"افضلیت امام" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 51: | سطر 51: | ||
==شیعہ ائمہ کی افضلیت==<!-- | ==شیعہ ائمہ کی افضلیت==<!-- | ||
{{اصلی|اہل بیتؑ کی افضلیت}} | {{اصلی|اہل بیتؑ کی افضلیت}} | ||
شیعہ علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ کے بعد [[شیعہ ائمہؑ]] باقی تمام [[انبیاء]]، [[ملائکہ]] اور انسانوں سے سے افضل ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ق، ص۹۳؛ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۷۰ و ۷۱؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۹۷؛ شبر، حق الیقین، ۱۴۲۴ق، ص۱۴۹۔</ref> ائمہ معصومین کا پیغمبر اکرمؐ کے بعد تمام مخلوقات سے افضل ہونے پر دلالت کرنے والی [[حدیث|احادیث]] کو [[مستفیض]] بلکہ [[متواتر]] جانا گیا ہے۔<ref>مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۹۷؛ شبر، حق الیقین، ۱۴۲۴ق، ص۱۴۹۔</ref> [[علامہ مجلسی]] معتقد ہیں کہ جو بھی احادیث میں تحقیق کریں وہ اس بات کا اعتراف کرے گا کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین تمام مخلوقات سے افضل ہیں اور اس بات سے انکار صرف وہی کرتا ہے جو احادیث سے کوئی آشنائی نہیں رکھتا۔ علامہ مجلسی کے مطابق اس سلسلے میں موجود احادیث اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا شمار ہی ممکن نہیں ہے۔<ref>مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۹۷ و ۲۹۸۔</ref> | |||
ایک حدیث میں [[امام رضاؑ]] اپنے آباء و اجداد کے ذریعے [[امام علیؑ]] سے اور امام علیؑ پیغمبر اکرمؐ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: | |||
::::۔۔۔ | ::::۔۔۔ اے علی! بتحقیق خدا نے انبیاء کو ملائکہ پر اور مجھے تمام انبیاء پر فوقیت دی۔ اے علی! میرے بعد یہ فوقیت تجھے اور تیرے بعد آنے والے ائمہ کو حاصل ہے۔ بتحقیق ملائکہ ہمارے خادم اور محب ہیں!...<ref>صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۲۶۲، ح۲۲؛ برای آگاہی از روایات افضلیت امامانؑ کے لئے ملاظہ کریں: مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۶۷-۳۱۹۔</ref> | ||
[[صحابہ]] اور باقی لوگوں کی نسبت [[امام علیؑ]] کی افضلیت پر متعدد [[قرآن|قرآنی]] اور حدیثی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۲۱۱-۲۳۸؛ بحرانی، النجاۃ فی القیامۃ، ۱۴۱۷ق، ص۱۴۸-۱۶۵؛ ربانی گلپایگانی، براہین و نصوص امامت، ۱۳۹۶ش، ص۲۶-۴۸۔</ref> [[علامہ حلی]] در [[کشف المراد]]<ref> علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۲۱۱-۲۳۸۔</ref> ۲۵ دلیل و [[ابن میثم بحرانی]] در کتاب [[النجاۃ فی القیامۃ]]<ref> ابن میثم بحرانی، النجاۃ فی القیامۃ، ۱۴۱۷ق، ص۱۴۸-۱۶۵۔</ref> ۲۲ دلیل بر افضلیت امام علیؑ ارائہ کردہاند۔ از جملہ این دلایل [[آیہ مباہلہ]]، [[آیہ مودت]]، [[حدیث طیر]]، [[حدیث منزلت]] و [[حدیث رایت]] است۔<ref> نگاہ کنید بہ: علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۲۱۱-۲۳۸؛ بحرانی، النجاۃ فی القیامۃ، ۱۴۱۷ق، ص۱۴۸-۱۶۵؛ ربانی گلپایگانی، براہین و نصوص امامت، ۱۳۹۶ش، ص۲۶-۴۸۔</ref> | |||
گفتہ شدہ ہمہ [[معتزلہ|معتزلیان]] بغدادی از جملہ [[ابن ابیالحدید]]، شارح [[نہج البلاغہ]]، و برخی از معتزلیان بصری نیز امام | گفتہ شدہ ہمہ [[معتزلہ|معتزلیان]] بغدادی از جملہ [[ابن ابیالحدید]]، شارح [[نہج البلاغہ]]، و برخی از معتزلیان بصری نیز امام علیؑ را افضل از [[خلفای سہگانہ]] و دیگر [[صحابہ]] میدانستند۔<ref>ابن ابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۷-۹۔</ref> | ||
===برہان افضلیت=== | ===برہان افضلیت=== | ||
از افضلیت امام برای اثبات امامت امام | از افضلیت امام برای اثبات امامت امام علیؑ استدلال شدہ است۔ این برہان کہ بہ برہان افضلیت شناختہ میشود بہ شرح زیر است: | ||
*مقدمہ اول: بر اساس دلایل قرآنی و روایی امام علی از [[صحابہ]] و دیگر مسلمانان برتر بود۔ | *مقدمہ اول: بر اساس دلایل قرآنی و روایی امام علی از [[صحابہ]] و دیگر مسلمانان برتر بود۔ | ||
*مقدمہ دوم: از شرایط امام این است کہ در صفات و کمالات انسانی بر دیگران برتر باشد۔ | *مقدمہ دوم: از شرایط امام این است کہ در صفات و کمالات انسانی بر دیگران برتر باشد۔ | ||
*نتیجہگیری: بنابراین امام | *نتیجہگیری: بنابراین امام علیؑ، امام و جانشین پیامبر(ص) بود۔<ref>نگاہ کنید بہ: بحرانی، النجاۃ فی القیامۃ، ۱۴۱۷ق، ص۱۴۸؛ ربانی گلپایگانی، براہین و نصوص امامت، ۱۳۹۶ش، ص۲۱۔</ref> | ||
==شبہات== | ==شبہات== | ||
سطر 69: | سطر 69: | ||
* '''افضلیت مستلزم ارجحیت و تقدم نیست''': چراکہ ممکن است شخص مفضول در مواردی بر شخص افضل ترجیح دادہ شود۔ برای مثال اگر شخص مفضول در رہبری جامعہ و تدبیر امور دینی و سیاسی تواناتر و شایستہتر از شخص افضل باشد، امامت او رجحان خواہد داشت۔<ref>نگاہ کنید بہ: قاضی عبدالجبار، المغنی، ۱۹۶۲-۱۹۶۵م، ج۲۰، بخش اول، ص۲۲۷-۲۳۰؛ ایجی-جرجانی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۷۳؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۴۶و۲۴۷۔</ref> در پاسخ گفتہ شدہ پیشفرض این اشکال آن است کہ افضلیتِ در [[امامت]]، منحصر بہ افضلیت در احکام و اعمال عبادی است و چنین پیشفرضی صحیح نیست چراکہ قدر مسلم در افضلیت امام، برتری در صفاتی است کہ وجود آنہا برای امام ضروری است و مدیریت سیاسی از این صفات است۔ ہمچنین در این اشکال، افضلیت نسبی تلقی شدہ است، در حالی کہ منظور از افضلیت امام، افضلیت مطلق و برتری او در ہمہ صفات و کمالاتی است کہ برای تحقق امامت لازم است۔<ref>ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۱۹۷ و ۱۹۸۔</ref> | * '''افضلیت مستلزم ارجحیت و تقدم نیست''': چراکہ ممکن است شخص مفضول در مواردی بر شخص افضل ترجیح دادہ شود۔ برای مثال اگر شخص مفضول در رہبری جامعہ و تدبیر امور دینی و سیاسی تواناتر و شایستہتر از شخص افضل باشد، امامت او رجحان خواہد داشت۔<ref>نگاہ کنید بہ: قاضی عبدالجبار، المغنی، ۱۹۶۲-۱۹۶۵م، ج۲۰، بخش اول، ص۲۲۷-۲۳۰؛ ایجی-جرجانی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۷۳؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۴۶و۲۴۷۔</ref> در پاسخ گفتہ شدہ پیشفرض این اشکال آن است کہ افضلیتِ در [[امامت]]، منحصر بہ افضلیت در احکام و اعمال عبادی است و چنین پیشفرضی صحیح نیست چراکہ قدر مسلم در افضلیت امام، برتری در صفاتی است کہ وجود آنہا برای امام ضروری است و مدیریت سیاسی از این صفات است۔ ہمچنین در این اشکال، افضلیت نسبی تلقی شدہ است، در حالی کہ منظور از افضلیت امام، افضلیت مطلق و برتری او در ہمہ صفات و کمالاتی است کہ برای تحقق امامت لازم است۔<ref>ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۱۹۷ و ۱۹۸۔</ref> | ||
[[پروندہ:افضلیت امام از منظر عقل و نقل۔jpg|بندانگشتی|افضلیت امام از منظر عقل و نقل]] | [[پروندہ:افضلیت امام از منظر عقل و نقل۔jpg|بندانگشتی|افضلیت امام از منظر عقل و نقل]] | ||
* '''نمونہہای ناسازگار با افضلیت''': گفتہ شدہ نظریہ افضلیت با نمونہہای عصر نبوی(ص) و خلفا دربارہ تعیین امام یا فرماندہان سپاہ، سازگاری ندارد۔<ref> ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۱۹۸۔</ref> از جملہ فرماندہی [[زید بن حارثہ]] در [[جنگ موتہ]] با وجود [[جعفر بن ابیطالب]]، فرماندہی [[اسامۃ بن زید]] در روزہای پایانی عمر پیامبر(ص) با وجود امام | * '''نمونہہای ناسازگار با افضلیت''': گفتہ شدہ نظریہ افضلیت با نمونہہای عصر نبوی(ص) و خلفا دربارہ تعیین امام یا فرماندہان سپاہ، سازگاری ندارد۔<ref> ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۱۹۸۔</ref> از جملہ فرماندہی [[زید بن حارثہ]] در [[جنگ موتہ]] با وجود [[جعفر بن ابیطالب]]، فرماندہی [[اسامۃ بن زید]] در روزہای پایانی عمر پیامبر(ص) با وجود امام علیؑ<ref> محقق حلی، المسلک فی اصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۷۔</ref> و واگذاری خلافت بہ شورای شش نفرہ توسط [[عمر بن خطاب]] با وجود [[علیؑ]] و [[عثمان]]۔<ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۴۷۔</ref> در پاسخ گفتہ شدہ در انتخاب فرماندہ نظامی، برتری مطلق شخص شرط نیست و فقط برتری در امور مربوط بہ جنگ شرط است و زید و اسامہ از چنین برتری برخوردار بودند۔ دربارہ فرماندہی اسامہ نیز، گفتہ شدہ امام علیؑ در آن روز در کنار بستر [[پیامبر(ص)]] بود و پیامبر(ص) نسبت بہ پیوستن امام علیؑ بہ سپاہ اُسامہ اشارہای نکرد۔ ازاینرو علیؑ بہ حضور در سپاہ اسامہ مکلف نبود۔<ref>ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۱۹۹۔</ref> حجیت رفتار عمر بن خطاب نیز مبتنی بر حجت بودن عمل [[صحابہ]] است کہ [[شیعہ]] آن را نمیپذیرد۔<ref>ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۱۹۹ و ۲۰۰۔</ref> | ||
==مونوگرافی== | ==مونوگرافی== |