مندرجات کا رخ کریں

"عبد اللہ بن مسعود" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 35: سطر 35:


[[مدینہ]]  میں عثمان نے اسے ناسزا کہا اور حکم دیا کہ اسے زبردستی مسجد سے باہر لے جائیں ۔ <ref>بلاذری، انساب، ج۵، صص۳۶-۳۷؛ سیدمرتضی، ج۴، صص۲۸۱-۲۸۲</ref>
[[مدینہ]]  میں عثمان نے اسے ناسزا کہا اور حکم دیا کہ اسے زبردستی مسجد سے باہر لے جائیں ۔ <ref>بلاذری، انساب، ج۵، صص۳۶-۳۷؛ سیدمرتضی، ج۴، صص۲۸۱-۲۸۲</ref>
<!--
 
اسکے بعد ابن مسعود  ۳ سال تک [[مدینہ]] میں رہا لیکن مدینے سے باہر جانے کی اسے اجازت نہ تھی ۔<ref>بلاذری، انساب، ج۵، ص۳۷</ref> یہانتک کہ مدینے میں حضرت [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے قتل سے ۲ سال پہلے مدینے ہی میں وفات پائی۔<ref>طبری، تاریخ، ج۱، ص۲۸۹۴؛ ابن عساکر، ج۳۹، صص۱۳۴- ۱۳۹</ref> مدینے میں اس دوران عثمان نے  [[بیت المال]] سے ملنے والے عطیے قطع کر دئے لیکن اسکی وفات کے بعد اسکے وصی  [[زبیر بن عوام|زبیر بن عوام]] کی درخواست ہر ابن مسعود کے اہل خانہ کو بیت المال سے عطیے کی رقم دی ۔<ref>بلاذری، فتوح، ص۴۶۱</ref> ابن مسعود کی حضرت عثمان سے عدم رضایت کا ایک سبب [[ربذہ|رَبَذہ]] میں [[ابوذر]] کی تدفین میں شرکت اور نماز جنازہ پڑھنا تھا۔<ref>سید مرتضی، ج۴، ص۲۸۳؛ ر.ک: ابن ہشام، ج۲، ص۵۲۴؛ واقدی، ج۲، ص۱۰۰۲؛ خلیفہ بن خیاط، ج۱، ص۱۷۷؛ طبری، تاریخ، ج۱، صص۲۸۹۵-۲۸۹۶</ref>
اسکے بعد ابن مسعود  ۳ سال تک [[مدینہ]] میں رہا لیکن مدینے سے باہر جانے کی اسے اجازت نہ تھی ۔<ref>بلاذری، انساب، ج۵، ص۳۷</ref> یہانتک کہ مدینے میں حضرت [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے قتل سے ۲ سال پہلے مدینے ہی میں وفات پائی۔<ref>طبری، تاریخ، ج۱، ص۲۸۹۴؛ ابن عساکر، ج۳۹، صص۱۳۴- ۱۳۹</ref> مدینے میں اس دوران عثمان نے  [[بیت المال]] سے ملنے والے عطیے قطع کر دئے لیکن اسکی وفات کے بعد اسکے وصی  [[زبیر بن عوام|زبیر بن عوام]] کی درخواست ہر ابن مسعود کے اہل خانہ کو بیت المال سے عطیے کی رقم دی ۔<ref>بلاذری، فتوح، ص۴۶۱</ref> ابن مسعود کی حضرت عثمان سے عدم رضایت کا ایک سبب [[ربذہ|رَبَذہ]] میں [[ابوذر]] کی تدفین میں شرکت اور نماز جنازہ پڑھنا تھا۔<ref>سید مرتضی، ج۴، ص۲۸۳؛ ر.ک: ابن ہشام، ج۲، ص۵۲۴؛ واقدی، ج۲، ص۱۰۰۲؛ خلیفہ بن خیاط، ج۱، ص۱۷۷؛ طبری، تاریخ، ج۱، صص۲۸۹۵-۲۸۹۶</ref>



نسخہ بمطابق 11:00، 21 جون 2017ء

عبد اللہ بن مسعود بن غافل بن حبیب ہُذَلی(متوفا ۳۲ق) ابن مسعود کے نام سے معروف رسول اللہ کے اصحاب میں سے ہے ۔وہ ایک محدث اور مفسر قرآن کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے ۔اسکے اپنے قول کے مطابق وہ اسلام قبول کرنے والوں میں سے چھٹے نمبر ہے ۔ ابن مسعود حبشہ کی ہجرت میں شریک تھا ۔نیز مکہ سے مدینہ ہجرت بھی کی اور جنگ بدر و احد میں موجود تھا ۔ رحلت پیامبر کے بعد رِدّه اور فتح شام کی جنگوں میں شریک رہا ۔ ۲۱ق، میں عمر بن خطاب نے ابن مسعود کو عمار کے ہمراہ بیت المال کی نظارت اور قضاوت کیلئے کوفہ بھیجا ۔حضرت عثمان نے اپنے دور خلافت میں سعد بن ابی وقاص کے ساتھ نزاع کی بنا پر مدینہ بدر کر دیا ۔اس نے عثمان کے قتل سے پہلے مدینہ میں وفات پائی ۔

وہ پہلے حافظین قرآن میں سے ہے اور رسول اللہ سے کسی واسطے کے بغیر ستر(70) سورتیں سماعت کیں ۔ اس نے مصحف کو کچھ افراد کے سامنے قرات کیا تو انہوں نے اسے لکھا ۔ عثمان کی جانب سے قرآن کی جمع آوری کا حکم صادر ہوا تو پہلے اس حکم کے ماننے سے انکاری ہوا لیکن پھر مجبور ہو کر اسے دے دیا ۔ابن مسعود تمام مسلمانوں کے نزدیک قابل احترام صحابی ہے ۔آئمہ کی تعداد کے بارے میں اس سے روایت منقول ہے ۔

ولادت ،نسب،پیشہ

عبد اللہ مكہ میں پیدا ہوا۔وہ بنی ہذیل قبیلے سے تھا لیکن اسکا باپ زمانۂ جاہلیت میں بنی زہره کا حلیف تھا لہذا وہ بھی بعد میں حلیف بنی زہره‌ سے پہچانا جاتا تھا۔ اسکی والدہ کے صحابیہ میں سے ہونے کی وجہ سے اسے ابن ام عبد‌ بھی کہتے تھے۔[1] کنیت: ابوعبد الرحمان ذکر ہوئی ہے ۔[2]

عبد اللہ بچپنے میں عقبہ بن ابی معیط کے جانوروں کی گلہ بانی کرتا تھا۔ اسی وجہ سے ابوجہل اسکی تحقیر کرتا ۔ [3] مسلمان ہونے سے پہلے أرقَم‌ کے گھر زندگی بسر کرتا تھا اور اسلام قبول کرنے کے بعد پیامبر اکرم(ص) کے گھر کی خدمت گزاری کیلئے قبول کیا گیا ۔

رسول اللہ (ص) کی حیات طیبہ

رسول اللہ کی دعوت اسلام کے آغاز میں معجزہ دیکھ کر اسلام قبول کیا ۔اسی وجہ سے اسکا نام پہلے مسلمانوں کی فہرست میں سے شمار ہوتا ہے ۔۔نیز اسکے اپنے کہنے کے مطابق وہ اسلام قبول کرنے والا چھٹا شخص تھا۔[4]

وہ ہجرت حبشہ کے گروہ میں سے بھی تھا ۔ منابع میں حبشہ کی جانب اسکی دو مرتبہ ہجرت ذکر ہوئی ہے ۔[5] ابن مسعود حبشہ سے واپسی کے بعد رسول خدا کی مدینہ ہجرت کے بعد مدینہ گیا اور رسول اللہ نے اسکے اور معاذ بن جبل[6] یا زبیر بن عوام[7] کے درمین عقد اخوت پڑھا۔اس نے جنگ بدر میں شرکت کی اور ابوجہل کو قتل کیا. پیامبر(ص) نے اس سے خوش ہو کر اپنی تلوار اسے بخش دی ۔[8]

ابن عباس اسے پیامبر(ص) کے ان ساتھیوں میں سے سمجھتا ہے جو احد کے روز بھی رسول سے جدا نہیں ہوئے ۔[9] نیز کہتے ہیں اس نے بہت سی غزوات میں شرکت کی ۔ [10] وہ اکثر پیامبر(ص) کے ساتھ رہتا اور انی بہت زیادہ خدمت کرتا ۔[11]

رحلت پیغمبر(ص) کے بعد

خلافت اول

ابن مسعود کی رسول خدا کے زمانے کی زندگی کے بارے میں دقیق معلومات نہیں ہے ۔اسکی اپنی ایک گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ابو بکر زمانے میں ردّه کی جنگوں می شریک تھا ۔ [12] طبری نیز سیف بن عمر کے حوالے سے نقل کرتا ہے کہ جنگ یرموک میں غنائم کی محافظت اسکے سپرد تھی ۔[13]

خلافت دوم

ابن مسعود نے عمر کے دور خلافت میں شام کی فتح میں شرکت کی ۔کچھ مدت وہاں قضاوت اور قرآن کی تعلیم میں مشغول رہا۔[14] اسی طرح تاریخی روایات کے مطابق مداین میں فقہ اور قرآن می تعلیم میں مشغول رہا۔[15]

نظارت بیت المال

۲۱ق میں عمر نے اسے حمص سے طلب کیا اور اسے عمار کے ساتھ کوفہ کے بیت المال کی نظارت اور قضاوت کیلئے بھیج دیا ۔[16] عُمَر نے کچھ عرصہ بعد عمار کو معزول کرد دیا اور مغیرة بن شعبہ کو اسکی جگہ نصب کیا بلاذری کی روایت کے مطابق معزولی کا سبب عبد اللہ ابن مسعود کے ساتھ نزاع تھی ۔ [17]

تیسری خلافت

حضرت عمر کی رحلت کے بعد ابن مسعود مدینہ آ گیا اور عثمان کی بیعت کرنے کے بعد کوفہ لوٹ گیا اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی [18] نیز عثمان نے بھی اسے پہلے عہدے پر باقی رکھا اور اسے عراق میں زمین بخش دی۔[19]

طبری کی سیف بن عمر سے منقول روایت کے مطابق انہی ایام میں کوفہ کے والی کی عدم موجودگی میں ابن مسعود اور سعد بن ابی وقاص کے درمیان بیت المال کو قرض لوٹانے کے معاملے پر جھگڑا ہو گیا ۔اسکی خبر جب خلیفہ کو پہنچی تو حضرت عثمان بن عفان نے سعد کو معزول کر دیا اور ابن مسعود سے ناراض ہوا ۔[20] لیکن اسکے مقابلے میں دیگر تاریخی روایات میں ایسا جھگڑا ابن مسعود اور کوفے کے والی ولید بن عقبہ کے درمیان ہوا ۔[21] اس جھگڑے کے نتیجے میں ولید نے خلیفہ کے پاس شکایت کی تو خلیفہ نے اسے مدینے واپس بلا لیا [22]

مدینہ میں عثمان نے اسے ناسزا کہا اور حکم دیا کہ اسے زبردستی مسجد سے باہر لے جائیں ۔ [23]

اسکے بعد ابن مسعود ۳ سال تک مدینہ میں رہا لیکن مدینے سے باہر جانے کی اسے اجازت نہ تھی ۔[24] یہانتک کہ مدینے میں حضرت عثمان کے قتل سے ۲ سال پہلے مدینے ہی میں وفات پائی۔[25] مدینے میں اس دوران عثمان نے بیت المال سے ملنے والے عطیے قطع کر دئے لیکن اسکی وفات کے بعد اسکے وصی زبیر بن عوام کی درخواست ہر ابن مسعود کے اہل خانہ کو بیت المال سے عطیے کی رقم دی ۔[26] ابن مسعود کی حضرت عثمان سے عدم رضایت کا ایک سبب رَبَذہ میں ابوذر کی تدفین میں شرکت اور نماز جنازہ پڑھنا تھا۔[27]

آخر کار ابن مسعود ۳۲ ہجری قمری کے سال مدینے میں اس جہان سے رخصت ہو کر بقیع میں مدفون ہوا۔[28]

ابن مسعود و قرآن

وہ رسول خدا کے بعد پہلا شخص ہے جس نے مشرکین کے سامنے بلند آواز میں قرآن کی تلاوت کی اور ان سے اذیت اٹھائی۔[29] ابن مسعود نزول قرآن کی بہت سی مناسبتوں میں موجود تھا ۔ اسکے اپنے کہنے کے مطابق ۷۰ سورتوں سے زیادہ قرآن رسول اللہ سے سنا ۔ [30] اور وہ اس زمانے میں لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیتا تھا ۔

ایک روایت کی بنا ہر ابن مسعود ان چار افراد میں سے ہے رسول اللہ نے جن ست قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کی نصیحت کی تھی۔ [31] وہ بہت عرصے تک مدینہ اور کوفہ میں رحلت پیغمبر کے بعد قرآن کی تعلیم میں مشغول رہا ۔ حتاکہ ابن عباس جیسے بزرگ صحابہ نے اس سے قرآن کا علم حاصل کیا اور کئی موارد میں ابن مسعود کی قرائت کی۔[32]

قرائت ابن مسعود

حوالہ جات

  1. الاستیعاب،1380، ج۳، ص۹۸۷ و ۹۸۸
  2. الاستیعاب،1380، ج۳، ص۹۸۷ و ۹۸۸.
  3. المغازی، ج۱، ص۸۹.
  4. الغدیر، ج۹، ص۱۱.
  5. عروة بن زبیر، ۱۰۵؛ ابن اسحاق، ۱۷۶؛ ابن سعد، ۱ (۱) /۱۳۷، ۳ (۱) /۱۰۷
  6. ابن سعد، ۳ (۲) /۱۲۰-۱۲۱؛ بلاذری، همان، ج۱، ص۲۷۱
  7. ابن ہشام، ج۱، ص۵۰۵؛ ابن شبہ، ج۳، ص۱۰۵؛ بلاذری، بلاذری، ج۱، ص۲۷۰
  8. عروة بن زبیر، صص۱۴۲-۱۴۳؛ ابن ہشام، ج۱، صص۶۳۵ -۶۳۶، ۷۱۰-۷۱۱؛ واقدی، ج۱، صص۸۹ -۹۱
  9. ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۲۹۳
  10. ابن سعد، ۳ (۱) /۱۰۸
  11. ابن شبه، ج۱، ص۳۰۳
  12. بلاذری، فتوح، ص۹۴
  13. طبری، تاریخ، ج۱، ص۲۰۹۵
  14. طبری، تاریخ ج۱، صص۲۳۹۲-۲۳۹۳
  15. یعقوبی، ۲/۱۲۹
  16. بلاذری، فتوح، ص۲۶۹؛ طبری، تاریخ ج۱، صص ۲۶۳۷، ۲۶۴۵-۲۶۴۷
  17. بلاذری، انساب، ج۱، ص۱۶۸
  18. ابن شبہ، ج۳، ص۹۵۷؛ بلاذری، انساب، ج۵، ص۲۳
  19. بلاذری، فتوح، ص۲۷۳
  20. طبری، تاریخ، ج۱، صص۲۸۱۱-۲۸۱۳
  21. ر.ک:بلاذری، انساب، ج۵، صص۳۰-۳۱، بحوالۂ ابومخنف؛ ابن عبدربہ، ج۴، صص۳۰۶- ۳۰۷
  22. ابن شبه، ج۳، ص۱۰۴۹؛ ابن عبدالبر، ج۳، ص۹۳۳؛ ابن اثیر، اسد، ج۳، ص۲۶۰؛ ابن حجر، الاصابہ، ج۴، ص۱۳۰
  23. بلاذری، انساب، ج۵، صص۳۶-۳۷؛ سیدمرتضی، ج۴، صص۲۸۱-۲۸۲
  24. بلاذری، انساب، ج۵، ص۳۷
  25. طبری، تاریخ، ج۱، ص۲۸۹۴؛ ابن عساکر، ج۳۹، صص۱۳۴- ۱۳۹
  26. بلاذری، فتوح، ص۴۶۱
  27. سید مرتضی، ج۴، ص۲۸۳؛ ر.ک: ابن ہشام، ج۲، ص۵۲۴؛ واقدی، ج۲، ص۱۰۰۲؛ خلیفہ بن خیاط، ج۱، ص۱۷۷؛ طبری، تاریخ، ج۱، صص۲۸۹۵-۲۸۹۶
  28. الاستیعاب،۱۴۱۲ق، ج۳،ص۹۹۴
  29. ابن اسحاق، ص۱۸۶؛ بلاذری، ج۱، ص۱۶۲
  30. بخاری، ج۳، ص۲۲۸؛ مسلم، ج۴، ص۱۹۱۲؛ نسائی، ج۸، ص۱۳۴
  31. بخاری، ج۲، ص۳۰۷؛ مسلم، ج۴، صص۱۹۱۳-۱۹۱۴؛ ترمذی، ج۵، ص۶۷۴
  32. ابن ابی داوود، ص۵۵

منابع

  • ابن آدم، یحیی، الخراج، احمد محمد شاکر، قاہره، ۱۳۴۷ق / ۱۹۲۸م.
  • ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نہج البلاغہ، محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہره، ۱۳۷۸-۱۳۸۴ق.
  • ابن ابی داوود، عبد اللہ، المصاحف، قاہره، ۱۳۵۵ق /۱۹۳۶م.
  • ابن اثیر، علی، اسد الغابہ، قاہره، ۱۲۸۰ق.
  • ابن اثیر، الکامل؛ ابن اسحاق، محمد، السیر و المغازی، سہیل زکار، دمشق، ۱۳۹۸ق /۱۹۷۸م.
  • ابن بابویہ، محمد، الخصال، علی اکبر غفاری، قم، ۱۴۰۳ق /۱۳۶۲ش.
  • ابن بابویہ، عیون اخبار الرضا، نجف، ۱۳۹۰ق /۱۹۷۰م.
  • ابن بابویہ، کمال الدین، علی اکبر غفاری، تهران، ۱۳۹۰ق.
  • ابن جزری، محمد، غایۃ النہایہ، گ. برگشترسر، قاہره، ۱۳۵۱ق /۱۹۳۲م.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد، الاصابہ، قاہره، ۱۳۲۸ق.
  • ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، حیدرآباد دکن، ۱۳۲۶ق.
  • ابن حزم، علی، الاحکام فی اصول الاحکام، بیروت، ۱۴۰۵ق /۱۹۸۵م.
  • ابن خالویہ، حسین، مختصر فی شواذ القرآن، گ. برگشترسر، قاہره، ۱۹۳۴م.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبیر، زاخاو و دیگران، لیدن، ۱۹۰۴- ۱۹۱۸م.
  • ابن سلاّم اباضی، بدءالاسلام، ورنر شوارتس و سالم بن یعقوب، ویسبادن، ۱۴۰۶ق /۱۹۸۶م.
  • ابن شبہ، عمر، تاریخ المدینہ المنورة، فہیم محمد شلتوت، حجاز، ۱۳۹۹ق /۱۹۷۹م.
  • ابن عبدالبر، یوسف، الاستیعاب، علی محمد بجاوی، قاہره، ۱۳۸۰ق /۱۹۶۰م.
  • ابن عبدالبر، أبو عمر یوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (م ۴۶۳)،الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،‌دار الجیل، ط الأولی، ۱۴۱۲.
  • ابن عبدربہ، احمد، العقد الفرید، احمد امین و دیگران، قاہره، ۱۹۴۰-۱۹۵۳م.
  • ابن عساکر، علی، تاریخ مدینہ دمشق، سکینہ شہابی، دمشق، ۱۴۰۶ق / ۱۹۸۶م.
  • ابن قتیبہ، عبد اللہ، تأویل مختلف الحدیث، محمد زہری نجار، بیروت، دارالجلیل؛
  • ابن قیم جوزیہ، محمد، اعلام الموقعین، طہ عبدالرئوف سعد، بیروت، ۱۹۷۳م.
  • ابن کثیر، اسماعیل، تفسیر، بولاق، ۱۳۰۰ق.
  • ابن ماجہ، محمد، سنن، محمد فؤاد عبدالباقی، قاہره، ۱۹۵۲-۱۹۵۳م.
  • ابن مجاہد، احمد، السبعة فی القراءات، شوقی ضیف، قاہره، ۱۳۷۲ق.
  • ابن مہران، احمد، المبسوط، سبیع حمزه حاکمی، دمشق، ۱۴۰۷ق /۱۹۸۶م.
  • ابن ندیم، الفہرست؛
  • ابن ہشام، عبدالملک، السیرة النبویہ، ابراہیم ابیاری و دیگران، قاہره، ۱۳۷۵ق /۱۹۵۵م.
  • ابواسحاق شیرازی، ابراہیم، طبقات الفقہاء، احسان عباس، بیروت، ۱۴۰۱ق /۱۹۸۱م.
  • ابوداوود، سلیمان، سنن، محمد محیی الدین، عبدالحمید، قاہره، داراحیاء السنہ النبویہ؛
  • ابوعمرودانی، عثمان، التیسیر، اوتوپرتسل، استانبول، ۱۹۳۰م.
  • ابوالقاسم کوفی، علی، الاستغاثہ، قم، دارالکتب العلمیہ؛
  • ابونعیم اصفہانی، احمد، حلیۃ الاولیاء، قاہره، ۱۳۵۱ق /۱۹۳۲م.
  • احمد بن حنبل، مسند، قاہره، ۱۳۱۳ق.
  • ارنؤوط، شعیب و حسین اسد، حاشیہ بر سیراعلام النبلاء ذهبی، بیروت، ۱۴۰۵ق.
  • استرآبادی، علی، تأویل الا¸یات الظاہرة، محمد باقر موحد ابطحی، قم، ۱۳۶۶ش.
  • اسفراینی، طاہر، التبصیر فی الدین، کمال یالموازنہوسف حوت، بیروت، ۱۴۰۳ق /۱۹۸۳م.
  • اسکافی، محمد، المعیار و ، محمدباقر محمودی، بیروت، ۱۴۰۲ق /۱۹۸۱م.
  • اشعری، علی، مقالات الاسلامیین، هلموت ریتر، ویسبادن، ۱۴۰۰ق /۱۹۸۰م.
  • الایضاح، منسوب به فضل بن شاذان، بیروت، ۱۴۰۲ق /۱۹۸۲م.
  • بخاری، محمد، صحیح، بولاق، ۱۳۱۵ق؛ بسوی، یعقوب، المعرفۃ و التاریخ، تحقیق اکرم ضیاءعمری، بغداد، ۱۹۷۵م.
  • بغدادی، عبدالقاهر بن طاهر، الفرق بین الفرق، محمد زاهد کوثری، قاہره، ۱۳۶۷ق /۱۹۴۸م.
  • بیهقی، احمد، السنن الکبری، حیدرآباد دکن، ۱۳۴۴ق.
  • بلاذری، احمد، انساب الاشراف، ج۱، محمد حمیدالله، قاہره، ۱۹۵۹م.
  • بلاذری، همان، ج۵، گویتین، بیت المقدس، ۱۹۳۶م؛ همو، فتوح البلدان، تحقیق دخویه، لیدن، ۱۸۶۶م.
  • ترمذی، محمد، سنن، ابراہیم عطوة عوض، قاہره، ۱۳۸۱ق.
  • جصّاص، احمد، احکام القرآن، محمد صادق قمحاوی، بیروت، ۱۴۰۵ق.
  • جلودی، عبدالعزیز، «‌ما نزل من القرآن »، احمد پاکتچی، تراثنا، قم، ۱۴۱۲ق، شم ۲۴.
  • حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک علی الصحیحین، حیدرآباد دکن، ۱۳۳۴ق؛
  • خزاز، علی، کفایة الاثر، قم، ۱۴۰۱ق؛ خطیب بغدادی، احمد، تاریخ بغداد، قاہره، ۱۳۴۹ق.
  • خزاز، تقیید العلم، یوسف عش، داراحیاء السنة النبویة، ۱۹۷۴م.
  • خزاز، شرف اصحاب الحدیث، محمد سعید خطیب اوغلی، آنکارا، ۱۹۷۱م.
  • خلیفة بن خیاط، تاریخ، سهیل زکار، دمشق، ۱۹۶۸م.
  • خوارزمی، محمد، جامع مسانید ابی حنیفة، حیدرآباد دکن، ۱۳۳۲ق.
  • دارمی، عبد اللہ، سنن، دمشق، ۱۳۴۹ق؛ درجینی، احمد، طبقات المشایخ بالمغرب، ابراہیم طلای، قسنطینہ، ۱۳۹۴ق /۱۹۷۴م.
  • ذهبی، محمد، سیراعلام النبلاء، شعیب ارنؤوط و اکرم بوشی، بیروت ۱۴۰۴ق /۱۹۸۶م.
  • رودانی، محمد، صلة الخلف، محمد حجی، بیروت، ۱۴۰۸ق /۱۹۸۸م.
  • زمخشری، محمود، الکشاف، قاہره، ۱۳۶۶ق /۱۹۴۷م؛
  • سبکی، عبدالوہاب، طبقات الشافعیہ الکبری، تحقیق عبدالفتاح محمد حلو و محمود محمد طناحی، قاہره، ۱۳۸۵ق /۱۹۶۶م.
  • سرخسی، شمس الدین، المبسوط، تحقیق خلیل میس، بیوت، ۱۴۰۰ق /۱۹۸۰م.
  • سیاری، احمد، القراءات، نسخہ خطی کتابخانہ آیت الله مرعشی، شم ۵۲۲۲.
  • سید مرتضی، علی، الشافی فی الامامہ، تحقیق عبدالزہراء حسینی، تهران، ۱۴۰۷ق /۱۹۸۷م.
  • سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہره، ۱۳۸۷ق /۱۹۶۷م.
  • شماخی، احمد، السیر، تحقیق احمد سیایی، مسقط، ۱۴۰۷ق /۱۹۸۷م.
  • شهرستانی، محمد، الملل و النحل، تحقیق محمد بن فتح الله بدران، قاہره، ۱۳۷۵ق /۱۹۵۶م.
  • طبرانی، سلیمان، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی عبدالحمید سلفی، بغداد، وزارة الاوقاف؛
  • طبری، تاریخ.
  • طبری، تفسیر.
  • طوسی، محمد، اختیار معرفۃ الرجال، تحقیق حسن مصطفوی، مشہد، ۱۳۴۸ش.
  • طوسی، التبیان، نجف، ۱۳۷۶ق /۱۹۵۷م؛
  • طوسی، الغیبة، نجف، ۱۳۸۵ق؛ ظاہریہ، خطی (حدیث)؛ عروة بن زبیر، مغازی رسول الله(ص)، تحقیق محمد مصطفی اعظمی، ریاض، ۱۴۰۱ق /۱۹۸۱م.
  • فراء، یحیی، معانی القرآن، تحقیق احد یوسف نجاتی و محمدعلی نجار، قاہره، ۱۹۷۲م.
  • فرات کوفی، تفسیر، نجف، ۱۳۵۴ق.
  • کلبی، ہشام، جمہرة النسب، تحقیق ناجی حسن، بیروت، ۱۴۰۷ق /۱۹۸۶م.
  • کندی، محمد، بیان الشرع، تحقیق عبدالحفیظ شلبی، مسقط، ۱۴۰۲ق /۱۹۸۲م.
  • المبانی ، مقدمتان فی علوم القرآن، تحقیق آرتور جفری، قاہره، ۱۹۵۴م.
  • مرعشلی، یوسف عبدالرحمان، فہرس احادیث المستدرک علی الصحیحین، بیروت، ۱۴۰۶ق /۱۹۸۶م.
  • مرغینانی، علی، الہدایہ ، همراه فتح القدیر، قاہره، ۱۳۱۹ق.
  • مزی، یوسف، تحفۃ الاشراف، بمبئی، ۱۳۹۶ق /۱۹۷۶م.
  • مسلم بن حجاج، صحیح، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، قاہره، ۱۹۵۵م.
  • مقدسی، محمد، احسن التقاسیم، تحقیق دخویہ، لیدن، ۱۹۰۶م؛
  • مقدسی، یوسف، عقدالدرر، تحقیق عبدالفتاح محمدحلو، قاہره، ۱۳۹۹ق /۱۹۷۹م.
  • نسائی، احمد، سنن، قاہره، ۱۳۴۸ق؛
  • نعمانی، محمد، الغیبہ، بیروت، ۱۴۰۳ق /۱۹۸۳م.
  • نووی، محیی الدین، تہذیب الاسماء و اللغات، قاہره، ادارة الطباعة المنیریہ.
  • واقدی، محمد، المغازی، تحقیق مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶م.
  • یعقوبی، احمد، تاریخ، نجف، ۱۳۵۸ق.
  • Goldziher, I., Die Richtungen der islmischen Koranauslegung, Leiden, 1970.
  • N N ldeke, Th., Geschichte des Qorans, Leipzig, 1919; Schacht, J., the Origins of Muhammadan Juriprudence, Oxford, 1953.