گمنام صارف
"امام محمد باقر علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق
←امامت
imported>E.musavi |
imported>E.musavi (←امامت) |
||
سطر 67: | سطر 67: | ||
== امامت == | == امامت == | ||
امام محمد بن [[علی بن الحسین]] بن علی، [[باقر علیہ السلام]] سنہ | امام محمد بن [[علی بن الحسین]] بن علی، [[باقر علیہ السلام]] سنہ 95 ہجری میں اپنے والد ماجد امام [[علی بن الحسین]] [[علی بن الحسین|زین العابدین علیہ السلام]] کی شہادت کے ساتھ ہی منصب امامت پر فائز ہوئے اور سنہ 114 ہجری (یا 117 یا 118 ہجری) میں [[ہشام بن عبدالملک]] کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے تک [[شیعیان آل رسولؐ]] کے امام و رہبر و پیشوا تھے۔ | ||
=== دلائل امامت === | === دلائل امامت === | ||
[[جابر بن عبداللہ انصاری|جابر بن عبداللہ]] سے مروی ہے: میں نے [[رسول اللہؐ]] سے [[امام علی علیہ السلام|امیر المؤمنین علیہ السلام]] کے بعد کے آئمہ کے بارے میں استفسار کیا تو آپؐ نے فرمایا: علی کے بعد جوانان جنت کے دو سردار [[امام حسن علیہ السلام|حسن]] و [[امام حسین علیہ السلام|حسین]]، ان کے بعد اپنے زمانے کے عبادت گزاروں کے سردار [[علی بن الحسین]] اور ان کے بعد [[امام محمد باقر علیہ السلام|محمد بن علی]] جن کے دیدار کا شرف تم (یعنی جابر) بھی پاؤ گے | [[جابر بن عبداللہ انصاری|جابر بن عبداللہ]] سے مروی ہے: میں نے [[رسول اللہؐ]] سے [[امام علی علیہ السلام|امیر المؤمنین علیہ السلام]] کے بعد کے آئمہ کے بارے میں استفسار کیا تو آپؐ نے فرمایا: علی کے بعد جوانان جنت کے دو سردار [[امام حسن علیہ السلام|حسن]] و [[امام حسین علیہ السلام|حسین]]، ان کے بعد اپنے زمانے کے عبادت گزاروں کے سردار [[علی بن الحسین]] اور ان کے بعد [[امام محمد باقر علیہ السلام|محمد بن علی]] جن کے دیدار کا شرف تم (یعنی جابر) بھی پاؤ گے اور ۔۔۔ میرے خلفاء اور آئمہ معصومین ہیں۔<ref>کفایۃ الاثر، ص144-145۔</ref> | ||
علاوہ ازیں [[رسول اللہ]]ؐ سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 [[ائمۂ شیعہ]] کے اسمائے گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام باقر العلوم محمد بن علی الباقر علیہ السلام سمیت تمام ائمہؑ کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔{{نوٹ|مفید، الاختصاص، ص211؛ منتخب الاثر باب ہشتم ص97؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181؛ عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص 285۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 {{حدیث|اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم}} نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 آئمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں( | علاوہ ازیں [[رسول اللہ]]ؐ سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 [[ائمۂ شیعہ]] کے اسمائے گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام باقر العلوم محمد بن علی الباقر علیہ السلام سمیت تمام ائمہؑ کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔{{نوٹ|مفید، الاختصاص، ص211؛ منتخب الاثر باب ہشتم ص97؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181؛ عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص 285۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 {{حدیث|اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم}} نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 آئمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں (بحار الأنوار ج 23 ص290؛ اثبات الهداة ج 3، ص 123؛ المناقب ابن شہر آشوب، ج1، ص 283۔) حضرت علیؑ سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 {{حدیث|انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا}} نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛ بحار الأنوار ج36 ص337، (کفایۃالأثر ص 157۔) ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہؐ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔ سلیمان قندوزی حنفی، مترجم سید مرتضی توسلیان، ینابیع المودة، ج 2، ص 387 – 392، باب 76۔}} | ||
[[علی بن الحسین|امام سجاد]]ؑ اکثر و بیشتر لوگوں کو امام باقرؑ کی طرف متوجہ کرایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب آپ کے بیٹے [[عمر بن علی]] نے اپنے والد [[علی بن الحسین|امام زین العابدین]]ؑ سے دریافت کیا کہ | [[علی بن الحسین|امام سجاد]]ؑ اکثر و بیشتر لوگوں کو امام باقرؑ کی طرف متوجہ کرایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب آپ کے بیٹے [[عمر بن علی]] نے اپنے والد [[علی بن الحسین|امام زین العابدین]]ؑ سے دریافت کیا کہ آپ محمد باقر کو اس قدر توجہ کیوں دیتے ہیں اور اس خصوصی توجہ کا راز کیا ہے تو [[علی بن الحسین|امام سجاد]]ؑ نے فرمایا: اس کا سبب یہ ہے کہ امامت ان کے فرزندوں میں باقی رہے گی حتی کہ حضرت ہمارے [[حضرت مہدی|قائم]] قیام کریں اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے؛ چنانچہ وہ امام بھی ہیں اور اماموں کے باپ بھی۔<ref>کفایۃ الاثر، ص237۔</ref> | ||
شیخ مفید رقمطراز ہیں: امام باقرؑ فضل، علم، زہد اور جود و کرم میں اپنے تمام بھائیوں پر فوقیت اور برتری رکھتے تھے اور سب تعظیم کے ساتھ آپ کی مداحی کرتے تھے اور عوام و خواص آپ کا احترام کرتے نظر آتے تھے اور آپ کی قدر و منزلت دوسروں سے زیادہ تھی۔ علم دین، اور نبوی سنت و آثار، قرآنی حقائق، سیرت الہی اور فنونِ [[اخلاق]] و آداب کے فروغ اور ترویج میں [[امام حسن |امام حسن علیہ السلام]] اورانکے فرزندوں میں سے کسی نے بھی امام باقرؑ جتنے گرانقدر یادگاریں اور ابدی آثار اپنے بعد (بطور ورثہ) میں نہيں چھوڑے ہیں۔ حضرت امام باقرؑ کی خدمت میں شرف حضور حاصل کرنے والے باقی ماندۂ اصحاب رسولؐ امور دینیہ اور دین مبین کے احکام آپ سے اخذ کرتے اور آپ سے اس حوالے سے روایت کرتے تھے۔ نیز تابعین کے اکابرین اور فقہاء مسلمین کے سرکردہ بزرگ آپ کے حضور پر نور سے فیض کثیر حاصل کرتے تھے۔ آپ کے فضیلت و کرامت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ علم و کمال والوں کے درمیان آپ ایک ضرب المثل بن چکے تھے اور شعراء آپ کی شان میں قصائد انشاد کیا کرتے تھے اور اپنی کاوشوں کو آپ کے نام گرامی سے مزين کیا کرتے تھے۔<ref>مفید، الارشاد، ص509۔</ref> | شیخ مفید رقمطراز ہیں: امام باقرؑ فضل، علم، زہد اور جود و کرم میں اپنے تمام بھائیوں پر فوقیت اور برتری رکھتے تھے اور سب تعظیم کے ساتھ آپ کی مداحی کرتے تھے اور عوام و خواص آپ کا احترام کرتے نظر آتے تھے اور آپ کی قدر و منزلت دوسروں سے زیادہ تھی۔ علم دین، اور نبوی سنت و آثار، قرآنی حقائق، سیرت الہی اور فنونِ [[اخلاق]] و آداب کے فروغ اور ترویج میں [[امام حسن |امام حسن علیہ السلام]] اورانکے فرزندوں میں سے کسی نے بھی امام باقرؑ جتنے گرانقدر یادگاریں اور ابدی آثار اپنے بعد (بطور ورثہ) میں نہيں چھوڑے ہیں۔ حضرت امام باقرؑ کی خدمت میں شرف حضور حاصل کرنے والے باقی ماندۂ اصحاب رسولؐ امور دینیہ اور دین مبین کے احکام آپ سے اخذ کرتے اور آپ سے اس حوالے سے روایت کرتے تھے۔ نیز تابعین کے اکابرین اور فقہاء مسلمین کے سرکردہ بزرگ آپ کے حضور پر نور سے فیض کثیر حاصل کرتے تھے۔ آپ کے فضیلت و کرامت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ علم و کمال والوں کے درمیان آپ ایک ضرب المثل بن چکے تھے اور شعراء آپ کی شان میں قصائد انشاد کیا کرتے تھے اور اپنی کاوشوں کو آپ کے نام گرامی سے مزين کیا کرتے تھے۔<ref>مفید، الارشاد، ص509۔</ref> | ||
سطر 83: | سطر 83: | ||
امام باقرؑ کا عہد امامت درج ذیل پانچ اموی خلفا کے ہمزمان تھا: | امام باقرؑ کا عہد امامت درج ذیل پانچ اموی خلفا کے ہمزمان تھا: | ||
{{ستون آ|3}} | {{ستون آ|3}} | ||
#[[ولید بن | #[[ولید بن عبد الملک]] (86 تا 96) ہجری | ||
#[[سلیمان بن | #[[سلیمان بن عبد الملک]] (96 تا 99) ہجری | ||
#[[عمر بن | #[[عمر بن عبد العزیز]] (99 تا 101) ہجری | ||
#[[یزید بن | #[[یزید بن عبد الملک]] (101 تا 105) ہجری | ||
#[[ہشام بن | #[[ہشام بن عبد الملک]] (105 تا 125) ہجری | ||
{{ستون خ}} | {{ستون خ}} | ||
آپ کے ہم عصر اموی (مروانی خلفاء) میں سے عمر بن | آپ کے ہم عصر اموی (مروانی خلفاء) میں سے عمر بن عبد العزیز عدل و انصاف کا پابند اموی خلیفہ تھا۔ اس کے سوا باقی خلفا عدل کی راہ پر گامزن نہیں ہوئے اور ان سب نے [[شیعیان آل رسول]]ؐ سمیت مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے اور ان کے دربار میں بدعنوانی، امتیازی رویے اور آتش انتقام کے شعلے بکثرت دکھائی دیتے ہیں۔ | ||
== علمی تحریک == | == علمی تحریک == |