مندرجات کا رخ کریں

"حضرت فاطمہؑ کا مدفن" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 18: سطر 18:


===حضرت فاطمہؑ کا گھر===
===حضرت فاطمہؑ کا گھر===
علمائے شیعہ کے درمیان مشہور قول یہ ہے کہ بی بی سیدہؑ اپنے گھر میں دفن ہیں۔<ref>حسینی شیرازی، الدعاء و الزیارۃ، ۱۴۱۴ھ، ص۵۸۸؛ انصاری زنجانی، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء، دلیلنا، ج۱۶، ص۱۱۳، بہ نقل از التاریخ و السیر (مخطوط)، ص۳۰۔</ref> [[شیخ صدوق]]،<ref>شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۵۷۲۔</ref> [[ابن ادریس حلی]]،<ref>ابن ادریس حلی، االسرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، ۱۴۱۰ھ۔</ref> [[سید ابن طاووس|ابن طاووس]]،<ref>ابن طاووس، الاقبال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۱۶۳۔</ref> [[محمدباقر مجلسی|علامہ مجلسی]]<ref>علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۵، ص۳۴۹۔</ref> اور [[سید محسن امین]]<ref>امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۳۲۲۔</ref> بھی اس امکان کو دوسرے امکانات سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ حضرات  
علمائے شیعہ کے درمیان مشہور قول یہ ہے کہ بی بی سیدہؑ اپنے گھر میں دفن ہیں۔<ref>حسینی شیرازی، الدعاء و الزیارۃ، ۱۴۱۴ھ، ص۵۸۸؛ انصاری زنجانی، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء، دلیلنا، ج۱۶، ص۱۱۳، بہ نقل از التاریخ و السیر (مخطوط)، ص۳۰۔</ref> [[شیخ صدوق]]،<ref>شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۵۷۲۔</ref> [[ابن ادریس حلی]]،<ref>ابن ادریس حلی، االسرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، ۱۴۱۰ھ۔</ref> [[سید ابن طاووس|ابن طاووس]]،<ref>ابن طاووس، الاقبال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۱۶۳۔</ref> [[محمدباقر مجلسی|علامہ مجلسی]]<ref>علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۵، ص۳۴۹۔</ref> اور [[سید محسن امین]]<ref>امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۳۲۲۔</ref> بھی اس امکان کو دوسرے امکانات سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ حضرات [[امام رضاؑ]] کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ جس کی بنا پر حضرت زہراؑ اپنے گھر میں دفن ہوئیں ہیں اور [[بنی امیہ]] نے جب [[مسجد النبی]] کی توسیع کی تو وہ گھر اس مسجد میں داخل ہو گیا۔<ref>برای نمونہ نگاہ کنید بہ شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۵۷۲۔</ref>
[[امام رضاؑ]] کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ جس کی بنا پر حضرت زہراؑ اپنے گھر میں دفن ہوئیں ہیں اور [[بنی امیہ]] نے جب [[مسجد النبی]] کی توسیع کی تو وہ گھر اس مسجد میں داخل ہو گیا۔<ref>برای نمونہ نگاہ کنید بہ شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۵۷۲۔</ref>


بعض شیعہ علماء کے مطابق ایک روایت جس میں امام علیؑ نے فاطمہؑ کو "پیغمبر اکرمﷺ کے پاس مدفون" کے طور پر متعارف کرایا ہے،<ref>نہج‌البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، ۱۴۱۴ھ، خطبہ۲۰۲، ص۳۱۹؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۳، ص۳۶۴۔</ref> وہ بی بی سیدہؑ کے ان کے گھر میں دفن ہونے کی تائید کرتی ہیں، اس لئے کہ رسول اللہؐ کے محل دفن سے جو سب سے نزدیک جگہ ہے وہ بیت فاطمہؑ ہے۔ {{یادداشت|حضرت فاطمہؑ کا گھر رسول اللہؐ کے گھر سے ملا ہوا تھا (امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۳۱۳۔) اور رسول اللہؐ اپنے گھر میں دفن ہوئے۔ (مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۴ش، ج۷، ص۲۰۸۔)}}<ref>نمونہ کے طور پر دیکھئے مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۴ش، ج۷، ص۲۰۸؛ حسن‌زادہ آملی، ہزار و یک نکتہ، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۴۴۶۔</ref> قبر رسولؐ کے پاس دفن ہونے کا اعزاز اس امکان کی ایک اور تصدیق ہے جس طرح [[امام حسنؑ]] نے امکان کی صورت میں رسول اللہؐ کے پہلو میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی۔<ref>نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۲۔</ref>
بعض شیعہ علماء کے مطابق ایک روایت جس میں امام علیؑ نے فاطمہؑ کو "پیغمبر اکرمﷺ کے پاس مدفون" کے طور پر متعارف کرایا ہے،<ref>نہج‌البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، ۱۴۱۴ھ، خطبہ۲۰۲، ص۳۱۹؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۳، ص۳۶۴۔</ref> وہ بی بی سیدہؑ کے ان کے گھر میں دفن ہونے کی تائید کرتی ہیں، اس لئے کہ رسول اللہؐ کے محل دفن سے جو سب سے نزدیک جگہ ہے وہ بیت فاطمہؑ ہے۔ {{یادداشت|حضرت فاطمہؑ کا گھر رسول اللہؐ کے گھر سے ملا ہوا تھا (امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۳۱۳۔) اور رسول اللہؐ اپنے گھر میں دفن ہوئے۔ (مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۴ش، ج۷، ص۲۰۸۔)}}<ref>نمونہ کے طور پر دیکھئے مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۴ش، ج۷، ص۲۰۸؛ حسن‌زادہ آملی، ہزار و یک نکتہ، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۴۴۶۔</ref> قبر رسولؐ کے پاس دفن ہونے کا اعزاز اس امکان کی ایک اور تصدیق ہے جس طرح [[امام حسنؑ]] نے امکان کی صورت میں رسول اللہؐ کے پہلو میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی۔<ref>نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۲۔</ref>
confirmed، templateeditor
5,869

ترامیم