مندرجات کا رخ کریں

"تبادلۂ خیال صارف:Waziri/تختہ مشق" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 181: سطر 181:


== علامہ اختر عباس ==
== علامہ اختر عباس ==
 
اختر عباس نجفی پنجاب پاکستان کے ایک دور افتادہ علاقہ کوٹ ادو میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صدیق محمد بلوچ نے اپنی ذاتی تحقیق سے مذہب شیعہ اختیار کر لیا۔ اختر عباس نجفی کا شمار پاکستان کےممتاز علماء میں ہوتا ہے۔ ملت جعفریہ پاکستان کی تاریخ میں دین کی ترویج و تحفظ کے لئے آپ کی جد و جہد ناقابل فراموش ہیں۔ آپ ایک علمی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ مکسر المزاج اور قومی درد رکھنے والے علماء میں سے تھے۔
شیخ الجامعہ حضرت آیت اللہ اختر عباس نجفی ؒ
علمی سفر: آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ ہی میں حاصل کی اور 1938ء میں مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد علوم دین حاصل کرنے کے لئے ملتان چلے گئے جہاں مدرسہ باب العلوم میں داخلہ لے لیا۔ آپ کےابتدائی اساتذہ میں مولانا شیخ محمد یار اور مولاسید زین العابدین شامل تھے۔ اس کے بعد آپ سید محمد باقر چکڑالوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انکے خاص شاگردوں میں شامل رہے۔ 1940ء میں اہلسنت کے بریلوی مکتب فکر کی درسگاہ جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں مولانا حافظ مہر محمد اچھروی کے پاس اور پھر دیوبند مکتب فکر کے مولانا عبد الخالق کے پاس حاضر ہوئے اور انہی کے ہمراہ دیوبند چلے گئے۔ جہاں مولانا اعزاز علی امروہوی اور شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی سے کسبِ فیض کیا۔ اسی طرح آپ سید محمد یار شاہ نجفی اور سید گلاب علی شاہ نقوی آف ملتان سے بھی کسب فیض کیا اور 1945ء میں نجف اشرف (عراق) روانہ ہوئے۔
ابتدائی حالات:
قیام در نجف : نجف اشرف میں آپ آیت اللہ مجتبیٰ لنکرانی، آیت اللہ ابو القاس رشتی، آیت اللہ میرزا محمد باقر زنجانی اور آیت اللہ سید ابو القاسم الخوئی سے بہرہ مند هوئے۔ اسی طرح عراق میں قیام کے دوران آپ آیت اللہ شہید باقر الصدر، آیت اللہ شہید میرزا علی غروی اور آیت اللہ موسوی اردبیلی کے ہم درس تھے۔
 
نجف اشرف قیام نجف کے دروان آپ نے معروف عالم دین شیخ علی کشمیری نجفی کی صاحبزادی سے شادی کی۔
 
تاسیس جامعۃ المنتظر:1954ء میں علامہ اختر عباس حضرت معصومہ کی زیارت کے لئے قم پہنچے اور اس وقت کے مرجع تقلید آیت اللہ برو جردی کی خدمت میں حاضری دی۔ آیت اللہ بروجردی نے لاہور کے کچھ مومنین کی درخواست پر علامہ اختر عباس کو لاہور جا کر مدرسہ قائم کرنے کا حکم دیا بعد از آن بعض مخیر حضرات کی مالی تعاون سے جامعہ المنتظر کی بنیاد رکھی گئی
 
1964ء تک دس سال آپ نے جامعہ میں بطور مدرّس اعلیٰ خدمات انجام دیں اور پھر واپس نجف اشرف تشریف لے گئے۔ جہاں تین سال قیام کیا۔
علامہ اختر عباس نجفی سر زمین پنجاب کے ایک دور افتادہ علاقہ کوٹ ادو کے ایک نواحی گاؤں چاہ کورائی والا( منہاں شریف) میں پیدا ہوئے مشہور روایت کے مطابق آپکی پیدائش 1925ء میں ہوئی جبکہ بقول ان کے خانوادہ کے انہوں نے خود 1923ء بتائی تھی۔ آپ اصل بلوچ تھے کتب میں ملتا ہے کہ آپ کے جد امجد کورائی خان۔ امیر جلال خان کے بیٹے تھے جو اس علاقہ کی تاریخ میں بلوچ قوم کے ابتدائی فرد اور سربراہ تسلیم کئے گئے ۔ آپ کے والد صدیق محمد بلوچ اپنی ذاتی تحقیق سے مذہب شیعہ اختیار کر چکے تھے۔ یہ ان کی دی ہوئی تربیت ہی کا اثر تھا کہ ان کے تینوں بیٹے علم دین حاصل کرنے کیلئے متوجہ ہوئے۔ جن میں محمد بخش ، احمد بخش اور عابد حسین شامل تھے۔ محمد بخش بعد میں مولانا محمد بخش باقری کے نام سے مشہور ہوئے اور قم (ایران) میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے کر محرم 1409ہجری میں واصلِ بحق ہوئے۔ اور عابد حسین اپنی نوجوانی ہی میں دوران تعلیم نجف اشرف (عراق) میں رحلت فرماگئے اور وادی السلام میں مدفون ہیں۔ جبکہ احمد بخش 1939ء میں اختر عباس کے نام سے موسوم ہوئے۔
زندگی نامہ
شیخ الجامعہ حضرت آیت اللہ اختر عباس نجفی ؒ کا شمار پاکستان کے ان ممتاز ترین علمائے دین میں ہوتا ہے۔ جو ملت جعفریہ پاکستان کی تاریخ میں ترویج و تحفظ علوم دین کیلئے راہنما کی حیثیت سے یاد رہینگے اور جنکی زندگی علم اور عمل کے میدان میں آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہو گئی۔
شخصیت حضرت علامہ اختر عباسؒ کی شخصیت ، بیک وقت و قار و دبدبہ اور شفقت و شگفتگی کا امتزاج تھی۔ وہ اسلاف کی نشانی تھے۔ علم و فضل کا پیکر تھے۔ دینی اور ملی امور میں ان سے رہنمائی اور استفادہ کیلئے پاکستان بھر سے علماء وقتا ً فوقتا ً حاضری دیا کرتے تھے۔ بیرون ملک سے بھی جب کوئی اہل علم تشریف لاتے تو زیارت کیلئے حاضر ہوتے۔ انہوں نے کبھی کوئی باقاعدہ عہدہ قبول نہ کیا خواہ اس کی پیش کش قومی وملی اداروں کی جانب سے ہوتی یا حکومت وقت کی طرف سے ۔ وہ اپنے علمی منصب کے پیش نظر یہ بہتر خیال کرتے تھے کہ کسی عہدہ کو حاصل کرنے کی بجائے سب کیلئے نقد و نظر کا فریضہ انجام دیں۔ اس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔ وہ دور اندیش ، صاحب ِ دلیل اور برجستہ شخصیت کے مالک تھے۔ ان کےمؤقف سے بعض اوقات کئی ذمہ دار افراد اختلاف بھی کرتے تھے مگر علامہ کے انتہائی علمی مرتبہ کے پیش نظر ہی نہیں بلکہ ان کے خلوص ِ نیت و عمل اور بزرگانہ شفقت کے باعث بھی احترام ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ انہوں نے ہر خاص و عام سے محبت اور پیار کا برتاؤ کیا۔ علامہ مرحوم کو راقم نے بار ہا خلوت میں بھی دیکھا، جلوت میں بھی۔ احباب میں بیٹھے ہوتے تو ہر موضوع پر گفتگو کرتے۔ خواہ کوئی علمی مسئلہ ہو یا روز مرہ کے حالات، حتیٰ کے کھیلوں کے بارے میں بھی ماہرانہ تبصرہ کرتے۔ آپ کی باتیں پندو نصیحت ہی نہیں ، برجستہ جملوں اور دلچسپ حکایتوں سے بھی مالا مال ہوتیں۔ عربی ، فارسی ، اردو اور پنجابی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ سرائیکی تو آپ کی مادری زبان تھی۔ جملہ زبانوں کے محاورں اور ضرب الامثال کا خوب استعمال کرتے۔ وہاں بیٹھا ہوا ہر شخص انہیں خود سے قریب پاتا۔ جب تنہا ہوتے تو مطالعہ کرتے رہتے۔ کبھی تلاوت قرآن حکیم فرماتے، کبھی علمی و ادبی کتب میں مستغرق ہوتے یا کتب کے تحریر و ترجمہ میں مشغول رہتے۔
آپ کے معمولات ، دل پذیر اصولوں سے عبارت تھے۔ نماز فجر کے بعد چائے کا ایک کپ اور آدھی خشک روٹی آپ کا ناشتہ تھا۔ جس کے بعد اس روز کے دروس کیلئے مطالعہ فرماتے اور بر وقت تیار ہو کر درس دینے کیلئے روانہ ہو جاتے۔ اگر سواری میسر نہ ہوتی تو پیدل ہی چل پڑتے۔ دہشت گردی کی پُر خوف فضا میں بھی کبھی خود حفاظتی کا تردد نہ کیا۔ 1998ءمیں مؤمن پورہ لاہور کے سانحہ میں بال بال زندہ بچ جانے کے فوراً بعد بغیر کسی خوف و ہراس اور حفاظتی انتظام کے جامعہ خدیجۃ الکبرؑیٰ پہنچے کیونکہ وہاں آپ کے درس کا وقت ہو چکا تھا ۔ ظہر کے بعد گھر واپسی ہوتی تو مختصر غذا تناول کرنے کے بعد کچھ دیر آرام کرتے۔ عصر کا وقت تلاوت قرآن کیلئے مخصوص تھا۔ نماز عصر کے بعد زیارت عاشور پڑھنا ان کا معمول تھا۔ اس کے بعد احباب ملاقات کیلئے حاضر ہوتے۔ نماز مغربین کے بعد ریڈیو سے پاکستان کی اور جملہ عالمی خبریں بھی باقاعدگی سے سنتے۔ پھر مطالعہ اور تالیف و ترجمہ میں رات گئے تک مصروف رہتے۔
علامہ اختر عباسؒ نہایت خود دار طبیعت کے مالک تھے۔ ساری زندگی علم و تدریس سے وابستہ رہے مگر آسودگی معاش کیلئے بھی محنت کی۔ ابتدائی تعلیم کے دوران لاہور میں ایک بٹن فیکٹری میں کام کیا ۔ بعد نجف ، لاہور اور قُم ، جہاں بھی گئے کتابوں کی دکان کھول کر گھر کا گزارہ کرتے رہے۔
آپ اپنی اولاد کی تربیت سے بھی غافل نہ ہوئے۔ خوش قسمتی سے آپ کی اہلیہ بھی نہایت دینی ماحول کی پروردہ تھیں۔ اپنے بچوں کو دین و اخلاق کے ساتھ اعلیٰ دنیاوی تعلیم سے بھی آراستہ کیا اور ان کو ہمیشہ محنت اور دیانت کا سبق دیا۔ پردہ کے اتنے قائل تھے کہ اپنی ہر صاحبزادی کے نکاح کے وقت داماد پر ہمیشہ پردے کی شرعی پابندی کی شرط عائد کی۔
علمی سفر: آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ ہی میں حاصل کی اور آبائی پیشہ کاشتکاری میں افراد خانہ کے معاون رہے لیکن 1938ء میں مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد علوم دین حاصل کرنے کا تہیہ کیا اور ملتان تشریف لے آئے۔جہاں مدرسہ باب العلوم میں داخلہ لے لیا۔ آپ کےابتدائی اساتذہ میں مولانا شیخ محمد یارؒ اور مولاسید زین العابدینؒ شامل تھے۔مدرسہ باب العلوم ملتان میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ اس دور میں علم و ادب کی ایک نابغہ روزگار ہستی استاذ العلماء مولانا سید محمد باقر چکڑالویؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انکے خاص شاگردوں میں شامل رہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اختر عباسؒ نے علم دین کو ہر پہلو سے کاملاً سمجھنے اور پرکھنے میں خوب تگ و دو کی۔ وہ 1940ء میں اہلسنت کے بریلوی مکتب فکر کی درسگاہ جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں مولانا حافظ مہر محمد اچھروی کے پاس اور پھر دیوبند مکتب فکر کے مولانا عبد الخالق کی خدمت میں نڑہال (نزد کبیر والا) حاضر ہوئے اور انہی کے ہمراہ دیوبند بھی تشریف لے گئے۔ جہاں مولانا اعزاز علی امروہوی اور شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی سے کسبِ فیض کیا۔ وہاں سے شدید علالت کے باعث وطن واپس آنا پڑا۔ صحت یابی کے بعد علوم جعفریہ کی ایک اور نادر ہستی استاذ العلماء آیت اللہ سید محمد یار شاہ نجفی ؒ کی خدمت میں جلال پور ننگیانہ میں حاضری دی۔ پھر استاذ العلماء سید گلاب علی شاہ نقویؒ کے پاس ملتان میں دولت علم سے فیض یاب ہوئے۔ حتیٰ کہ 1945ء میں بروز عید ِغدیر، عازم نجف اشرف (عراق) ہوئے۔
قیام در نجف یہ آپ کی علمی زندگی کا ایک یاد گار دور تھا۔ اُس دور میں جو علمی ہستیاں وہاں موجود تھیں ان میں سے بعض اس صدی کی سب سے نمایاں علمی ہستیاں شمار کی جا سکتی ہیں۔ علامہ اختر عباس ؒ نے وہاں اعلیٰ دینی علوم سے خود بھی اکتساب اور بعد میں وہاں آنے والوں کو مستفید بھی کیا۔ وہاں آپ کے اساتذہ میں آیت اللہ العظمیٰ شیخ مجتبیٰ لنکرانی ؒ، آیت اللہ العظمیٰ ابو القاس رشتیؒ، آیت اللہ العظمیٰ میرزا محمد باقر زنجانی ؒ اور آیت اللہ العظمیٰ سید ابو القاسم الموسوی الخوئی ؒ جیسے بلند پایہ فقہاء اور مراجعین شامل تھے۔ جن سے آپ نے فقہ و اصول فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ آپ حضرت آیت اللہ العظمیٰ خوئی ؒ کے چند خاص شاگردوں میں شامل تھےاور آپ کا تذکرہ حضرت موصوف وقتا ً فوقتا ً اچھے الفاظ میں فرمایا کرتے تھے۔ آیت اللہ شہید محمد باقر الصدر ؒ، آیت اللہ شہید میرزا علی غرویؒ اور آیت اللہ موسوی اردبیلی (جو بعد میں اسلامی جمہوریہ ایران کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس رہے) بھی آپ کے ہم درس تھے۔
نجف اشرف ہی میں آپ مرجعِ دَوراں حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم طبا طبائی ؒ کے ساتھ بحثیت اردو ترجمان کے وابستہ رہے۔ یہ امر بعد مولانا صادق علی نجفی مد ظلہ سر انجام دیتے رہے۔
علامہ اختر عباسؒ 4 رمضان 1368ہجری کو قیام نجف ہی میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ آپکی اہلیہ محترمہ نجف کے معروف عالم دین شیخ علی کشمیری نجفی ؒ کی صاحبزادی ہیں۔ آپ کا نکاح مسنون آیت اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم طباطبائی ؒ اور آیت اللہ العظمیٰ محمد تقی آلِ راضیؒ نے پڑھا نکاح نامہ آیت اللہ العظمیٰ جواد تبریزی ؒ نے تحریر کیا۔ معروف جید عالم دین آْقا سید طیب جزائری مدظلہ آپ کے ہم زلف ہیں۔
شادی خانہ آبادی کے بعد علامہ اختر عباس نے فکر معاش سے آسودگی کیلئے نجف ہی میں باب القبلہ کے قریب کتابوں کی دکان کھولی۔ علامہ کے فرزند ناصر محمد خان راوی ہیں کہ آپ کے استاد آیت اللہ العظمیٰ لنکرانیؒ جب کبھی اس راہ سے گزرتے تو کافی دیر وہاں تشریف رکھتے۔ ان کا نجف میں بہت احترام تھا۔ ایک بار علامہ صاحب کی جانب سے تشکر و استفسار پر فرمایا کی میں یہاں ا س لئے ٹھہرتا ہو ں کہ عوام جان لیں کہ اس دکان کا مالک کوئی عام شخص نہیں بلکہ صاحب علم انسان ہے۔ درجہ ء اجتہاد پر فائز ہونے کے بعد آپ نجف اشرف ہی میں درس دینے لگے۔
تاسیس جامعۃ المنتظر 1954ء میں علامہ اختر عباس ؒ زیارت معصومہ ؑ کیلئے قم پہنچے تو مرجعِ عصر آیت اللہ العظمیٰ سید حسین برو جردیؒ کی خدمت میں حاضری دی۔ وہاں لاہور سے تعلق رکھنے والے کچھ اصحاب یہ درخواست لے کر پہنچے ہوئے تھے کہ ہمارے ہاں ترویج علوم محمد ؐ و آل ؑ محمد ؐ کیلئے روحانی امداد فرمائے۔ آیت اللہ بروجردیؒ نے علامہ اختر عباس ؒ کو لاہور میں جا کر مدرسہ قائم کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ لاہور میں ایک انتہائی مخلص و مخیر شخصیت حاجی شیخ محمد طفیل مرحوم نے سہم امام علیہ السلام کی رقم سے مالی امداد کی اور چند دیگر احباب نے ابتداء میں ایک مکان کا انتظام کیا ۔ جس کے بعد حسینیہؑ ہال اندرون موچی دروازہ پھر وسن پورہ میں (باقاعدہ) جامعتہ المنتظر کی بنیاد رکھی گئی۔ قدیم احباب لاہور شاہد ہیں کہ علامہ صاحب نے یہاں باقاعدہ نماز با جماعت اور دروس و مجالس کا سلسلہ شروع کیا تو لوگوں نے بڑھ چڑھ کر تعاون کیا اور ایک ایسی روح بیدار ہوئی جو جامعہ کو موجودہ صورت اور مقام تک لے آئی۔ وہیں پر ملی فلاح کیلئے بارہ افراد کے صیغہ ء اخوت والا واقعہ پیش آیا جس میں علامہ صاحؒب کے علاوہ گیارہ اور اصحاب شامل تھے۔ اسی دوران میں آپ نے لاہور سےالمنتظر کے نام سے پندرہ روزہ جریدہ شائع کرنےکا آغاز کیا۔ تاکہ عوام میں دینی فکر کو اجاگر کرنے کے ساتھ تازہ علمی و ملی سر گرمیوں سے آگاہی بھی دی جا سکے۔ اسی عرصہ میں آپ نے علماء اور زعمائے ملتِ شیعہ کو خدمت دین کیلئے متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1964ء تک دس سال آپ نے جامعہ میں بطور مدرّس اعلیٰ خدمات انجام دیں اور پھر واپس نجف اشرف تشریف لے گئے۔ جہاں تین سال قیام کیا۔
قُم میں آمد اسی زمانہ میں قم مقدس (ایران) میں اس وقت کے آیت اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم شریعتمداریؒ نے ایک جامع علمی ادارہ دار التبلیغ اسلامی کے نام قائم کیا۔ علامہ صاحبؒ بتاتے تھے کہ ایک مرتبہ علمائے ایران جن میں آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہریؒ، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازیؒ مد ظلہ اور آیت اللہ جعفر سبحانی مد ظلہ شامل تھے۔ نجف اشرف تشریف لائے اور آپ کے ساتھ ملاقات میں آقائے شریعتمداریؒ کی طرف سے قم آنے کی دعوت دی۔ تاکہ دار التبلیغ کے شعبہ اردو میں معاونت لی جا سکے۔ قم میں آپ نے اپنی ذمہ داری سنبھالی تو آقائے موصوف کے دروس خارج میں بھی شرکت کی اور پہلی بار دروس کو ٹیپ ریکارڈ کرنے کا اہتمام کیا۔
قُم میں آمد اسی زمانہ میں قم مقدس (ایران) میں اس وقت کے آیت اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم شریعتمداریؒ نے ایک جامع علمی ادارہ دار التبلیغ اسلامی کے نام قائم کیا۔ علامہ صاحبؒ بتاتے تھے کہ ایک مرتبہ علمائے ایران جن میں آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہریؒ، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازیؒ مد ظلہ اور آیت اللہ جعفر سبحانی مد ظلہ شامل تھے۔ نجف اشرف تشریف لائے اور آپ کے ساتھ ملاقات میں آقائے شریعتمداریؒ کی طرف سے قم آنے کی دعوت دی۔ تاکہ دار التبلیغ کے شعبہ اردو میں معاونت لی جا سکے۔ قم میں آپ نے اپنی ذمہ داری سنبھالی تو آقائے موصوف کے دروس خارج میں بھی شرکت کی اور پہلی بار دروس کو ٹیپ ریکارڈ کرنے کا اہتمام کیا۔
پاکستان واپسی 1974ء میں آپ پاکستان تشریف لائے تو کوٹ ادو میں دار التبلیغ اسلامی جامعتہ الشیعہ کی بنیاد رکھی اور اپنے آبائی علاقے کا حق اس طرح علمی و دینی خدمت کے ذریعے ادا کیا۔ علامہ بتایا کرتے تھے کہ اس مدرسہ کیلئے دار التبلیغ اسلامی قم کی کسی قسم کی معاونت شامل نہیں تھی۔ 1987ء میں وہاں ایک شاندار اور وسیع مسجد کی بنیاد بھی رکھی جس میں ہزاروں افراد کی گنجائش ہے۔ شروع میں لوگ متعجب تھے کہ اتنے نمازی کہاں سے جمع ہونگے لیکن اب یہ مسجد نماز جمعہ، ماہ رمضان المبارک اور عیدین کی موقعوں پر لو گوں سے پُر ہو جاتی ہے۔ اس کی تعمیر ہنوز تشنہ ء تکمیل ہے۔
پاکستان واپسی 1974ء میں آپ پاکستان تشریف لائے تو کوٹ ادو میں دار التبلیغ اسلامی جامعتہ الشیعہ کی بنیاد رکھی اور اپنے آبائی علاقے کا حق اس طرح علمی و دینی خدمت کے ذریعے ادا کیا۔ علامہ بتایا کرتے تھے کہ اس مدرسہ کیلئے دار التبلیغ اسلامی قم کی کسی قسم کی معاونت شامل نہیں تھی۔ 1987ء میں وہاں ایک شاندار اور وسیع مسجد کی بنیاد بھی رکھی جس میں ہزاروں افراد کی گنجائش ہے۔ شروع میں لوگ متعجب تھے کہ اتنے نمازی کہاں سے جمع ہونگے لیکن اب یہ مسجد نماز جمعہ، ماہ رمضان المبارک اور عیدین کی موقعوں پر لو گوں سے پُر ہو جاتی ہے۔ اس کی تعمیر ہنوز تشنہ ء تکمیل ہے۔
confirmed، templateeditor
5,869

ترامیم