مندرجات کا رخ کریں

"افضلیت امام" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 31: سطر 31:
[[اہل سنت]] کی اکثریت افضلیت امام کو شرط اور واجب نہیں سمجھتے اور مفضول کی امامت کو جائز سمجھتے ہیں۔
[[اہل سنت]] کی اکثریت افضلیت امام کو شرط اور واجب نہیں سمجھتے اور مفضول کی امامت کو جائز سمجھتے ہیں۔


'''اشاعرہ''':[[مذہب اشاعرہ]] کے متکلمین امام کے لئے افضلیت کو شرط نہیں سمجھتے۔ اس بنا پر وہ مفضول کی [[امامت]] کو جائز سمجھتے ہیں۔<ref>ایجی-جرجانی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۷۳؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۴۶و۲۴۷۔</ref> لیکن اس کے باوجود پانچویں صدی کے اشعری متکلم قاضی ابوبکر باقلانی اس بات کے قائل ہیں کہ افضلیت، امام کے لازمی شرائط میں سے ہے مگر یہ کہ افضل کو امام قرار دینے میں کوئی مانع موجود ہو اس صورت میں مفضول کی امامت جائز ہو جائے گی۔<ref>باقلانی، تمہید الاوائل، ۱۴۰۷ق، ص۴۷۱۔</ref> قاضی باقلانی امام کے لئے افضلیت کے لازمی ہونے کو ثابت کرنے کے لئے کئی دلائل سے استناد کرتا ہے من جملہ یہ حدیث نبویؐ {{حدیث|یَؤُمُّ القَومَ اَفْضَلُہُم|ترجمہ= کسی بھی قوم کا سب سے افضل شخص ان کی امامت کرے گا"}}۔<ref>باقلانی، تمہید الاوائل، ۱۴۰۷ق، ص۴۷۴ و ۴۷۵۔</ref> باقِلانی اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر ہرج و مرج، فتنہ و فساد، [[احکام]] خداوندی کے معطل ہونے نیز [[اسلام]] دشمنوں کو اسلام کے خلاف جرأت پیدا ہونے خدشہ ہو تو افضل شخص کی بجائے مفضول کو امام بنایا جا سکتا ہے۔<ref>باقلانی، تمہید الاوائل، ۱۴۰۷ق، ص۴۷۵۔</ref> اسی طرح آٹھویں صدی ہجری کے اشعری متکلم سعدالدین تفتازانی کہتے ہیں کہ اہل‌ سنت اور دیگر اسلامی فرقوں کی اکثریت اس بات کے معتقد ہیں کہ ہر زمانے میں امامت صحیح حقدار وہ شخص ہے جو اپنے زمانے میں دوسروں سے افضل اور برتر ہو مگر یہ کہ اس کی امامت معاشرے میں ہرج و مرج اور فتنہ و فساد کا موجب ہو۔<ref> تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۹۱۔</ref>
'''اشاعرہ''':[[مذہب اشاعرہ]] کے متکلمین امام کے لئے افضلیت کو شرط نہیں سمجھتے۔ اس بنا پر وہ مفضول کی [[امامت]] کو جائز سمجھتے ہیں۔<ref>ایجی-جرجانی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۷۳؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۴۶و۲۴۷۔</ref> لیکن اس کے باوجود پانچویں صدی کے اشعری متکلم قاضی ابوبکر باقلانی اس بات کے قائل ہیں کہ افضلیت، امام کے لازمی شرائط میں سے ہے مگر یہ کہ افضل کو امام قرار دینے میں کوئی مانع موجود ہو اس صورت میں مفضول کی امامت جائز ہو جائے گی۔<ref>باقلانی، تمہید الاوائل، ۱۴۰۷ق، ص۴۷۱۔</ref> قاضی باقلانی امام کے لئے افضلیت کے لازمی ہونے کو ثابت کرنے کے لئے کئی دلائل سے استناد کرتا ہے من جملہ یہ حدیث نبویؐ: {{حدیث|یَؤُمُّ القَومَ اَفْضَلُہُم|ترجمہ= کسی بھی قوم کا سب سے افضل شخص ان کی امامت کرے گا"}}۔<ref>باقلانی، تمہید الاوائل، ۱۴۰۷ق، ص۴۷۴ و ۴۷۵۔</ref> باقِلانی اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر ہرج و مرج، فتنہ و فساد، [[احکام]] خداوندی کے معطل ہونے نیز [[اسلام]] دشمنوں کو اسلام کے خلاف جرأت پیدا ہونے خدشہ ہو تو افضل شخص کی بجائے مفضول کو امام بنایا جا سکتا ہے۔<ref>باقلانی، تمہید الاوائل، ۱۴۰۷ق، ص۴۷۵۔</ref> اسی طرح آٹھویں صدی ہجری کے اشعری متکلم سعدالدین تفتازانی کہتے ہیں کہ اہل‌ سنت اور دیگر اسلامی فرقوں کی اکثریت اس بات کے معتقد ہیں کہ ہر زمانے میں امامت صحیح حقدار وہ شخص ہے جو اپنے زمانے میں دوسروں سے افضل اور برتر ہو مگر یہ کہ اس کی امامت معاشرے میں ہرج و مرج اور فتنہ و فساد کا موجب ہو۔<ref> تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۹۱۔</ref>


'''معتزلہ''': [[معتزلہ]] بھی افضلیت امام کو [[واجب]] نہیں سمجھتے ہوئے مفضول کی امامت کو جائز سمجھتے ہیں۔<ref>قاضی عبدالجبار، المغنی، ۱۹۶۲-۱۹۶۵م، ج۲۰، بخش اول، ص۲۱۵؛ ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳، ج۲، ص۲۹۶ و ج۳، ص۳۲۸۔</ref> چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے معتزلی متلکم قاضی عبدالجبار معتزلی کہتے ہیں کہ جن موارد میں مفضول کو افضل پر مقدم کرنا بہتر ہے وہ درج ذیل ہیں:  
'''معتزلہ''': [[معتزلہ]] بھی افضلیت امام کو [[واجب]] نہیں سمجھتے ہوئے مفضول کی امامت کو جائز سمجھتے ہیں۔<ref>قاضی عبدالجبار، المغنی، ۱۹۶۲-۱۹۶۵م، ج۲۰، بخش اول، ص۲۱۵؛ ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳، ج۲، ص۲۹۶ و ج۳، ص۳۲۸۔</ref> چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے معتزلی متلکم قاضی عبدالجبار معتزلی کہتے ہیں کہ جن موارد میں مفضول کو افضل پر مقدم کرنا بہتر ہے وہ درج ذیل ہیں:  
confirmed، templateeditor
5,869

ترامیم