مندرجات کا رخ کریں

"سورہ اسراء" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 71: سطر 71:
[[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے اس آیت کے نازل ہونے کے بد حضرت [[فاطمہ(س)]] کے لئے [[فدک]] بطور ہدیہ عطا فرمایا تھا۔<ref>حسینی جلالی، فدک و العوالی، ۱۳۸۴ش، ص۱۴۱-۱۴۹.</ref>
[[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے اس آیت کے نازل ہونے کے بد حضرت [[فاطمہ(س)]] کے لئے [[فدک]] بطور ہدیہ عطا فرمایا تھا۔<ref>حسینی جلالی، فدک و العوالی، ۱۳۸۴ش، ص۱۴۱-۱۴۹.</ref>


===کان، آنکھیں اور دل کی مسئولیت===<!--
===آنکھ، کان اور دل کی مسئولیت===
[[خداوند]] در آیه ۳۶ سوره « وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْم» انسان را از پیروی چیزی که بدان علم ندارد، نهی کرده است که بر اساس نظر [[علامه طباطبایی]] هم اعتقاد غیرعلمی و هم عمل غیرعلمی را شامل می‌شود. وی عدم پیروی از غیرعلم را مطابق با [[فطرت|فطرت انسانی]] می‌داند که در مسیر زندگی‌اش جز رسیدن به واقعیت هدفی ندارد و آن هم فقط از طریق پیروی از علم حاصل خواهد شد و با شک، وهم و گمان توان دست‌یابی به این هدف وجود نخواهد داشت.<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۹۲.</ref>
[[خدا]] نے سورہ اسرا کی آیت نمبر 36: "{{قرآن کا متن|وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْم|ترجمہ=اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے نہ پڑو یقیناً کان، آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں (تم سے) بازپرس کی جائے گی۔}}" میں انسان کو اس چیز کی پیروی کرنے سے منع کیا ہے جس چیز کے بارے میں انسان کو علم نہ ہو۔ [[علامہ طباطبایی]] کے مطابق یہ چیز اعتقاد غیرعلمی اور عمل غیرعلمی دونوں کو شامل کرتی ہے۔ علامہ طباطبائی غیر علم کی پیروی نہ کرنے کو انسانی [[فطرت]] کے مطابق قرار دیتے ہیں کیونکہ انسان اپنی زندگی میں واقعیت تک پہنچنے کے علاوہ کسی اور مقصد کے درپے می‌داند نہیں ہے اور یہ چیز صرف اور صرف علم کی پیروی کے ذریعے ممکن ہے اور شک اور ظمن و گمان کی پیروی کے ذریعے اس ہدف تک پہنچنا ممکن پذیر نہیں ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۹۲.</ref>


در این آیه علت عدم پیروی از غیرعلم را به دلیل مسئولیت گوش و چشم و [[قلب]] دانسته است. برخی [[مفسران]] یادآوری این سه عضو را به نیابت از صاحب آنان دانسته و اینکه خداوند صاحب آنان را [[پاداش]] می‌دهد یا مجازات می‌کند.<ref>مغنیه، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۴۳.</ref> در مقابل عده‌ای دیگر مسئولیت گوش و چشم و قلب را به گواهی آنان بر علیه آدمی تفسیر کرده و معتقدند خداوند همین اعضا را مورد بازخواست قرار می‌دهد و آنها ناچار از گفتن حق هستند؛ زیرا آنها وسایل تحصیل علم هستند و پیروی انسان از غیرعلم باعث گواهی آنان بر علیه انسان خواهد شد و انسان عذری نخواهد داشت.<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۹۴-۹۵.</ref>
اس آیت میں غیر علم کی پیروی نہ کرنے کی علت آنکھ، کان اور [[دل]] کی مسئولیت قرار دیتے ہیں۔ بعض [[مفسرین]] ان تین اعضاء کا نام حقیقت میں انسان کی نیابت میں لیا گیا ہے کیونکہ خدا خود انسان کو ثواب یا عقاب کرے گا نہ کہ ان اعضاء کو۔<ref>مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۴۳.</ref> اس کے مقابلے میں بعض مفسرین آنکھ، کان اور دل کی مسئولیت کو ان کی طرف سے انسان کے خلاف دینے والی گواہی سے تفسیر کرتے ہوئے اس باتکے معتقد ہیں کہ خدا انہی اعضاء سے پوچھ گچ کرتے ہیں تو یہ اعضاء حق بات کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں؛ کیونکہ یہی اعضاء علم حاصل کرنے کے ذرایع ہیں اور جب انسان غیر علم کی پیروی کرتے ہیں تو یہ اعضاء اس کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۹۴-۹۵.</ref>


===کوری در آخرت ===
===آخرت نابینا ہونا===<!--
آیه ۷۲ سوره اسراء که بر کور محشور شدن برخی افراد در [[آخرت]] اشاره دارد را نشانه یکسانی و مطابقت حیات دنیوی و اخروی دانسته‌اند.<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۶۹.</ref> [[علامه طباطبایی]] مراد از کوری در آخرت را کوری چشم نمی‌داند؛ بلکه منظور نداشتن بصیرت و دیده باطنی است؛ چنانکه در آیات دیگر قرآن از جمله آیه ۴۶ [[سوره حج]] «فَإِنَّها لا تَعْمَى الْأَبْصارُ وَ لكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ» این کوری را کوری بصیرت معنا کرده است و منظور این است که هرکه در این دنیا امام حق را نشناسد و راه حق را نپیماید، در آخرت سعادت و رستگاری نمی‌بیند.<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۶۹.</ref>
آیه ۷۲ سوره اسراء که بر کور محشور شدن برخی افراد در [[آخرت]] اشاره دارد را نشانه یکسانی و مطابقت حیات دنیوی و اخروی دانسته‌اند.<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۶۹.</ref> [[علامه طباطبایی]] مراد از کوری در آخرت را کوری چشم نمی‌داند؛ بلکه منظور نداشتن بصیرت و دیده باطنی است؛ چنانکه در آیات دیگر قرآن از جمله آیه ۴۶ [[سوره حج]] «فَإِنَّها لا تَعْمَى الْأَبْصارُ وَ لكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ» این کوری را کوری بصیرت معنا کرده است و منظور این است که هرکه در این دنیا امام حق را نشناسد و راه حق را نپیماید، در آخرت سعادت و رستگاری نمی‌بیند.<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۶۹.</ref>


confirmed، templateeditor
9,024

ترامیم