مندرجات کا رخ کریں

"صارف:Hkmimi/تمرین" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''سیل عَرِم''' اس بڑے سیلاب کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے یمن میں قوم سباء پر عذاب کے طور پر نازل ہوا تھا۔سورہ سباء کی 16ویں آیت میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہوا ہے جس کے مطابق اللہ تعالی کی طرف سے مَأرَب یعنی موجودہ صنعا میں لوگوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالی نے انبیاء بھیجنے اور لوگوں کی طرف سے ان انبیاء کو ماننے سے انکار کرنے کے بعد عرم کا بند (ڈیم) ٹوٹ گیا اور پورے شہر کو اپنے لپیٹ میں لیا۔ سیلاب کی وجہ سے شہر کے مشرق اور مغرب میں موجود دو آباد باغ شورزدہ زمین میں تبدیل ہوگئے۔
'''کتاب مَقتَلُ الحُسَین(ع)''' معروف به '''مقتل مُقَرَّم''' نوشته [[عبدالرزاق موسوی مقرم]] از عالمان [[شیعه]]، که به زندگی [[امام حسین(ع)]] و بررسی قیام و [[شهادت]] امام سوم شیعیان و حوادث پس از آن و نتایج [[واقعه عاشورا]] پرداخته است.
شرق شناس اور آثار قدیمہ کے ماہرین کی تحقیقات کے مطابق عرم کا سیلاب یمن میں موجودہ شہر صنعا کے شمال مشرق میں آیا تھا۔ اور سنہ 532ء کو یہ حادثہ رونما ہوا ہے۔
==سیل عرم کا واقعہ==
سیل عَرِم (عرم کا سیلاب) یمن کے شہر مارب میں ڈیم ٹوٹنے کی وجہ سے واقع ہوا اور شہر، باغات اور کھیت ویران ہوگئے۔<ref>دینوری، اخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۱۷؛ مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۶۱.</ref> تیسری صدی ہجرے کے مورخین ابن قتیبہ دینوری و علی بن حسین مسعودی کا کہنا ہے کہ [[قوم سبأ]] بھی اسی شہر میں بستی تھی۔<ref>دینوری، اخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۱۷؛ مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۶۱.</ref> [[علی بن حسین مسعودی|مسعودی]] کے مطابق سباء کی سرزمین باغات اور آبادی پر مشمل تھی۔ یمن کی سرزمین پر بہت سارے باغات اور فراوان اللہ کی نعمتیں تھیں اور یہ سب ڈیم کے پانی کی وجہ سے تھی۔<ref>مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۶۲.</ref>


تحقیقات اور تاریخی گزارشات کے مطابق یہ سیلاب سنہ447ء تا 450ء، یا اسلام کے ظہور سے 400 سو سال پہلے، چھٹی صدی عیسوی میں آیا ہے۔<ref>جعفریان، «نفوذ اسلام در یثرب»، ص۹۵؛ بی‌آزار شیرازی، باستان‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ۳۳۳.</ref>اسی طرح بعض تاریخی مصادر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہاں کے باشندے سیلاب سے پہلے ہی [[عراق]]، [[شام]] اور [[مدینہ|یثرب]] کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔<ref>منهاج سراج، طبقات ناصری، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۱۸۳.</ref>
== درباره مؤلف ==
{{اصلی|سید عبدالرزاق مقرم}}
سید عبدالرّزاق بن محمد موسوی مُقَرَّم مشهور به مقرم، (متولد ۱۳۱۶ قمری در [[نجف اشرف]]) عالم شیعی قرن چهاردهم [[هجری قمری|هجری]] است. شهرت او، به خاطر تألیف کتاب‌هایی درباره زندگی خاندان [[پیامبر (ص)]] است.


مسعودی نے [[مروج الذهب و معادن الجوهر (کتاب)|مروج الذهب]] میں تصریح کی ہے کہ عرم کے ڈیم کا رقبہ تقریباً 22 کلومیٹر تھا۔<ref>مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۶۱.</ref>یہ ڈیم مَأرَب یا عَرِم ڈیم سے مشہور تھا۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۶، ص۶۰؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۶ش، ج۸، ص۶۰۶.</ref> مسعودی نے لقمان بن عاد بن عاد کو یہ ڈیم بنانے کی نسبت دی ہے۔<ref>مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۶۱.</ref> جبکہ [[ابوالفتوح رازی]] نے [[ملکه سبا|ملکه بلقیس]] کو اس کا بانی قرار دیا ہے۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۶، ص۶۰.</ref>
== روش تألیف ==
مقرم تلاش کرده تا از منابع معتبر نقل کند و بر اساس روشنگری و اقامه دلیل و حجت سخن بگوید و با تفحّص و تطبیق و انطباق با اسناد معتبر، کتاب را بر مبنای تفکر و روان‌گویی در ذکر حقایق و رسانیدن معانی بنگارد.<ref>مقرم، ترجمه مقتل مقرم، ۱۳۸۱ش، ص۳۴.</ref> وی به بسیاری از مقولات بی‌اساس و ساختگی اشاره می‌کند و با دلیل، آن‌ها را ابطال می‌کند. همچنین این کتاب در پاورقی‌های خود دربردارنده یک سری بحث‌های فقهی و لغوی و ادبی است و تحقیقات متعددی راجع به الفاظ رایج بر زبان راویان ارائه می‌کند و خواننده از مصادری که مؤلف در تحقیقات و مباحث خود از آن‌ها استفاده کرده، مستفیض می‌شود. در روایت کربلا شخصیت‌های متعددی اعم از زن و مرد و بچه وجود دارند که گاهی اوقات اسامی آنان با یکدیگر اشتباه می‌شوند که با توجه به روش مؤلف، همه این مسائل در کتاب مقتل او حل می‌گردد.<ref>مقرم، ترجمه مقتل مقرم، ۱۳۸۱ش، ص۳۸.</ref>


عَرِم لفظ کے معنی میں مختلف احتمالات ذکر ہوئی ہیں؛ منجملہ، ایسے سیلاب کا نام ہے جو شہر کی ویرانی کا باعث بنا ہے۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۷، ص۶۰.</ref> یا اس شدید بارش کا نام ہے جو سیلاب کا باعث بنے،<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۶، ص۶۰.</ref> یا ڈیم کا نام ہے جسے قوم سباء نے تعمیر کیا تھا۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۶، ص۶۰.</ref>اسی طرح عرم اس چوہے کا نام قرار دیا گیا ہے جو مارب ڈیم ٹوٹنے کا باعث بنا۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۶، ص۶۰.</ref>ایک اور احتمال بھی اس بارے میں دیا گیا ہے کہ عرم اس سرخ پانی کا نام ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے عذاب کی صورت میں قوم سباء پر نازل ہوا تھا۔<ref>بلاغی، حجة التفاسیر، ۱۳۸۶ش، ج۱، ص۱۴۶.</ref>
== محتوای کتاب ==
به طور کلی کتاب در هفت بخش تنظیم شده است:
{{ستون-شروع|2}}
* '''بخش اول''': مقدمه‌ای درباره نهضت [[امام حسین(ع)]].
* '''بخش دوم''': داستان [[کربلا]].
* '''بخش سوم''': خروج از [[مدینه]].
* '''بخش چهارم''': حرکت به سوی [[عراق]].
* '''بخش پنجم''': [[روز عاشورا]].
* '''بخش ششم''': [[شهادت]] [[اهل بیت]].
* '''بخش هفتم''': حوادث بعد از عاشورا.<ref>مقرم، مقتل الحسین(ع)، ۱۴۲۶ق، فهرست کتاب.</ref>
{{پایان}}


==قرآن میں تذکرہ==
== منابع کتاب ==
قرآن مجید میں [[سورہ سبا]] کی آیت 16 میں عرم سیلاب کا تذکرہ آیا ہے۔ اور آیت کچھ یوں ہے:
مؤلف در بخش اصلی که مقتل است مطالب خود را از کتب و مقتل‌های مختلفی چون [[مقتل خوارزمی|خوارزمی]]، [[مثیر الاحزان]]، [[نفس المهموم]]، [[تذکرة الخواص]]، [[تاریخ طبری]]، [[ارشاد المفید]]، [[لهوف]] و [[امالی صدوق]] جمع آوری کرده و گاه مطالب ضعیف را از کتبی چون [[اسرار الشهادة]] نقل می‌کند. در اثنای کتاب نیز اشعار و مراثی شاعران معاصر را ضمیمه کرده است.<ref>مقرم، ترجمه مقتل مقرم، ۱۳۸۱ش، ص۲۸۲.</ref>
{{گفتگو
|چوڑائی= 80
|موقعیت=(بائیں، دائیں، وسط)
|اندرون=(حد اکثر 30)
|عنوان=
| {{حدیث|اندازه=۱۰۰%|لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ ۖ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍ ۖ كُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ ۚ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ ﴿۱۵﴾ فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاهُم بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِّن سِدْرٍ قَلِيلٍ ﴿۱۶﴾}}
| قبیلہ سباء والوں کیلئے ان کی آبادی میں (قدرتِ خدا کی) ایک نشانی موجود تھی (یعنی) دو باغ تھے دائیں اور بائیں (اور ان سے کہہ دیا گیا) کہ اپنے پروردگار کے رزق سے کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو شہر ہے پاک و پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشنے والا۔ پس انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر بند توڑ سیلاب چھوڑ دیا اور ان کے ان دو باغوں کو ایسے دو باغوں سے بدل دیا جن کے پھل بدمزہ تھے اور جھاؤ کے کچھ درخت اور کچھ تھوڑی سی بیریاں۔
|
| حداکثر 11 ستون
|
|
|ایڈریس= سورہ سباء آیت15 اور 16
}}
[[تفسیر قرآن|مسلمان مفسروں]] نے سورہ سباء کی 16ویں آیت کی تفسیر میں سیل العرم کی تفسیر بیان کی ہے۔<ref>طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۵۳-۵۹؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۳۳۱-۳۳۳؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۳۶۲-۳۶۸.</ref>چھٹی صدی ہجری کے شیعہ مفسروں میں سے [[ابوالفتوح رازی]] کی تفسیر کے مطابق اللہ تعالی نے قوم سباء کی ہدایت کے لیے 13 انبیاءؑ بھیجے لیکن لوگوں نے انبیاء کی باتوں کو ٹھکراتے ہوئے اللہ تعالی کا انکار کیا اور شہر کی آبادی اور نعمتوں کو اپنی برتری کے مرہون منت سمجھنے لگے<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۶، ص۶۰.</ref> آیت کے معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے مفسروں نے سیل العرم کی علت اور سبب کو کفران نعمت اور لوگوں کی ناشکری بیان کیا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۳۶۲-۳۶۸؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۶، ص۶۰.</ref> ابوالفتوح رازی اور [[مکارم شیرازی]] کے کہنے کے مطابق ڈیم توڑنے کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے ایک چوہے کو مامور کیا گیا تھا۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۶، ص۶۰؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۸، ص۶۸.</ref>± چنانچہ سیلاب کی وجہ سے شہر کے دونوں طرف موجود دو سرسبز و آباد باغ ویران اور شورہ زار میں بدل گئے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۸، ص۶۸.</ref>احادیث کی کتابوں میں سے [[الکافی|کافی]] اور [[مرآة العقول (کتاب)|مرآة العقول]] جیسی کتابوں میں سیل العرم کا واقعہ اور عذاب الہی کا سبب اور کیفیت بیان ہوئے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۷۴؛ مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۹، ص۴۲۲-۴۲۴.</ref>


==آثار قدیمہ کے ماہرین کی تحقیقات==
== ترجمه و چاپ ==
19ویں صدی عیسوی کے بعض مستشرقین اور آثار قدیمہ کے ماہرین کی تحقیقات کے مطابق عرم کا سیلاب یمن کے شمال مشرقی شہر صنعا (جو اس وقت مآرب کہلاتا تھا) میں آیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۸، ص۶۹؛ بی‌آزار شیرازی، باستان‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۳۳۱-۳۳۳؛ بلاغی، قصص قرآن، ۱۳۸۱ش، ص۳۷۹.</ref>مذکورہ محققین کے مطابق عرم کا ڈیم سطح سمندر سے 1160 میٹر کی بلندی پر اپنے دور کے ترقی یافتہ فن کے مطابق بنایا گیا اور سنہ 447ء سے 450ء تک سیلاب کا سامنا کرتا رہا اور لوگ اس کی مرمت کرنے لگے لیکن آخر کار 532ء کو مکمل ویران ہوگیا۔<ref>بی‌آزار شیرازی، باستان‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۳۳۱-۳۳۳.</ref>ڈیم کے محل وقوع کے نزدیک، قوم سباء اور سیل العرم کی تاریخ کے بارے میں مختلف کتیبے، نقوش اور خطوط کشف ہوئے ہیں۔<ref>بی‌آزار شیرازی، باستان‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۳۳۱-۳۳۳؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۸، ص۶۹.</ref> [[سید صدرالدین بلاغی]] نے اپنی کتاب قصص قرآن میں مستشرقین اور آثار قدیمہ کے ماہرین کا سیل العرم کی جگہ حاضر ہونے کو بیان کیا ہے۔<ref>بلاغی، قصص قرآن، ۱۳۸۱ش، ص۳۷۹.</ref>
مقتل مقرم، ابتدا با عنوان «''چهره خونین حسین سیدالشهداء(ع)''» یا «''داستان کربلا''» در سال ۱۳۵۱ش به همت [[عزیزالله عطاردی]] به فارسی ترجمه شد.{{سخ}}
مرتضی فهیم کرمانی هم این کتاب را با عنوان «''سالار کربلا، حسین بن علی(ع)''» ترجمه کرده و انتشارات سیدالشهداء در ۵۹۹ صفحه به چاپ رسانده است.<ref> اسفندیاری، کتابشناسی تاریخی امام حسین، ۱۳۸۰ش، ص۱۶۲.</ref>


این کتاب چندین بار چاپ شده که برخی از چاپ‌های آن از این قرار است:
* نسخه انتشارات "دلیل ما" که توسط مهدی انصاری قمی تحقیق گردیده و در سال ۱۳۸۷ش در ۴۹۳ صفحه چاپ شده است.
* نسخه انتشارات "شریف رضی" با مقدمه فرزند مؤلف که در سال ۱۳۹۱ ق در ۴۰۷ صفحه چاپ شده است.<ref>[http://aemehathar.com/post/detail/Fa/2-4-2-1-8-8/%D9%85%D9%82%D8%AA%D9%84-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%88-%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB-%DA%A9%D8%B1%D8%A8%D9%84%D8%A7-%D9%85%D9%82%D8%B1%D9%85.aspx مرکز تخصصی ائمه اطهار.]</ref>
==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات2}}
{{حوالہ جات2}}
==مآخذ==
==مآخذ==
* ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیرالقرآن، مشهد، آستان قدس رضوی، چاپ اول، ۱۴۰۸ق.
* مقرم، عبدالرزاق، مقتل الحسین(ع)، بیروت، مؤسسة الخرسان، ۱۴۲۶ق.
* بلاغی، عبدالحجة، حجةالتفاسیر و بلاغ الاکثیر، قم، حکمت، چاپ اول، ۱۳۸۶ش.
* مقرم، عبدالرزاق، مقتل الحسین(ع)، ترجمه: محمد مهدی عزیز الهی کرمانی، قم، نوید اسلام، ۱۳۸۱ش.
* بلاغی، صدرالدین، قصص قرآن، تهران، امیر کبیر، ۱۳۸۱ش.
* اسفندیاری، محمد، کتابشناسی تاریخی امام حسین، تهران، وزارت ارشاد، ۱۳۸۰ش.
* بی‌آزار شیرازی، عبدالکریم، باستان‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، چاپ سوم، ۱۳۸۰ش.
* کتاب شناخت سیره معصومان، مرکز تحقیقات رایانه‌ای علوم اسلامی نور.
* جعفریان، رسول، «نفوذ اسلام در یثرب»، مجلله میقات حج، نمایندگی ولی فقیه در امور حج و زیارات، زمستان ۱۳۷۲ش.
* دینوری، ابوحنیفه، اخبار الطوال، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش.
* سیوطی، عبدالرحمن، الدرالمنثور فی تفسیر بالماثور، قم، کتابخانه مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق.
* طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسة الاعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۳۹۰ق.
* طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تصحیح و تحقیق سید هاشم رسولی محلاتی و سید فضل الله یزدی طباطبایی، ج۸، بیروت، دار المعرفة، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م.
* طبری، محمد بن حریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۲ق.
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دارالکتب الاسلامیة، ۱۴۰۷ق.
* مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دارالکتب الاسلامیة، چاپ دهم، ۱۳۷۱ش.
* مجلسی، محمدباقر، مرآة العقول فی اخبار الرسول، تهران، دارالکتب الاسلامیة، ۱۴۰۴ق.
* مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، قم، دارالهجرة، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق.
* منهاج سراج، ابوعمر، طبقات ناصری، تحقیق عبدالحی حبیبی، تهران، دنیای کتاب، ۱۳۶۳ش.
{{پیامبران در قرآن}}
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,753

ترامیم