حدیث طیر

ویکی شیعہ سے
حدیث طیر
حدیث طیر مشوی
حدیث کے کوائف
موضوعاثبات اولویت حضرت علیؑ
صادر ازپیامبر اسلامؐ
اصلی راویانس بن مالک
اعتبارِ سندحدیث متواتر
شیعہ مآخذالإفصاح شیخ مفید، الفصول المختارہ سید مرتضی
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


حدیث طَیر مَشوِی(حدیث مرغ بریان)، امام علیؑ کی فضیلت میں ایک حدیث ہے کہ جس کے مطابق رسول اکرمؐ پرندے کا بریان شدہ گوشت کھانا چاہتے تھے اور اللہ تعالی سے درخواست کی کہ اس کی سب سے محبوب مخلوق کے ساتھ کھانا کھائیں۔ ابھی کچھ دیر نہیں ہوئی تھی کہ امام علیؑ تشریف لائے اور آپ کے ساتھ ہم نوالہ ہوئے۔ یہ روایت، شیعہ اور اہل سنت مآخذ میں نقل ہوئی ہے اور کہا گیا ہے کہ 90 راویوں نے اس حدیث کو اَنَس بن مالک سے روایت کی ہے۔

بعض شیعہ متکلمین نے اس روایت سے استناد کرتے ہوئے امام علیؑ کو اللہ کے نزدیک سب سے محبوب قرار دیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آپ پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے لیے سب سے زیادہ مناسب اور لائق تھے۔

متن حدیث

إنَّ النَّبِی(ص) کانَ عِندَهُ طائِرٌ، فَقالَ: اللَّهُمَ ائتِنی بِأَحَبِّ خَلقِک إلَیک؛ یأکلُ مَعی مِن هذَا الطَّیرِ. فَجاءَ أبو بَکرٍ، فَرَدَّهُ، ثُمَّ جاءَ عُمَرُ، فَرَدَّهُ، ثُمَّ جاءَ عَلِی، فَأَذِنَ لَهُ.


پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں پرندے کا گوشت لایا گیا۔ آپؐ نے فرمایا: یا اللہ اپنی مخلوقات میں سب سے عزیز مخلوق میرے پاس بھیج تاکہ اس پرندے کا گوشت کھانے میں میرا ساتھ دے۔ اس کے بعد ابوبکر آئے لیکن یپغمبر اکرمؐ نے انہیں قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد عمر بن خطاب آئے ان کو بھی قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد علیؑ تشریف لائے تو آپ کو اجازت دی گئی۔[1]



نسائی، خصائص امیرالمؤمنین، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۲۹


مضمون

حدیث طیر کے مطابق، پیغمبر اکرمؐ کے بعد اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب مخلوق امام علیؐ ہیں۔[2]اس روایت میں ذکر ہوا ہے کہ آنحضرتؐ کو کسی پرندے کا بریان شدہ گوشت تناول کرنے کی خواہش ہوئی اور اللہ تعالی سے درخواست کی کہ مخلوقات میں سے اللہ کے نزدیک محبوب ترین مخلوق آپ کے ساتھ کھانے میں شامل ہوجائے اور امام علیؑ آئے اور آپ کے ساتھ کھانے میں شریک ہوئے۔[3] امام علیؑ سے پہلے ابوبکر اور عمر بھی آپؐ کے پاس پہنچے لیکن آپؐ نے ان دونوں کو واپس کردیا۔[4]بعض نقل کے مطابق آنحضرت کی دعا کے بعد عایشہ اور حفصہ نے دعا کی کہ ان کے والد اس غذا میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شریک ہوں۔[5]اسی طرح انس بن مالک سے منقول ہے: میری خواہش تھی کہ وہ شخص سعد بن عبادہ ہوتا؛ اسی لئے جب حضرت علیؑ پیغمبر اکرم کے دروازے پر پہنچے تو میں نے انہیں واپس کردیا لیکن ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ علیؑ دوبارہ سے لوٹ آئے اور پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔[6]

حدیث کا اعتبار

شیعہ علما نے حدیث طیر کو متواتر جانا ہے۔ [حوالہ درکار] اہل سنت کے بعض محدثین نے بھی اس کو صحیح قرار دیتے ہوئے معتبر جانا ہے۔[7]

حدیث طیر کو بعض صحابہ نے بھی مشابہ مضمون کے ساتھ نقل کیا ہے؛ مثلا سفینہ خادم رسول خداؐ،[8] سدی کبیر نے اَنَس بن مالک سے،[9] یحیی بن کثیر نے انس بن مالک سے،[10] عثمان بن طویل نے انس بن مالک سے،[11] عبداللہ بن انس بن مالک نے اپنے باپ سے،[12] اور علی بن عبداللہ بن عباس نے اپنے باپ سے[13] نقل کیا ہے۔

اہل سنت کے عالم دین ابن کثیر دمشقی کا کہنا ہے کہ اس حدیث کو 90 روایوں نے انس بن مالک سے روایت کیا ہے۔[14]اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ: میرا دل اس حدیث کو نہیں مانتا ہے، اگرچہ بہت سارے راویوں نے نقل کیا ہے۔[15] علامہ امینی نے ابن کثیر کے جواب میں کہا ہے کہ ابن کثیر کے دل پر اللہ تعالی نے مہر لگایا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ: مذکورہ دلائل کے باوجود حدیث طیر کو نہ ماننا کوئی معقول نہیں ہے۔[16]

ابن شہر آشوب کے نقل کے مطابق، دوسری صدی ہجری کے شاعر سید اسماعیل حِمْیَری (متوفی 179ھ) نے حدیث طیر کے واقعے کو شعر کی صورت میں پیش کیا ہے جس کا آغاز یوں ہوتا ہے:

نُبِّئتُ اَنَّ اَبانا كان عن اَنَس يَروی حديثاً عجيباً مُعجِباً عَجَباً
فی طائرٍ جاء مَشويّاً بِہ بَشَرٌ يوماً و كان رسولُ اللہ مُحتَجِباً[17]
مجھے خبر ملی ہے کہ ہمارے والد نے انس سے ایک نہایت دلچسپ حدیث نقل کی ہے، ایک مرغ بریان کے بارے میں کہ ایک دن کسی نے رسول خدا کی خدمت میں لے آیا جبکہ آپؐ لوگوں کی نظروں سے دور اپنے گھر پر تھے۔

کلامی نکات

حدیث طیر مشوی کو فضایل امام علیؑ میں سے شمار کیا جاتا ہے[18]شیعہ متکلمین نے اسی حدیث سے امام علیؑ کا دوسروں پر فوقیت اور اولویت رکھنے کو ثابت کرنے کے لیے استفادہ کیا ہے۔[19]

اس حدیث میں امام علی کا بہترین مخلوق الہی ہونے والی بات پر تاکید کرتے ہوئے شیخ مفید نے امام علیؑ کو سب سے برتر جانا ہے؛ کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق اللہ تعالی کی محبت کا سرچشمہ حقیقت پر مبنی ہے خواہشات نفس کے مطابق نہیں، اسی لیے تو جب علیؑ سے سے زیادہ محبوب ہو اور اس کے نتیجے میں اللہ کی مخلوق میں سب سے برتر ہو تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ امام ہیں؛ کیونکہ نبوت اور خلافت عامہ میں مفضول کا فاضل پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔[20] سیدِ مرتضی نے الفصول المختارہ میں شیخ مفید کی بات کو نقل کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ اللہ کے ہاں سب سے محبوب مخلوق کے لئے سب سے زیادہ ثواب ہوگا اور ایسا شخص کسی شک کے بغیر تمام مخلوقات سے عمل اور عبادت میں برتر ہوگا۔ سید مرتضی کے نظرئے کے مطابق یہی دلیل ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے علاوہ سارے لوگوں پر امام علیؑ کو برتری حاصل ہے۔[21]

مربوط کتابیں

اہل سنت کے عالم ابن‌ کثیر دمشقی کے مطابق حدیث طیر اور اس کے الفاظ کے بارے میں بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں: ابوبکر بن مردویہ، محمد بن احمد بن حمدان اور محمد بن جریر طبری نے اس بارے میں کتابیں لکھی ہیں۔ اسی طرح اہل سنت کے متکلم، ابوبکر باقلانی نے اس کے رد میں ایک کتاب لکھی ہے۔[22] اسی طرح میر حامد حسین نے عَبَقات‌ الانوار کی تیرہویں جلد (منہج دوم کے دفتر چہارم) کو اس حدیث سے مختص کیا ہے اور اس کے اسناد کو اہل سنت کے راویوں سے ان کے نام کے ساتھ ساتھ حدیث کے نقد کو بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔[23] اس کتاب کا یہ حصہ 736 صفحوں پر مشتمل دو جلدوں میں لکھنو سے چھپا ہے۔[24]

حوالہ جات

  1. نسائی، خصائص امیرالمؤمنین، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۲۹، ح۱۰؛ تمیمی موصلی، مسند ابی‌ یعلی، ۱۴۰۴ق، ج۷، ص۱۰۵.
  2. مفید، الافصاح، ۱۴۱۲ق، ص۳۳؛ گنجی شافعی، کفایۃ‌الطالب، ۱۴۰۴ق، ص۱۵۱.
  3. تمیمی موصلی، مسند ابی‌ یعلی، ۱۴۰۴ق، ج۷، ص۱۰۵.
  4. تمیمی موصلی، مسند ابی‌ یعلی، ۱۴۰۴ق، ج۷، ص۱۰۵.
  5. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۵۰.
  6. ابن‌ کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۵۰.
  7. حسنی مغربی، فتح الملک العلی، ۱۴۰۳ق، ص۲۰.
  8. طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۴ق، ج۷، ص۸۲، ح۶۴۳۷.
  9. تمیمی موصلی، مسند ابی‌یعلی، ۱۴۰۴ق، ج۷، ص۱۰۵؛ نسائی، خصائص امیرالمؤمنین، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۲۹، ح۱۰.
  10. طبرانی، المعجم الأوسط، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۲۰۷.
  11. بخاری، التاریخ الکبیر، دار الفکر، ج۶، ص۲۵۸.
  12. ابن‌كثير، البدایۃ والنہایۃ، ۱۴۱۰ق، ج۷، ص۳۵۱؛ ابن‌حجر عسقلانی، المطالب العاليۃ، ۱۴۱۹ق، ج۱۶، ص۱۰۸.
  13. ذہبی، میزان الإعتدال، ۱۹۹۵م، ج۳، ص۲۳۲.
  14. ابن‌کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۵۳.
  15. ابن‌کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۵۳.
  16. امینی، الغدیر، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۳۰۸-۳۰۹.
  17. ابن‌شہرآشوب، مناقب آل‌ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۸۳.
  18. سید مرتضی، الفصول المختارۃ، ۱۴۱۴ق، ص۹۶.
  19. برای نمونہ نگاہ کنید بہ مفید، الافصاح، ۱۴۱۲ق، ص۳۳؛ سید مرتضی، الفصول المختارۃ، ۱۴۱۴ق، ص۹۶.
  20. مفید، الافصاح، ۱۴۱۲ق، ص۳۳.
  21. سید مرتضی، الفصول المختارۃ، ۱۴۱۴ق، ص۹۶.
  22. ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۵۳.
  23. ملاحظہ کریں: میر حامد حسین، عبقات الانوار، ۱۳۶۶ش، ج۱۳.
  24. «عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار علیہم‌السلام»

مآخذ

  • ابن‌ حجر عسقلانی، احمد بن علی، المطالب العالیۃ بزوائد المسانید الثمانیۃ، تحقیق سعد بن ناصر،‌ ریاض، ‌دار العاصمۃ و دار الغیث، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸ء۔
  • ابن‌ شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل‌ابی‌طالب، قم، علامہ، ۱۳۷۹ھ۔
  • ابن‌ کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶ء۔
  • امینی، عبدالحسین، موسوعۃ الغدير في الكتاب والسنۃ والأدب، تحقیق مرکز الغدير للدراسات الإسلاميۃ، زیرنظر محمود ہاشمی شاہرودی، قم، مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، ۱۳۸۸ش/۱۴۳۰ق/۲۰۰۹ء۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، التاریخ الکبیر، تحقیق سید ہاشم ندوی، دارالفکر، بی‌تا.
  • تمیمی موصلی، احمد بن علی، مسند ابی‌ یعلی، تحقیق حسین سلیم اسد،‌ دمشق، دارالمأمون للتراث، ۱۴۰۴ھ۔
  • حسنی مغربی، احمد بن محمد، فتح الملک العلی بصحۃ حدیث باب مدینۃ العلم علی، تحقیق محمد ہادی امینی، تہران، مکتبۃ الامام امیرالمؤمنین علی،‌ چاپ سوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، میزان‌الاعتدال، تحقیق شیخ علی محمد معوض و شیخ عادل احمد عبدالموجود،‌ بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۹۹۵ء۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الفصول المختارۃ، تحقیق سید علی میر شریفی،‌ بیروت، دارالمفید، ۱۴۱۴ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الافصاح فی امامۃ امیرالمؤمنین، قم، مؤسسۃالبعثۃ، ۱۴۱۲ھ۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الاوسط، تحقیق طارق بن عوض‌اللہ و عبدالمحسن بن ابراہیم الحسینی، القاہرۃ، دارالحرمین، ۱۴۱۵ھ۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی بن عبدالمجید السلفی، الموصل، مکتبۃالزہراء، ۱۴۰۴ھ۔
  • «عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار علیہم‌السلام»، بنیاد فرہنگی امامت، تاریخ درج مطلب: ۶ دی ۱۳۹۴ش، تاریخ مشاہدہ ۱۱ آبان ۱۳۹۸شمسی ہجری۔
  • گنجی الشافعی، محمد بن یوسف، کفایۃ الطالب فی مناقب علی بن ابی‌طالب، تصحیح محمد ہادی امینی،‌ تہران، دار احیاء تراث اہل‌البیت(ع)، ۱۴۰۴ھ۔
  • نسائی، احمد بن شعیب، خصائص امیرالمؤمنین علی بن ابی‌طالب، تحقیق احمد میرین البلوشی، کویت، مکتبۃالمعلا، ۱۴۰۶ھ۔
  • میر حامد حسین، عبقات الانوار فی اثبات امامۃ الائمۃ الاطہار، اصفہان، کتابخانہ امیرالمؤمنین، ۱۳۶۶شمسی ہجری۔