مندرجات کا رخ کریں

"قم" کے نسخوں کے درمیان فرق

112 بائٹ کا ازالہ ،  16 جنوری 2018ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:Ghom.jpg|تصغیر|قم المقدس]]
ؑ[[ملف:Ghom.jpg|تصغیر|قم المقدس]]
'''قم''' [[ایران]] کا دوسرا مذہبی شہر اور اہل [[شیعہ|تشیع]] کا مرکز ہے۔ اگرچہ اس کا شمار [[اسلام]] سے پہلے والے قدیمی شہروں میں ہوتا ہے لیکن در اصل یہ شہر سنہ 93-83 ہجری قمری میں وجود میں آیا۔ [[اشعری]] قوم کا قم میں وارد ہونا اس کے آباد ہونے کا باعث بنا اور چونکہ یہ قوم [[اہل بیت(ع)|اہل بیت]] سے محبت رکھتی تھی، اس لئے قم کی بنیاد ہی [[شیعہ]] فکر کے مطابق رکھی گئی۔ [[حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا|حضرت معصومہ(س)]] کا قم میں [[ہجرت]] کرنا اور قم میں آپکا اور آپکے پیرو کاروں کا دفن ہونا، اور [[ائمہ معصومین]] کی اولاد اور سادات کا ہجرت کرنا، اس شہر کو [[تشیع]] کے مرکزی شہر میں تبدیل ہونے کا باعث بنا۔ [[حوزہ علمیہ]] کی ابتداء اس شہر میں ہونے سے تشیع کی شہرت زیادہ ہو گئی۔ اور آج یہ شہر تشیع کا سب سے بڑا مرکز ہے اور اسی  جگہ سے [[شیعہ]] معارف کو دنیا کے مختلف نقاط میں منتشر کیا جاتا ہے۔
'''قم''' [[ایران]] کا دوسرا مذہبی شہر اور اہل [[شیعہ|تشیع]] کا مرکز ہے۔ اگرچہ اس کا شمار [[اسلام]] سے پہلے والے قدیمی شہروں میں ہوتا ہے لیکن در اصل یہ شہر سنہ 93-83 ہجری قمری میں وجود میں آیا۔ [[اشعری]] قوم کا قم میں وارد ہونا اس کے آباد ہونے کا باعث بنا اور چونکہ یہ قوم [[اہل بیتؑ|اہل بیت]] سے محبت رکھتی تھی، اس لئے قم کی بنیاد ہی [[شیعہ]] فکر کے مطابق رکھی گئی۔ [[حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا|حضرت معصومہ(س)]] کا قم میں [[ہجرت]] کرنا اور قم میں آپکا اور آپکے پیرو کاروں کا دفن ہونا، اور [[ائمہ معصومین]] کی اولاد اور سادات کا ہجرت کرنا، اس شہر کو [[تشیع]] کے مرکزی شہر میں تبدیل ہونے کا باعث بنا۔ [[حوزہ علمیہ]] کی ابتداء اس شہر میں ہونے سے تشیع کی شہرت زیادہ ہو گئی۔ اور آج یہ شہر تشیع کا سب سے بڑا مرکز ہے اور اسی  جگہ سے [[شیعہ]] معارف کو دنیا کے مختلف نقاط میں منتشر کیا جاتا ہے۔


==وجہ تسمیہ==
==وجہ تسمیہ==
سطر 48: سطر 48:


==تشیع کا داخلہ==
==تشیع کا داخلہ==
قم والوں کا مذہب اشعریوں کی قم میں ہجرت سے پہلے زرتشت تھا۔<ref>شعبانی ۱۳۶</ref> اگرچہ قم فتح ہونے کے بعد سے مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہی تھا لیکن لوگوں نے اپنے پرانے دین پر باقی رہنے کو ہی ترجیح دی۔ اشعریوں کے قم آنے اور ان کی طرف سے دین مبین اسلام کی تبلیغ سے قم کے باسیوں نے بغیر کسی اجبار کے دین [[اسلام]] قبول اور اشعریوں کے مذہب کو اختیار کر لیا۔ اگرچہ اس بارے میں دقیق معلومات تاریخی منابع میں ثبت نہیں ہیں کہ قم میں ہجرت کرنے والے اشعریوں کا مذہب ابتداء میں کیا تھا اور یہ لوگ کس مذہب کے پیروکار تھے لیکن [[سائب بن مالک اشعری]] کے [[قیام مختار]] میں اس کا ساتھ دینے، اس کے بیٹے [[محمد بن سائب]] کی [[حجاج بن یوسف ثقفی|حجاج]] کی مخالفت اور ان کی بعد والی نسلوں کے ائمہ معصومین(ع) کے ساتھ ارتباط سے ان کے [[اہل بیت]] کی طرف مائل ہونے کے احتمال کو تقویت ملتی ہے۔
قم والوں کا مذہب اشعریوں کی قم میں ہجرت سے پہلے زرتشت تھا۔<ref>شعبانی ۱۳۶</ref> اگرچہ قم فتح ہونے کے بعد سے مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہی تھا لیکن لوگوں نے اپنے پرانے دین پر باقی رہنے کو ہی ترجیح دی۔ اشعریوں کے قم آنے اور ان کی طرف سے دین مبین اسلام کی تبلیغ سے قم کے باسیوں نے بغیر کسی اجبار کے دین [[اسلام]] قبول اور اشعریوں کے مذہب کو اختیار کر لیا۔ اگرچہ اس بارے میں دقیق معلومات تاریخی منابع میں ثبت نہیں ہیں کہ قم میں ہجرت کرنے والے اشعریوں کا مذہب ابتداء میں کیا تھا اور یہ لوگ کس مذہب کے پیروکار تھے لیکن [[سائب بن مالک اشعری]] کے [[قیام مختار]] میں اس کا ساتھ دینے، اس کے بیٹے [[محمد بن سائب]] کی [[حجاج بن یوسف ثقفی|حجاج]] کی مخالفت اور ان کی بعد والی نسلوں کے ائمہ معصومینؑ کے ساتھ ارتباط سے ان کے [[اہل بیت]] کی طرف مائل ہونے کے احتمال کو تقویت ملتی ہے۔


'''قم''' ایران کا پہلا شہر ہے جس نے باقاعدہ طور پر اپنا مذہب تشیع ہونے کا علنی طور پر اعلان کیا اور قم کے باسیوں میں سے موسی بن عبد اللہ بن سعد اشعری وہ پہلا شخص ہے جس نے اپنا قبیلہ شیعہ ہونے کا اظہار اور اس مذہب کی ترویج کا اہتمام کیا۔<ref>تاریخ قم ص۲۷۸</ref>
'''قم''' ایران کا پہلا شہر ہے جس نے باقاعدہ طور پر اپنا مذہب تشیع ہونے کا علنی طور پر اعلان کیا اور قم کے باسیوں میں سے موسی بن عبد اللہ بن سعد اشعری وہ پہلا شخص ہے جس نے اپنا قبیلہ شیعہ ہونے کا اظہار اور اس مذہب کی ترویج کا اہتمام کیا۔<ref>تاریخ قم ص۲۷۸</ref>
سطر 62: سطر 62:
===حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی بارگاہ===
===حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی بارگاہ===
[[ملف:حرم حضرت معصومه2.jpg|تصغیر|حرم حضرت معصومہ(س)، قم المقدس]]
[[ملف:حرم حضرت معصومه2.jpg|تصغیر|حرم حضرت معصومہ(س)، قم المقدس]]
اشعریوں کی قم میں سکونت اور حکومت کے بعد قم، خاندان اہل بیت اور ان کے چاہنے والوں کے لئے سکون اور امن کا مقام بن گیا۔ تاریخ قم کے مصنف یوں لکھتے ہیں کہ [[علی بن ابی طالب]] کے فرزندان میں سے ایک گروہ جو کہ "طالبیہ" کے نام سے مشہور ہے قم اور اس کے اطراف میں مقیم ہوا۔ ناصر الشریعہ نے قم کی تاریخ میں ایک باب کو حضرت فاطمہ معصومہ(س) سمیت دوسرے امام زادوں کے ساتھ مختص کیا ہے۔ حضرت معصومہ(س) نے [[مدینہ]] سے اپنے بھائی امام رضا(ع) کے دیدار کی خاطر [[مرو]] کی طرف ہجرت کی اور کچھ دلائل کی بناء پر ساوہ سے قم کی جانب سفر کرنے کا ارادہ کیا اور 17 روز قم میں رہنے کے بعد قم میں ہی رحلت فرما گئیں اور وہیں پر ہی دفن ہو گئیں۔
اشعریوں کی قم میں سکونت اور حکومت کے بعد قم، خاندان اہل بیت اور ان کے چاہنے والوں کے لئے سکون اور امن کا مقام بن گیا۔ تاریخ قم کے مصنف یوں لکھتے ہیں کہ [[علی بن ابی طالب]] کے فرزندان میں سے ایک گروہ جو کہ "طالبیہ" کے نام سے مشہور ہے قم اور اس کے اطراف میں مقیم ہوا۔ ناصر الشریعہ نے قم کی تاریخ میں ایک باب کو حضرت فاطمہ معصومہ(س) سمیت دوسرے امام زادوں کے ساتھ مختص کیا ہے۔ حضرت معصومہ(س) نے [[مدینہ]] سے اپنے بھائی امام رضاؑ کے دیدار کی خاطر [[مرو]] کی طرف ہجرت کی اور کچھ دلائل کی بناء پر ساوہ سے قم کی جانب سفر کرنے کا ارادہ کیا اور 17 روز قم میں رہنے کے بعد قم میں ہی رحلت فرما گئیں اور وہیں پر ہی دفن ہو گئیں۔


آپ کی قم میں آرامگاہ کی وجہ سے قم ایران کا دوسرا مذہبی شہر اور شیعوں کے مرکز میں تبدیل ہو گیا اور آپ کے بعد زیادہ تعداد میں امامزادوں اور سادات نے قم اور اس کے اطراف میں سکونت اختیار کی۔<ref>تاریخ قم، ص۲۱۵</ref>
آپ کی قم میں آرامگاہ کی وجہ سے قم ایران کا دوسرا مذہبی شہر اور شیعوں کے مرکز میں تبدیل ہو گیا اور آپ کے بعد زیادہ تعداد میں امامزادوں اور سادات نے قم اور اس کے اطراف میں سکونت اختیار کی۔<ref>تاریخ قم، ص۲۱۵</ref>
سطر 72: سطر 72:
ناصر الشریعہ نقل کرتے ہیں کہ [[ابو اسحاق قمی]] جو اصل میں کوفہ کے رہنے والے اور یونس بن عبد الرحمن کے شاگرد تھے، پہلے شخص ہیں جنہوں نے اہل کوفہ کی احادیث کو قم میں منتشر کیا۔
ناصر الشریعہ نقل کرتے ہیں کہ [[ابو اسحاق قمی]] جو اصل میں کوفہ کے رہنے والے اور یونس بن عبد الرحمن کے شاگرد تھے، پہلے شخص ہیں جنہوں نے اہل کوفہ کی احادیث کو قم میں منتشر کیا۔
*'''زکریا بن آدم بن عبداللہ بن سعد الاشعری قمی'''
*'''زکریا بن آدم بن عبداللہ بن سعد الاشعری قمی'''
ناصر الشریعہ لکھتے ہیں کہ [[نجاشی]] نے اپنی رجال اور [[علامہ حلی]] نے کتاب "خلاصۃ الاقوال" میں زکریا بن آدم کے بارے میں یوں بیان کیا ہے: وہ جلیل القدر اور عظیم الشان شخصیت کے مالک تھے۔ امام رضا(ع) کی نظر میں وہ ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ امام رضا(ع) نے ان کے بارے میں یوں فرمایا: "خدا ان پر رحمت نازل کرے،  جس دن وہ اس دنیا میں آیا اور جس دن اس دنیا سے چلا جائے اور جس دن اسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔"<ref>ناصر الشریعہ، ص۱۹۵</ref>
ناصر الشریعہ لکھتے ہیں کہ [[نجاشی]] نے اپنی رجال اور [[علامہ حلی]] نے کتاب "خلاصۃ الاقوال" میں زکریا بن آدم کے بارے میں یوں بیان کیا ہے: وہ جلیل القدر اور عظیم الشان شخصیت کے مالک تھے۔ امام رضاؑ کی نظر میں وہ ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ امام رضاؑ نے ان کے بارے میں یوں فرمایا: "خدا ان پر رحمت نازل کرے،  جس دن وہ اس دنیا میں آیا اور جس دن اس دنیا سے چلا جائے اور جس دن اسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔"<ref>ناصر الشریعہ، ص۱۹۵</ref>


*'''احمد بن اسحاق'''
*'''احمد بن اسحاق'''
آپ کو "اہل قم کا قافلہ سالار" کہا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے [[حضرت امام جواد]](ع) اور [[حضرت امام ہادی]](ع) سے روایت نقل کی ہے اور انکا شمار حضرت [[امام حسن عسکری]](ع) کے خاص اصحاب میں سے ہوتا تھا اور انہیں اہل قم کا شیخ بھی کہا جاتا تھا۔ نجاشی نے انہیں ان افراد میں شمار کیا ہے جن کی توصیف میں امام زمانہ کی جانب سے توقیع(خط) صادر ہوئی ہے۔ <ref>ناصر الشریعہ، ص۱۶۸</ref>
آپ کو "اہل قم کا قافلہ سالار" کہا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے [[حضرت امام جواد]]ؑ اور [[حضرت امام ہادی]]ؑ سے روایت نقل کی ہے اور انکا شمار حضرت [[امام حسن عسکری]]ؑ کے خاص اصحاب میں سے ہوتا تھا اور انہیں اہل قم کا شیخ بھی کہا جاتا تھا۔ نجاشی نے انہیں ان افراد میں شمار کیا ہے جن کی توصیف میں امام زمانہ کی جانب سے توقیع(خط) صادر ہوئی ہے۔ <ref>ناصر الشریعہ، ص۱۶۸</ref>


*'''شیخ صدوق'''
*'''شیخ صدوق'''
سطر 81: سطر 81:
قم میں مقیم شیعہ علماء میں سے ایک علی بن بابویہ قمی بھی ہیں جو شیخ صدوق کے نام سے مشہور تھے۔ آپ اپنے زمانے کے بلند پایہ شیعہ علماء میں سے تھے۔
قم میں مقیم شیعہ علماء میں سے ایک علی بن بابویہ قمی بھی ہیں جو شیخ صدوق کے نام سے مشہور تھے۔ آپ اپنے زمانے کے بلند پایہ شیعہ علماء میں سے تھے۔


== اہل قم کا شیعہ ائمہ(ع) سے رابطہ==
== اہل قم کا شیعہ ائمہؑ سے رابطہ==
قم کے باسی خصوصاً اشعریوں کا قبیلہ وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے اپنی سالانہ آمدنی سے [[خمس]] نکال کر [[اہل تشیع]] کے [[امامت|اماموں]] کو بھیجنا شروع کیا، اشعریوں کا اپنے [[ائمہ]] سے اس حد تک رابطہ تھا کہ حتی ان کی وفات کے بعد ائمہ ان کے لئے [[کفن]] بھیجتے تھے۔ مادلونگ کہتا ہے:
قم کے باسی خصوصاً اشعریوں کا قبیلہ وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے اپنی سالانہ آمدنی سے [[خمس]] نکال کر [[اہل تشیع]] کے [[امامت|اماموں]] کو بھیجنا شروع کیا، اشعریوں کا اپنے [[ائمہ]] سے اس حد تک رابطہ تھا کہ حتی ان کی وفات کے بعد ائمہ ان کے لئے [[کفن]] بھیجتے تھے۔ مادلونگ کہتا ہے:
::"قم کے لوگ بارہ اماموں کی [[امامت]] پر یقین رکھتے تھے اور ہمیشہ ان کے وفادار رہے ہیں اسی وجہ سے ان میں کسی قسم کا انشقاق، جیسے فطحی یا واقفی، مذہب کی پیروی اس شہر کے محدثین میں کبھی مشاہدہ نہیں آئی ہے۔"<ref>کیہان اندیشہ، ش۱۵۲ص۱۵۳؛ دایرہ المعارف تشیع، ج۱۳ص ۲۷۲</ref>
::"قم کے لوگ بارہ اماموں کی [[امامت]] پر یقین رکھتے تھے اور ہمیشہ ان کے وفادار رہے ہیں اسی وجہ سے ان میں کسی قسم کا انشقاق، جیسے فطحی یا واقفی، مذہب کی پیروی اس شہر کے محدثین میں کبھی مشاہدہ نہیں آئی ہے۔"<ref>کیہان اندیشہ، ش۱۵۲ص۱۵۳؛ دایرہ المعارف تشیع، ج۱۳ص ۲۷۲</ref>


=== پہلا رابطہ ===
=== پہلا رابطہ ===
عبد اللہ بن سعد بن مالک جو قم کی طرف ہجرت کرنے والے پہلے مہاجرین میں سے تھے کے بعض فرزندان أئمہ معصومین کے [[اصحاب]] میں سے تھے۔ تاریخی اعتبار سے یہ سب سے پرانے شواہد ہیں جو ائمہ کے ساتھ قم کے اشعریوں کے رابطے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ موسی بن عبد اللہ بن سعد [[امام صادق(ع)]] کے اصحاب میں سے تھے اور شیخ طوسی کے مطابق انہوں نے [[امام باقر(ع)]] سے بھی روایت سنی تھی۔ شیعب بن عبد اللہ کا شمار بھی امام باقر(ع) اور امام صادق(ع) کے اصحاب میں ہوتا ہے۔ آدم، ابو بکر، یسع، یعقوب اور اسحاق جو کہ عبد اللہ بن سعد کے فرزندان تھے ان کا شمار بھی امام صادق(ع) کے اصحاب اور شاگردوں میں ہوتا ہے۔<ref>پیروزفر و آجیلیان، ص۳۵-۳۶</ref>
عبد اللہ بن سعد بن مالک جو قم کی طرف ہجرت کرنے والے پہلے مہاجرین میں سے تھے کے بعض فرزندان أئمہ معصومین کے [[اصحاب]] میں سے تھے۔ تاریخی اعتبار سے یہ سب سے پرانے شواہد ہیں جو ائمہ کے ساتھ قم کے اشعریوں کے رابطے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ موسی بن عبد اللہ بن سعد [[امام صادقؑ]] کے اصحاب میں سے تھے اور شیخ طوسی کے مطابق انہوں نے [[امام باقرؑ]] سے بھی روایت سنی تھی۔ شیعب بن عبد اللہ کا شمار بھی امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے اصحاب میں ہوتا ہے۔ آدم، ابو بکر، یسع، یعقوب اور اسحاق جو کہ عبد اللہ بن سعد کے فرزندان تھے ان کا شمار بھی امام صادقؑ کے اصحاب اور شاگردوں میں ہوتا ہے۔<ref>پیروزفر و آجیلیان، ص۳۵-۳۶</ref>


===امام کاظم(ع) سے اظہار وفاداری===
===امام کاظمؑ سے اظہار وفاداری===
امام کاظم(ع) کی [[شہادت]] جو بہت سے [[شیعہ]] اور غیر شیعہ شخصیات کے لئے غیر قابل درک واقعہ تھا، لیکن اہل قم نے قطعی اور یقینی طور پر ہارون رشید کو اس واقعے کا ذمہ ذار ٹہرایا اور اسی تناظر میں اس کی طرف سے بھیجے گئے حاکموں کی باقاعدہ مخالفت شروع کی۔<ref>دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱</ref>
امام کاظمؑ کی [[شہادت]] جو بہت سے [[شیعہ]] اور غیر شیعہ شخصیات کے لئے غیر قابل درک واقعہ تھا، لیکن اہل قم نے قطعی اور یقینی طور پر ہارون رشید کو اس واقعے کا ذمہ ذار ٹہرایا اور اسی تناظر میں اس کی طرف سے بھیجے گئے حاکموں کی باقاعدہ مخالفت شروع کی۔<ref>دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱</ref>


===امام رضا(ع) اور اہل قم ===
===امام رضاؑ اور اہل قم ===
اہل قم کا امام رضا(ع) کی طرف سے عطا کردہ پیراہن کو کئی گنا زیادہ قیمت دے کر تبرک کی خاطر [[دعبل خزاعی]] سے خریدنا ان لوگوں کی امام رضا(ع) اور اہل بیت (ع) سے سچے محبت کی دلیل ہے۔
اہل قم کا امام رضاؑ کی طرف سے عطا کردہ پیراہن کو کئی گنا زیادہ قیمت دے کر تبرک کی خاطر [[دعبل خزاعی]] سے خریدنا ان لوگوں کی امام رضاؑ اور اہل بیت ؑ سے سچے محبت کی دلیل ہے۔


یونس بن عبد الرحمان اشعری جو امام رضا(ع) کے وکیل تھے، اس قدر علوم آل محمد کے زیور سے آراستہ ہو جاتے ہیں کہ جب ابن المہتدی نے امام رضا(ع) سے عرض کیا کہ آپ کی غیر موجودگی میں ہم اپنے سوالات کو کس سے دریافت کریں؟ تو اس موقع پر امام رضا(ع) یونس بن عبدالرحمن کی نشاندہی فرماتے ہیں۔  
یونس بن عبد الرحمان اشعری جو امام رضاؑ کے وکیل تھے، اس قدر علوم آل محمد کے زیور سے آراستہ ہو جاتے ہیں کہ جب ابن المہتدی نے امام رضاؑ سے عرض کیا کہ آپ کی غیر موجودگی میں ہم اپنے سوالات کو کس سے دریافت کریں؟ تو اس موقع پر امام رضاؑ یونس بن عبدالرحمن کی نشاندہی فرماتے ہیں۔  


امام رضا(ع) نے زکریا بن آدم قمی سے یوں خطاب فرمایا: '''خداوند نے تمہاری وجہ سے بہت سے بلا و مصیبت کو اہل قم سے دور کیا جس طرح کہ امام کاظم(ع) کی وجہ سے اہل بغداد سے بہت سے مصیبتوں کو دور فرمایا۔'''
امام رضاؑ نے زکریا بن آدم قمی سے یوں خطاب فرمایا: '''خداوند نے تمہاری وجہ سے بہت سے بلا و مصیبت کو اہل قم سے دور کیا جس طرح کہ امام کاظمؑ کی وجہ سے اہل بغداد سے بہت سے مصیبتوں کو دور فرمایا۔'''


زکریا بن ادریس قمی اشعری جو کہ امام رضا(ع) کے نامدار اصحاب میں سے تھے جنہوں نے امام صادق(ع) اور امام کاظم(ع) سے بھی روایت نقل کی ہیں جب ان کی رحلت ہوئی تو امام رضا(ع) نے رات کے شروع ہونے سے لے کر صبح کے طلوع ہونے تک اس کے لئے طلب رحمت فرمائی۔<ref>دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱</ref>
زکریا بن ادریس قمی اشعری جو کہ امام رضاؑ کے نامدار اصحاب میں سے تھے جنہوں نے امام صادقؑ اور امام کاظمؑ سے بھی روایت نقل کی ہیں جب ان کی رحلت ہوئی تو امام رضاؑ نے رات کے شروع ہونے سے لے کر صبح کے طلوع ہونے تک اس کے لئے طلب رحمت فرمائی۔<ref>دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱</ref>


===اہل قم کے لئے امام جواد(ع) کی دعا===
===اہل قم کے لئے امام جوادؑ کی دعا===
امام جواد(ع) جب علی بن مہزیار کے خط کی وجہ سے قم کی بری حالت سے آگاہ ہوئے، تو قم کے لوگوں کے لئے خدا سے نجات اور رہائی کی دعا کی اور یوں فرمایا: '''قم کے لوگوں کی مصیبت اور گرفتاری سے آگاہ ہوا ہوں خدا وند ان کو اس مصیبت سے رہائی دے اور ان کو آسائش بخشے۔'''
امام جوادؑ جب علی بن مہزیار کے خط کی وجہ سے قم کی بری حالت سے آگاہ ہوئے، تو قم کے لوگوں کے لئے خدا سے نجات اور رہائی کی دعا کی اور یوں فرمایا: '''قم کے لوگوں کی مصیبت اور گرفتاری سے آگاہ ہوا ہوں خدا وند ان کو اس مصیبت سے رہائی دے اور ان کو آسائش بخشے۔'''


===اہل قم میں سے امام ہادی(ع) کے شاگرد===
===اہل قم میں سے امام ہادیؑ کے شاگرد===
اہل قم امام ہادی(ع) کے حکومت کے تحت نظر ہونے کے باوجود امام سے رابطے میں تھے یہاں تک کہ متوکل اس چیز سے خوف محسوس کرتا تھا اور یہ گمان کرتا تھا کہ اہل قم سامرا کی طرف اسلحہ لے جا رہے ہیں۔ اس لئے متوکل کے کارندے مختلف راستوں پر گھات لگئے بیٹھتے تھے اور [[سامرا]] جانے والے کاروانوں کی جامہ تلاشی لے کر ان کے اموال کو ضبط کر کے انہیں متوکل تک پہنچاتے تھے۔<ref>دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱</ref> امام ہادی(ع) کے بعض شاگرد جنہیں محدثین میں شامل کیا جاتا ہے کا تعلق قم سے تھا<ref>دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱</ref>۔ امام ہادی(ع) کی نگاہ میں اہل قم نجات یافتہ ہیں کیونکہ یہ لوگ اس وقت بھی امام رضا(ع) کی زیارت کیلئے جایا کرتے تھے۔<ref>دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱</ref><ref> تاریخ، قم، ناصرالشریعہ، ۱۴۶</ref>
اہل قم امام ہادیؑ کے حکومت کے تحت نظر ہونے کے باوجود امام سے رابطے میں تھے یہاں تک کہ متوکل اس چیز سے خوف محسوس کرتا تھا اور یہ گمان کرتا تھا کہ اہل قم سامرا کی طرف اسلحہ لے جا رہے ہیں۔ اس لئے متوکل کے کارندے مختلف راستوں پر گھات لگئے بیٹھتے تھے اور [[سامرا]] جانے والے کاروانوں کی جامہ تلاشی لے کر ان کے اموال کو ضبط کر کے انہیں متوکل تک پہنچاتے تھے۔<ref>دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱</ref> امام ہادیؑ کے بعض شاگرد جنہیں محدثین میں شامل کیا جاتا ہے کا تعلق قم سے تھا<ref>دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱</ref>۔ امام ہادیؑ کی نگاہ میں اہل قم نجات یافتہ ہیں کیونکہ یہ لوگ اس وقت بھی امام رضاؑ کی زیارت کیلئے جایا کرتے تھے۔<ref>دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱</ref><ref> تاریخ، قم، ناصرالشریعہ، ۱۴۶</ref>


=== اہل قم کے نام امام حسن عسکری(ع) کے خطوط===
=== اہل قم کے نام امام حسن عسکریؑ کے خطوط===
[[امام حسن عسکری(ع)]] کے اہل قم اور آوہ کے نام بھیجے گئے خطوط مشہور ہیں۔ امام(ع) ان دو شہروں کے باسیوں کے نام اپنے ایک خط میں یوں فرماتے ہیں: ::''' خداوند متعال کے اپنے بندوں پر لطف و کرم اور عنایت کے باوجود پیامبر اسلام(ص) کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر مبعوث کرنے کے معاملے میں اپنے بندوں پر احسان کیا ہے اور تمہیں دین اسلام کے قبول کرنے کی توفیق عطا کی اور پیغمبر اکرم(ص) کی ہدایت اور رہنمائی کی وجہ سے تمہیں عزت عطا کی اور خاندان پیغمبر(ص) کے ساتھ محبت و دوستی کا بیج گذشتہ اور آنے والی نسلوں کے دلوں میں بویا، وہ جو تم سے رخصت ہو گئے ہیں وہ اسی بنا پر سعادت اور نجات یافتہ ہو گئے ہیں اور اپنے نیک کردار کا ثمرہ حاصل کر چکے ہیں اور اپنے نیک اعمال کا ثواب حاصل کر لئے ہیں۔'''
[[امام حسن عسکریؑ]] کے اہل قم اور آوہ کے نام بھیجے گئے خطوط مشہور ہیں۔ امامؑ ان دو شہروں کے باسیوں کے نام اپنے ایک خط میں یوں فرماتے ہیں: ::''' خداوند متعال کے اپنے بندوں پر لطف و کرم اور عنایت کے باوجود پیامبر اسلام(ص) کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر مبعوث کرنے کے معاملے میں اپنے بندوں پر احسان کیا ہے اور تمہیں دین اسلام کے قبول کرنے کی توفیق عطا کی اور پیغمبر اکرم(ص) کی ہدایت اور رہنمائی کی وجہ سے تمہیں عزت عطا کی اور خاندان پیغمبر(ص) کے ساتھ محبت و دوستی کا بیج گذشتہ اور آنے والی نسلوں کے دلوں میں بویا، وہ جو تم سے رخصت ہو گئے ہیں وہ اسی بنا پر سعادت اور نجات یافتہ ہو گئے ہیں اور اپنے نیک کردار کا ثمرہ حاصل کر چکے ہیں اور اپنے نیک اعمال کا ثواب حاصل کر لئے ہیں۔'''


اے لوگو! ہماری نیت اور ارادہ ہمیشہ سچا اور پایدار ہے، اور ہمارا دل آپکے نیک افکار کی وجہ سے پرسکوں ہے، اور ہمارے اور آپ کے درمیان ایسا گہرا تعلق اور پیوند ہے جس کی سفارش ہمارے اور آپکے گذشتگان نے کی تھی۔
اے لوگو! ہماری نیت اور ارادہ ہمیشہ سچا اور پایدار ہے، اور ہمارا دل آپکے نیک افکار کی وجہ سے پرسکوں ہے، اور ہمارے اور آپ کے درمیان ایسا گہرا تعلق اور پیوند ہے جس کی سفارش ہمارے اور آپکے گذشتگان نے کی تھی۔
ہمارے جوانوں اور آپ کے عمر رسیدہ افراد کے درمیان جو عہد و پیمان برقرار ہے وہ ہمیشہ ایک واحد مرتبط اعتقاد کے ذریعے مستحکم اور پایدار ہے۔ کیونکہ خدا وند عالم نے ہمارے درمیان یہ محکم رابطہ قرار دیا ہے، جیسا "عالم" (امام صادق یا امام باقر(ع) کی طرف اشارہ ہے) فرماتے ہیں:
ہمارے جوانوں اور آپ کے عمر رسیدہ افراد کے درمیان جو عہد و پیمان برقرار ہے وہ ہمیشہ ایک واحد مرتبط اعتقاد کے ذریعے مستحکم اور پایدار ہے۔ کیونکہ خدا وند عالم نے ہمارے درمیان یہ محکم رابطہ قرار دیا ہے، جیسا "عالم" (امام صادق یا امام باقرؑ کی طرف اشارہ ہے) فرماتے ہیں:
:::"<font color=blue>{{حدیث|اَلْمْؤمِنْ اَخُو الْمْؤمِنِ لِاُمِهِ وُ اَبِیهِ:|ترجمہ= مؤمن، مؤمن کے سگے بھائی ہیں۔}}</font>"<ref>اعیان الشیعہ، ج۲: ۴۱</ref>
:::"<font color=blue>{{حدیث|اَلْمْؤمِنْ اَخُو الْمْؤمِنِ لِاُمِهِ وُ اَبِیهِ:|ترجمہ= مؤمن، مؤمن کے سگے بھائی ہیں۔}}</font>"<ref>اعیان الشیعہ، ج۲: ۴۱</ref>


سطر 118: سطر 118:
===اہل قم کا عباسی خلفاء کے خلاف قیام===
===اہل قم کا عباسی خلفاء کے خلاف قیام===
====مامون کے زمانے میں دو قیام====
====مامون کے زمانے میں دو قیام====
* '''پہلا قیام:'''امام رضا(ع) کی شہادت کے بعد مامون نے بغداد کی طرف [[ہجرت]] کی، سنہ 210 میں قم کے لوگوں نے عباسی خلیفہ کے کارندوں کو مالیات دینے سے انکار کرتے ہوئے ان کے خلاف قیام کیا۔ مامون نے بھی علی بن ہشام مروزی کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا جس نے کافی تباہی پھیلانے اور بے شمار قتل و غارت کے بعد باغیوں کو سرکوب کیا۔<ref>تاریخ ‏قم، ص۳۵</ref>
* '''پہلا قیام:'''امام رضاؑ کی شہادت کے بعد مامون نے بغداد کی طرف [[ہجرت]] کی، سنہ 210 میں قم کے لوگوں نے عباسی خلیفہ کے کارندوں کو مالیات دینے سے انکار کرتے ہوئے ان کے خلاف قیام کیا۔ مامون نے بھی علی بن ہشام مروزی کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا جس نے کافی تباہی پھیلانے اور بے شمار قتل و غارت کے بعد باغیوں کو سرکوب کیا۔<ref>تاریخ ‏قم، ص۳۵</ref>


* '''دوسرا قیام:''' سنہ 215 میں قم کے لوگوں نے دوبارہ قیام کیا اور عباسی حاکم کو شہر سے نکال باہر کیا۔ [[مامون]] نے دوبارہ فوج بھیج کر بعض کو قتل اور بعض کو قید میں ڈالنے کے ذریعے قیام کو ختم کر دیا۔<ref>طبری، ج۱۳ص ۵۷۴۲</ref> حسن بن محمد قمی کی نظر میں یہ واقعہ سنہ 217 ق میں پیش آیا۔<ref>تاریخ ‏قم، ص۳۵</ref>
* '''دوسرا قیام:''' سنہ 215 میں قم کے لوگوں نے دوبارہ قیام کیا اور عباسی حاکم کو شہر سے نکال باہر کیا۔ [[مامون]] نے دوبارہ فوج بھیج کر بعض کو قتل اور بعض کو قید میں ڈالنے کے ذریعے قیام کو ختم کر دیا۔<ref>طبری، ج۱۳ص ۵۷۴۲</ref> حسن بن محمد قمی کی نظر میں یہ واقعہ سنہ 217 ق میں پیش آیا۔<ref>تاریخ ‏قم، ص۳۵</ref>
سطر 125: سطر 125:
* '''معتصم''' کی حکومت کے اوائل میں قم کے لوگوں نے دوبارہ قیام کیا اور عباسی حاکم کو شہر سے نکال باہر کیا، معتصم نے اپنا بڑا لشکر قم کی جانب روانہ کیا، اور بہت سے باغات اور گھروں کو آگ لگا دی اور شہر کو بہت نقصان پہنچایا۔<ref> کامل، ج۱۲ص ۵۴</ref>
* '''معتصم''' کی حکومت کے اوائل میں قم کے لوگوں نے دوبارہ قیام کیا اور عباسی حاکم کو شہر سے نکال باہر کیا، معتصم نے اپنا بڑا لشکر قم کی جانب روانہ کیا، اور بہت سے باغات اور گھروں کو آگ لگا دی اور شہر کو بہت نقصان پہنچایا۔<ref> کامل، ج۱۲ص ۵۴</ref>


* '''معتز''' کے زمانے میں قم کے لوگوں نے دو قیام کئے، ایک بار مفلح ترک نے قیام کو سرکوب کیا اور دوسری بار موسی بن بغاء نے،<ref>فتوح ‏البلدان، ص:۳۰۷</ref> موسی بن بغا نے قم کے لوگوں پر اسقدر ظلم کیا کہ اس کی شکایت [[امام حسن عسکری(ع)]] تک پہنچا دی اور آپ سے اس مسئلے کا راہ حل دریافت کیا۔ آںحضرت نے اہل قم کے نام ایک مفصل دعا ارسال فرمائی تاکہ لوگ ان گرفتاریوں سے نجات کیلئے اسے [[نماز]] کی قنوت میں پڑھا کریں۔<ref>نقدالرجال ص۳۳۱</ref>
* '''معتز''' کے زمانے میں قم کے لوگوں نے دو قیام کئے، ایک بار مفلح ترک نے قیام کو سرکوب کیا اور دوسری بار موسی بن بغاء نے،<ref>فتوح ‏البلدان، ص:۳۰۷</ref> موسی بن بغا نے قم کے لوگوں پر اسقدر ظلم کیا کہ اس کی شکایت [[امام حسن عسکریؑ]] تک پہنچا دی اور آپ سے اس مسئلے کا راہ حل دریافت کیا۔ آںحضرت نے اہل قم کے نام ایک مفصل دعا ارسال فرمائی تاکہ لوگ ان گرفتاریوں سے نجات کیلئے اسے [[نماز]] کی قنوت میں پڑھا کریں۔<ref>نقدالرجال ص۳۳۱</ref>


* '''مقتدر'''عباسی خلفاء میں سے "مقتدر" نے عاقلانہ اقدام کیا، اس نے [[حسین بن حمدان]] جو خود بھی شیعہ تھے، کو بھیج کر قم کے لوگوں کے دیرینہ مطالبات کو پورا کیا،<ref>الکامل، ج‏۸، ص:۱۹</ref> جب حسین بن حمدان قم میں داخل ہوا تو قم کے لوگوں نے اس کا استقبال کیا، اور کہا: کہ ہم اس سے جنگ کرتے ہیں جو ہمارے مذہب کی مخالفت کرتا ہے اور چونکہ تم ہمارے ہم مذہب ہو ہماری تمہارے ساتھ کوئی جنگ نہیں ہے۔
* '''مقتدر'''عباسی خلفاء میں سے "مقتدر" نے عاقلانہ اقدام کیا، اس نے [[حسین بن حمدان]] جو خود بھی شیعہ تھے، کو بھیج کر قم کے لوگوں کے دیرینہ مطالبات کو پورا کیا،<ref>الکامل، ج‏۸، ص:۱۹</ref> جب حسین بن حمدان قم میں داخل ہوا تو قم کے لوگوں نے اس کا استقبال کیا، اور کہا: کہ ہم اس سے جنگ کرتے ہیں جو ہمارے مذہب کی مخالفت کرتا ہے اور چونکہ تم ہمارے ہم مذہب ہو ہماری تمہارے ساتھ کوئی جنگ نہیں ہے۔
سطر 136: سطر 136:
* '''مسجد جمکران '''، یہ مسجد قم کے جنوب مشرق میں چھ کلو میٹر کے فاصلے پر (کاشان اور قم کے پرانے راستے) میں واقع ہے۔ یہ مسجد امام زمانہ سے منسوب ہے اسی لئے ایران اور دنیا کے مختلف ملکوں سے لوگ یہاں آکر کر عقیدت و احترام کا اظہار کرتے ہیں خاص طور پر ہر بدھ کی رات یہاں [[دعائے توسل]] کیلئے لوگ کثیر تعداد میں جمع ہوتے ہیں اور بعض تا طلوع فجر یہیں پر عبادت اور راز و نیاز میں بسر کرتے ہیں۔ <ref>مجموعہ مقالات، جدوم، ص۲۵۳</ref>
* '''مسجد جمکران '''، یہ مسجد قم کے جنوب مشرق میں چھ کلو میٹر کے فاصلے پر (کاشان اور قم کے پرانے راستے) میں واقع ہے۔ یہ مسجد امام زمانہ سے منسوب ہے اسی لئے ایران اور دنیا کے مختلف ملکوں سے لوگ یہاں آکر کر عقیدت و احترام کا اظہار کرتے ہیں خاص طور پر ہر بدھ کی رات یہاں [[دعائے توسل]] کیلئے لوگ کثیر تعداد میں جمع ہوتے ہیں اور بعض تا طلوع فجر یہیں پر عبادت اور راز و نیاز میں بسر کرتے ہیں۔ <ref>مجموعہ مقالات، جدوم، ص۲۵۳</ref>


* '''مسجد امام حسن عسکری(ع)''' مسجد امام حسن عسکری(ع)، یہ مسجد پل علیخانی کے نزدیک ہے، اس کا پرانا نام مسجد جامع عتیق تھا،<ref> تاریخ قم، ۳۷ </ref> روایت کے مطابق اس کی پہلی تعمیر تیسری صدی میں امام حسن عسکری(ع) کے وکیل احمد بن اسحاق اشعری کے ہاتھوں ہوئی تھی،<ref> آثار تاریخی و فرہنگی قم، ۱۶۸</ref> یہ مسجد اب آیت اللہ گلپایگانی کی کوشش سے، 2500 میٹر کی مساحت پر پھیلی ہوا ہے۔<ref>آثار تاریخی و فرہنگی قم، ۱۶۸</ref>
* '''مسجد امام حسن عسکریؑ''' مسجد امام حسن عسکریؑ، یہ مسجد پل علیخانی کے نزدیک ہے، اس کا پرانا نام مسجد جامع عتیق تھا،<ref> تاریخ قم، ۳۷ </ref> روایت کے مطابق اس کی پہلی تعمیر تیسری صدی میں امام حسن عسکریؑ کے وکیل احمد بن اسحاق اشعری کے ہاتھوں ہوئی تھی،<ref> آثار تاریخی و فرہنگی قم، ۱۶۸</ref> یہ مسجد اب آیت اللہ گلپایگانی کی کوشش سے، 2500 میٹر کی مساحت پر پھیلی ہوا ہے۔<ref>آثار تاریخی و فرہنگی قم، ۱۶۸</ref>


* '''قم کی جامع مسجد''' اس مسجد کی قدمت تقریباً چھ صدی پہلے کی طرف پلٹتی ہے، مسجد امام حسن عسکری کے بعد قدیمی ترین مسجد میں اس کا شمار ہوتا ہے۔<ref> مجموعہ مقالات، ج۲ص ۲۵۴</ref> صاحب النقض کے مطابق اس مسجد کی تعمیر سلجوقی پادشاہ طغرل کے دور میں ہوئی۔ <ref>النقض، ص۱۶۳</ref>
* '''جامع مسجد''' اس مسجد کی قدمت تقریباً چھ صدی پہلے کی طرف پلٹتی ہے، مسجد امام حسن عسکری کے بعد قدیمی ترین مسجد میں اس کا شمار ہوتا ہے۔<ref> مجموعہ مقالات، ج۲ص ۲۵۴</ref> صاحب النقض کے مطابق اس مسجد کی تعمیر سلجوقی پادشاہ طغرل کے دور میں ہوئی۔ <ref>النقض، ص۱۶۳</ref>


* '''مسجد اعظم''' حضرت معصومہ(س) کے حرم کے مغربی حصے میں واقع ہے جو آیت اللہ بروجردی کی کوشش سے سنہ 1374 ق، میں تعمیر ہوئی۔<ref> مجموعہ مقالات، ج۲ص ۲۵۴</ref>
* '''مسجد اعظم''' حضرت معصومہ(س) کے حرم کے مغربی حصے میں واقع ہے جو آیت اللہ بروجردی کی کوشش سے سنہ 1374 ق، میں تعمیر ہوئی۔<ref> مجموعہ مقالات، ج۲ص ۲۵۴</ref>


==قم میں مدفون شخصیات==
==مدفون شخصیات==
قم کی سرزمین میں اپنے اموات کو دفن کرنا، شیعوں کے درمیان پہلے سے چلا آ رہا ہے اسی وجہ سے بہت سارے علماء اور سلاطین اور بزرگوں کی قبریں یہاں ہیں لیکن اس رسم میں صفویوں کے دور حکومت سے شدت آگئی اور شاردن نے اپنے سفر نامہ میں ایران کے مختلف علاقوں سے اموات کو یہاں منتقل کرنے اور حرم حضرت معصومہ(ع) کے دائیں طرف موجود قبرستان میں انہیں [[دفن]] کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔
قم کی سرزمین میں اپنے اموات کو دفن کرنا، شیعوں کے درمیان پہلے سے چلا آ رہا ہے اسی وجہ سے بہت سارے علماء اور سلاطین اور بزرگوں کی قبریں یہاں ہیں لیکن اس رسم میں صفویوں کے دور حکومت سے شدت آگئی اور شاردن نے اپنے سفر نامہ میں ایران کے مختلف علاقوں سے اموات کو یہاں منتقل کرنے اور حرم حضرت معصومہؑ کے دائیں طرف موجود قبرستان میں انہیں [[دفن]] کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔


شیعوں کے بلند پایہ کئی علماء جیسے [[زکریا بن آدم]]، [[علی بن بابویہ]]، [[ابن قولویہ قمی|محمد بن قولویہ]]، [[علی بن ابراہیم قمی|علی بن ابراہیم]]، [[قطب راوندی]] وغیرہ کے قم میں دفن ہونے کی علاوہ ایران کے متعدد پادشاہوں اور سلاطین  کے جسد خاکی بھی یہاں مدفون ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ یوں ہے:  <ref>فقیہی، تاریخ مذہبی قم، صص۱۸۲-۱۸۶.</ref>
شیعوں کے بلند پایہ کئی علماء جیسے [[زکریا بن آدم]]، [[علی بن بابویہ]]، [[ابن قولویہ قمی|محمد بن قولویہ]]، [[علی بن ابراہیم قمی|علی بن ابراہیم]]، [[قطب راوندی]] وغیرہ کے قم میں دفن ہونے کی علاوہ ایران کے متعدد پادشاہوں اور سلاطین  کے جسد خاکی بھی یہاں مدفون ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ یوں ہے:  <ref>فقیہی، تاریخ مذہبی قم، صص۱۸۲-۱۸۶.</ref>
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
7,945

ترامیم