مندرجات کا رخ کریں

"صارف:Hakimi/تختہ مشق" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 2: سطر 2:
مغلیہ حکومت 1500 سے 1700 تک ہندوستان پر حاکم رہی۔ سنہ 1625ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر میں آئی اور 1707 میں مغلیہ حکمران اورنگزیب کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ زوال کا شکار ہوئی جس کے نتیجے میں مختلف خودمختار ریاستیں وجود میں آئیں۔ فرانس اور برطانیہ نے بھی اپنی توجہ تجارت سے بڑھ کر سیاست کی طرف دینا شروع کردیا اور 1751ء میں انگریزوں نے ارکاٹ پر قبضہ کیا اور نظام حیدرآباد بھی انگریزوں کے ماتحت آگیا اور میسور کے علاوہ مدراس اور حیدرآباد وغیرہ بھی ان کے قبضے میں آگئے۔ (سیرت ٹیپو سلطان ص 58 تا62)  مقامی ریاستیں آزادانہ حیثیت اختیار کرتی گئیں یہ آزاد ریاستیں آپس میں لڑنے میں مصروف ہوئیں اور ایسے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے مختلف علاقوں پر قبضہ جمایا۔ ایسے دور میں حیدرعلی اور ٹیپو سلطان منظر عام پر آگئے۔<ref>ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور)، مترجم: محمد زاہد ملک، ص26۔</ref>
مغلیہ حکومت 1500 سے 1700 تک ہندوستان پر حاکم رہی۔ سنہ 1625ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر میں آئی اور 1707 میں مغلیہ حکمران اورنگزیب کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ زوال کا شکار ہوئی جس کے نتیجے میں مختلف خودمختار ریاستیں وجود میں آئیں۔ فرانس اور برطانیہ نے بھی اپنی توجہ تجارت سے بڑھ کر سیاست کی طرف دینا شروع کردیا اور 1751ء میں انگریزوں نے ارکاٹ پر قبضہ کیا اور نظام حیدرآباد بھی انگریزوں کے ماتحت آگیا اور میسور کے علاوہ مدراس اور حیدرآباد وغیرہ بھی ان کے قبضے میں آگئے۔ (سیرت ٹیپو سلطان ص 58 تا62)  مقامی ریاستیں آزادانہ حیثیت اختیار کرتی گئیں یہ آزاد ریاستیں آپس میں لڑنے میں مصروف ہوئیں اور ایسے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے مختلف علاقوں پر قبضہ جمایا۔ ایسے دور میں حیدرعلی اور ٹیپو سلطان منظر عام پر آگئے۔<ref>ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور)، مترجم: محمد زاہد ملک، ص26۔</ref>


سنہ 1761ء میں جنوبی ہند میں سلطنت خداداد کا قیام عمل میں آیا(ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، ص58) سنہ 1171ھ کو حیدر علی نے میسور کے حالات اپنے کنٹرول میں لیا اور راجہ کو گوشہ نشین کردیا۔<ref>کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص75</ref> امور مملکت سنبھالنے کے بعد آپ نے مقامی راجاوؤں کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سرحدوں کو توسیع دی اور «صوبہ سرا»، «بالاپور»، «بدنور» اور بعض دیگر علاقوں پر قبضہ کیا<ref>ملاحظہ کریں: کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص78-96</ref> اور اپنی سلطنت کو 33 گاؤں سے بڑھا کر 80 ہزار مربع میل پر پھیلا دیا۔<ref>حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص23۔</ref> جس کی سرحدیں جنوب میں کیرلا سے چین تک پہنچی اور شہرت ملک سے نکل کر یورپ تک پھیل گئی۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص58</ref>  
سنہ 1761ء میں جنوبی ہند میں سلطنت خداداد کا قیام عمل میں آیا(ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص58) سنہ 1171ھ کو حیدر علی نے میسور کے حالات اپنے کنٹرول میں لیا اور راجہ کو گوشہ نشین کردیا۔<ref>کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص75</ref> امور مملکت سنبھالنے کے بعد آپ نے مقامی راجاوؤں کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سرحدوں کو توسیع دی اور «صوبہ سرا»، «بالاپور»، «بدنور» اور بعض دیگر علاقوں پر قبضہ کیا<ref>ملاحظہ کریں: کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص78-96</ref> اور اپنی سلطنت کو 33 گاؤں سے بڑھا کر 80 ہزار مربع میل پر پھیلا دیا۔<ref>حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص23۔</ref> جس کی سرحدیں جنوب میں کیرلا سے چین تک پہنچی اور شہرت ملک سے نکل کر یورپ تک پھیل گئی۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص58</ref>  


«بدنور» کو «حیدرنگر» نام دے کر دارالحکومت قرار دیا اور اپنے نام کا سکہ رائج کیا۔<ref>کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص264</ref>
«بدنور» کو «حیدرنگر» نام دے کر دارالحکومت قرار دیا اور اپنے نام کا سکہ رائج کیا۔<ref>کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص264</ref>


جنہوں نے قدم قدم پر انگریزوں کے لئے رکاوٹیں کھڑی کی اور بارہا انگریزوں کو شکست دی۔ ان کی قائم کردہ حکومت کو سلطنت خداداد میسور کہا جاتا ہے۔ یہ حکومت 1761ء سے1799 تک جاری رہی۔{{حوالہ}} (میسور شہر ریاست کرناٹک میں واقع مشہور شہر ہے جو مملکت خداداد  کا پایتخت تھا۔<ref>کریمی ندوی، چند ایام ٹیپو سلطان کے ریار میں، الاسلام اکیڈمی کرناٹک، سنہ 2017، ص23۔</ref>)
جنہوں نے قدم قدم پر انگریزوں کے لئے رکاوٹیں کھڑی کی اور بارہا انگریزوں کو شکست دی۔ ان کی قائم کردہ حکومت کو سلطنت خداداد میسور کہا جاتا ہے۔ یہ حکومت 1761ء سے1799 تک جاری رہی۔{{حوالہ}}(میسور شہر ریاست کرناٹک میں واقع مشہور شہر ہے جو مملکت خداداد  کا پایتخت تھا۔<ref>کریمی ندوی، چند ایام ٹیپو سلطان کے ریار میں، الاسلام اکیڈمی کرناٹک، سنہ 2017، ص23۔</ref>)


سلطنت خداداد کے زوال میں ٹیپو سلطان کی رحمدلی اور ان کے وزراء اور افسران کی خیانت موثر تھی۔ ٹیپو سلطان سے غدادری کرنے والے افراد میں سلطنت خداداد کے وزیر اعظم میر صادق اور ان کے ساتھ میر معین الدین(ٹیپو کا خسر اور رشتہ میں مامو اور فوج کا سپہ سالار)، میر قمرالدین، غلام علی لنگڑا اور پورنیا پنڈت وغیرہ شامل تھے ان کے علاوہ ایاز خان(حیدر علی کا لے پالک اور بدنور کا گورنر)، محمد قاسم خان، میر مہدی علی(سلطان کا وزیر)، راجہ خان(ٹیپو کا ذاتی ملازم) اور بعض دیگر افراد کے نام قابل ذکر ہیں۔
سلطنت خداداد کے زوال میں ٹیپو سلطان کی رحمدلی اور ان کے وزراء اور افسران کی خیانت موثر تھی۔ ٹیپو سلطان سے غدادری کرنے والے افراد میں سلطنت خداداد کے وزیر اعظم میر صادق اور ان کے ساتھ میر معین الدین(ٹیپو کا خسر اور رشتہ میں مامو اور فوج کا سپہ سالار)، میر قمرالدین، غلام علی لنگڑا اور پورنیا پنڈت وغیرہ شامل تھے ان کے علاوہ ایاز خان(حیدر علی کا لے پالک اور بدنور کا گورنر)، محمد قاسم خان، میر مہدی علی(سلطان کا وزیر)، راجہ خان(ٹیپو کا ذاتی ملازم) اور بعض دیگر افراد کے نام قابل ذکر ہیں۔
سطر 24: سطر 24:
==میسور کی وجہ تسمیہ==
==میسور کی وجہ تسمیہ==
میسور کا پرانا نام مہیش کنورو بتایا جاتا ہے جو سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور مہیش کے معنی بھینس اور کنورو کے معنی شہر کے ہیں۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہاں پہلے کثرت سے بھینسیں پائی جاتی تھیں اس وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے اور پھر بگڑ کر میسور بن گیا ہے۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، ص72۔</ref> اس وقت میسور ہندوستان میں صوبہ نہیں بلکہ ایک شہر اور ضلع کا نام ہے<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، ص72۔</ref>  شہر میسور میں تقریبا ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، ص72۔</ref>
میسور کا پرانا نام مہیش کنورو بتایا جاتا ہے جو سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور مہیش کے معنی بھینس اور کنورو کے معنی شہر کے ہیں۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہاں پہلے کثرت سے بھینسیں پائی جاتی تھیں اس وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے اور پھر بگڑ کر میسور بن گیا ہے۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص72۔</ref> اس وقت میسور ہندوستان میں صوبہ نہیں بلکہ ایک شہر اور ضلع کا نام ہے<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص72۔</ref>  شہر میسور میں تقریبا ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص72۔</ref>
==میسور میں اسلام==
==میسور میں اسلام==
میسور میں عرب تاجروں کے ذریعے اسلام پہنچاپہلی صدی ہجری میں ہی حجاز و یمن سے تجارتی قافلے پہنچے جن کا سلسلہ اسلام سے پہلے بھی تھا۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، ص75۔</ref> یہاں پر وجے نگر کی ہندو سلطنت تھی اور اس کے قریب میں مسلم ریاستوں میں سب سے مضبوط بیجاپور کی عادل شاہی حکومت تھی۔ وجے نگر کے بار ے میں کہا جاتا ہے کہ متعصب اور ظالم حکمران تھا جس نے مسلمانوں پر بڑا ظلم کیا جس کی وجہ سے مسلم سلاطین سمجھ گئے کہ یہ شکست اور فتح کا مسئلہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے وجود و عدم کا مسئلہ ہے سب متحد ہوئے اور سنہ 1565ء میں وجے نگر کی حکومت کو شکست دی<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، ص76-83۔</ref> سنہ 1687 میں جب مغل حکمران اورنگزیب کا یہاں قبضہ ہوا تو  میسور بھی اس کے قبضے میں آگی<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، ص84۔</ref>ا
میسور میں عرب تاجروں کے ذریعے اسلام پہنچاپہلی صدی ہجری میں ہی حجاز و یمن سے تجارتی قافلے پہنچے جن کا سلسلہ اسلام سے پہلے بھی تھا۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص75۔</ref> یہاں پر وجے نگر کی ہندو سلطنت تھی اور اس کے قریب میں مسلم ریاستوں میں سب سے مضبوط بیجاپور کی عادل شاہی حکومت تھی۔ وجے نگر کے بار ے میں کہا جاتا ہے کہ متعصب اور ظالم حکمران تھا جس نے مسلمانوں پر بڑا ظلم کیا جس کی وجہ سے مسلم سلاطین سمجھ گئے کہ یہ شکست اور فتح کا مسئلہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے وجود و عدم کا مسئلہ ہے سب متحد ہوئے اور سنہ 1565ء میں وجے نگر کی حکومت کو شکست دی<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص76-83۔</ref> سنہ 1687 میں جب مغل حکمران اورنگزیب کا یہاں قبضہ ہوا تو  میسور بھی اس کے قبضے میں آگی<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص84۔</ref>ا
==سلطنت خداداد کے قیام کے وقت میسور کے حالات==
==سلطنت خداداد کے قیام کے وقت میسور کے حالات==
سنہ 1761ء میں جب نواب حیدرعلی خان نے حکومت سنبھالی تو اس وقت میسور کی حکومت 33 گاوں پر مشتمل سلطنت مغلیہ کی باج گذار تھی، ایک مخصوص طبقہ خوشحال تھا، غلامی کا رواج تھا، ہندو عورتوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی، مندروں میں انسانی بھینٹ چڑھائی جاتی تھیں، عورتیں نیم عریان ہوکر بازاروں میں گھومتی تھیں،ایک ہندو عورت کے چار شوہر ہوتے تھے، منشیات عام تھا اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی توحید خالص سے دور خرافات اور بدعتوں کے مرتکب تھے اور کسی اجنبی کے لئے ہندو اور مسلمان میں تفریق دشوار تھا۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، ص84-85۔</ref>
سنہ 1761ء میں جب نواب حیدرعلی خان نے حکومت سنبھالی تو اس وقت میسور کی حکومت 33 گاوں پر مشتمل سلطنت مغلیہ کی باج گذار تھی، ایک مخصوص طبقہ خوشحال تھا، غلامی کا رواج تھا، ہندو عورتوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی، مندروں میں انسانی بھینٹ چڑھائی جاتی تھیں، عورتیں نیم عریان ہوکر بازاروں میں گھومتی تھیں،ایک ہندو عورت کے چار شوہر ہوتے تھے، منشیات عام تھا اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی توحید خالص سے دور خرافات اور بدعتوں کے مرتکب تھے اور کسی اجنبی کے لئے ہندو اور مسلمان میں تفریق دشوار تھا۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص84-85۔</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات2}}
{{حوالہ جات2}}
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
7,634

ترامیم