"سورہ اسراء" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 76: | سطر 76: | ||
اس آیت میں غیر علم کی پیروی نہ کرنے کی علت آنکھ، کان اور [[دل]] کی مسئولیت قرار دیتے ہیں۔ بعض [[مفسرین]] ان تین اعضاء کا نام حقیقت میں انسان کی نیابت میں لیا گیا ہے کیونکہ خدا خود انسان کو ثواب یا عقاب کرے گا نہ کہ ان اعضاء کو۔<ref>مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۴۳.</ref> اس کے مقابلے میں بعض مفسرین آنکھ، کان اور دل کی مسئولیت کو ان کی طرف سے انسان کے خلاف دینے والی گواہی سے تفسیر کرتے ہوئے اس باتکے معتقد ہیں کہ خدا انہی اعضاء سے پوچھ گچ کرتے ہیں تو یہ اعضاء حق بات کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں؛ کیونکہ یہی اعضاء علم حاصل کرنے کے ذرایع ہیں اور جب انسان غیر علم کی پیروی کرتے ہیں تو یہ اعضاء اس کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۹۴-۹۵.</ref> | اس آیت میں غیر علم کی پیروی نہ کرنے کی علت آنکھ، کان اور [[دل]] کی مسئولیت قرار دیتے ہیں۔ بعض [[مفسرین]] ان تین اعضاء کا نام حقیقت میں انسان کی نیابت میں لیا گیا ہے کیونکہ خدا خود انسان کو ثواب یا عقاب کرے گا نہ کہ ان اعضاء کو۔<ref>مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۴۳.</ref> اس کے مقابلے میں بعض مفسرین آنکھ، کان اور دل کی مسئولیت کو ان کی طرف سے انسان کے خلاف دینے والی گواہی سے تفسیر کرتے ہوئے اس باتکے معتقد ہیں کہ خدا انہی اعضاء سے پوچھ گچ کرتے ہیں تو یہ اعضاء حق بات کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں؛ کیونکہ یہی اعضاء علم حاصل کرنے کے ذرایع ہیں اور جب انسان غیر علم کی پیروی کرتے ہیں تو یہ اعضاء اس کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۹۴-۹۵.</ref> | ||
===آخرت نابینا ہونا=== | ===آخرت میں نابینا ہونا=== | ||
سورہ اسراء کی آیت نمبر 72 میں بعض انسانوں کا [[آخرت]] میں نابینا محشور ہونے کی طرف اشاره ملتا ہے جو دنیا اور آخرت کی ہم سنخی کی دلیل ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۶۹.</ref> [[علامہ طباطبائی]] آخرت میں نابینا ہونے کو آنکھوں کی بصارت کا خاتمہ نہیں قرار دیتے؛ بلکہ اس سے مراد بصیرت نہ ہونا اور باطنی بینائی سے محروم ہونا ہے؛ چنانچہ قرآن کی بعض دوسری آیات من جملہ [[سورہ حج]] کی آیت نمبر 46: "{{قرآن کا متن|فَإِنَّها لا تَعْمَى الْأَبْصارُ وَ لكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ|ترجمہ= }} میں اس نابینائی کو بصیرت کا فقدان قرار دیا ہے لہذا اس آیت کا معنی یہ ہو گا کہ جو بھی اس دنیا میں حق کے راستے کو قبول نہیں کرے گا وہ شخص آخرت میں بھی سعادت اور سرفرازی سے ہمکنار نہیں ہو گا۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۶۹.</ref> | |||
[[طبرسی]] | [[طبرسی]] آخرت کی نابینائی کو دنیا میں [[خدا]] کی نشانیوں کے انکار کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور [[ابن عباس]] سے نقل کرتے ہیں کہ خدا کی نعمتوں کا انکار [[قیامت]] کے دن بے بصیرتی کا موجب بنے گا۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۶۳.</ref> [[فخر رازی]] سے بھی منقول ہے کہ قیامت کے دن نابینا ہونا دنیا میں نابینا ہونے سے سخت ہے اور مذکورہ شخص زیادہ عقاب سے بھی دوچار ہو گا۔<ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۱، ص۳۷۸.</ref> | ||
=== عمل | === انسان کا عمل اس کی فردی خصوصیات کے مطابق ہونا===<!-- | ||
آیه ۸۶ اعمال انسان را مبتنی بر «شاکله» او دانسته است. گفتهاند: منظور از آن شخصیت روحی و روانی و اخلاقی انسان است که همه رفتارهای او ریشه در آن دارد.<ref>مرتضوی، درآمدی بر شکل گیری شخصیت جوان، ۱۳۷۹ش، ص۳۴و۳۵؛ قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۳ش، ج۷، ص۱۱۲.</ref> علامه طباطبایی ضمن بیان چنین تفسیری از شاکله، تأکید کرده است که شخصیت انسان تنها اقتضای انجام رفتاری خاص را دارد و هیچ گاه انسان را به انجام کاری مجبور نمیکند. | آیه ۸۶ اعمال انسان را مبتنی بر «شاکله» او دانسته است. گفتهاند: منظور از آن شخصیت روحی و روانی و اخلاقی انسان است که همه رفتارهای او ریشه در آن دارد.<ref>مرتضوی، درآمدی بر شکل گیری شخصیت جوان، ۱۳۷۹ش، ص۳۴و۳۵؛ قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۳ش، ج۷، ص۱۱۲.</ref> علامه طباطبایی ضمن بیان چنین تفسیری از شاکله، تأکید کرده است که شخصیت انسان تنها اقتضای انجام رفتاری خاص را دارد و هیچ گاه انسان را به انجام کاری مجبور نمیکند. | ||
<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۹۰.</ref> | <ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۹۰.</ref> |