مندرجات کا رخ کریں

"عبد النبی جزائری" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 62: سطر 62:


== علم رجال میں تبدیلی کا موجد ==
== علم رجال میں تبدیلی کا موجد ==
بعض لوگوں نے عبدالنبی اور سید مصطفی حسین تفرشی کو علم رجال و راویوں کے تنقیدی دورہ کا آغازگر جانا ہے۔<ref>ربانی، سبک‌شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۲۴۔</ref> سلیمان بن عبداللہ ماحوزی نے علمائے رجال کو چار حصوں میں بانی، تکمیل کرنے والا، جمع آوری کرنے والا اور منقحین (محققین) میں تقسیم کیا ہے نیز جزائری کو دورہ منقحین کا آغازگر جانا ہے<ref>بحرانی، معراج اہل الکمال، ۱۴۱۲ھ، مقدمہ مؤلف، ص۷-ص۲۴۔</ref> اور علم رجال کی تحقیقی طور پر چھان بین کرتے ہوئے تنقیدی نگاہ سے راویوں کو [[جرح و تعدیل]] کے اعتبار سے بیان کیا ہے۔<ref>بحرانی، معراج اہل الکمال، ۱۴۱۲ھ، مقدمہ مؤلف، ص۱۸-ص۲۴۔</ref> البتہ جزائری سے پہلے بعض علما جیسے [[شہید ثانی]] نے علم رجال پر تنقیدی بحث کی ہے لیکن تمام راویوں اور علم رجال کے تمام پہلؤوں کو مد نظر نہیں رکھا ہے۔<ref>بحرانی، معراج اہل الکمال، ۱۴۱۲ھ، مقدمہ مؤلف، ص۲۳۔</ref>  
بعض لوگوں نے عبد النبی اور سید مصطفی حسین تفرشی کو علم رجال و راویوں کے تنقیدی دورہ کا آغازگر جانا ہے۔<ref> ربانی، سبک‌شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۲۴۔</ref> سلیمان بن عبداللہ ماحوزی نے علمائے رجال کو چار حصوں میں بانی، تکمیل کرنے والا، جمع آوری کرنے والا اور منقحین (محققین) میں تقسیم کیا ہے نیز جزائری کو دورہ منقحین کا آغازگر جانا ہے<ref> بحرانی، معراج اہل الکمال، ۱۴۱۲ھ، مقدمہ مؤلف، ص۷-ص۲۴۔</ref> اور علم رجال کی تحقیقی طور پر چھان بین کرتے ہوئے تنقیدی نگاہ سے راویوں کو [[جرح و تعدیل]] کے اعتبار سے بیان کیا ہے۔<ref> بحرانی، معراج اہل الکمال، ۱۴۱۲ھ، مقدمہ مؤلف، ص۱۸-ص۲۴۔</ref> البتہ جزائری سے پہلے بعض علما جیسے [[شہید ثانی]] نے علم رجال پر تنقیدی بحث کی ہے لیکن تمام راویوں اور علم رجال کے تمام پہلؤوں کو مد نظر نہیں رکھا ہے۔<ref> بحرانی، معراج اہل الکمال، ۱۴۱۲ھ، مقدمہ مؤلف، ص۲۳۔</ref>  


عبدالنبی جزائری پہلے ایسے عالم رجال ہیں جنہوں نے راویوں کو حدیث کی چار قسموں ([[حدیث صحیح|صحیح]]، [[حدیث موثق|مُوَثَّق]]، [[حدیث حسن|حَسَن]] اور [[حدیث ضعیف|ضعیف]]) میں تقسیم کیا ہے۔<ref>ربانی، سبک‌شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۵۹۔</ref> ان سے پہلے راویوں کی چھان بین کے سلسلہ سے کوئی تقسیم بندی نہیں ہوئی تھی یا اگر ہوئی تھی تو فقط دو تقسیم تھی یا حدیث صحیح یا [[حدیث]] ضعیف۔<ref> مازندرانی حائری، منتہی المقال، ۱۴۱۶ھ، مقدمہ، ص۳۱۔</ref>
عبدالنبی جزائری پہلے ایسے عالم رجال ہیں جنہوں نے راویوں کو حدیث کی چار قسموں ([[حدیث صحیح|صحیح]]، [[حدیث موثق|مُوَثَّق]]، [[حدیث حسن|حَسَن]] اور [[حدیث ضعیف|ضعیف]]) میں تقسیم کیا ہے۔<ref> ربانی، سبک‌ شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۵۹۔</ref> ان سے پہلے راویوں کی چھان بین کے سلسلہ سے کوئی تقسیم بندی نہیں ہوئی تھی یا اگر ہوئی تھی تو فقط دو تقسیم تھی یا حدیث صحیح یا [[حدیث]] ضعیف۔<ref> مازندرانی حائری، منتہی المقال، ۱۴۱۶ھ، مقدمہ، ص۳۱۔</ref>


تیرہویں صدی کے عالم رجال ابو علی حائری کے مطابق جزائری بھی [[احمد بن حسین غضائری|ابن غضائری]] کی طرح تھے کہ جنہوں نے بہت سے ایسے راویوں کو جو تضعیف کے مستحق نہیں تھے انہیں بھی ضعیف شمار کیا تھا۔<ref>مازندرانی حائری، منتہی المقال، ۱۴۱۶ھ، مقدمہ، ص۳۱۔</ref> اسی طرح گیارہویں صدی کے شیعہ عالم احمد بحرانی سے بھی نقل ہوا ہے کہ جزائری روایوں کی تضعیف میں بہت سختی سے کام لیتے تھے۔<ref>ربانی، سبک‌شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۶۰۔</ref> البتہ ان کا سخت رویہ اس بات کا باعث بنا کہ وہ بعض راوی جو مورد اختلاف تھے ان کی وثاقت ثابت ہو گئی اور ان کی باتوں سے استناد کیا جانے لگا۔<ref>ربانی، سبک‌شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۶۰۔</ref>
تیرہویں صدی کے عالم رجال ابو علی حائری کے مطابق جزائری بھی [[احمد بن حسین غضائری|ابن غضائری]] کی طرح تھے کہ جنہوں نے بہت سے ایسے راویوں کو جو تضعیف کے مستحق نہیں تھے انہیں بھی ضعیف شمار کیا تھا۔<ref> مازندرانی حائری، منتہی المقال، ۱۴۱۶ھ، مقدمہ، ص۳۱۔</ref> اسی طرح گیارہویں صدی کے شیعہ عالم احمد بحرانی سے بھی نقل ہوا ہے کہ جزائری روایوں کی تضعیف میں بہت سختی سے کام لیتے تھے۔<ref> ربانی، سبک‌ شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۶۰۔</ref> البتہ ان کا سخت رویہ اس بات کا باعث بنا کہ وہ بعض راوی جو مورد اختلاف تھے ان کی وثاقت ثابت ہو گئی اور ان کی باتوں سے استناد کیا جانے لگا۔<ref> ربانی، سبک‌شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۶۰۔</ref>


[[سید محمدباقر خوانساری]] کے مطابق عبدالنبی جزائری [[فقہ]]، [[اصول]]، [[کلام]]، [[حدیث]] و ۔۔۔ میں بھی مہارت رکھتے تھے۔<ref>خوانساری، روضات الجنات، ۱۳۹۰ھ، ج۴، ص۲۶۹۔</ref>
[[سید محمد باقر خوانساری]] کے مطابق عبدالنبی جزائری [[فقہ]]، [[اصول]]، [[کلام]]، [[حدیث]] و ۔۔۔ میں بھی مہارت رکھتے تھے۔<ref> خوانساری، روضات الجنات، ۱۳۹۰ھ، ج۴، ص۲۶۹۔</ref>


== آثار ==
== آثار ==
گمنام صارف