، بلکہ استغفار کی روح، حق تعالی کی طرف پلٹنا اور ماضی کے نادرست اعمال سے ندامت اور ماضی کی تلافی کے لئے آمادگی سے عبارت ہے۔ مغفرت طلب کرنے کا عمل بعض خاص افراد تک محدود نہیں ہے بلکہ انبیاء بھی اللہ سے مغفرت طلب کرتے تھے؛ حتی کہ [[رسول اللہ|پیغمبر اسلام(ص)]] کو اللہ کی طرف سے ہدایت ہوتی ہے کہ اپنے لئے بھی اور مؤمنین کے لئے بھی استغفار کریں اور واسطے اور [[شفاعت|شفیع]] کا کردار ادا کریں تا کہ خداوند متعال اپنی رحمت ان پر نازل فرمائے۔
'''استغفار'''، کے معنی، خداوند متعال سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں۔ استغفار سے مراد جملہ: <font color = blue>{{حدیث|'''اللّهُمَّ إغفِرلي'''}}</font> یا <font color = blue>{{حدیث|'''خدایا مجھے بخش دے'''}}</font> کہنا اور دہرانا، نہیں ہے، بلکہ استغفار کی روح، حق تعالی کی طرف پلٹنا اور ماضی کے نادرست اعمال سے ندامت اور ماضی کی تلافی کے لئے آمادگی سے عبارت ہے۔ مغفرت طلب کرنے کا عمل بعض خاص افراد تک محدود نہیں ہے بلکہ انبیاء بھی اللہ سے مغفرت طلب کرتے تھے؛ حتی کہ [[رسول اللہ|پیغمبر اسلامؐ]] کو اللہ کی طرف سے ہدایت ہوتی ہے کہ اپنے لئے بھی اور مؤمنین کے لئے بھی استغفار کریں اور واسطے اور [[شفاعت|شفیع]] کا کردار ادا کریں تا کہ خداوند متعال اپنی رحمت ان پر نازل فرمائے۔


[[قرآن]] میں مغفرت طلبی کا مفہوم، کئی بار کئی ہیئتوں اور سانچوں میں بروئے کار لایا گیا ہے۔ استغفار کسی خاص وقت اور مقام تک محدود نہیں ہے بلکہ زیادہ تر مواقع اور مقامات پر اللہ کی جانب سے شرف قبولیت حاصل کرتا ہے، بایں حال، [[قرآن]] اور [[احادیث]] میں بعض اوقات، مقامات اور حالات و کیفیات بیان ہوئی ہیں، جہاں اس کی استجابت اور قبولیت کے اسباب فراہم ہوتے ہیں۔
[[قرآن]] میں مغفرت طلبی کا مفہوم، کئی بار کئی ہیئتوں اور سانچوں میں بروئے کار لایا گیا ہے۔ استغفار کسی خاص وقت اور مقام تک محدود نہیں ہے بلکہ زیادہ تر مواقع اور مقامات پر اللہ کی جانب سے شرف قبولیت حاصل کرتا ہے، بایں حال، [[قرآن]] اور [[احادیث]] میں بعض اوقات، مقامات اور حالات و کیفیات بیان ہوئی ہیں، جہاں اس کی استجابت اور قبولیت کے اسباب فراہم ہوتے ہیں۔
سطر 54: سطر 54:


===احادیث میں===
===احادیث میں===
* <font color = blue>{{حدیث|'''قال [[امام صادق(ع)|الصادقؑ]]:'''إذَا أكثَرَ العَبدُ مِنَ الإِستِغفارِ رُفِعَت صَحِيفَتُهُ وَهيَ تَتَلَالَأُ'''}}</font>؛{{عربی|ترجمہ: ہرگاہ بندہ بکثرت استغفار کرے، اس کا نامۂ اعمال چمک اور تابندگی کی حالت میں اوپر کی طرف جاتا ہے}}۔<ref>کلینی، الکافی، ج2، ص504، ح2۔</ref>
* <font color = blue>{{حدیث|'''قال [[امام صادقؑ|الصادقؑ]]:'''إذَا أكثَرَ العَبدُ مِنَ الإِستِغفارِ رُفِعَت صَحِيفَتُهُ وَهيَ تَتَلَالَأُ'''}}</font>؛{{عربی|ترجمہ: ہرگاہ بندہ بکثرت استغفار کرے، اس کا نامۂ اعمال چمک اور تابندگی کی حالت میں اوپر کی طرف جاتا ہے}}۔<ref>کلینی، الکافی، ج2، ص504، ح2۔</ref>
* <font color = blue>{{حدیث|عَلِيُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حُمْرَانَ عَنْ زرارة بن اعين قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِاللَّهِ عَلَيهِ السَّلامُ يَقُولُ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَذْنَبَ ذَنْباً أُجِّلَ مِنْ غُدْوَةٍ إِلَی اللَّيلِ فَإِنِ اسْتَغْفَرَ اللَّهَ لَمْ يُكتَبْ عَلَيهِ'''}}</font>؛{{عربی|ترجمہ: [[زرارہ بن اعین|زرارہ]] کہتے ہیں: میں نے [[امام جعفر صادق علیہ السلام]] کو فرماتے ہوئے سنا کہ "یقینا، بندہ جب کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، تو اس کو صبح سے رات تک کی مہلت دی جاتی ہے، تو اگر اس نے مغفرت طلب کی تو وہ گناہ اس کے لئے نہیں لکھا جاتا}}۔<ref>کلینی، الکافی، ج2، ص437۔</ref>
* <font color = blue>{{حدیث|عَلِيُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حُمْرَانَ عَنْ زرارة بن اعين قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِاللَّهِ عَلَيهِ السَّلامُ يَقُولُ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَذْنَبَ ذَنْباً أُجِّلَ مِنْ غُدْوَةٍ إِلَی اللَّيلِ فَإِنِ اسْتَغْفَرَ اللَّهَ لَمْ يُكتَبْ عَلَيهِ'''}}</font>؛{{عربی|ترجمہ: [[زرارہ بن اعین|زرارہ]] کہتے ہیں: میں نے [[امام جعفر صادق علیہ السلام]] کو فرماتے ہوئے سنا کہ "یقینا، بندہ جب کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، تو اس کو صبح سے رات تک کی مہلت دی جاتی ہے، تو اگر اس نے مغفرت طلب کی تو وہ گناہ اس کے لئے نہیں لکھا جاتا}}۔<ref>کلینی، الکافی، ج2، ص437۔</ref>


سطر 63: سطر 63:


'''استغفار کی اہمیت بھی کئی جہات سے قابل تشریح ہے''':
'''استغفار کی اہمیت بھی کئی جہات سے قابل تشریح ہے''':
# [[پیغمبر اکرم(ص)]] اور دیگر انبیاء نے استغفار کی ہدایت کی ہے اور عام لوگوں کو بھی فرمان دیا گیا ہے کہ استغفار کیا کریں۔ بطور مثال قرآن کی آٹھ آیتوں میں مغفرت طلبی کی رغبت دلائی گئی ہے اور تقریبا 30 آیتوں میں انبیاء کے استغفار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور پانچ آیتوں میں [[رسول اکرم(ص)]] کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔<ref>خرمشاہی، المعجم الاحصائی، ج3، ص1058، "غفر"۔</ref>
# [[پیغمبر اکرمؐ]] اور دیگر انبیاء نے استغفار کی ہدایت کی ہے اور عام لوگوں کو بھی فرمان دیا گیا ہے کہ استغفار کیا کریں۔ بطور مثال قرآن کی آٹھ آیتوں میں مغفرت طلبی کی رغبت دلائی گئی ہے اور تقریبا 30 آیتوں میں انبیاء کے استغفار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور پانچ آیتوں میں [[رسول اکرمؐ]] کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔<ref>خرمشاہی، المعجم الاحصائی، ج3، ص1058، "غفر"۔</ref>
# [[فرشتہ|فرشتے]] [[مؤمن|مؤمنین]]،<ref>[[سورہ غافر|غافر]]، آیت7۔</ref> اور اہل زمین کے لئے استغفار کرتے ہیں۔<ref>[[سورہ شوری|شوری]]، آیت5۔</ref>
# [[فرشتہ|فرشتے]] [[مؤمن|مؤمنین]]،<ref>[[سورہ غافر|غافر]]، آیت7۔</ref> اور اہل زمین کے لئے استغفار کرتے ہیں۔<ref>[[سورہ شوری|شوری]]، آیت5۔</ref>
# گناہوں کی مغفرت کی طلب کو پرہیزگاروں کی صفت گردانا گیا ہے۔<ref>[[تفسیر نمونہ]]، ج2، ص463۔</ref><ref>{{قرآن کا متن|'''... لِلَّذینَ اتَّقَوا... اَلَّذینَ یقولونَ رَبَّنا اِنَّنا ءامَنّا فَاغفِر لَنا'''|سورت= [[سورہ آل عمران|آل عمران]]|آیت=16-15}}۔</ref>
# گناہوں کی مغفرت کی طلب کو پرہیزگاروں کی صفت گردانا گیا ہے۔<ref>[[تفسیر نمونہ]]، ج2، ص463۔</ref><ref>{{قرآن کا متن|'''... لِلَّذینَ اتَّقَوا... اَلَّذینَ یقولونَ رَبَّنا اِنَّنا ءامَنّا فَاغفِر لَنا'''|سورت= [[سورہ آل عمران|آل عمران]]|آیت=16-15}}۔</ref>
سطر 74: سطر 74:


==استغفار کے آداب==
==استغفار کے آداب==
[[امیرالمؤمنین|حضرت علی(ع)]] نے اپنے حضور جملہ "<font color = blue>{{حدیث|'''اَستَغفِرُاللهَ'''}}</font>" کو دہرانے والے شخص سے فرمایا:
[[امیرالمؤمنین|حضرت علیؑ]] نے اپنے حضور جملہ "<font color = blue>{{حدیث|'''اَستَغفِرُاللهَ'''}}</font>" کو دہرانے والے شخص سے فرمایا:
<font color = blue>{{حدیث|'''ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ أَتَدْرِي مَا الإسْتِغْفَارُ؟ الِإسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّيِّينَ وَهُوَ إسْمٌ وَاقِعٌ عَلَی سِتَّةِ مَعَانٍ؛ أَوَّلُهَا: النَّدَمُ عَلَی مَا مَضَی وَالثَّانِي: الْعَزْمُ عَلَی تَرْكِ الْعَوْدِ إِلَيْهِ أَبَداً وَالثَّالِثُ: أَنْ تُؤَدِّيَ إِلَی الْمَخْلُوقِينَ حُقُوقَهُمْ حَتَّی تَلْقَی اللَّهَ أَمْلَسَ لَيْسَ عَلَيْكَ تَبِعَةٌ وَالرَّابِعُ: أَنْ تَعْمِدَ إِلَی كُلِّ فَرِيضَةٍ عَلَيْكَ ضَيَّعْتَهَا فَتُؤَدِّيَ حَقَّهَا وَالْخَامِسُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَي اللَّحْمِ‏ الَّذِي نَبَتَ عَلَی السُّحْتِ فَتُذِيبَهُ بِالْأَحْزَانِ حَتَّی تُلْصِقَ الْجِلْدَ بِالْعَظْمِ وَيَنْشَأَ بَيْنَهُمَا لَحْمٌ جَدِيدٌ وَالسَّادِسُ أَنْ تُذِيقَ الْجِسْمَ أَلَمَ الطَّاعَةِ كَمَا أَذَقْتَهُ حَلَاوَةَ الْمَعْصِيَةِ فَعِنْدَ ذَلِكَ تَقُولُ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ'''}}</font>"؛
<font color = blue>{{حدیث|'''ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ أَتَدْرِي مَا الإسْتِغْفَارُ؟ الِإسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّيِّينَ وَهُوَ إسْمٌ وَاقِعٌ عَلَی سِتَّةِ مَعَانٍ؛ أَوَّلُهَا: النَّدَمُ عَلَی مَا مَضَی وَالثَّانِي: الْعَزْمُ عَلَی تَرْكِ الْعَوْدِ إِلَيْهِ أَبَداً وَالثَّالِثُ: أَنْ تُؤَدِّيَ إِلَی الْمَخْلُوقِينَ حُقُوقَهُمْ حَتَّی تَلْقَی اللَّهَ أَمْلَسَ لَيْسَ عَلَيْكَ تَبِعَةٌ وَالرَّابِعُ: أَنْ تَعْمِدَ إِلَی كُلِّ فَرِيضَةٍ عَلَيْكَ ضَيَّعْتَهَا فَتُؤَدِّيَ حَقَّهَا وَالْخَامِسُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَي اللَّحْمِ‏ الَّذِي نَبَتَ عَلَی السُّحْتِ فَتُذِيبَهُ بِالْأَحْزَانِ حَتَّی تُلْصِقَ الْجِلْدَ بِالْعَظْمِ وَيَنْشَأَ بَيْنَهُمَا لَحْمٌ جَدِيدٌ وَالسَّادِسُ أَنْ تُذِيقَ الْجِسْمَ أَلَمَ الطَّاعَةِ كَمَا أَذَقْتَهُ حَلَاوَةَ الْمَعْصِيَةِ فَعِنْدَ ذَلِكَ تَقُولُ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ'''}}</font>"؛


سطر 142: سطر 142:


===اللہ کے عذاب کا سد باب===
===اللہ کے عذاب کا سد باب===
[[سورہ انفال]] کی آیت 33 میں،<ref>{{قرآن کا متن|'''وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ'''|ترجمہ= اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان پر عذاب نازل کرے اس حالت میں کہ آپ ان کے درمیان ہیں اور نہ اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا ہے اس حالت میں کہ جب وہ معافی مانگ رہے ہوں|سورت=[[سورہ انفال|انفال]]|آیت=آیت 33}}۔</ref> کے مطابق، لوگ جب تک کہ استغفار کرتے رہیں گے، خداوند متعال ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا۔ مذکورہ آیت کی ابتدا، عذاب کے نہ آنے کے ایک اور سبب ـ یعنی [[رسول خدا(ص)]] کی موجودگی ـ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مفسرین اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے اس لئے کئی [[شان نزول]] اور احتمالات بیا کرتے ہیں؛ لیکن آیت، اس عام قانون پر مشتمل ہے کہ لوگوں کے درمیان [[رسول اللہ(ص)]] کی موجودگی اور لوگوں کا استغفار، دونوں، شدید اور سنگین بلاؤں اور دردناک فطری اور غیر فطری سزاؤں اور مکافاتوں: ـ جیسے تباہ کن جنگوں، سیلابوں اور زلزلوں ـ کے مقابلے میں ان کے لئے امن و سکون کا موجب ہے۔<ref>مکارم، تفسیر نمونہ، ج7، ص154-155۔</ref>
[[سورہ انفال]] کی آیت 33 میں،<ref>{{قرآن کا متن|'''وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ'''|ترجمہ= اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان پر عذاب نازل کرے اس حالت میں کہ آپ ان کے درمیان ہیں اور نہ اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا ہے اس حالت میں کہ جب وہ معافی مانگ رہے ہوں|سورت=[[سورہ انفال|انفال]]|آیت=آیت 33}}۔</ref> کے مطابق، لوگ جب تک کہ استغفار کرتے رہیں گے، خداوند متعال ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا۔ مذکورہ آیت کی ابتدا، عذاب کے نہ آنے کے ایک اور سبب ـ یعنی [[رسول خداؐ]] کی موجودگی ـ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مفسرین اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے اس لئے کئی [[شان نزول]] اور احتمالات بیا کرتے ہیں؛ لیکن آیت، اس عام قانون پر مشتمل ہے کہ لوگوں کے درمیان [[رسول اللہؐ]] کی موجودگی اور لوگوں کا استغفار، دونوں، شدید اور سنگین بلاؤں اور دردناک فطری اور غیر فطری سزاؤں اور مکافاتوں: ـ جیسے تباہ کن جنگوں، سیلابوں اور زلزلوں ـ کے مقابلے میں ان کے لئے امن و سکون کا موجب ہے۔<ref>مکارم، تفسیر نمونہ، ج7، ص154-155۔</ref>


[[امیرالمؤمنین|امام علی(ع)]] فرماتے ہیں: <font color = blue>{{عربی|روئے زمین پر، عذاب خداوندی سے بچاؤ کے لئے دو اہم اوزار پائے جاتے ہیں، ان میں سے ایک [[رسول خدا(ص)]] کا وجود مبارک تھا جو آپ(ص) کے وصال کے ساتھ [ہم سے] سلب ہوا لیکن دوسرا اوزار استغفار ہے، جو ہمیشہ سب کے لئے موجود اور دستیاب ہے، تو اس کا دامن تھامے رہو۔ اور پھر آپ(ع) نے مذکورہ [[آیت]] کی تلاوت فرمائی۔}}</font><ref>[[امیرالمؤمنین]]، نہج البلاغہ، حکمت 88۔</ref>
[[امیرالمؤمنین|امام علیؑ]] فرماتے ہیں: <font color = blue>{{عربی|روئے زمین پر، عذاب خداوندی سے بچاؤ کے لئے دو اہم اوزار پائے جاتے ہیں، ان میں سے ایک [[رسول خداؐ]] کا وجود مبارک تھا جو آپؐ کے وصال کے ساتھ [ہم سے] سلب ہوا لیکن دوسرا اوزار استغفار ہے، جو ہمیشہ سب کے لئے موجود اور دستیاب ہے، تو اس کا دامن تھامے رہو۔ اور پھر آپؑ نے مذکورہ [[آیت]] کی تلاوت فرمائی۔}}</font><ref>[[امیرالمؤمنین]]، نہج البلاغہ، حکمت 88۔</ref>


===گناہوں کی بخشش و مغفرت===
===گناہوں کی بخشش و مغفرت===
در آیت 10 [[سورہ نوح]]،<ref>{{قرآن کا متن|'''فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّاراً'''|ترجمہ= تو میں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو، بلاشبہ وہ بڑا بخشنے والا ہے۔|سورت=[[سورہ نوح|نوح]]|آیت=10}}۔</ref> [[حضرت نوح علیہ السلام|حضرت نوح(ع)]] کے فرمانِ استغفار کے بعد، اللہ کے بہت زیادہ بخشنے کی صفت کو بیان کیا گیا ہے۔ '''غفّار''' کا وصف، '''غفور'''، '''رحیم'''،<ref>{{قرآن کا متن|'''وَمَن يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّهَ يَجِدِ اللّهَ غَفُوراً رَّحِيماً'''|ترجمہ=اور جو برائی کرے یا خوداپنے اوپر ظلم کرے، پھراللہ سے بخشش کا طالب ہو تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا پائے گا، مہربان۔| سورت= [[سورہ نساء|نساء]]|آیت=110}}۔</ref> '''وَدود'''،<ref>{{قرآن کا متن|'''وَاسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ'''|ترجمہ= اور اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرو، پھر اس کی بارگاہ کی طرف پلٹو [توبہ کرو]، یقینا میرا پروردگار مہربان ہے، [بندوں سے] بڑی محبت والا۔|سورت= [[سورہ ہود|ہود]]|آیت=90}}۔</ref> وغیرہ کی مانند بندوں کے [[گناہوں]] کی مغفرت، اور ان پر رحمت کے نزول کے سلسلے میں اللہ کے اہم وعدے اور عظیم بشارت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔<ref>طبری، جامع البیان، ج5، ص371۔</ref> ایک [[حدیث|روایت]] میں [[گناہ]] سے استغفار، [[روح]] سے گناہوں کے زنگ کے ازالے اور روح کو معنوی جلا بخشنے کا سبب، قرار دیا گیا ہے۔<ref>ابن فہد حلی، عدۃ الداعی، ص265۔</ref>
در آیت 10 [[سورہ نوح]]،<ref>{{قرآن کا متن|'''فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّاراً'''|ترجمہ= تو میں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو، بلاشبہ وہ بڑا بخشنے والا ہے۔|سورت=[[سورہ نوح|نوح]]|آیت=10}}۔</ref> [[حضرت نوح علیہ السلام|حضرت نوحؑ]] کے فرمانِ استغفار کے بعد، اللہ کے بہت زیادہ بخشنے کی صفت کو بیان کیا گیا ہے۔ '''غفّار''' کا وصف، '''غفور'''، '''رحیم'''،<ref>{{قرآن کا متن|'''وَمَن يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّهَ يَجِدِ اللّهَ غَفُوراً رَّحِيماً'''|ترجمہ=اور جو برائی کرے یا خوداپنے اوپر ظلم کرے، پھراللہ سے بخشش کا طالب ہو تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا پائے گا، مہربان۔| سورت= [[سورہ نساء|نساء]]|آیت=110}}۔</ref> '''وَدود'''،<ref>{{قرآن کا متن|'''وَاسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ'''|ترجمہ= اور اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرو، پھر اس کی بارگاہ کی طرف پلٹو [توبہ کرو]، یقینا میرا پروردگار مہربان ہے، [بندوں سے] بڑی محبت والا۔|سورت= [[سورہ ہود|ہود]]|آیت=90}}۔</ref> وغیرہ کی مانند بندوں کے [[گناہوں]] کی مغفرت، اور ان پر رحمت کے نزول کے سلسلے میں اللہ کے اہم وعدے اور عظیم بشارت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔<ref>طبری، جامع البیان، ج5، ص371۔</ref> ایک [[حدیث|روایت]] میں [[گناہ]] سے استغفار، [[روح]] سے گناہوں کے زنگ کے ازالے اور روح کو معنوی جلا بخشنے کا سبب، قرار دیا گیا ہے۔<ref>ابن فہد حلی، عدۃ الداعی، ص265۔</ref>


===رزق اور اولاد میں برکت===
===رزق اور اولاد میں برکت===
سطر 159: سطر 159:
'''مفصل مضمون: [[توسل]]'''
'''مفصل مضمون: [[توسل]]'''


استغفار کے لئے واسطہ جوئی اور واسطہ پذیری، [[قرآن کریم]] میں تائید شدہ اور تصدیق شدہ ہے، جیسا کہ خداوند متعال کی طرف سے مطلق طور پر وسیلہ جوئی کا حکم دیا گیا ہے۔<ref>{{قرآن کا متن|'''يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ'''|ترجمہ= اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو اور اس کے یہاں [قربت] کے لیے ذریعہ ڈھونڈو [جس سے توسل کرو] اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تم دین و دنیا کی بہتری حاصل کرلو|سورت=[[سورہ مائده|مائدہ]]|آیت=35}}۔</ref> بعض [[آیات]]، میں لوگوں کی [[رسول اللہ(ص)]] سے  وساطت طلبی اور آنحضرت(ص) کے ان کے لئے استغفار کا واسطہ بننے، کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔<ref>{{قرآن کا متن|'''وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً'''|ترجمہ=اور ہم نے نہیں بھیجا کوئی پیغمبر، مگر اس کے لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب انہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی تھی تو آپ کے پاس آتے اور پھر اللہ سے بخشش کے طلبگار ہوتے اور پیغمبر ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے تو اللہ کو پاتے بڑا توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان۔|سورت= [[سورہ نساء]]|آیت= آیت 64}}۔</ref> اور بعض دوسری آیات میں، خداوند متعال اپنے [[رسول اللہ|رسول(ص)]] کو فرمان دیتا ہے کہ اپنے لئے اور [[مؤمن]] لوگوں کے لئے استغفار کیا کریں۔<ref>{{قرآن کا متن|'''فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ'''|ترجمہ= تو جانئے کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور اپنے گناہ کے لئے استغفار کرتے رہئے اور با ایمان مردوں اور باایمان عورتوں کے لئے [مغفرت طلب کرتے رہئے]، اور اللہ جانتا ہے تم لوگوں [میں سے ہر ایک] کے انجام اور تمہاری جائے قرار کو۔|سورت=[[سورہ محمد|محمد]]|آیت=19}}۔</ref>
استغفار کے لئے واسطہ جوئی اور واسطہ پذیری، [[قرآن کریم]] میں تائید شدہ اور تصدیق شدہ ہے، جیسا کہ خداوند متعال کی طرف سے مطلق طور پر وسیلہ جوئی کا حکم دیا گیا ہے۔<ref>{{قرآن کا متن|'''يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ'''|ترجمہ= اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو اور اس کے یہاں [قربت] کے لیے ذریعہ ڈھونڈو [جس سے توسل کرو] اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تم دین و دنیا کی بہتری حاصل کرلو|سورت=[[سورہ مائده|مائدہ]]|آیت=35}}۔</ref> بعض [[آیات]]، میں لوگوں کی [[رسول اللہؐ]] سے  وساطت طلبی اور آنحضرتؐ کے ان کے لئے استغفار کا واسطہ بننے، کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔<ref>{{قرآن کا متن|'''وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً'''|ترجمہ=اور ہم نے نہیں بھیجا کوئی پیغمبر، مگر اس کے لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب انہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی تھی تو آپ کے پاس آتے اور پھر اللہ سے بخشش کے طلبگار ہوتے اور پیغمبر ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے تو اللہ کو پاتے بڑا توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان۔|سورت= [[سورہ نساء]]|آیت= آیت 64}}۔</ref> اور بعض دوسری آیات میں، خداوند متعال اپنے [[رسول اللہ|رسولؐ]] کو فرمان دیتا ہے کہ اپنے لئے اور [[مؤمن]] لوگوں کے لئے استغفار کیا کریں۔<ref>{{قرآن کا متن|'''فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ'''|ترجمہ= تو جانئے کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور اپنے گناہ کے لئے استغفار کرتے رہئے اور با ایمان مردوں اور باایمان عورتوں کے لئے [مغفرت طلب کرتے رہئے]، اور اللہ جانتا ہے تم لوگوں [میں سے ہر ایک] کے انجام اور تمہاری جائے قرار کو۔|سورت=[[سورہ محمد|محمد]]|آیت=19}}۔</ref>


بعض آیات کریمہ میں خداوند متعال نے والدین،<ref>{{قرآن کا متن|'''رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ'''|ترجمہ=ہمارے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور تمام ایمان والوں کو، اس دن کہ جب حساب قائم ہو گا۔|سورت= [[سورہ ابراہیم|ابراہیم]]|آیت=41}}۔</ref><ref>{{قرآن کا متن|'''رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَن دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِناً وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَاراً'''|ترجمہ=اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور جو میرے گھر میں ایمان رکھتے ہوئے داخل ہو اور تمام با ایمان مردوں اور باایمان عورتوں کو اور ظالموں کے لئے سوا ہلاکت کے کسی بات میں اضافہ نہ کر۔|سورت=[[سورہ نوح|نوح]]|آیت=28}}۔</ref> اور دوسرے اعزّاء و اقارب<ref>{{قرآن کا متن|'''قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ'''|ترجمہ=انھوں نے [یعنی موسی(ع) نے] کہا: پروردگار ! مجھے بخش دے اور میرے بھائی کو اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو تمام رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحیم ہے۔|سورت=[[سورہ اعراف|اعراف]]|آیت=151}}۔</ref> اور مؤمنین،<ref>[[سورہ ابراہیم|ابراہیم، آیت 14]]، [[سورہ حشر|حشر، آیت10]]۔</ref> کے لئے استغفار کو پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔  
بعض آیات کریمہ میں خداوند متعال نے والدین،<ref>{{قرآن کا متن|'''رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ'''|ترجمہ=ہمارے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور تمام ایمان والوں کو، اس دن کہ جب حساب قائم ہو گا۔|سورت= [[سورہ ابراہیم|ابراہیم]]|آیت=41}}۔</ref><ref>{{قرآن کا متن|'''رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَن دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِناً وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَاراً'''|ترجمہ=اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور جو میرے گھر میں ایمان رکھتے ہوئے داخل ہو اور تمام با ایمان مردوں اور باایمان عورتوں کو اور ظالموں کے لئے سوا ہلاکت کے کسی بات میں اضافہ نہ کر۔|سورت=[[سورہ نوح|نوح]]|آیت=28}}۔</ref> اور دوسرے اعزّاء و اقارب<ref>{{قرآن کا متن|'''قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ'''|ترجمہ=انھوں نے [یعنی موسیؑ نے] کہا: پروردگار ! مجھے بخش دے اور میرے بھائی کو اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو تمام رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحیم ہے۔|سورت=[[سورہ اعراف|اعراف]]|آیت=151}}۔</ref> اور مؤمنین،<ref>[[سورہ ابراہیم|ابراہیم، آیت 14]]، [[سورہ حشر|حشر، آیت10]]۔</ref> کے لئے استغفار کو پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔  


بعض [[آیات]] کا مفہوم،<ref>{{قرآن کا متن|'''مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُواْ أُوْلِي قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ'''|ترجمہ=پیغمبر کو اور انہیں جو ایمان لائے ہیں، یہ حق نہیں کہ وہ دعائے مغفرت کریں مشرکوں کے لیے، چاہے وہ اقارب ہی کیوں نہ ہوں، بعد اس کے کہ ان پر ثابت ہو گیا وہ دوزخ والے ہیں|سورت=[[سورہ توبہ|توبہ]]|آیت=113}}۔</ref> جن میں [[رسول خدا(ص)]] اور [[مؤمن|مؤمنین]] کو [[شرک|مشرکین]] کے لئے استغفار کرنے سے منع کیا گیا ہے، خود [[مؤمن|مؤمنین]] کے لئے استغفار کے جائز ہونے کا ثبوت ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج3، ص452۔</ref>
بعض [[آیات]] کا مفہوم،<ref>{{قرآن کا متن|'''مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُواْ أُوْلِي قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ'''|ترجمہ=پیغمبر کو اور انہیں جو ایمان لائے ہیں، یہ حق نہیں کہ وہ دعائے مغفرت کریں مشرکوں کے لیے، چاہے وہ اقارب ہی کیوں نہ ہوں، بعد اس کے کہ ان پر ثابت ہو گیا وہ دوزخ والے ہیں|سورت=[[سورہ توبہ|توبہ]]|آیت=113}}۔</ref> جن میں [[رسول خداؐ]] اور [[مؤمن|مؤمنین]] کو [[شرک|مشرکین]] کے لئے استغفار کرنے سے منع کیا گیا ہے، خود [[مؤمن|مؤمنین]] کے لئے استغفار کے جائز ہونے کا ثبوت ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج3، ص452۔</ref>


[[سورہ یوسف]] کی آیات 97 اور 98،<ref>{{قرآن کا متن|'''قَالُواْ يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ''' ﴿97﴾ '''قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيَ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ''' ﴿98﴾ |ترجمہ=انہوں نے کہا اے ہمارے والد! ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے سفارش کیجئے، یقینا ہم خطا وار تھے ﴿97﴾ انھوں نے کہا میں تمہارے لیے پروردگار سے بخشش کی التجا کروں گا۔ یقینا وہ بخشنے والا ہے، بڑا مہربان ﴿98﴾ |سورت=[[سورہ یوسف|یوسف]]|آیت= آیات 97-98}}۔</ref> بھی استغفار میں وسیلہ جوئی کے جواز پر بخوبی دلالت کرتی ہیں، کیونکہ جب پیغمبر خدا حضرت [[حضرت یعقوب علیہ السلام|یعقوب(ع)]] کے فرزندوں نے ان سے اپنے لئے استغفار میں وساطت کرنے کی درخواست کی تو پیغمبر(‏ع) نے ان سے وعدہ کیا کہ مستقبل میں ان کے لئے خدا سے طلب مغفرت کریں گے۔
[[سورہ یوسف]] کی آیات 97 اور 98،<ref>{{قرآن کا متن|'''قَالُواْ يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ''' ﴿97﴾ '''قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيَ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ''' ﴿98﴾ |ترجمہ=انہوں نے کہا اے ہمارے والد! ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے سفارش کیجئے، یقینا ہم خطا وار تھے ﴿97﴾ انھوں نے کہا میں تمہارے لیے پروردگار سے بخشش کی التجا کروں گا۔ یقینا وہ بخشنے والا ہے، بڑا مہربان ﴿98﴾ |سورت=[[سورہ یوسف|یوسف]]|آیت= آیات 97-98}}۔</ref> بھی استغفار میں وسیلہ جوئی کے جواز پر بخوبی دلالت کرتی ہیں، کیونکہ جب پیغمبر خدا حضرت [[حضرت یعقوب علیہ السلام|یعقوبؑ]] کے فرزندوں نے ان سے اپنے لئے استغفار میں وساطت کرنے کی درخواست کی تو پیغمبر(‏ع) نے ان سے وعدہ کیا کہ مستقبل میں ان کے لئے خدا سے طلب مغفرت کریں گے۔


==انبیاء اور دوسرے معصومین کا استغفار==
==انبیاء اور دوسرے معصومین کا استغفار==
سطر 183: سطر 183:
* انبیاء کا استغفار امتوں کے لئے ایک قسم کی تعلیم ہے تا کہ وہ مغفرت طلب کرنے کے ذریعے، گناہوں کا ازالہ کرکے، اللہ کی رحمت کو اپنے شامل حال کردیں۔<ref>التوبة فی ضوء القرآن، ص194 و ص284 و ص303۔</ref>
* انبیاء کا استغفار امتوں کے لئے ایک قسم کی تعلیم ہے تا کہ وہ مغفرت طلب کرنے کے ذریعے، گناہوں کا ازالہ کرکے، اللہ کی رحمت کو اپنے شامل حال کردیں۔<ref>التوبة فی ضوء القرآن، ص194 و ص284 و ص303۔</ref>
* مقصود [[ترک اولی|ترک اَوْلی]] کی بنا پر مغفرت طلب کرنا ہے۔<ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج 28، ص61۔</ref><ref>الآلوسی، روح المعانی، مج 14، ج 26، ص84۔</ref><ref>مکارم، تفسیر نمونہ، ج 21، ص452۔</ref> یعنی یہ کہ کبھی وہ نیک کام انجام دیتے ہیں اور اس سے زیادہ بہتر کام کو ترک کردیتے ہیں چنانچہ انہیں اس کے بموجب استغفار کرنا پڑتا ہے۔
* مقصود [[ترک اولی|ترک اَوْلی]] کی بنا پر مغفرت طلب کرنا ہے۔<ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج 28، ص61۔</ref><ref>الآلوسی، روح المعانی، مج 14، ج 26، ص84۔</ref><ref>مکارم، تفسیر نمونہ، ج 21، ص452۔</ref> یعنی یہ کہ کبھی وہ نیک کام انجام دیتے ہیں اور اس سے زیادہ بہتر کام کو ترک کردیتے ہیں چنانچہ انہیں اس کے بموجب استغفار کرنا پڑتا ہے۔
* انبیاء کے استغفار سے مقصود، ان کی امتوں کے گناہوں کا استغفار ہے<ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج 32، ص162۔</ref><ref>الآلوسی، روح المعانی، مج 16، ج 30، ص463۔</ref><ref>علم الہدی، تنزیہ الانبیاء، ص116۔</ref> یہی بات [[رسول اللہ|رسول خاتم(ص)]] کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہے۔<ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج32، ص162۔</ref><ref>الآلوسی، روح المعانی، مج 16، ج 30 ص463۔</ref>
* انبیاء کے استغفار سے مقصود، ان کی امتوں کے گناہوں کا استغفار ہے<ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج 32، ص162۔</ref><ref>الآلوسی، روح المعانی، مج 16، ج 30، ص463۔</ref><ref>علم الہدی، تنزیہ الانبیاء، ص116۔</ref> یہی بات [[رسول اللہ|رسول خاتمؐ]] کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہے۔<ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج32، ص162۔</ref><ref>الآلوسی، روح المعانی، مج 16، ج 30 ص463۔</ref>
* انبیاء کا استغفار دفع کرنے اور سد باب کرنے کے لئے ہے اور دوسروں کا استغفار ان گناہوں کے لئے ہے جو وہ انجام دے چکے ہیں۔<ref>صادقی تهرانی، الفرقان، ج 23، ص406۔</ref><ref>رستگار جویباری، البصائر، ج30، ص227 236۔</ref>
* انبیاء کا استغفار دفع کرنے اور سد باب کرنے کے لئے ہے اور دوسروں کا استغفار ان گناہوں کے لئے ہے جو وہ انجام دے چکے ہیں۔<ref>صادقی تهرانی، الفرقان، ج 23، ص406۔</ref><ref>رستگار جویباری، البصائر، ج30، ص227 236۔</ref>
* چونکہ انبیاء علیہم السلام ـ منجملہ [[رسول اللہ|پیغمبر خاتم(ص)]] کی دعوت کے آثار مختلف النوع ہوتے تھے جو لوگوں کے لئے بظاہر المناک تھے، اور وہ اس کو گناہ سمجھتے تھے، چنانچہ انبیاء علیہم السلام خدا سے التجا کرتے تھے کہ یہ آثار لوگوں کی نظروں سے مخفی رہیں، تا کہ وہ ان [انبیاء] پر جرم عائد نہ کریں؛ جیسا کہ [[مکہ]] کے باشندے [[رسول اللہ(ص)]] کو جنگ پسند اور اپنی ریت روایات سے بےاعتنا سمجھتے تھے۔ لیکن [[صلح حدیبیہ]] اور [[فتح مکہ]] کے بعد، حقیقت ان کے لئے آشکار ہوئی، اور جیسا کہ [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی بن عمران]] کے بارے میں [[سورہ شعراء]] کی آیت 14 میں مذکور ہے کہ "<font color = green>{{قرآن کا متن|'''وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنبٌ'''|ترجمہ= اور ان کا میرے خلاف ایک [گناہ کا] الزام [اور دعوی] ہے۔|سورت=[[سورہ شعراء|شعراء]]|آیت=14}}</font>"  حالانکہ اس قبطی شخص کا قتل گناہ نہیں تھا بلکہ وہ واقعہ ایک مظلوم کی مدد کا نتیجہ تھا؛ لیکن لوگوں کی نظر میں وہ ایک گناہ سمجھا جاتا تھا اور حضرت موسی(ع) کا استغفار کا مقصود یہ تھا کہ یہ مسئلہ لوگوں کی نظر سے چھپا رہے تا کہ وہ انہیں مجرم نہ سمجھیں۔<ref>مکارم، تفسیر نمونہ، ج22، ص19 تا 21۔</ref><ref>طباطبائی، المیزان، ج18، ص254۔</ref> [[سورہ اعراف]] کی آیت 129 (<font color = green>{{قرآن کا متن|'''قَالُواْ أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِينَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا'''|ترجمہ=ان لوگوں نے کہا کہ ہمیں آپ کے آنے سے پہلے بھی ایذائیں پہنچیں اور اب آپ کے آنے کے بعد بھی۔|سورت=[[سورہ اعراف|اعراف]]|آیت=129}}</font>) میں بھی ارشاد ہے کہ [[موسی(ع)]] کی قوم انہیں اپنی اذیت کا سبب گردانتی تھی۔
* چونکہ انبیاء علیہم السلام ـ منجملہ [[رسول اللہ|پیغمبر خاتمؐ]] کی دعوت کے آثار مختلف النوع ہوتے تھے جو لوگوں کے لئے بظاہر المناک تھے، اور وہ اس کو گناہ سمجھتے تھے، چنانچہ انبیاء علیہم السلام خدا سے التجا کرتے تھے کہ یہ آثار لوگوں کی نظروں سے مخفی رہیں، تا کہ وہ ان [انبیاء] پر جرم عائد نہ کریں؛ جیسا کہ [[مکہ]] کے باشندے [[رسول اللہؐ]] کو جنگ پسند اور اپنی ریت روایات سے بےاعتنا سمجھتے تھے۔ لیکن [[صلح حدیبیہ]] اور [[فتح مکہ]] کے بعد، حقیقت ان کے لئے آشکار ہوئی، اور جیسا کہ [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی بن عمران]] کے بارے میں [[سورہ شعراء]] کی آیت 14 میں مذکور ہے کہ "<font color = green>{{قرآن کا متن|'''وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنبٌ'''|ترجمہ= اور ان کا میرے خلاف ایک [گناہ کا] الزام [اور دعوی] ہے۔|سورت=[[سورہ شعراء|شعراء]]|آیت=14}}</font>"  حالانکہ اس قبطی شخص کا قتل گناہ نہیں تھا بلکہ وہ واقعہ ایک مظلوم کی مدد کا نتیجہ تھا؛ لیکن لوگوں کی نظر میں وہ ایک گناہ سمجھا جاتا تھا اور حضرت موسیؑ کا استغفار کا مقصود یہ تھا کہ یہ مسئلہ لوگوں کی نظر سے چھپا رہے تا کہ وہ انہیں مجرم نہ سمجھیں۔<ref>مکارم، تفسیر نمونہ، ج22، ص19 تا 21۔</ref><ref>طباطبائی، المیزان، ج18، ص254۔</ref> [[سورہ اعراف]] کی آیت 129 (<font color = green>{{قرآن کا متن|'''قَالُواْ أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِينَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا'''|ترجمہ=ان لوگوں نے کہا کہ ہمیں آپ کے آنے سے پہلے بھی ایذائیں پہنچیں اور اب آپ کے آنے کے بعد بھی۔|سورت=[[سورہ اعراف|اعراف]]|آیت=129}}</font>) میں بھی ارشاد ہے کہ [[موسیؑ]] کی قوم انہیں اپنی اذیت کا سبب گردانتی تھی۔


===انبیاء کا استغفار اور منصب نبوت===
===انبیاء کا استغفار اور منصب نبوت===
سطر 193: سطر 193:
* چونکہ انبیاء ہر لمحے زیادہ اعلی مدارج و مقامات کی طرف حالت عروج میں ہوتے ہیں، ہر مرتبہ، سابقہ مرحلے سے کہيں زیادہ، استغفار کرتے ہیں۔<ref>الآلوسی، روح المعانی، مج14، ج26، ص84۔</ref><ref>الآلوسی، وہی ماخذ، مج16، ج30، ص463۔</ref><ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج32، ص162۔</ref>
* چونکہ انبیاء ہر لمحے زیادہ اعلی مدارج و مقامات کی طرف حالت عروج میں ہوتے ہیں، ہر مرتبہ، سابقہ مرحلے سے کہيں زیادہ، استغفار کرتے ہیں۔<ref>الآلوسی، روح المعانی، مج14، ج26، ص84۔</ref><ref>الآلوسی، وہی ماخذ، مج16، ج30، ص463۔</ref><ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج32، ص162۔</ref>


مغفرت طلبی کی مذکورہ صورتیں، [[معصومین|ائمۂ معصومین]] کے سلسلے میں صادق اور جاری ہیں، کیونکہ وہ بھی بہت زیادہ استغفار کرتے تھے؛ جیسے کہ [[دعائے کمیل]] میں [[امیرالمؤمنین|حضرت علی(ع)]] اور [[دعائے ابو حمزہ ثمالی]] میں [[امام سجاد(ع)]] کا استغفار۔<ref>طوسی، مصباح المتہجد، ص405، 584۔</ref>
مغفرت طلبی کی مذکورہ صورتیں، [[معصومین|ائمۂ معصومین]] کے سلسلے میں صادق اور جاری ہیں، کیونکہ وہ بھی بہت زیادہ استغفار کرتے تھے؛ جیسے کہ [[دعائے کمیل]] میں [[امیرالمؤمنین|حضرت علیؑ]] اور [[دعائے ابو حمزہ ثمالی]] میں [[امام سجادؑ]] کا استغفار۔<ref>طوسی، مصباح المتہجد، ص405، 584۔</ref>


====اہل سنت کی رائے====
====اہل سنت کی رائے====
سطر 215: سطر 215:
|qalign = justify
|qalign = justify
}}
}}
[[سورہ توبہ]] کی آیت 113،<ref>{{قرآن کا متن|'''مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُواْ أُوْلِي قُرْبَى'''|سورت=[[سورہ توبہ|توبہ]]|آیت=133}}۔</ref> [[رسول اللہ|پیغمبر خدا(ص)]] اور [[مؤمن|مؤمنین]] کو [[شرک|مشرکین]] کے لئے استغفار کرنے سے باز رکھتی ہے۔ یہ ممانعت، مشرکین کے لئے، اس لئے ہے کہ ان کے لئے استغفار بالکل بےاثر،<ref>([[سورہ نساء|نساء، آیات48_116]]۔</ref> اور ان کے حق میں مغفرت چاہنا، بیہودہ اور مہمل ہے۔<ref>طباطبائی، المیزان، ج9، ص351۔</ref> بعض مفسرین نے مشرکین کے لئے استغفار کی ممانعت کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ [[ایمان]] اور [[اسلام]] کی طرف راغب ہونے والوں میں ایک قسم کی مَفسَدَت معرض وجود میں آتی ہے، کیونکہ مشرکین کے لئے استغفار کی قبولیت سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ مؤمنین مشرکین پر کسی قسم کی برتری نہیں رکھتے۔<ref>صقر، احمد، التحریر والتنویر، ج11، ص44۔</ref> ادھر استغفار، مشرکین کے ساتھ ایک قسم کا اظہار محبت اور اور ان کے ساتھ ایک قسم کا تعلق اور پیوند ہے، جس کے بہت سے پہلؤوں اور صورتوں سے باز رکھا گیا ہے۔<ref>مکارم، نمونہ، ج8، ص155۔</ref>
[[سورہ توبہ]] کی آیت 113،<ref>{{قرآن کا متن|'''مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُواْ أُوْلِي قُرْبَى'''|سورت=[[سورہ توبہ|توبہ]]|آیت=133}}۔</ref> [[رسول اللہ|پیغمبر خداؐ]] اور [[مؤمن|مؤمنین]] کو [[شرک|مشرکین]] کے لئے استغفار کرنے سے باز رکھتی ہے۔ یہ ممانعت، مشرکین کے لئے، اس لئے ہے کہ ان کے لئے استغفار بالکل بےاثر،<ref>([[سورہ نساء|نساء، آیات48_116]]۔</ref> اور ان کے حق میں مغفرت چاہنا، بیہودہ اور مہمل ہے۔<ref>طباطبائی، المیزان، ج9، ص351۔</ref> بعض مفسرین نے مشرکین کے لئے استغفار کی ممانعت کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ [[ایمان]] اور [[اسلام]] کی طرف راغب ہونے والوں میں ایک قسم کی مَفسَدَت معرض وجود میں آتی ہے، کیونکہ مشرکین کے لئے استغفار کی قبولیت سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ مؤمنین مشرکین پر کسی قسم کی برتری نہیں رکھتے۔<ref>صقر، احمد، التحریر والتنویر، ج11، ص44۔</ref> ادھر استغفار، مشرکین کے ساتھ ایک قسم کا اظہار محبت اور اور ان کے ساتھ ایک قسم کا تعلق اور پیوند ہے، جس کے بہت سے پہلؤوں اور صورتوں سے باز رکھا گیا ہے۔<ref>مکارم، نمونہ، ج8، ص155۔</ref>


===ممنوعیت کی شان نزول===
===ممنوعیت کی شان نزول===
[[سورہ توبہ]] کی آیت 113 کی [[شان نزول]] کے سلسلے میں مروی ہے کہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے [[رسول اللہ(ص)]] سے عرض کیا کہ کیا آپ(ص) زمانۂ [[جاہلیت]] میں گذرے ان کے آباء و اجداد کے لئے [[دعا|دعائے]] مغفرت نہیں کریں گے؟ تو خداوند متعال نے یہ آیت کریمہ نازل کرکے ان کا جواب دیا اور فرمایا کہ [[رسول خدا(ص)]] اور [[مؤمن|مؤمنین]] کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کہ [[شرک|مشرکین]] کے لئے استغفار کریں۔<ref>طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان ج5، ص115۔</ref><ref>مکارم شیرازی، نمونه، ج8، ص155۔</ref>
[[سورہ توبہ]] کی آیت 113 کی [[شان نزول]] کے سلسلے میں مروی ہے کہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے [[رسول اللہؐ]] سے عرض کیا کہ کیا آپؐ زمانۂ [[جاہلیت]] میں گذرے ان کے آباء و اجداد کے لئے [[دعا|دعائے]] مغفرت نہیں کریں گے؟ تو خداوند متعال نے یہ آیت کریمہ نازل کرکے ان کا جواب دیا اور فرمایا کہ [[رسول خداؐ]] اور [[مؤمن|مؤمنین]] کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کہ [[شرک|مشرکین]] کے لئے استغفار کریں۔<ref>طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان ج5، ص115۔</ref><ref>مکارم شیرازی، نمونه، ج8، ص155۔</ref>


دوسری [[شان نزول]] میں ـ جو [[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] کے مآخذ میں منقول ہے ـ بیان ہوا ہے کہ [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] نے ایک مسلمان کو اپنے مشرک ماں باپ کے لئے مغفرت طلب کرتے ہوئے سنا اور اس پر اعتراض کیا، اس نے کہا: تو پھر [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم(ع)]] نے کیوں اپنے مشرک والدین کے لئے خداوند متعال سے مغفرت طلب کی؟ [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] اس شخص کا سوال [[رسول خدا(ص)]] کو پہنچایا تو [[سورہ توبہ]] کی آیات 113 اور 114 نازل ہوئیں۔<ref>الطبری، جامع البیان، مج7، ج11، ص60۔</ref><ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج16، ص209۔</ref><ref>العیاشی، تفسیر عیاشی، ج2، ص114۔</ref>
دوسری [[شان نزول]] میں ـ جو [[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] کے مآخذ میں منقول ہے ـ بیان ہوا ہے کہ [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] نے ایک مسلمان کو اپنے مشرک ماں باپ کے لئے مغفرت طلب کرتے ہوئے سنا اور اس پر اعتراض کیا، اس نے کہا: تو پھر [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیمؑ]] نے کیوں اپنے مشرک والدین کے لئے خداوند متعال سے مغفرت طلب کی؟ [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] اس شخص کا سوال [[رسول خداؐ]] کو پہنچایا تو [[سورہ توبہ]] کی آیات 113 اور 114 نازل ہوئیں۔<ref>الطبری، جامع البیان، مج7، ج11، ص60۔</ref><ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج16، ص209۔</ref><ref>العیاشی، تفسیر عیاشی، ج2، ص114۔</ref>


===شان نزول کا ضعف===
===شان نزول کا ضعف===
ایک شان نزول میں آیت 113 میں استغفار کی ممانعت کا تعلق [[ابو طالب علیہ السلام|ابوطالب(ع)]]<ref>الطبری، جامع البیان، مج7، ج11، ص56 57۔</ref><ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج16، ص208۔</ref><ref>القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج8، ص173۔</ref> یا [[آمنہ بنت وہب سلام اللہ علیہا|آمنہ]]،<ref>زمخشری، الکشاف، ج2، ص315۔</ref><ref>الفخر الرازی، التفسیر الکبیر، ج16، ص208۔</ref><ref>السیوطی، الدرالمنثور، ج4، ص302۔</ref> کے لئے [[رسول اللہ(ص)]] کے استغفار سے ہے حالانکہ محققین نے متعدد دلائل کے ذریعے اس شان نزول کو رد کردیا ہے:
ایک شان نزول میں آیت 113 میں استغفار کی ممانعت کا تعلق [[ابو طالب علیہ السلام|ابوطالبؑ]]<ref>الطبری، جامع البیان، مج7، ج11، ص56 57۔</ref><ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج16، ص208۔</ref><ref>القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج8، ص173۔</ref> یا [[آمنہ بنت وہب سلام اللہ علیہا|آمنہ]]،<ref>زمخشری، الکشاف، ج2، ص315۔</ref><ref>الفخر الرازی، التفسیر الکبیر، ج16، ص208۔</ref><ref>السیوطی، الدرالمنثور، ج4، ص302۔</ref> کے لئے [[رسول اللہؐ]] کے استغفار سے ہے حالانکہ محققین نے متعدد دلائل کے ذریعے اس شان نزول کو رد کردیا ہے:
* یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی [[سعید بن مسیب]] ہے جس کی بعض رجالی مآخذ کے مطابق، مذمت ہوئی ہے اور بعض نے اس کے بارے میں اظہار خیال کرنے سے اجتناب کیا ہے،<ref>الخوئی، معجم رجال الحدیث، ج9، ص138-145۔</ref> اور بعض دوسرے اس کی [[اہل بیت|اہل بیت رسول(ص)]] سے دشمنی کی بنا پر اس کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج8، ص159۔</ref><ref>الامینی النجفی، الغدیر، ج8، ص56۔</ref>
* یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی [[سعید بن مسیب]] ہے جس کی بعض رجالی مآخذ کے مطابق، مذمت ہوئی ہے اور بعض نے اس کے بارے میں اظہار خیال کرنے سے اجتناب کیا ہے،<ref>الخوئی، معجم رجال الحدیث، ج9، ص138-145۔</ref> اور بعض دوسرے اس کی [[اہل بیت|اہل بیت رسولؐ]] سے دشمنی کی بنا پر اس کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج8، ص159۔</ref><ref>الامینی النجفی، الغدیر، ج8، ص56۔</ref>
* مشہور ہی نہیں بلکہ امر مسلّم ہے کہ [[سورہ توبہ]] سنہ 9 ہجری قمری میں نازل ہوئی ہے حالانکہ [[ابوطالب(ع)]] کا سال وفات، سنہ 10 بعد از بعثت ہے،<ref>زمخشری، الکشاف، ج2، ص315۔</ref><ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، ج16، ص208۔</ref><ref>القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج8، ص173۔</ref> چنانچہ مذکورہ شان نزول اپنے متن میں ہی تاریخی لحاظ سے بھی تضادات سے مالامال ہے، حتی کہ بعض تفاسیر میں اس روایت کا رخ سیدھا کرنے کے لئے نامقبول اور نامعقول توجیہات پیش کی گئی ہیں اور یہاں تک بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے!،<ref>عبدہ، تفسیر المنار، ج11، ص57 58۔</ref><ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج8، ص158۔</ref> یا پھر کیا گیا ہے کہ [[ابوطالب(ع)]] کے لئے [[رسول خدا(ص)]] کا استغفار، ان کی وفات سے لے کر اس آیت کے نزول تک ممکن تھا!،<ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج16، ص208۔</ref> لیکن ان لوگوں نے اس نکتے کی طرف اشارہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے کہ [[رسول خدا(ص)]] سالہا سال اپنے مشرک چچا کے ساتھ دوستی اور محبت کا اظہار کرتے رہے تھے اور ان کے لئے [[دعا|دعائے]] مغفرت کرتے رہے تھے حالانکہ خداوند متعال نے مکرر در مکرر آپ(ص) کو مشرکین سے محبت اور دوستی سے منع کیا تھا!۔<ref>مکارم شیرازي، تفسیر نمونہ، ج8، ص157158۔</ref><ref>الامینی النجفی، الغدیر، ج8، ص1011۔</ref>
* مشہور ہی نہیں بلکہ امر مسلّم ہے کہ [[سورہ توبہ]] سنہ 9 ہجری قمری میں نازل ہوئی ہے حالانکہ [[ابوطالبؑ]] کا سال وفات، سنہ 10 بعد از بعثت ہے،<ref>زمخشری، الکشاف، ج2، ص315۔</ref><ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، ج16، ص208۔</ref><ref>القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج8، ص173۔</ref> چنانچہ مذکورہ شان نزول اپنے متن میں ہی تاریخی لحاظ سے بھی تضادات سے مالامال ہے، حتی کہ بعض تفاسیر میں اس روایت کا رخ سیدھا کرنے کے لئے نامقبول اور نامعقول توجیہات پیش کی گئی ہیں اور یہاں تک بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے!،<ref>عبدہ، تفسیر المنار، ج11، ص57 58۔</ref><ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج8، ص158۔</ref> یا پھر کیا گیا ہے کہ [[ابوطالبؑ]] کے لئے [[رسول خداؐ]] کا استغفار، ان کی وفات سے لے کر اس آیت کے نزول تک ممکن تھا!،<ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج16، ص208۔</ref> لیکن ان لوگوں نے اس نکتے کی طرف اشارہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے کہ [[رسول خداؐ]] سالہا سال اپنے مشرک چچا کے ساتھ دوستی اور محبت کا اظہار کرتے رہے تھے اور ان کے لئے [[دعا|دعائے]] مغفرت کرتے رہے تھے حالانکہ خداوند متعال نے مکرر در مکرر آپؐ کو مشرکین سے محبت اور دوستی سے منع کیا تھا!۔<ref>مکارم شیرازي، تفسیر نمونہ، ج8، ص157158۔</ref><ref>الامینی النجفی، الغدیر، ج8، ص1011۔</ref>
* اسی شان نزول کے ایک حصے میں [[ابوطالب(ع)]] [[رسول اللہ(ص)]] سے عرض کرتے ہیں: "میں اپنے والد [[عبدالمطلب(ع)]] کے [[دین]] پر ہوں"، اور [[شیعہ]] نیز بہت سے [[اہل سنت|سنی]] علماء کے ہاں [[عبدالمطلب(ع)]] کی یکتا پرستی مسلّم ہے۔<ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج1، ص163۔</ref><ref>الشیخ المفید، اوائل المقالات، ص45 46۔</ref> [[عباس بن عبدالمطلب]] سے بھی ہے منقول ہے کہ [[ابوطالب(ع)]] نے وفات سے قبل [[توحید]] اور [[رسالت]] کا اقرار کیا،<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج14، ص71۔</ref> اور ان کے اشعار اس حقیقت کا عینی ثبوت ہیں۔<ref>الجزری، اسنی المطالب، ص37۔</ref><ref>الامینی النجفی، الغدیر، ج7، ص350 384۔</ref> بعض علماء کا کہنا ہے کہ [[ابوطالب(ع)]] اپنا [[ایمان]] چھپا کر رکھتے تھے تا کہ [[رسول خدا(ص)]] کی بہتر انداز سے حمایت و حفاظت کرسکیں۔<ref>الجزری، اسنی المطالب، ص33۔</ref><ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج14، ص274۔</ref> [[اہل بیت]] کی [[احادیث]] میں [[ابوطالب(ع)]] کو [[اصحاب کہف]]،<ref> کلینی، الکافی، ج1، ص448۔</ref> اور [[مؤمن آل فرعون]]،<ref>ابن براج، جواہر الفقہ، ص249۔</ref> سے تشبیہ دی گئی ہے۔ [[امام رضا(ع)]] نے [[ابان بن تغلب]] سے فرمایا: {{عربی|'''اگر تم [[ابوطالب(ع)]] کے [[ایمان]] کا اقرار نہیں کرو گے تو تیرا انجام، دوزخ کی آگ، ہوگا'''}}۔<ref>بحار الانوار، ج35، ص110 و 156۔</ref>
* اسی شان نزول کے ایک حصے میں [[ابوطالبؑ]] [[رسول اللہؐ]] سے عرض کرتے ہیں: "میں اپنے والد [[عبدالمطلبؑ]] کے [[دین]] پر ہوں"، اور [[شیعہ]] نیز بہت سے [[اہل سنت|سنی]] علماء کے ہاں [[عبدالمطلبؑ]] کی یکتا پرستی مسلّم ہے۔<ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج1، ص163۔</ref><ref>الشیخ المفید، اوائل المقالات، ص45 46۔</ref> [[عباس بن عبدالمطلب]] سے بھی ہے منقول ہے کہ [[ابوطالبؑ]] نے وفات سے قبل [[توحید]] اور [[رسالت]] کا اقرار کیا،<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج14، ص71۔</ref> اور ان کے اشعار اس حقیقت کا عینی ثبوت ہیں۔<ref>الجزری، اسنی المطالب، ص37۔</ref><ref>الامینی النجفی، الغدیر، ج7، ص350 384۔</ref> بعض علماء کا کہنا ہے کہ [[ابوطالبؑ]] اپنا [[ایمان]] چھپا کر رکھتے تھے تا کہ [[رسول خداؐ]] کی بہتر انداز سے حمایت و حفاظت کرسکیں۔<ref>الجزری، اسنی المطالب، ص33۔</ref><ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج14، ص274۔</ref> [[اہل بیت]] کی [[احادیث]] میں [[ابوطالبؑ]] کو [[اصحاب کہف]]،<ref> کلینی، الکافی، ج1، ص448۔</ref> اور [[مؤمن آل فرعون]]،<ref>ابن براج، جواہر الفقہ، ص249۔</ref> سے تشبیہ دی گئی ہے۔ [[امام رضاؑ]] نے [[ابان بن تغلب]] سے فرمایا: {{عربی|'''اگر تم [[ابوطالبؑ]] کے [[ایمان]] کا اقرار نہیں کرو گے تو تیرا انجام، دوزخ کی آگ، ہوگا'''}}۔<ref>بحار الانوار، ج35، ص110 و 156۔</ref>


===حضرت ابراہیم(ع) کا استغفار آزر کے لئے===
===حضرت ابراہیمؑ کا استغفار آزر کے لئے===
[[قرآن کریم]] [[سورہ توبہ]] کی آیت 113 میں مشرکین کے لئے استغفار کی ممنوعیت کے کے بعد، [[آزر]] کے لئے [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم(ع)]] کے استغفار کا راز بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ مغفرت طلبی اس وقت سے تعلق رکھتی ہے جب [[ابراہیم(ع)]] کو ـ ابھی ـ اس کے [[ایمان]] لانے کی امید تھی؛ چنانچہ خلیل الرحمن نے اس کو راہ راست پر لانے کے لئے اس کو استغفار کا وعدہ دیا  اور اس وعدے کی وفا کی؛ لیکن جب خدا کے ساتھ اس کی دشمنی آشکار ہوئی، تو اس سے بیزاری کا اظہار کیا۔<ref>{{قرآن کا متن|'''وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لأوَّاهٌ حَلِيمٌ'''|ترجمہ= اور ابراہیم کا دعائے مغفرت کرنا اپنے باپ کے لیے نہ تھا مگر ایک وعدہ کی رو سے جو انہوں نے کیا تھا اس سے مگر جب ثابت ہو گیا ان پر کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے اظہار برات کر دیا، بلاشبہ ابراہیم غم خوار انسان تھے، تحمل سے کام لینے والے۔|سورت= [[سورہ توبہ|توبہ]]|آیت=114}}۔</ref> اس سلسلے میں منقولہ [[احادیث|روایات]] کا مضمون یہ ہے کہ [[ابراہیم(ع)]] نے آزر کے لئے استغفار کو اس کے [[ایمان]] لانے سے مشروط کیا، اور جب اللہ کے ساتھ اس کی دشمنی آشکار ہوئی تو آپ نے اس سے برائت و بیزاری ظاہر کی۔<ref>الحویزی، نورالثقلین، ج2، ص274۔</ref><ref>العیاشی، تفسیر عیاشی، ج2، ص114۔</ref><ref>مجلسی، بحار الانوار، ج11، ص77۔</ref><ref>مجلسی، وہی ماخذ، ج11، ص88۔</ref><ref>مجلسی، وہی ماخذ، ج12، ص15۔</ref>
[[قرآن کریم]] [[سورہ توبہ]] کی آیت 113 میں مشرکین کے لئے استغفار کی ممنوعیت کے کے بعد، [[آزر]] کے لئے [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیمؑ]] کے استغفار کا راز بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ مغفرت طلبی اس وقت سے تعلق رکھتی ہے جب [[ابراہیمؑ]] کو ـ ابھی ـ اس کے [[ایمان]] لانے کی امید تھی؛ چنانچہ خلیل الرحمن نے اس کو راہ راست پر لانے کے لئے اس کو استغفار کا وعدہ دیا  اور اس وعدے کی وفا کی؛ لیکن جب خدا کے ساتھ اس کی دشمنی آشکار ہوئی، تو اس سے بیزاری کا اظہار کیا۔<ref>{{قرآن کا متن|'''وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لأوَّاهٌ حَلِيمٌ'''|ترجمہ= اور ابراہیم کا دعائے مغفرت کرنا اپنے باپ کے لیے نہ تھا مگر ایک وعدہ کی رو سے جو انہوں نے کیا تھا اس سے مگر جب ثابت ہو گیا ان پر کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے اظہار برات کر دیا، بلاشبہ ابراہیم غم خوار انسان تھے، تحمل سے کام لینے والے۔|سورت= [[سورہ توبہ|توبہ]]|آیت=114}}۔</ref> اس سلسلے میں منقولہ [[احادیث|روایات]] کا مضمون یہ ہے کہ [[ابراہیمؑ]] نے آزر کے لئے استغفار کو اس کے [[ایمان]] لانے سے مشروط کیا، اور جب اللہ کے ساتھ اس کی دشمنی آشکار ہوئی تو آپ نے اس سے برائت و بیزاری ظاہر کی۔<ref>الحویزی، نورالثقلین، ج2، ص274۔</ref><ref>العیاشی، تفسیر عیاشی، ج2، ص114۔</ref><ref>مجلسی، بحار الانوار، ج11، ص77۔</ref><ref>مجلسی، وہی ماخذ، ج11، ص88۔</ref><ref>مجلسی، وہی ماخذ، ج12، ص15۔</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 288: سطر 288:
* علم الہدی، علی بن الحسین، تنزیہ الأنبیاء علیہم‌السلام‌، محقق فارس حسون کریم، مرکز العلوم و الثقافہ الاسلامیۃ، قم: بوستان کتاب، 1430ھ ق / 1387ھ ش۔
* علم الہدی، علی بن الحسین، تنزیہ الأنبیاء علیہم‌السلام‌، محقق فارس حسون کریم، مرکز العلوم و الثقافہ الاسلامیۃ، قم: بوستان کتاب، 1430ھ ق / 1387ھ ش۔
* شوشتری، نور اللہ بن شریف الدین، مجالس المومنین (2 جلد)، اسلامیہ، تہران؛ 1377ھ ش۔
* شوشتری، نور اللہ بن شریف الدین، مجالس المومنین (2 جلد)، اسلامیہ، تہران؛ 1377ھ ش۔
* الجزری، محمد بن محمد، أسنی المطالب فی مناقب سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ، محقق: امینی، محمد ہادی، جلد: 1 ، مکتبہ الإمام أمیر المؤمنین علی(ع) العامہ، اصفہان۔
* الجزری، محمد بن محمد، أسنی المطالب فی مناقب سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ، محقق: امینی، محمد ہادی، جلد: 1 ، مکتبہ الإمام أمیر المؤمنین علیؑ العامہ، اصفہان۔
* ابن براج، عبدالعزیز بن نحریر، جواہر الفقہ، موسسہ النشر الاسلامی التابعہ لجماعہ المدرسین بقم، قم۔
* ابن براج، عبدالعزیز بن نحریر، جواہر الفقہ، موسسہ النشر الاسلامی التابعہ لجماعہ المدرسین بقم، قم۔
* الطباطبائی الیزدی، السید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین بقم المشرفۃ 1417ھ ق۔
* الطباطبائی الیزدی، السید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین بقم المشرفۃ 1417ھ ق۔
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
7,916

ترامیم