مندرجات کا رخ کریں

"قرآن کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 1,273: سطر 1,273:
'''مفصل مضمون: ''[[قرآن کا حادث یا قدیم ہونا]]'''''
'''مفصل مضمون: ''[[قرآن کا حادث یا قدیم ہونا]]'''''


کلامی ـ عقیدتی مباحث میں ایک بحث ـ جو قرآن مجید کے سلسلے میں انجام پائی ہے ـ یہ ہے کہ کیا قرآن ـ جو اللہ تعالی کا کلام ہے ـ ہمیشہ اور پیوستہ صاحب کلام کے ساتھ ساتھ اور اس کی ذات کی طرح قدیم اور خلق ناپذیر ہے یا اس عالم اور تمام مخلوقات کی طرف حادث اور مخلوق ہے؟ یہ بحث [[علم کلام|اسلامی کلام]] کی ابتداء ہی سے وجود میں آئی ہے؛ بلکہ بعض کا خیال ہے کہ [[علم کلام]] کی بنیاد ہی کلام الہی کے بارے میں اسی بحث کے آغاز سے معرض وجود میں آیا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق "تکلم" اللہ کی صفات میں سے ہے۔<ref>سورہ نساء، آیت164: '''"وَكَلَّمَ اللّهُ مُوسى تَكليماً"۔ ترجمہ: اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا جیسا کلام کرنے کا حق تھا۔'''۔</ref>۔<ref>'''"وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِن وَرَاء حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاء"۔ ترجمہ: اور کسی آدمی کے لیے یہ بات حاصل نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے مگر بطور وحی یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیجے تو وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی پہنچائے۔'''</ref> [[اشاعرہ|اشعریوں]] کا عقیدہ ہے کہ قرآن خدا کا [[کلامِ نفسی]] ہے اور اللہ کی ذات پر قائم و استوار ہے اور اللہ کے قِدَم (قدیم ہونے) کی بنا پر قدیم ہے اور اس کی [[ذاتی صفات]] <ref>جن صفات سے ہم اللہ کو متصف کرتے ہیں اور ان سے مراد ان کی متضاد صفات کی نفی ہوتی ہے وہی ہیں جو ازل سے ہیں اور قدیم ہیں اور انہیں ذاتی صفات کہا جاتا ہے جیسے: حق تعالى "سميع" [سننے والا]، "بصير" [ہر چیز کو دیکھنے والا چاہے اس چیز کا تعلق مستقبل سے ہو]، "حيّ" [زندہ جاوید]، "عليم" [ہرچيز سے آگاہ]، "حكيم" [ہرچیز پر دانا اور حکمت والا]، اور "قيّوم" [یعنی اپنی ذات پر قائم]، "واحد"، [یگانہ و یکتا]، اور "قديم" [بغیر کسی حد اور وقتی مبدء کے یعنی نہ تو وہ کسی چیز سے وجود میں آیا اور نہ ہی اس کے لئے کسی آغاز کا تصور ممکن ہے نیز بعض دوسری صفات] اور یہ سب اس کی ذات کی صفات ہیں۔ (رجوع کریں: اعتقادات شيخ صدوق مترجم: میر محمّد علی حسنی طباطبائی یزدی متوفی' 1240ہجری)۔ [http://www.aghaed.com/6-6| صفات ذاتی قدیم و صفات فعلی حادث؟]۔</ref>  میں سے ہے؛ لیکن [[معتزلہ]] اور [[شیعہ]] کا اعتقاد ہے کہ اللہ کا تکلم یا کلام اس کی [[صفات فعلیہ]] <ref>اور ہم نہیں کہتے کہ اللہ ازل میں کام کرنے والا، کچھ کسی سے چاہنے والا اور خواہش کرنے والا اور خوشنود ہونے والا اور غضب کرنے والا اور روزی دینے والا اور بخشنے والا اور "کلام کرنے والا اور بولنے والا" [متکلم] تھا کیونکہ یہ اس کے افعال کی صفات ہیں اور حادث ہیں [یعنی وجود میں آئی ہیں] اور جائز نہیں ہے کہ انسان ازل میں ان صفات سے اللہ کے متصف ہونے کا قائل ہوجائے [کیونکہ اللہ کی مخلوقات میں سے کوئی بھی قدیم اور ازلی نہیں ہے؛ اور اگر انہیں قدیم سمجھا جائے تو یہ صفات جو صرف کسی شیئے اور کسی مخلوق کی نسبت سے معرض وجود میں آتی ہیں مہمل ہونگی۔ گوکہ اہل سنت کی اکثریت یعنی [[اشاعرہ]] قرآن کریم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں اور ان کا یہ اعتقاد اس توہم پر استوار ہے کہ "تکلم اللہ کی ذاتی اور قدیم صفت ہے اور صفت فعلی نہيں ہے؛ [تکلم اور کلام صرف اس وقت ممکن ہے جب کوئی سننے والا اور وصول کرنے والا موجود ہو]۔ (وہی ماخذ)۔ [http://www.aghaed.com/6-6|صفات ذاتی قدیم و صفات فعلی حادث؟]۔</ref> اور قرآن اللہ کا [[لفطی کلام]] اور حادث ہے۔<ref>سید ابوالقاسم خوئی، البیان، "حدوث القرآن وقِدَمُہُ"، ص432؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن، ج2، ص1639۔</ref> یہ مسئلہ مسلمانوں کے [[اصول دین]] یا [[فروع دین]] کا جزء یا دین و مذہب کی ضروریات میں شمار نہیں ہوتا تاہم تیسری صدی ہجری میں مسلمانوں کے درمیان اس کو بہت زيادہ اچھالا گیا اور ان کی وسیع عکاسی ہوئی۔ اس مسئلے کا آغاز عباسی بادشاہ [[ہارون عباسی]] کے دور سے ہوا تھا اور [[مامون عباسی]]،  [[معتصم عباسی]]، [[واثق عباسی]] کے زمانے میں عروج  کو پہنچا اور [[متوکل عباسی]] کے دور میں زوال پذیر ہوا۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1639۔</ref>
کلامی ـ عقیدتی مباحث میں ایک بحث ـ جو قرآن مجید کے سلسلے میں انجام پائی ہے ـ یہ ہے کہ کیا قرآن ـ جو اللہ تعالی کا کلام ہے ـ ہمیشہ اور پیوستہ صاحب کلام کے ساتھ ساتھ اور اس کی ذات کی طرح قدیم اور خلق ناپذیر ہے یا اس عالم اور تمام مخلوقات کی طرف حادث اور مخلوق ہے؟ یہ بحث [[علم کلام|اسلامی کلام]] کی ابتداء ہی سے وجود میں آئی ہے؛ بلکہ بعض کا خیال ہے کہ [[علم کلام]] کی بنیاد ہی کلام الہی کے بارے میں اسی بحث کے آغاز سے وجود میں آیا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق "تکلم" اللہ کی صفات میں سے ہے۔<ref>سورہ نساء، آیت164: '''"وَكَلَّمَ اللّهُ مُوسى تَكليماً"۔ ترجمہ: اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا جیسا کلام کرنے کا حق تھا۔'''۔</ref>۔<ref>'''"وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِن وَرَاء حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاء"۔ ترجمہ: اور کسی آدمی کے لیے یہ بات حاصل نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے مگر بطور وحی یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیجے تو وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی پہنچائے۔'''</ref> [[اشاعرہ|اشعریوں]] کا عقیدہ ہے کہ قرآن خدا کا [[کلامِ نفسی]] ہے اور اللہ کی ذات پر قائم و استوار ہے اور اللہ کے قِدَم (قدیم ہونے) کی بنا پر قدیم ہے اور اس کی [[ذاتی صفات]] <ref>جن صفات سے ہم اللہ کو متصف کرتے ہیں اور ان سے مراد ان کی متضاد صفات کی نفی ہوتی ہے وہی ہیں جو ازل سے ہیں اور قدیم ہیں اور انہیں ذاتی صفات کہا جاتا ہے جیسے: حق تعالى "سميع" [سننے والا]، "بصير" [ہر چیز کو دیکھنے والا چاہے اس چیز کا تعلق مستقبل سے ہو]، "حيّ" [زندہ جاوید]، "عليم" [ہرچيز سے آگاہ]، "حكيم" [ہرچیز پر دانا اور حکمت والا]، اور "قيّوم" [یعنی اپنی ذات پر قائم]، "واحد"، [یگانہ و یکتا]، اور "قديم" [بغیر کسی حد اور وقتی مبدء کے یعنی نہ تو وہ کسی چیز سے وجود میں آیا اور نہ ہی اس کے لئے کسی آغاز کا تصور ممکن ہے نیز بعض دوسری صفات] اور یہ سب اس کی ذات کی صفات ہیں۔ (رجوع کریں: اعتقادات شيخ صدوق مترجم: میر محمّد علی حسنی طباطبائی یزدی متوفی' 1240ہجری)۔ [http://www.aghaed.com/6-6| صفات ذاتی قدیم و صفات فعلی حادث؟]۔</ref>  میں سے ہے؛ لیکن [[معتزلہ]] اور [[شیعہ]] کا اعتقاد ہے کہ اللہ کا تکلم یا کلام اس کی [[صفات فعلیہ]] <ref>اور ہم نہیں کہتے کہ اللہ ازل میں کام کرنے والا، کچھ کسی سے چاہنے والا اور خواہش کرنے والا اور خوشنود ہونے والا اور غضب کرنے والا اور روزی دینے والا اور بخشنے والا اور "کلام کرنے والا اور بولنے والا" [متکلم] تھا کیونکہ یہ اس کے افعال کی صفات ہیں اور حادث ہیں [یعنی وجود میں آئی ہیں] اور جائز نہیں ہے کہ انسان ازل میں ان صفات سے اللہ کے متصف ہونے کا قائل ہوجائے [کیونکہ اللہ کی مخلوقات میں سے کوئی بھی قدیم اور ازلی نہیں ہے؛ اور اگر انہیں قدیم سمجھا جائے تو یہ صفات جو صرف کسی شئ اور کسی مخلوق کی نسبت سے وجود میں آتی ہیں مہمل ہونگی۔ گوکہ اہل سنت کی اکثریت یعنی [[اشاعرہ]] قرآن کریم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں اور ان کا یہ اعتقاد اس توہم پر استوار ہے کہ "تکلم اللہ کی ذاتی اور قدیم صفت ہے اور صفت فعلی نہيں ہے؛ [تکلم اور کلام صرف اس وقت ممکن ہے جب کوئی سننے والا اور وصول کرنے والا موجود ہو]۔ (وہی ماخذ)۔ [http://www.aghaed.com/6-6|صفات ذاتی قدیم و صفات فعلی حادث؟]۔</ref> اور قرآن اللہ کا [[لفطی کلام]] اور حادث ہے۔<ref>سید ابوالقاسم خوئی، البیان، "حدوث القرآن وقِدَمُہُ"، ص432؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن، ج2، ص1639۔</ref> یہ مسئلہ مسلمانوں کے [[اصول دین]] یا [[فروع دین]] کا جزء یا دین و مذہب کی ضروریات میں شمار نہیں ہوتا پحر بھی تیسری صدی ہجری میں مسلمانوں کے درمیان اس کو بہت زيادہ اچھالا گیا اور ان کی وسیع عکاسی ہوئی۔ اس مسئلے کا آغاز عباسی بادشاہ [[ہارون عباسی]] کے دور سے ہوا تھا اور [[مامون عباسی]]،  [[معتصم عباسی]]، [[واثق عباسی]] کے زمانے میں عروج  کو پہنچا اور [[متوکل عباسی]] کے دور میں زوال پذیر ہوا۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1639۔</ref>


== ظواہر قرآن کی حجیت ==
== ظواہر قرآن کی حجیت ==
گمنام صارف