مندرجات کا رخ کریں

"صارف:Hakimi/تختہ مشق" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 18: سطر 18:
===نظام دکن===
===نظام دکن===
اسے مملکت آصفیہ یا سلطنت حیدرآباد بھی کہا جاتا تھا سترہویں صدی عیسوی میں مغل بادشاہ اورنگزیب نے ہندوستان کی مختلف مسلم حکومتوں پر قبضہ کیا جس میں احمدنگر کی نظام شاہی، بیجاپور کی عادل شاہی اور بیدر کی برید شاہی شامل تھی۔ ان سب کو ملاکر ایک بڑا صوبہ دکن کے نام سے قائم کیا( سیرت ص66) اورنگزیب کی وفات کے بعد صوبے کا گورنر قمرالدین المعروف نظام الملک نے سنہ 1724ء میں خودمختاری کا اعلان کر کے حیدرآباد کو دارالحکومت منتخب کیا۔ اور مغل بادشاہ نے اسے تسلیم کرتے ہوئے آصف جاہ کا خطاب دیا اور حکومت کو مملکت آصفیہ کہلائی۔ یعنی خودمختاری کے ساتھ ساتھ مغلوں کی بالادستی بھی تسلیم کر لی۔ آصف جاہ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے ناصر جنگ اور نواسہ مظفر جنگ میں تنازعہ کھڑا ہوگیا اور 1750ء میں فرانسیسیوں کی مدد سے حیدرآباد پر قبضہ کرلیا۔ 1756ء میں آصف جاہ کے بیٹے نظام علی نے اقتدار سنبھالا۔ سنہ 1761ء مرہٹوں نے دکن کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کیا لیکن احمدشاہ ابدالی کے ہاتھوں مرہٹوں کو تاریخی شکست ملنے پر نظام علی نے اپنے مقبوضہ علاقے واپس لے لیا۔اسی دوران میسور میں حکومت خداداد کا قیام عمل میں آیا۔ اور حیدر علی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے احساس خطر کرتے ہوئے ان کے خلاف انگریزوں کے اتحادی بن گئے۔ جس کے نتیجے میں سات لاکھ روپے کے عوض کرناٹک کا ایک وسیع علاقہ انگریزوں کے حوالے کردیا۔ میسور کے خلاف لڑی جانے والی انگریزوں کی چار جنگوں میں سے تین میں نظام نے سلطنت خداداد کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا اور ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے اس کی رہی سہی خودمختاری بھی ختم کردی۔( سیرت ص66-68)
اسے مملکت آصفیہ یا سلطنت حیدرآباد بھی کہا جاتا تھا سترہویں صدی عیسوی میں مغل بادشاہ اورنگزیب نے ہندوستان کی مختلف مسلم حکومتوں پر قبضہ کیا جس میں احمدنگر کی نظام شاہی، بیجاپور کی عادل شاہی اور بیدر کی برید شاہی شامل تھی۔ ان سب کو ملاکر ایک بڑا صوبہ دکن کے نام سے قائم کیا( سیرت ص66) اورنگزیب کی وفات کے بعد صوبے کا گورنر قمرالدین المعروف نظام الملک نے سنہ 1724ء میں خودمختاری کا اعلان کر کے حیدرآباد کو دارالحکومت منتخب کیا۔ اور مغل بادشاہ نے اسے تسلیم کرتے ہوئے آصف جاہ کا خطاب دیا اور حکومت کو مملکت آصفیہ کہلائی۔ یعنی خودمختاری کے ساتھ ساتھ مغلوں کی بالادستی بھی تسلیم کر لی۔ آصف جاہ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے ناصر جنگ اور نواسہ مظفر جنگ میں تنازعہ کھڑا ہوگیا اور 1750ء میں فرانسیسیوں کی مدد سے حیدرآباد پر قبضہ کرلیا۔ 1756ء میں آصف جاہ کے بیٹے نظام علی نے اقتدار سنبھالا۔ سنہ 1761ء مرہٹوں نے دکن کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کیا۔جب سنہ 1761ء میں احمدشاہ ابدالی مرہٹوں سے برسر پیکار تھے نظام کے بھائی بصالت جنگ نے مرہٹوں کے ہاتھوں مقبوضہ صوبہ سرا کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے میسوری افواج کے سپہ سالار حیدر علی سے مدد طلب کی اور انہوں نے فتح کے بعد سرا کا نواب بنائے جانے کی شرط پر قبول کی اور حسب وعدہ بصالت جنگ کی سفارش پر دہلی کے مغل بادشاہ نے حیدرعلی کے لئے سرا کی نوابی لکھ دی اور نواب حیدر علی کہلانے لگے۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص-105-104۔</ref>اسی دوران میسور میں حکومت خداداد کا قیام عمل میں آیا۔ اور حیدر علی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے احساس خطر کرتے ہوئےنظام ان کے خلاف انگریزوں کے اتحادی بن گئے۔ جس کے نتیجے میں سات لاکھ روپے کے عوض کرناٹک کا ایک وسیع علاقہ انگریزوں کے حوالے کردیا۔ میسور کے خلاف لڑی جانے والی انگریزوں کی چار جنگوں میں سے تین میں نظام نے سلطنت خداداد کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا اور ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے اس کی رہی سہی خودمختاری بھی ختم کردی۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص-68-66۔</ref>


===نواب ارکاٹ===
===نواب ارکاٹ===
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
7,945

ترامیم