مندرجات کا رخ کریں

"شیعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

1 بائٹ کا ازالہ ،  8 جنوری 2022ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م (پیوند میان ویکی در ویکی داده و حذف آن از مبدا ویرایش)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 33: سطر 33:
امامت کے بارے میں شیعوں کے نظریے کو تمام شیعہ [[فرق شیعہ|فرقوں]] کا اشتراکی نقطہ سمجھا جاتا ہے۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۱۔</ref> [[کلام اسلامی|علم کلام]] میں نظریہ امامت شیعوں کا ایک اہم اور بنیادی نظریہ ہے۔<ref>انصاری، «امامت (امامت نزد امامیہ)»، ص۱۳۷؛ سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۵۶و۲۵۷۔</ref> شیعوں کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے بعد دینی احکام کی تفسیر کا واحد اور عالی ترین مرجع امامت ہے۔<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۱۳۔</ref> شیعہ احادیث میں امام کا مقام اس قدر بلند ہے کہ اگر کوئی شخص امام کی شناخت کے بغیر مر جائے تو وہ [[کفر]] کی موت مرے گا۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۱.</ref>
امامت کے بارے میں شیعوں کے نظریے کو تمام شیعہ [[فرق شیعہ|فرقوں]] کا اشتراکی نقطہ سمجھا جاتا ہے۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۱۔</ref> [[کلام اسلامی|علم کلام]] میں نظریہ امامت شیعوں کا ایک اہم اور بنیادی نظریہ ہے۔<ref>انصاری، «امامت (امامت نزد امامیہ)»، ص۱۳۷؛ سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۵۶و۲۵۷۔</ref> شیعوں کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے بعد دینی احکام کی تفسیر کا واحد اور عالی ترین مرجع امامت ہے۔<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۱۳۔</ref> شیعہ احادیث میں امام کا مقام اس قدر بلند ہے کہ اگر کوئی شخص امام کی شناخت کے بغیر مر جائے تو وہ [[کفر]] کی موت مرے گا۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۱.</ref>


شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امامت اصول دین میں سے ایک اہم اصل اور ایک الہی منصب ہے؛ یعنی امام کے انتخاب کو [[انبیاء]] لوگوں پر نہیں چھوڑ سکتے بلکہ ان پر [[واجب]] ہے کہ وہ اپنا جانشین خود معین کریں۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۱۔</ref> اسی بنا پر شیعہ متکلمین (سوائے زیدیہ کے)<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص۱۳۔</ref> اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ "نصب امام" (یعنی پیغمبر یا پہلے والے امام کے توسط سے امام کو معین کرنا) واجب ہے،<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص۲۹؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۰۵؛‌ اسی طرح ملاحظہ کریں: شیخ مفید، اوائل‌المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۴۰و۴۱۔</ref> اور "نص" (وہ کام یا بات جو مطلوبہ ہدف پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہو)<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص۱۳.</ref> کو امام کی شناخت کا واحد راستہ قرار دیتے ہیں۔<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص۱۱؛ اسی طرح ملاحظہ کریں: شیخ مفید، اوائل‌المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۳۸ و ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱۔</ref>
شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امامت اصول دین میں سے ایک اہم اصل اور ایک الہی منصب ہے؛ یعنی امام کے انتخاب کو [[انبیاء]] لوگوں پر نہیں چھوڑ سکتے بلکہ ان پر [[واجب]] ہے کہ وہ اپنا جانشین خود معین کریں۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۱۔</ref> اسی بنا پر شیعہ متکلمین (سوائے زیدیہ کے)<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص۱۳۔</ref> اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ "نصب امام" (یعنی پیغمبر یا پہلے والے امام کے توسط سے امام کو معین کرنا) واجب ہے،<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص۲۹؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۰۵؛‌ اسی طرح ملاحظہ کریں: شیخ مفید، اوائل‌المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۴۰و۴۱۔</ref> اور "نص" (وہ کام یا بات جو مطلوبہ ہدف پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہو)<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص۱۳.</ref> کو امام کی شناخت کا واحد راستہ قرار دیتے ہیں۔<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص۱۱؛ اسی طرح ملاحظہ کریں: شیخ مفید، اوائل‌المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۳۸ و ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱۔</ref>


ان کی دلیل یہ ہے کہ امام کا [[عصمت|معصوم]] ہونا ضروری ہے اور مقام عصمت سے خدا کے علاوہ کوئی باخبر نہیں ہو سکتا؛<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الاقتصاد، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م، ص۳۱۲؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱۔</ref> کیونکہ عصمت انسان کی ایک باطنی صفت ہے اور انسان کے ظاہر سے اس کی عصمت کا پتہ نہیں لگایا جا سکتا۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الاقتصاد، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م، ص۳۱۲۔</ref> پس ضروری ہے کہ خدا خود امام کو معین کرے اور پیغمبر اکرمؐ کے ذریعے اسے لوگوں تک پہنچائے۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الاقتصاد، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م، ص۳۱۲؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱۔</ref>
ان کی دلیل یہ ہے کہ امام کا [[عصمت|معصوم]] ہونا ضروری ہے اور مقام عصمت سے خدا کے علاوہ کوئی باخبر نہیں ہو سکتا؛<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الاقتصاد، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م، ص۳۱۲؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱۔</ref> کیونکہ عصمت انسان کی ایک باطنی صفت ہے اور انسان کے ظاہر سے اس کی عصمت کا پتہ نہیں لگایا جا سکتا۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الاقتصاد، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م، ص۳۱۲۔</ref> پس ضروری ہے کہ خدا خود امام کو معین کرے اور پیغمبر اکرمؐ کے ذریعے اسے لوگوں تک پہنچائے۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الاقتصاد، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م، ص۳۱۲؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱۔</ref>
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
7,945

ترامیم