مندرجات کا رخ کریں

"واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
ۃ{{زیر تعمیر}}
ہۃ{{زیر تعمیر}}
{{تاریخ صدر اسلام}}
{{تاریخ صدر اسلام}}
'''واقعہ سقیفہ بنی‌ ساعدہ'''  پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد گیارہویں ہجری کا وہ پہلا واقعہ ہے جس میں ابوبکر ابن ابی قحافہ مسلمانوں کا خلیفہ منتخب ہوا۔ پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد امام علیؑ اور بعض اصحاب آنحضرتؐ کی تکفین اور تدفین مشغول تھے اسی وقت [[انصار]] کا ایک گروہ [[سعد بن عبادہ]] کی سرپرستی میں  سقیفہ بنی ساعدہ نامی جگہ  جمع ہو گئے تاکہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد اپنا رہبر انتخاب کر سکیں۔
'''واقعہ سقیفہ بنی‌ ساعدہ'''  پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد گیارہویں ہجری کا وہ پہلا واقعہ ہے جس میں ابوبکر ابن ابی قحافہ مسلمانوں کا خلیفہ منتخب ہوا۔ پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد امام علیؑ اور بعض اصحاب آنحضرتؐ کی تکفین اور تدفین مشغول تھے اسی وقت [[انصار]] کا ایک گروہ [[سعد بن عبادہ]] کی سرپرستی میں  سقیفہ بنی ساعدہ نامی جگہ  جمع ہو گئے تاکہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد اپنا رہبر انتخاب کر سکیں۔
بعض مورخوں کے مطابق انصار کا یہ اجتماع صرف مدینہ کا حاکم معین کرنے کے لئے منعقد ہوا تھا۔ لیکن بعض مہاجروں کا اس جلسے میں حاضر ہونے سے بحث پیغمبر اکرمؐ کا جانشین معین ہونے کی طرف چلی گئی اور آخر میں مسلمانوں کے خلیفے کے عنوان سے ابوبکر کی بیعت کی گئی۔ اس جلسے میں ابوبکر جو کہ مہاجروں کا ترجمان تھا ان کے علاوہ عمر ابن خطاب اور ابوعبیدہ جراح بھی سقیفہ میں حاضر تھے۔
بعض مورخوں کے مطابق انصار کا یہ اجتماع صرف مدینہ کا حاکم معین کرنے کے لئے منعقد ہوا تھا۔ لیکن بعض مہاجروں کا اس جلسے میں حاضر ہونے سے بحث پیغمبر اکرمؐ کا جانشین معین ہونے کی طرف چلی گئی اور آخر میں مسلمانوں کے خلیفے کے عنوان سے ابوبکر کی بیعت کی گئی۔ اس جلسے میں ابوبکر جو کہ مہاجروں کا ترجمان تھا ان کے علاوہ عمر ابن خطاب اور ابوعبیدہ جراح بھی سقیفہ میں حاضر تھے۔
مورخین کی تحریر کے مطابق ابوبکر سب کے لئے قابل قبول نہیں تھا۔ اس واقعہ کے بعد حضرت علیؑ، [[فاطمه زهراؑ]] اور بعض دوسرے افراد جیسے: [[پیغمبر کے چچا عباس]] کے بیٹے [[فضل بن عباس|فضل]] اور [[عبدالله بن عباس|عبدالله]] اور بعض دوسرے مشہور اصحاب جیسے: [[سلمان فارسی]]، [[ابوذر غفاری]]، [[مقداد بن عمرو]] اور [[زبیر بن عوام]]، ان افراد میں سے تھے جنہوں نے سقیفہ کی تشکیل شدہ شورای پر اعتراض کیا۔ شیعہ، سقیفہ کے واقعے کو امام علیؑ کی جانشینی کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کی صریح اعلانات خاص کر غدیر خم کے واقعے کے خلاف سمجھتے ہیں۔
مورخین کی تحریر کے مطابق ابوبکر سب کے لئے قابل قبول نہیں تھا۔ اس واقعہ کے بعد حضرت علیؑ، [[فاطمہ زہراؑ]] اور بعض دوسرے افراد جیسے: [[پیغمبر کے چچا عباس]] کے بیٹے [[فضل بن عباس|فضل]] اور [[عبداللہ بن عباس|عبداللہ]] اور بعض دوسرے مشہور اصحاب جیسے: [[سلمان فارسی]]، [[ابوذر غفاری]]، [[مقداد بن عمرو]] اور [[زبیر بن عوام]]، ان افراد میں سے تھے جنہوں نے سقیفہ کی تشکیل شدہ شورای پر اعتراض کیا۔ شیعہ، سقیفہ کے واقعے کو امام علیؑ کی جانشینی کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کی صریح اعلانات خاص کر غدیر خم کے واقعے کے خلاف سمجھتے ہیں۔
ابوبکر کی خلافت کو مشروعیت دینے کے لئے [[اہل سنت]] نے اجماع سے تمسک کیا ہے۔
ابوبکر کی خلافت کو مشروعیت دینے کے لئے [[اہل سنت]] نے اجماع سے تمسک کیا ہے۔
مغربی اسلام شناس اور بعض مستشرقین (اورینٹالسٹ) جیسے هنری لامنس(Henri Lammens)، کایٹانی (Leone Caetani) و ویلفرڈ ماڈلونگ(Wilferd Ferdinand Madelung) نے اپنی کتابوں میں سقیفہ کے واقعے کو بیان کیا ہے جن میں سے ماڈلونگ کی کتاب حضرت محمدؐ کے جانشین ( The Succession to Muhammad) اور ہنری لامنس کی کتاب «نظریه مثلث قدرت» ان میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔
مغربی اسلام شناس اور بعض مستشرقین (اورینٹالسٹ) جیسے ہنری لامنس(Henri Lammens)، کایٹانی (Leone Caetani) و ویلفرڈ ماڈلونگ(Wilferd Ferdinand Madelung) نے اپنی کتابوں میں سقیفہ کے واقعے کو بیان کیا ہے جن میں سے ماڈلونگ کی کتاب حضرت محمدؐ کے جانشین ( The Succession to Muhammad) اور ہنری لامنس کی کتاب «نظریہ مثلث قدرت» ان میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔
==واقعے کا محل وقوع==
==واقعے کا محل وقوع==
[[ملف:سقیفه بنی ساعده قرن 15ق.jpg|200px|تصغیر|سقیفہ بنی‌ساعدہ، پندرہویں صدی ہجری میں]]
[[ملف:سقیفہ بنی ساعدہ قرن 15ق.jpg|200px|تصغیر|سقیفہ بنی‌ساعدہ، پندرہویں صدی ہجری میں]]
{{اصلی|سقیفہ بنی‌ساعدہ}}
{{اصلی|سقیفہ بنی‌ساعدہ}}
سقیفہ ایک سایبان کے مانند ایک جگہ تھی کہ جہاں عرب کے طائفے عمومی امور میں صلح مشورے کے لئے جمع ہوتے تھے۔<ref>یاقوت حموی، معجم البلدان،‌دار صادر، ج۳، ص۲۲۹-۲۲۸.</ref> جہاں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد بعض مہاجر اور انصار جمع ہوئے۔ اور یہ جگہ مدینہ کے اصلی باشندے خزرج کی بنی ساعدہ طائفے سے متعلق تھی اور اسلام سے پہلے ان کے جلسے اسی جگہ منعقد ہوتے تھے۔ اسلام آنے اور پیغمبر اکرمؐ مدینہ تشریف لانے کے بعد سے آپؐ کی رحلت تک ان دس سالوں میں عملی طور پر اپنی اہمیت کھو چکی تھی اور پیغمبر اکرمؐ کے جانشین معین کرنے کے لئے اس جگہ مہاجر اور انصار کا یہ دوبارہ سے پہلا اجتماع تھا۔<ref>رجبی دوانی، تحلیل واقعه سقیفه بنی‌ساعده با رویکرد به نهج‌البلاغه، ۱۳۹۳ش، ص۸۰.</ref>
سقیفہ ایک سایبان کے مانند ایک جگہ تھی کہ جہاں عرب کے طائفے عمومی امور میں صلح مشورے کے لئے جمع ہوتے تھے۔<ref>یاقوت حموی، معجم البلدان،‌دار صادر، ج۳، ص۲۲۹-۲۲۸.</ref> جہاں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد بعض مہاجر اور انصار جمع ہوئے۔ اور یہ جگہ مدینہ کے اصلی باشندے خزرج کی بنی ساعدہ طائفے سے متعلق تھی اور اسلام سے پہلے ان کے جلسے اسی جگہ منعقد ہوتے تھے۔ اسلام آنے اور پیغمبر اکرمؐ مدینہ تشریف لانے کے بعد سے آپؐ کی رحلت تک ان دس سالوں میں عملی طور پر اپنی اہمیت کھو چکی تھی اور پیغمبر اکرمؐ کے جانشین معین کرنے کے لئے اس جگہ مہاجر اور انصار کا یہ دوبارہ سے پہلا اجتماع تھا۔<ref>رجبی دوانی، تحلیل واقعہ سقیفہ بنی‌ساعدہ با رویکرد بہ نہج‌البلاغہ، ۱۳۹۳ش، ص۸۰.</ref>


== واقعہ کی تفصیل==
== واقعہ کی تفصیل==
[[سقیفه بنی‌ساعده]] میں اجتماع کی اصل روایت [[عبد الله بن عباس]] کی [[عمر بن خطاب]] سے منقول روایت ہے اور باقی تمام روایات اسی سے نقل ہوچکی ہیں ان روایات کو ابن ہشام طبری، عبد الرزاق بن همّام، بخاری اور ابن حنبل نے بھی مختصر کمی بیشی کے ساتھ نقل کیا ہے۔ <ref>ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ش، ص۴۷.</ref>
[[سقیفہ بنی‌ساعدہ]] میں اجتماع کی اصل روایت [[عبد اللہ بن عباس]] کی [[عمر بن خطاب]] سے منقول روایت ہے اور باقی تمام روایات اسی سے نقل ہوچکی ہیں ان روایات کو ابن ہشام طبری، عبد الرزاق بن ہمّام، بخاری اور ابن حنبل نے بھی مختصر کمی بیشی کے ساتھ نقل کیا ہے۔ <ref>ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ش، ص۴۷.</ref>
پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کی خبر سننے کے بعد بعض انصار اپنی حالت کی چارہ جوئی نیز پیغمبر اکرمؐ کے جانشین کے انتخاب کے بارے میں سقیفہ بنی سعدہ میں جمع ہوئے۔ تاریخی منابع کے مطابق اس جلسے کی ابتدا میں خزرج قبیلے کے بزرگ سعد ابن عبادہ نے تقریر کی جو عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے اپنے بیٹے کے ہمراہ آیا تھا۔ اس نے بعض دلائل کے پیش نظر پیغمبر اکرمؐ کے جانشین کے انتخاب کو انصار کا حق سمجھا اور انہیں امور کی سرپرستی کرنے کی دعوت دی۔
پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کی خبر سننے کے بعد بعض انصار اپنی حالت کی چارہ جوئی نیز پیغمبر اکرمؐ کے جانشین کے انتخاب کے بارے میں سقیفہ بنی سعدہ میں جمع ہوئے۔ تاریخی منابع کے مطابق اس جلسے کی ابتدا میں خزرج قبیلے کے بزرگ سعد ابن عبادہ نے تقریر کی جو عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے اپنے بیٹے کے ہمراہ آیا تھا۔ اس نے بعض دلائل کے پیش نظر پیغمبر اکرمؐ کے جانشین کے انتخاب کو انصار کا حق سمجھا اور انہیں امور کی سرپرستی کرنے کی دعوت دی۔
سامعین نے سعد کی باتوں کو مانتے ہوئے انہیں اپنا حاکم انتخاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس کی رای کے خلاف کوئی کام انجام نہ دیں۔<ref>ابن‌قتیبه، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۲.</ref> لیکن بعض دوسرے سامعین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ مہاجرین ان کے اس فیصلے کو نہیں مانینگے اور اس اجتماع کے فیصلے کے سامنے تسلیم نہیں ہونگے۔ اس خدشے کے پیش نظر مہاجر اور انصار میں سے ہر ایک سے ایک ایک امیر انتخاب کرنے تجویز بھی سامنے آئی۔ <ref>ابن‌قتیبه، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۲.</ref>
سامعین نے سعد کی باتوں کو مانتے ہوئے انہیں اپنا حاکم انتخاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس کی رای کے خلاف کوئی کام انجام نہ دیں۔<ref>ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۲.</ref> لیکن بعض دوسرے سامعین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ مہاجرین ان کے اس فیصلے کو نہیں مانینگے اور اس اجتماع کے فیصلے کے سامنے تسلیم نہیں ہونگے۔ اس خدشے کے پیش نظر مہاجر اور انصار میں سے ہر ایک سے ایک ایک امیر انتخاب کرنے تجویز بھی سامنے آئی۔ <ref>ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۲.</ref>
اس اجتماع اور اس کے اہداف کی خبر ابوبکر اور عمر تک پہنچی تو وہ دونوں ابوعبیدہ جراح سمیت سقیفہ کی جانب نکلے۔ وہاں پہنچنے کے بعد ابوبکر نے عمر کو تقریر کرنے سے روکا اور خود ایک تقریر کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے لئے مہاجروں کی برتری اور قریش کی برتری کو ثابت کردیا۔<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ،‌دار صادر، ج۲، ص۳۲۷.</ref>  
اس اجتماع اور اس کے اہداف کی خبر ابوبکر اور عمر تک پہنچی تو وہ دونوں ابوعبیدہ جراح سمیت سقیفہ کی جانب نکلے۔ وہاں پہنچنے کے بعد ابوبکر نے عمر کو تقریر کرنے سے روکا اور خود ایک تقریر کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے لئے مہاجروں کی برتری اور قریش کی برتری کو ثابت کردیا۔<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ،‌دار صادر، ج۲، ص۳۲۷.</ref>  
سامعین میں سے بعض نے ان باتوں کی حمایت جبکہ بعض نے مخالفت کی جبکہ بعض نے اس منصب کے لئے علیؑ کو لایق سمجھتے ہوئے ان کے علاوہ کسی اور کی بیعت سے انکار کردیا؛<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ،‌دار صادر، ج۲، ص۳۲۵.</ref> لیکن آخر کار ابوبکر، عمر اور ابوعبیده کو اس مقام کے لئے مناسب قرار دیتے ہیں جبکہ یہ دونوں ابوبکر کی تجویز کی مخالفت کرتے ہیں۔<ref>طبری، تاریخ الطبری: تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ق ج۳، ص۲۰۶.</ref>
سامعین میں سے بعض نے ان باتوں کی حمایت جبکہ بعض نے مخالفت کی جبکہ بعض نے اس منصب کے لئے علیؑ کو لایق سمجھتے ہوئے ان کے علاوہ کسی اور کی بیعت سے انکار کردیا؛<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ،‌دار صادر، ج۲، ص۳۲۵.</ref> لیکن آخر کار ابوبکر، عمر اور ابوعبیدہ کو اس مقام کے لئے مناسب قرار دیتے ہیں جبکہ یہ دونوں ابوبکر کی تجویز کی مخالفت کرتے ہیں۔<ref>طبری، تاریخ الطبری: تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ق ج۳، ص۲۰۶.</ref>
تاریخی گزارش کے مطابق عمر ابن خطاب نے ان لحظات میں کہا ہے: « اس وقت ہر طرف سے شور و غل اور چہ مگویاں شروع ہوئیں اور حضار کھڑے ہوئے اور ہر طرف سے کوئی آواز آتی تھی لیکن کسی کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی مجھے خوف ہونے لگا کہ کہیں اختلافات کی وجہ سے ہمارے کام کا شیرازہ نہ بکھیر جائے۔ اسی وجہ سے ابوبکر سے کہا: آپ ہاتھ پھیلاؤ میں آپ کی بیعت کرتا ہوں؛ لیکن عمر کا ہاتھ ابوبکر کے ہاتھ پہنچنے سے پہلے سعد ابن عبادہ کے رقیب بشیر بن سعد خزرجی نے ابوبکر کا ہاتھ پکڑا اور ان کی بیعت کی۔<ref>طبری، تاریخ الطبری: تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ق ج۳، ص۲۰۶. </ref><ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ‌دار صادر، ج۲، ص۳۲۷.</ref>
تاریخی گزارش کے مطابق عمر ابن خطاب نے ان لحظات میں کہا ہے: « اس وقت ہر طرف سے شور و غل اور چہ مگویاں شروع ہوئیں اور حضار کھڑے ہوئے اور ہر طرف سے کوئی آواز آتی تھی لیکن کسی کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی مجھے خوف ہونے لگا کہ کہیں اختلافات کی وجہ سے ہمارے کام کا شیرازہ نہ بکھیر جائے۔ اسی وجہ سے ابوبکر سے کہا: آپ ہاتھ پھیلاؤ میں آپ کی بیعت کرتا ہوں؛ لیکن عمر کا ہاتھ ابوبکر کے ہاتھ پہنچنے سے پہلے سعد ابن عبادہ کے رقیب بشیر بن سعد خزرجی نے ابوبکر کا ہاتھ پکڑا اور ان کی بیعت کی۔<ref>طبری، تاریخ الطبری: تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ق ج۳، ص۲۰۶. </ref><ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ‌دار صادر، ج۲، ص۳۲۷.</ref>
اس کے بعد سقیفہ میں حاضر لوگوں نے ابوبکر کی بیعت شروع کی یہاں تک کہ قریب تھا بیمار سعد بن عبادہ پاوں تلے روندا جائے۔ اسی وجہ سے عمر، اور سعد کے بیٹے سعد اور قیس کے مابین تلخ کلامی بھی ہوئی اور ابوبکر کی میانجگری سے ختم ہوئی۔<ref>ابن‌قتیبه، الإمامۃ و السیاسۃ،۱۴۱۰ ق، ج۱، ص۲۷.</ref>{{نوٹ|سعد کے ایک رشتہ دار بلند آواز میں چلاتے ہوئے لوگوں کو سعد کی نسبت آگاہ کرتا ہے لیکن عمر اس کے جواب میں کہتا ہے کہ اس کو مارو خدا انہیں مار دے! پھر سعد کے قریب جا کر کہتا ہے اسطرح سے پامال کرنا چاہتا تھا کہ تمہارے بدن کا ایک عضو بھی باقی نہ رہے۔
اس کے بعد سقیفہ میں حاضر لوگوں نے ابوبکر کی بیعت شروع کی یہاں تک کہ قریب تھا بیمار سعد بن عبادہ پاوں تلے روندا جائے۔ اسی وجہ سے عمر، اور سعد کے بیٹے سعد اور قیس کے مابین تلخ کلامی بھی ہوئی اور ابوبکر کی میانجگری سے ختم ہوئی۔<ref>ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ،۱۴۱۰ ق، ج۱، ص۲۷.</ref>{{نوٹ|سعد کے ایک رشتہ دار بلند آواز میں چلاتے ہوئے لوگوں کو سعد کی نسبت آگاہ کرتا ہے لیکن عمر اس کے جواب میں کہتا ہے کہ اس کو مارو خدا انہیں مار دے! پھر سعد کے قریب جا کر کہتا ہے اسطرح سے پامال کرنا چاہتا تھا کہ تمہارے بدن کا ایک عضو بھی باقی نہ رہے۔
سعد کا بیٹا قیس کھڑا ہوکر عمر کی داڑھی پکڑتا ہے اور کہتا ہے: خدا کی قسم اس کی داڑھی کا ایک بال بھی کم کرو گے تو تمہارا ایک بھی دانت باقی نہیں رہے گا! سعد بھی عمر سے مخاطب ہوکر کہتا ہے: خدا کی قسم، اگر میں بیمار نہ ہوتا اور اپنی جگہ سے کھڑا ہونے کے لئے تھوڑی بہت توانائی ہوتی تو مدینہ کی گلی کوچوں میں تمہارے خلاف ایسی آواز بلند کرتا کہ تم اور تمہارے چاہنے والے گھر کے کونے میں چھپنے پر مجبور ہوتے اور خدا کی قسم تمہیں پھر ان لوگوں کے پاس پہنچا دیا جن کے کل تک تم فرمانبردار تھا نہ کہ آقا و سردار۔(ابن‌قتیبه، عبدالله بن مسلم، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۷.)}}
سعد کا بیٹا قیس کھڑا ہوکر عمر کی داڑھی پکڑتا ہے اور کہتا ہے: خدا کی قسم اس کی داڑھی کا ایک بال بھی کم کرو گے تو تمہارا ایک بھی دانت باقی نہیں رہے گا! سعد بھی عمر سے مخاطب ہوکر کہتا ہے: خدا کی قسم، اگر میں بیمار نہ ہوتا اور اپنی جگہ سے کھڑا ہونے کے لئے تھوڑی بہت توانائی ہوتی تو مدینہ کی گلی کوچوں میں تمہارے خلاف ایسی آواز بلند کرتا کہ تم اور تمہارے چاہنے والے گھر کے کونے میں چھپنے پر مجبور ہوتے اور خدا کی قسم تمہیں پھر ان لوگوں کے پاس پہنچا دیا جن کے کل تک تم فرمانبردار تھا نہ کہ آقا و سردار۔(ابن‌قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۷.)}}




سطر 26: سطر 26:


'''سعد بن عبادہ''': انہوں نے ابوبکر اور اس کے ہمراہ کے آنے سے پہلے جلسے کی ابتدا میں بات کی اور وہ بھی بیماری اور ناتوانی کے بابت اس کا بیٹا ان کی باتوں کو سامعین تک پہنچاتا تھا۔
'''سعد بن عبادہ''': انہوں نے ابوبکر اور اس کے ہمراہ کے آنے سے پہلے جلسے کی ابتدا میں بات کی اور وہ بھی بیماری اور ناتوانی کے بابت اس کا بیٹا ان کی باتوں کو سامعین تک پہنچاتا تھا۔
اس کی اہم باتیں مندرجہ ذیل ہیں: انصار کی فضیلت اور تعریف، ان کی دیگر مسلمانوں پر برتری، اسلام اور پیغمبر کے لئے ان کی خدمات، اور پیغمبر اکرم کی رحلت کے وقت آنحضرتؐ انصار سے راضی ہونے کو بیان کیا۔ اور انہی دلائل کے پیش نظر پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے لئے انصار کو برتر قرار دیا اور ان کو امور سنبھالنے کی دعوت کی اور مہاجر اور انصار میں سے ہر ایک سے ایک امیر کی تجویز کو شکست اور عقب نشینی سمجھتا تھا۔<ref>ابن‌قتیبه، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۲.</ref>
اس کی اہم باتیں مندرجہ ذیل ہیں: انصار کی فضیلت اور تعریف، ان کی دیگر مسلمانوں پر برتری، اسلام اور پیغمبر کے لئے ان کی خدمات، اور پیغمبر اکرم کی رحلت کے وقت آنحضرتؐ انصار سے راضی ہونے کو بیان کیا۔ اور انہی دلائل کے پیش نظر پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے لئے انصار کو برتر قرار دیا اور ان کو امور سنبھالنے کی دعوت کی اور مہاجر اور انصار میں سے ہر ایک سے ایک امیر کی تجویز کو شکست اور عقب نشینی سمجھتا تھا۔<ref>ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۲.</ref>


'''ابوبکر''': اس اجتماع میں ان کی باتیں کلیدی حیثیت کی حامل ہیں اور چند مرتبہ گفتگو کی جن کا خلاصہ یہ ہے: انصار پر مہاجرین کی برتری، جیسے پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کی تصدیق میں دوسروں سے سبقت، اللہ پر ایمان لانے اور ان کی عبادت میں سبقت، پیغمبر اکرمؐ سے مہاجرین کی رشتہ داری یا دوستی، انہی دلیلوں کی بنیاد پر مہاجرین جانشین بننے کے لئے دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں اور انصار کی فضیلت کے بابت وہ بھی وازرت کے مقام کے لئے باقیوں پر فوقیت رکھتے ہیں لیکن حکومت کے لئے نہیں اور نیز مہاجروں کی جانشینی کی مخالفت کرنے پر منع کیا۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۰۲.</ref>
'''ابوبکر''': اس اجتماع میں ان کی باتیں کلیدی حیثیت کی حامل ہیں اور چند مرتبہ گفتگو کی جن کا خلاصہ یہ ہے: انصار پر مہاجرین کی برتری، جیسے پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کی تصدیق میں دوسروں سے سبقت، اللہ پر ایمان لانے اور ان کی عبادت میں سبقت، پیغمبر اکرمؐ سے مہاجرین کی رشتہ داری یا دوستی، انہی دلیلوں کی بنیاد پر مہاجرین جانشین بننے کے لئے دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں اور انصار کی فضیلت کے بابت وہ بھی وازرت کے مقام کے لئے باقیوں پر فوقیت رکھتے ہیں لیکن حکومت کے لئے نہیں اور نیز مہاجروں کی جانشینی کی مخالفت کرنے پر منع کیا۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۰۲.</ref>


[['''حباب بن منذر'''|حباب بن منذر]]: انہوں نے بھی سقیفہ میں دو یا تین مرتبہ بات کی اور ہر دفعہ مہاجروں کے خلاف بالخصوص ابوبکر اور عمر کے خلاف لوگوں کو ابھارا اور ان کو دھمکیاں دی۔<ref>ابن‌قتیبه، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۵.</ref> اس نے بھی ہر قوم سے ایک امیر انتخاب کرنے کی تجویز پیش کی۔<ref>زمخشری، الفائق فی غریب الحدیث، دارالکتب العلمیه، ج۳، ص۷۳.</ref>
[['''حباب بن منذر'''|حباب بن منذر]]: انہوں نے بھی سقیفہ میں دو یا تین مرتبہ بات کی اور ہر دفعہ مہاجروں کے خلاف بالخصوص ابوبکر اور عمر کے خلاف لوگوں کو ابھارا اور ان کو دھمکیاں دی۔<ref>ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۵.</ref> اس نے بھی ہر قوم سے ایک امیر انتخاب کرنے کی تجویز پیش کی۔<ref>زمخشری، الفائق فی غریب الحدیث، دارالکتب العلمیہ، ج۳، ص۷۳.</ref>


'''عمر بن خطاب''': عمر نے زیادہ تر ابوبکر کی باتوں کی تائید کی ہے اور ان کی باتوں پر استدلال کرتے ہوئے تایید کی ہے۔ جن میں سے بعض دلیلیں مندرجہ ذیل ہیں: پیغمبر کا جانشین ان کے رشتہ داروں میں سے بننے کی صورت میں اعراب کی مخالفت نہ ہونا، دونوں گروہ میں سےہر ایک سے ایک امیر کا امکان نہ ہونا، کیونکہ ایک نیام میں دو تلواریں نیام نہیں ہوسکتی ہیں۔<ref>ابن‌قتیبه، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۵.</ref>
'''عمر بن خطاب''': عمر نے زیادہ تر ابوبکر کی باتوں کی تائید کی ہے اور ان کی باتوں پر استدلال کرتے ہوئے تایید کی ہے۔ جن میں سے بعض دلیلیں مندرجہ ذیل ہیں: پیغمبر کا جانشین ان کے رشتہ داروں میں سے بننے کی صورت میں اعراب کی مخالفت نہ ہونا، دونوں گروہ میں سےہر ایک سے ایک امیر کا امکان نہ ہونا، کیونکہ ایک نیام میں دو تلواریں نیام نہیں ہوسکتی ہیں۔<ref>ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۵.</ref>


'''ابوعبیده جراح''': انہوں نے انصار کو مخاطب کرتے ہوئے دین اور مسلمانوں کے اتحاد میں تبدیلی لانے کی نہی ہے۔ <ref>یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲،ص۱۲۳.</ref>
'''ابوعبیدہ جراح''': انہوں نے انصار کو مخاطب کرتے ہوئے دین اور مسلمانوں کے اتحاد میں تبدیلی لانے کی نہی ہے۔ <ref>یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲،ص۱۲۳.</ref>


'''[[بشیر بن سعد]]''': وہ خزرج اور انصار میں سے ہے۔ انہوں نے بھی کئی مرتبہ ابوبکر اور ان کے ساتھیوں کی باتوں کی تایید کی ہے اور خدا سے ڈرو، ایک مسلّم حق کی مخالف نہ کریں، اور انصار کو مہاجروں کی مخالفت سے منع کیا ہے۔<ref> طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۰۲.</ref>
'''[[بشیر بن سعد]]''': وہ خزرج اور انصار میں سے ہے۔ انہوں نے بھی کئی مرتبہ ابوبکر اور ان کے ساتھیوں کی باتوں کی تایید کی ہے اور خدا سے ڈرو، ایک مسلّم حق کی مخالف نہ کریں، اور انصار کو مہاجروں کی مخالفت سے منع کیا ہے۔<ref> طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۰۲.</ref>
سطر 43: سطر 43:


== سقیفہ میں موجود گروہ==
== سقیفہ میں موجود گروہ==
سقیفہ بنی ساعدہ کے بارے میں اہل سنت مآخذ میں موجود گزارشات میں مہاجر اور انصار میں سے عام لوگوں کی سیاسی مشارکت کا ذکر آیا ہے،<ref>ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ ش، ص۵۲-۵۳.</ref> جبکہ بہت سارے مآخذ میں ابوبکر کی بیعت دو مرحلوں میں انجام پانے کا ذکر آیا ہے یعنی سقیفہ کے دن اور باقی لوگوں کی بیعت مدینہ شہر میں سقیفہ کے دوسرے دن واقع ہوئی اور اسے عام بیعت سے یاد کیا ہے۔<ref>ابن هشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ، ج۲، ص۶۶۰. بلاذری، أنساب الأشراف، اعلمی، ج۱، ص۵۶۷.</ref>؛ ان گزارشات سے عام لوگوں کی سیاسی شرکت کرنے والی بات مخدوش ہوتی ہے۔
سقیفہ بنی ساعدہ کے بارے میں اہل سنت مآخذ میں موجود گزارشات میں مہاجر اور انصار میں سے عام لوگوں کی سیاسی مشارکت کا ذکر آیا ہے،<ref>ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ ش، ص۵۲-۵۳.</ref> جبکہ بہت سارے مآخذ میں ابوبکر کی بیعت دو مرحلوں میں انجام پانے کا ذکر آیا ہے یعنی سقیفہ کے دن اور باقی لوگوں کی بیعت مدینہ شہر میں سقیفہ کے دوسرے دن واقع ہوئی اور اسے عام بیعت سے یاد کیا ہے۔<ref>ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ، ج۲، ص۶۶۰. بلاذری، أنساب الأشراف، اعلمی، ج۱، ص۵۶۷.</ref>؛ ان گزارشات سے عام لوگوں کی سیاسی شرکت کرنے والی بات مخدوش ہوتی ہے۔


تاریخی محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سقیفہ کے جلسے میں مہاجروں میں سے صرف ابوبکر، [[عمر]] اور [[ابوعبیده جراح|ابوعبیده]] حاضر تھے اور ان کے علاوہ ان کے نوکر اور گھر کے بعض افراد کا حاضر ہونا بھی بعید نہیں ہے۔ اسی طرح بعض محققین کا کہنا ہے کہ ابو حذیفہ کا آزاد شدہ غلام [[سالم مولی ابوحذیفه|سالم]] بھی سقیفہ میں حاضر تھا جو ابوبکر کی بیعت کرنے والے ابتدائی افراد میں سے تھا؛ اگرچہ ابتدائی معتبر تاریخی مآخذ میں اس بات کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ مآخذ میں دوسرے مہاجرین یہاں تک کہ درمیانی یا آخرین درجے کے افراد کا بھی ذکر نہیں ملتا ہے۔<ref>ماڈلونگ، ویلفرڈ، جانشینی محمد،۱۳۷۷ ش، ص۵۲-۵۳.</ref> بعض محققوں نے بعض استناد کے مطابق کہا ہے کہ سقیفہ میں موجود مہاجروں کی تعداد بہت کم تھی۔<ref>عبدالمقصود، السقیفه و الخلافه، ۱۴۲۷ق، ص۳۱۷.</ref>
تاریخی محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سقیفہ کے جلسے میں مہاجروں میں سے صرف ابوبکر، [[عمر]] اور [[ابوعبیدہ جراح|ابوعبیدہ]] حاضر تھے اور ان کے علاوہ ان کے نوکر اور گھر کے بعض افراد کا حاضر ہونا بھی بعید نہیں ہے۔ اسی طرح بعض محققین کا کہنا ہے کہ ابو حذیفہ کا آزاد شدہ غلام [[سالم مولی ابوحذیفہ|سالم]] بھی سقیفہ میں حاضر تھا جو ابوبکر کی بیعت کرنے والے ابتدائی افراد میں سے تھا؛ اگرچہ ابتدائی معتبر تاریخی مآخذ میں اس بات کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ مآخذ میں دوسرے مہاجرین یہاں تک کہ درمیانی یا آخرین درجے کے افراد کا بھی ذکر نہیں ملتا ہے۔<ref>ماڈلونگ، ویلفرڈ، جانشینی محمد،۱۳۷۷ ش، ص۵۲-۵۳.</ref> بعض محققوں نے بعض استناد کے مطابق کہا ہے کہ سقیفہ میں موجود مہاجروں کی تعداد بہت کم تھی۔<ref>عبدالمقصود، السقیفہ و الخلافہ، ۱۴۲۷ق، ص۳۱۷.</ref>


مآخذ کی گزارش کے تحت سقیفہ میں انصار میں سے مندرجہ ذیل مشہور افراد موجود تھے: [[سعد بن عباده]]، پسرش [[قیس بن سعد بن عباده|قیس ابن سعد]]، [[بشیر بن سعد]] سعد کا رقیب اور چچا زاد بھائی اسید بن حضیر بن سماک، ثابت بن قیس، منذر بن ارقم، براء بن عازب اور حباب بن منذر.<ref>ابن قتیبۃ، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۱-۲۶.</ref>
مآخذ کی گزارش کے تحت سقیفہ میں انصار میں سے مندرجہ ذیل مشہور افراد موجود تھے: [[سعد بن عبادہ]]، پسرش [[قیس بن سعد بن عبادہ|قیس ابن سعد]]، [[بشیر بن سعد]] سعد کا رقیب اور چچا زاد بھائی اسید بن حضیر بن سماک، ثابت بن قیس، منذر بن ارقم، براء بن عازب اور حباب بن منذر.<ref>ابن قتیبۃ، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۱-۲۶.</ref>


ابن قتیبہ کی یہ عبارت «اگر سعد کے پاس ان سے لڑنے کے لئے کوئی مددگار ہوتے تو ضرور ان کا مقابلہ کرتا۔»<ref>ابن قتیبۃ، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۷.</ref>، یہ جملہ کنایہ ہے اس بات کی طرف کہ انصار کا اجماع نہیں تھا اور سقیفہ کے اجتماع میں ان کی تعداد کم تھی۔<ref>معیر و دیگران، بررسی تاثیر اعزام لشکر اسامه بر چگونگی مشارکت سیاسی نخبگان مهاجر و انصار در سقیفه، ص۱۵۵.</ref>
ابن قتیبہ کی یہ عبارت «اگر سعد کے پاس ان سے لڑنے کے لئے کوئی مددگار ہوتے تو ضرور ان کا مقابلہ کرتا۔»<ref>ابن قتیبۃ، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۷.</ref>، یہ جملہ کنایہ ہے اس بات کی طرف کہ انصار کا اجماع نہیں تھا اور سقیفہ کے اجتماع میں ان کی تعداد کم تھی۔<ref>معیر و دیگران، بررسی تاثیر اعزام لشکر اسامہ بر چگونگی مشارکت سیاسی نخبگان مہاجر و انصار در سقیفہ، ص۱۵۵.</ref>




سطر 59: سطر 59:
* انصار یہ احساس کر رہے تھے کہ حضرت علیؑ کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے کہی گئی باتوں پر قریش عمل نہیں کرینگے۔<ref>مظفر، السقیفۃ، ۱۴۱۵ق، ص۹۵-۹۷.</ref>
* انصار یہ احساس کر رہے تھے کہ حضرت علیؑ کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے کہی گئی باتوں پر قریش عمل نہیں کرینگے۔<ref>مظفر، السقیفۃ، ۱۴۱۵ق، ص۹۵-۹۷.</ref>


بعض کا کہنا ہے کہ ابوبکر نے مسجد میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کی خبر سنادی تو مدینہ کے کچھ لوگوں نے ابوبکر کو گھیر لیا اور اس کی بیعت کی اور یہ بات سبب بنی کہ انصار نے بھی سوچا خلیفہ انتخاب کرنا سب کے لئے جائز ہے اور اسی وجہ سے وہ سقیفہ میں جمع ہوگئے۔<ref>ابن کثیر، البدایه والنهایه، ۱۴۰۸ق، ج۵، ص۲۶۵.</ref>
بعض کا کہنا ہے کہ ابوبکر نے مسجد میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کی خبر سنادی تو مدینہ کے کچھ لوگوں نے ابوبکر کو گھیر لیا اور اس کی بیعت کی اور یہ بات سبب بنی کہ انصار نے بھی سوچا خلیفہ انتخاب کرنا سب کے لئے جائز ہے اور اسی وجہ سے وہ سقیفہ میں جمع ہوگئے۔<ref>ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ۱۴۰۸ق، ج۵، ص۲۶۵.</ref>




سطر 67: سطر 67:
ان اصحاب اور قریش کے بزرگوں نے مختلف موقعوں پر پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے لئے ابوبکر کی نا اہلی کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ ان میں سے بعض بیانات مندرجہ ذیل ہیں:
ان اصحاب اور قریش کے بزرگوں نے مختلف موقعوں پر پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے لئے ابوبکر کی نا اہلی کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ ان میں سے بعض بیانات مندرجہ ذیل ہیں:
*'''فضل بن عبّاس''' نے قریش کو غفلت اور حقیقت چھپانے کی نسبت دیتے پیغمبر کے جانشین کے لئے پیغمبر کی اہل بیت بالخصوص امام علیؑ کو سب سے زیادہ مستحق قرار دیا۔<ref>یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲، ص۱۲۴.</ref>
*'''فضل بن عبّاس''' نے قریش کو غفلت اور حقیقت چھپانے کی نسبت دیتے پیغمبر کے جانشین کے لئے پیغمبر کی اہل بیت بالخصوص امام علیؑ کو سب سے زیادہ مستحق قرار دیا۔<ref>یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲، ص۱۲۴.</ref>
*'''سلمان فارسی''' نے مسلمانوں سے ہم کلام ہوتے ہوئے سقیفہ کی بیعت کو غلط قرار دیتے ہوئے اسے پیغمبر اکرمؐ کی اہلبیت کا حق سمجھا جو معاشرے کے لئے خیر کے باعث ہیں۔<ref>جوهری بصری، السقیفۃ و فدک، مکتبه نینوی الحدیثه، ص۴۲.</ref>
*'''سلمان فارسی''' نے مسلمانوں سے ہم کلام ہوتے ہوئے سقیفہ کی بیعت کو غلط قرار دیتے ہوئے اسے پیغمبر اکرمؐ کی اہلبیت کا حق سمجھا جو معاشرے کے لئے خیر کے باعث ہیں۔<ref>جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، مکتبہ نینوی الحدیثہ، ص۴۲.</ref>
*'''ابوذر غفاری''' اس دن مدینہ میں موجود نہیں تھے اور جب شہر پہنچا تو ابوبکر کی خلافت کی خبر ملی۔ مآخذ کے مطابق انہوں نے ایک بار وقعہ کی خبر سنتے ہی اس ابتدا میں <ref>جوهری بصری، السقیفۃ و فدک، مکتبه نینوی الحدیثه، ص۶۲.</ref> اور ایک مرتبہ بعد میں عثمان ابن عفان کے دور میں پیغمبر اکرم کے جانشین بننے کا حق اہل بیت کا ہونے کے بارے میں بات کی ہے اور ان کی حکومت کو خیر و برکت کا سبب قرار دیا ہے۔ بعدها در عهد [[عثمان بن عفان|عثمان]]، از حقانیت اهل بیت برای جانشینی پیامبر سخن گفته و حکوت آنان را همراه با خیر و [[برکت]] معرفی کرده است.<ref>یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲، ص۱۷۱.</ref>
*'''ابوذر غفاری''' اس دن مدینہ میں موجود نہیں تھے اور جب شہر پہنچا تو ابوبکر کی خلافت کی خبر ملی۔ مآخذ کے مطابق انہوں نے ایک بار وقعہ کی خبر سنتے ہی اس ابتدا میں <ref>جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، مکتبہ نینوی الحدیثہ، ص۶۲.</ref> اور ایک مرتبہ بعد میں عثمان ابن عفان کے دور میں پیغمبر اکرم کے جانشین بننے کا حق اہل بیت کا ہونے کے بارے میں بات کی ہے اور ان کی حکومت کو خیر و برکت کا سبب قرار دیا ہے۔ بعدہا در عہد [[عثمان بن عفان|عثمان]]، از حقانیت اہل بیت برای جانشینی پیامبر سخن گفتہ و حکوت آنان را ہمراہ با خیر و [[برکت]] معرفی کردہ است.<ref>یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲، ص۱۷۱.</ref>
*'''مقداد بن عمر''' نے سقیفہ کے فیصلوں پر بیعت کرنے پر تعجب اور امیر المومنینؑ کی حقانیت کی تصریح کی ہے۔<ref>عسکری، سقیفه: بررسی نحوه شکل گیری حکومت پس از رحلت پیامبر، ۱۳۸۷ش، ص۷۶.</ref>
*'''مقداد بن عمر''' نے سقیفہ کے فیصلوں پر بیعت کرنے پر تعجب اور امیر المومنینؑ کی حقانیت کی تصریح کی ہے۔<ref>عسکری، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل گیری حکومت پس از رحلت پیامبر، ۱۳۸۷ش، ص۷۶.</ref>
*'''عمر بن خطّاب''' نے اپنی عمر کے آخر سال میں کہا:« ابوبکر کی بیعت ایک غلطی تھی جو انجام پائی اور گزر گئی، ہاں ایسا ہی تھا، لیکن اللہ تعالی نے اس غلطی کی شر سے لوگوں کو محفوظ رکھا۔»، جس نے بھی خلیفے کے انتخاب میں ایسا کیا  اسے قتل کردو۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۰۵.۔ بلاذری، انساب الاشراف، موسسه الاعلمی للمطبوعات، ج۱، ص۵۸۱. ذهبی، تاریخ الإسلام و وفیات المشاهیر و الأعلام،‌دار الکتاب العربی، ج۳، ص۸۔ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبه الثقافه الدینی، ج۵، ص۱۹۰</ref>
*'''عمر بن خطّاب''' نے اپنی عمر کے آخر سال میں کہا:« ابوبکر کی بیعت ایک غلطی تھی جو انجام پائی اور گزر گئی، ہاں ایسا ہی تھا، لیکن اللہ تعالی نے اس غلطی کی شر سے لوگوں کو محفوظ رکھا۔»، جس نے بھی خلیفے کے انتخاب میں ایسا کیا  اسے قتل کردو۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۰۵.۔ بلاذری، انساب الاشراف، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ج۱، ص۵۸۱. ذہبی، تاریخ الإسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام،‌دار الکتاب العربی، ج۳، ص۸۔ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبہ الثقافہ الدینی، ج۵، ص۱۹۰</ref>
*'''[[ابوسفیان]]''' جو اس واقعے سے پہلے پیغمبر اکرمؐ نے کسی کام سے مدینہ سے باہر بھیجا تھا مدینہ پہنچنے اور پیغمبرؐ کی وفات کی خبر سننے کے بعد علیؑ اور عباس ابن عبدالمطلب کے عکس العمل کے بارے میں سوال کیا۔ اور ان دونوں شخصیات کی گوشہ نشینی کا سن کر کہا: « خدا کی قسم اگر ان کے لئے زندہ رہوں تو ان کے پیر کو بلندیوں پر لے جاوں گا۔ اور پھر کہا:« میں ایسے گرد وغبار دیکھ رہا ہوں جو خون کے بارش کے بغیر نہیں ختم ہوگا۔<ref>جوهری بصری، السقیفۃ و فدک، مکتبه نینوی الحدیثه، ص۳۷.</ref> منابع کے مطابق مدینہ آتے ہی امام علیؑ کی خلافت کی حمایت اور ابوبکر و عمر کی مذمت میں کچھ اشعار پڑھے ہیں۔.<ref>ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، مکتبه آیۃ الله المرعشی، ج۶، ص۱۷.</ref> {{نوٹ|ابوسفیان کے بعض اشعار:
*'''[[ابوسفیان]]''' جو اس واقعے سے پہلے پیغمبر اکرمؐ نے کسی کام سے مدینہ سے باہر بھیجا تھا مدینہ پہنچنے اور پیغمبرؐ کی وفات کی خبر سننے کے بعد علیؑ اور عباس ابن عبدالمطلب کے عکس العمل کے بارے میں سوال کیا۔ اور ان دونوں شخصیات کی گوشہ نشینی کا سن کر کہا: « خدا کی قسم اگر ان کے لئے زندہ رہوں تو ان کے پیر کو بلندیوں پر لے جاوں گا۔ اور پھر کہا:« میں ایسے گرد وغبار دیکھ رہا ہوں جو خون کے بارش کے بغیر نہیں ختم ہوگا۔<ref>جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، مکتبہ نینوی الحدیثہ، ص۳۷.</ref> منابع کے مطابق مدینہ آتے ہی امام علیؑ کی خلافت کی حمایت اور ابوبکر و عمر کی مذمت میں کچھ اشعار پڑھے ہیں۔.<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، مکتبہ آیۃ اللہ المرعشی، ج۶، ص۱۷.</ref> {{نوٹ|ابوسفیان کے بعض اشعار:
بنی هاشم لا تطمعوا النّاس فیکم/ و لا سیما تیم بن مرّۃ او عدی/ فما الامر الاّ فیکم و الیکم/ و لیس لها الاّ ابو حسن علی :
بنی ہاشم لا تطمعوا النّاس فیکم/ و لا سیما تیم بن مرّۃ او عدی/ فما الامر الاّ فیکم و الیکم/ و لیس لہا الاّ ابو حسن علی :
اے بنی هاشم، لوگوں سے حکومت کی لالچ کا دروازہ بند کردو خاص کر تیم اور عدی قبیلوں پر (ابوبکر اور عمر کے قبیلے)۔
اے بنی ہاشم، لوگوں سے حکومت کی لالچ کا دروازہ بند کردو خاص کر تیم اور عدی قبیلوں پر (ابوبکر اور عمر کے قبیلے)۔
یہ حکومت تمہاری تھی تمہاری ہے اور تمہیں پھر سے لوٹ آئے گی اور ابوالحسن علیؑ کے علاوہ کوئی اور اس کے لائق نہیں ہے۔
یہ حکومت تمہاری تھی تمہاری ہے اور تمہیں پھر سے لوٹ آئے گی اور ابوالحسن علیؑ کے علاوہ کوئی اور اس کے لائق نہیں ہے۔
ابا حسن فاشدد بها کفّ حازم/ فانّک بالامر الّذی یرتجی ملی/ و انّ امرءا یرمی قصی وراءه/ عزیز الحمی و النّاس من غالب قصی:  
ابا حسن فاشدد بہا کفّ حازم/ فانّک بالامر الّذی یرتجی ملی/ و انّ امرءا یرمی قصی وراءہ/ عزیز الحمی و النّاس من غالب قصی:  
اے ابو الحسن، اپنے تنومن اور کام والے ہاتھ سے حکومت پر قبضہ کر لو؛ اور جس چیز کی امید رکھی جارہی ہے آپ اس پر قدرت اور توانائی رکھتے ہیں۔ اور جس کی پشت پناہی میں قصی ہوگا اس کا حق پامال نہیں ہوسکتا ہے۔ اور صرف قصی کی نسل ہی غالب آتی ہے۔ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، مکتبه آیۃالله العظمی المرعشی النجفی، ج۶، ص۱۷-۱۸.}}
اے ابو الحسن، اپنے تنومن اور کام والے ہاتھ سے حکومت پر قبضہ کر لو؛ اور جس چیز کی امید رکھی جارہی ہے آپ اس پر قدرت اور توانائی رکھتے ہیں۔ اور جس کی پشت پناہی میں قصی ہوگا اس کا حق پامال نہیں ہوسکتا ہے۔ اور صرف قصی کی نسل ہی غالب آتی ہے۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، مکتبہ آیۃاللہ العظمی المرعشی النجفی، ج۶، ص۱۷-۱۸.}}


*'''[[معاویه بن ابوسفیان]]''' نے سقیفہ کے چند سال بعد ایک خط میں [[محمد بن ابی‌بکر]] سے کہا ہے: «۔۔۔ تمہارا باپ اور اس کا فاروق عمر، وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے علی سے حق چھین لیا اور ان کی مخالفت کی۔ ان دونوں نے آپس میں اتفاق کیا اور علی سے بیعت مانگی اور چونکہ علی نے انکار کیا تو ان کے خلاف ناروا فیصلے کئے اور ان کے بارے میں خطرناک عزائم سوچے جس کی وجہ سے علی نے ان کی بیعت کی ۔.<ref>نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، مکتبۃ آیۃ الله مرعشی النجفی، ص۱۱۹-۱۲۰.</ref>
*'''[[معاویہ بن ابوسفیان]]''' نے سقیفہ کے چند سال بعد ایک خط میں [[محمد بن ابی‌بکر]] سے کہا ہے: «۔۔۔ تمہارا باپ اور اس کا فاروق عمر، وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے علی سے حق چھین لیا اور ان کی مخالفت کی۔ ان دونوں نے آپس میں اتفاق کیا اور علی سے بیعت مانگی اور چونکہ علی نے انکار کیا تو ان کے خلاف ناروا فیصلے کئے اور ان کے بارے میں خطرناک عزائم سوچے جس کی وجہ سے علی نے ان کی بیعت کی ۔.<ref>نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، مکتبۃ آیۃ اللہ مرعشی النجفی، ص۱۱۹-۱۲۰.</ref>


==حضرت علی کا عکس العمل==
==حضرت علی کا عکس العمل==
سطر 102: سطر 102:
  |sstyle =
  |sstyle =
}}
}}
سقیفہ کے واقعے کے بعد علیؑ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔ اور بعض کے کہنے کے مطابق امیر المومنینؑ نے کبھی بھی ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔ <ref> مفید، الفصول المختارۃ من العیون و المحاسن، قم، ص۵۶.</ref> ایک اور گروہ کا کہنا ہے کہ حضرت زہراؑ کی شہادت کے بعد علیؑ نے ابوبکر کی بیعت کی۔<ref> ابن‌قتیبه، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۰-۳۱۔</ref>
سقیفہ کے واقعے کے بعد علیؑ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔ اور بعض کے کہنے کے مطابق امیر المومنینؑ نے کبھی بھی ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔ <ref> مفید، الفصول المختارۃ من العیون و المحاسن، قم، ص۵۶.</ref> ایک اور گروہ کا کہنا ہے کہ حضرت زہراؑ کی شہادت کے بعد علیؑ نے ابوبکر کی بیعت کی۔<ref> ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۰-۳۱۔</ref>
سقیفہ کے ابتدائی دنوں میں جب سقیفہ کے آلۂ کار، امام علیؑ سے زبردستی ابوبکر کی  بیعت لینا چاہتے تھے تو آپؑ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا: «بیعت کے لئے تم لوگوں سے زیادہ میں شایستہ ہوں اور تمہاری بیعت نہیں کرونگا بلکہ تم لوگوں کو میری بیعت کرنی چاہیے، تم نے پیغمبر اکرمؐ سے رشتہ داری کی بنا پر انصار سے خلافت چھین لیا اور ان سے کہا ہے: چونکہ ہم پیغمبر اکرمؐ کے رشتہ دار ہیں اور اور خلافت کے لئے شایستہ ہیں، اور انہوں نے بھی اسی بنا پر امامت اور خلافت کو تمہارے حوالے کیا۔ میں بھی اسی وجہ سے جو تم لوگوں نے انصار کے سامنے دلیل بنا کر پیش کیا تھا، اسی کو پیش کر رہا ہوں (پیغمبر اکرمؐ سے قرابت) پس اگر خدا سے ڈرتے ہو تو ہمارے ساتھ انصاف کرو اور جس بات کو انصار نے تمہارے ساتھ مان لیا ہے تم لوگ میرے لئے مان لو وگرنہ جانتے ہوئے ظلم و ستم کے مرتکب ہوگے»۔.».<ref>ابن ابی‌الحدید، شرح نهج البلاغه،مکتبه آیۃ الله المرعشی، ج۶، ص۱۱.</ref>
سقیفہ کے ابتدائی دنوں میں جب سقیفہ کے آلۂ کار، امام علیؑ سے زبردستی ابوبکر کی  بیعت لینا چاہتے تھے تو آپؑ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا: «بیعت کے لئے تم لوگوں سے زیادہ میں شایستہ ہوں اور تمہاری بیعت نہیں کرونگا بلکہ تم لوگوں کو میری بیعت کرنی چاہیے، تم نے پیغمبر اکرمؐ سے رشتہ داری کی بنا پر انصار سے خلافت چھین لیا اور ان سے کہا ہے: چونکہ ہم پیغمبر اکرمؐ کے رشتہ دار ہیں اور اور خلافت کے لئے شایستہ ہیں، اور انہوں نے بھی اسی بنا پر امامت اور خلافت کو تمہارے حوالے کیا۔ میں بھی اسی وجہ سے جو تم لوگوں نے انصار کے سامنے دلیل بنا کر پیش کیا تھا، اسی کو پیش کر رہا ہوں (پیغمبر اکرمؐ سے قرابت) پس اگر خدا سے ڈرتے ہو تو ہمارے ساتھ انصاف کرو اور جس بات کو انصار نے تمہارے ساتھ مان لیا ہے تم لوگ میرے لئے مان لو وگرنہ جانتے ہوئے ظلم و ستم کے مرتکب ہوگے»۔.».<ref>ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ،مکتبہ آیۃ اللہ المرعشی، ج۶، ص۱۱.</ref>


بعض تاریخی گزارشات کے مطابق علیؑ نے ابوبکر کے ساتھ ایک نرم لہجے میں مفصل اور واضح اور شفاف مناظرہ کیا اور اس میں ابوبکر کو سقیفہ میں اہل بیتؑ کی حق تلفی کرنے پر محکوم کیا، اور ابوبکر آپؑ کی باتوں سے متاثر ہوکر آپؑ، پیغمبر اکرم کے جانشین ہونے کے ناطے آپؑ کی بیعت پر بھی راضی ہوا لیکن بعض دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد اس کام سے منصرف ہوا۔<ref>مراجعہ کریں: طبرسی، الاحتجاج، نشر المرتضی، ج۱، ص۱۱۵-۱۳۰.</ref>
بعض تاریخی گزارشات کے مطابق علیؑ نے ابوبکر کے ساتھ ایک نرم لہجے میں مفصل اور واضح اور شفاف مناظرہ کیا اور اس میں ابوبکر کو سقیفہ میں اہل بیتؑ کی حق تلفی کرنے پر محکوم کیا، اور ابوبکر آپؑ کی باتوں سے متاثر ہوکر آپؑ، پیغمبر اکرم کے جانشین ہونے کے ناطے آپؑ کی بیعت پر بھی راضی ہوا لیکن بعض دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد اس کام سے منصرف ہوا۔<ref>مراجعہ کریں: طبرسی، الاحتجاج، نشر المرتضی، ج۱، ص۱۱۵-۱۳۰.</ref>
علیؑ نے مختلف موقعوں پر متعدد کلمات میں سقیفہ پر اعتراض کیا ہے اور پیغمبر کا جنشین ہونے کا اپنے حق کی یاد دہانی کرایی ہے۔ [[خطبہ شقشقیثہ] وہ معروف خطبہ ہے جس میں آپ نے اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے اور جس کے ابتدا میں فرماتا ہے: «خدا کی قسم خدا کی قسم ! فلان (ابوبکر) نے پیراہنِ خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں علم کا وہ بلند پہاڑ ہوں جس پر سے علم کا سیلاب کا میرے وجود سے سیلاب کی طرح نیچے گرتا ہے اور مجھ تک پرندہ َپر نہیں مار سکتا۔ (اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سنِ رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم ورنج) كے پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا »۔<ref>ابن ابی‌الحدید، شرح نهج البلاغۃ،مکتبه آیۃ الله المرعشی، ج۱، ص۱۵۱.</ref>
علیؑ نے مختلف موقعوں پر متعدد کلمات میں سقیفہ پر اعتراض کیا ہے اور پیغمبر کا جنشین ہونے کا اپنے حق کی یاد دہانی کرایی ہے۔ [[خطبہ شقشقیثہ] وہ معروف خطبہ ہے جس میں آپ نے اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے اور جس کے ابتدا میں فرماتا ہے: «خدا کی قسم خدا کی قسم ! فلان (ابوبکر) نے پیراہنِ خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں علم کا وہ بلند پہاڑ ہوں جس پر سے علم کا سیلاب کا میرے وجود سے سیلاب کی طرح نیچے گرتا ہے اور مجھ تک پرندہ َپر نہیں مار سکتا۔ (اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سنِ رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم ورنج) كے پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا »۔<ref>ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغۃ،مکتبہ آیۃ اللہ المرعشی، ج۱، ص۱۵۱.</ref>
بعض دیگر کتابوں کی گزارشات کے مطابق، حضرت علیؑ سقیفہ کے واقعے کے بعد حضرت زہرا کی حیات میں آپ کو ایک سواری پر سوار کر کے انصار کے گھر گھر اور مجالسوں میں لے جاتے تھے اور ان سے مدد مانگتے تھے لیکن وہاں سے ان کا یہ جواب سننے کو ملتا تھا: « اے رسول اللہ کی بیٹی! ہم نے ابوبکر کی بیعت کی ہے اور اگر علی اس سے پہلے آتے تو ان کی بیعت کرتے» اور علیؑ جواب میں فرماتے تھے:« کیا میں پیغبمر اکرمؐ کو دفنائے بغیر خلافت کے لئے جھگڑتا؟»<ref>ابن قتیبه،الامامۃ والسیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۹-۳۰.</ref><ref>ابن ابی‌الحدید، شرح نهج البلاغه، مکتبۃ آیۃ الله المرعشی، ج۶، ص۱۳.</ref>
بعض دیگر کتابوں کی گزارشات کے مطابق، حضرت علیؑ سقیفہ کے واقعے کے بعد حضرت زہرا کی حیات میں آپ کو ایک سواری پر سوار کر کے انصار کے گھر گھر اور مجالسوں میں لے جاتے تھے اور ان سے مدد مانگتے تھے لیکن وہاں سے ان کا یہ جواب سننے کو ملتا تھا: « اے رسول اللہ کی بیٹی! ہم نے ابوبکر کی بیعت کی ہے اور اگر علی اس سے پہلے آتے تو ان کی بیعت کرتے» اور علیؑ جواب میں فرماتے تھے:« کیا میں پیغبمر اکرمؐ کو دفنائے بغیر خلافت کے لئے جھگڑتا؟»<ref>ابن قتیبہ،الامامۃ والسیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۹-۳۰.</ref><ref>ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی، ج۶، ص۱۳.</ref>
==فاطمہ زہراؑ کا عکس العمل==
==فاطمہ زہراؑ کا عکس العمل==
فاطمہ زهراؑ نے سقیفہ کے واقعہ اور اس کے نتائج کے بارے میں بہت مخالفت کی اور اسے پیغمبر اکرمؑ کی مخالفت قرار دیا۔ ان مخالفتوں میں سے سب سے واضح مخالفت وہ کلمات تھے جو علیؑ سے بیعت لینے اور گھر کا محاصرہ کرنے کے دوران آپ نے فرمایا۔<ref>ابن‌قتیبه، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۰-۳۱.</ref> اور اسی طرح علنی اعتراضات میں سے ایک، مسجد نبوی میں دیا گیا خطبہ ہے جو کہ خطبہ فدکیہ کے نام سے مشہور ہے۔<ref>تیجانی، مؤتمر السقیفۃ، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۷۵.</ref>
فاطمہ زہراؑ نے سقیفہ کے واقعہ اور اس کے نتائج کے بارے میں بہت مخالفت کی اور اسے پیغمبر اکرمؑ کی مخالفت قرار دیا۔ ان مخالفتوں میں سے سب سے واضح مخالفت وہ کلمات تھے جو علیؑ سے بیعت لینے اور گھر کا محاصرہ کرنے کے دوران آپ نے فرمایا۔<ref>ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۰-۳۱.</ref> اور اسی طرح علنی اعتراضات میں سے ایک، مسجد نبوی میں دیا گیا خطبہ ہے جو کہ خطبہ فدکیہ کے نام سے مشہور ہے۔<ref>تیجانی، مؤتمر السقیفۃ، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۷۵.</ref>


تاریخی شواہد کے مطابق حضرت زهراؑ نے بیماری کے بستر پر اپنی عمر کے آخری دنوں میں مہاجر اور انصار کی خواتین سے جو عیادت کے لئے آئی تھیں ان سے سقیفہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے پیغمبر اکرم کے فرامین کی نافرمانی قرار دیتے ہوئے اس سے اسلام کے لئے مستقبل میں آنے والی نقصانات کی طرف توجہ دلائیں۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، مکتبه آیۃ الله المرعشی، ج۱۶، ص۲۳۳-۲۳۴.</ref><ref>اربلی، کشف الغمۃ، ۱۳۸۱ق، ج۱،ص۴۹۲.</ref>
تاریخی شواہد کے مطابق حضرت زہراؑ نے بیماری کے بستر پر اپنی عمر کے آخری دنوں میں مہاجر اور انصار کی خواتین سے جو عیادت کے لئے آئی تھیں ان سے سقیفہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے پیغمبر اکرم کے فرامین کی نافرمانی قرار دیتے ہوئے اس سے اسلام کے لئے مستقبل میں آنے والی نقصانات کی طرف توجہ دلائیں۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، مکتبہ آیۃ اللہ المرعشی، ج۱۶، ص۲۳۳-۲۳۴.</ref><ref>اربلی، کشف الغمۃ، ۱۳۸۱ق، ج۱،ص۴۹۲.</ref>


==سقیفہ اور مستشرقین==
==سقیفہ اور مستشرقین==
*'''ہنری لامنس اور مثلث قدرت کا نظریہ''': سنہ1910ء کو بیلجیم کے صاحب نظر ہنری لامنس (۱۸۶۲-۱۹۳۷ء) کو ایک مقالہ «ابوبکر، عمر اور ابوعبیدہ کی قدرت کا مثلث» کے نام سے لکھا اور اس مقالے میں انہوں نے یہ دعوا کیا کہ ان تینوں کا مشترک ہدف اور ایک دوسرے سے تعاون پیغمبر اکرمؐ کی حیات میں شروع ہوا اور یہ طاقت انہیں ملی کہ ابوبکر اور عمر کی خلافت کا سنگ بنیاد رکھا اور اگر ابوعبیدہ عمر کے دور میں نہ مرتا تو یقینی طور پر وہ عمر کے بعد خلیفہ ہوتا۔ اگرچہ لامنس نے خلافت کے حصول کے لئے کسی سازش کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے لیکن «قدرت کا مثلث» معرف کر کے غیرمستقیم طور پر اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے۔
*'''ہنری لامنس اور مثلث قدرت کا نظریہ''': سنہ1910ء کو بیلجیم کے صاحب نظر ہنری لامنس (۱۸۶۲-۱۹۳۷ء) کو ایک مقالہ «ابوبکر، عمر اور ابوعبیدہ کی قدرت کا مثلث» کے نام سے لکھا اور اس مقالے میں انہوں نے یہ دعوا کیا کہ ان تینوں کا مشترک ہدف اور ایک دوسرے سے تعاون پیغمبر اکرمؐ کی حیات میں شروع ہوا اور یہ طاقت انہیں ملی کہ ابوبکر اور عمر کی خلافت کا سنگ بنیاد رکھا اور اگر ابوعبیدہ عمر کے دور میں نہ مرتا تو یقینی طور پر وہ عمر کے بعد خلیفہ ہوتا۔ اگرچہ لامنس نے خلافت کے حصول کے لئے کسی سازش کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے لیکن «قدرت کا مثلث» معرف کر کے غیرمستقیم طور پر اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اور وہ کہتا ہے کہ ابوبکر اور عمر کی بیٹیاں اور پیغمبر اکرمؐ کی بیویاں [[عایشه دختر ابوبکر|عایشه]] اور [[حفصه بنت عمر بن خطاب|حفصه]] اپنے شوہر کی ہر ہر حرکت سے اپنے والدوں کو باخبر کردیتی تھیں اور یہ دونوں پیغمبر اکرمؐ کے امور میں کافی حد تک دخیل ہوتے اور اسی طریقے سے قدرت تک پہنچے۔<ref>لامنس، مثلث قدرت ابوبکر، عمر ابو عبیده، ص۱۲۶، منقول از: ماڈلونگ، ویلفرد، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ش، ص۱۵.</ref>
اور وہ کہتا ہے کہ ابوبکر اور عمر کی بیٹیاں اور پیغمبر اکرمؐ کی بیویاں [[عایشہ دختر ابوبکر|عایشہ]] اور [[حفصہ بنت عمر بن خطاب|حفصہ]] اپنے شوہر کی ہر ہر حرکت سے اپنے والدوں کو باخبر کردیتی تھیں اور یہ دونوں پیغمبر اکرمؐ کے امور میں کافی حد تک دخیل ہوتے اور اسی طریقے سے قدرت تک پہنچے۔<ref>لامنس، مثلث قدرت ابوبکر، عمر ابو عبیدہ، ص۱۲۶، منقول از: ماڈلونگ، ویلفرد، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ش، ص۱۵.</ref>
* '''کایتانی کا نظریہ''': اٹلی کے مشرق شناس لئون کایتانی نے تاریخ اسلام کی کتاب کے دیباچے میں ابوبکر اور بنی ہاشم کے شدید اختلافات کا تذکرہ کرتے ہوئے سقیفہ بنی ساعدہ میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے چند گھنٹے بعد ہی ابوبکر کی طرف سے خلافت کا ادعا کرنے پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔
* '''کایتانی کا نظریہ''': اٹلی کے مشرق شناس لئون کایتانی نے تاریخ اسلام کی کتاب کے دیباچے میں ابوبکر اور بنی ہاشم کے شدید اختلافات کا تذکرہ کرتے ہوئے سقیفہ بنی ساعدہ میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے چند گھنٹے بعد ہی ابوبکر کی طرف سے خلافت کا ادعا کرنے پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔
ابوبکر کی طرف سے انصار کے اجتماع میں اپنی جانشینی اور قریش کا پیغمبر کا قبیلہ ہونے کے ناطے انصار پر فوقیت رکھنے کے بارے میں بیان کی جانے والی روایات کو کایتانی رد کرتے ہوئے علیؑ کا آیندہ ادعا کرنے کی تائید کرتا ہے کیونکہ اس بحث میں علیؑ کا پیغمبر اکرمؐ کا سب سے قریبی رشتہ دار ہونے کی تائید کرتا ہے۔ اس کی نظر کے مطابق اگر محمدؐ اپنا جانشین انتخاب کرتے تو ابوبکر کو دوسروں پر ترجیح دینے کا احتمال تھا؛ لیکن اس کے باوجود تاریخ اسلام کے بعد والے ایک اور مجلے میں لامنس کا نظریہ «ابوبکر، عمر اور ابوعبیدہ مثلث قدرت» کو خلافت کے بارے میں ہونے والی اختلافات میں سے سب سے زیادہ مناسب نظریہ قرار دیتا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ش، ص۱۷-۱۸.</ref>
ابوبکر کی طرف سے انصار کے اجتماع میں اپنی جانشینی اور قریش کا پیغمبر کا قبیلہ ہونے کے ناطے انصار پر فوقیت رکھنے کے بارے میں بیان کی جانے والی روایات کو کایتانی رد کرتے ہوئے علیؑ کا آیندہ ادعا کرنے کی تائید کرتا ہے کیونکہ اس بحث میں علیؑ کا پیغمبر اکرمؐ کا سب سے قریبی رشتہ دار ہونے کی تائید کرتا ہے۔ اس کی نظر کے مطابق اگر محمدؐ اپنا جانشین انتخاب کرتے تو ابوبکر کو دوسروں پر ترجیح دینے کا احتمال تھا؛ لیکن اس کے باوجود تاریخ اسلام کے بعد والے ایک اور مجلے میں لامنس کا نظریہ «ابوبکر، عمر اور ابوعبیدہ مثلث قدرت» کو خلافت کے بارے میں ہونے والی اختلافات میں سے سب سے زیادہ مناسب نظریہ قرار دیتا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ش، ص۱۷-۱۸.</ref>
سطر 130: سطر 130:
شیعوں کے عقیدے کے مطابق غدیر خم میں پیغمبر اکرمؐ نے علیؑ کی جانشینی کو اپنی رسالت کے اکمال کے عنوان سے مسلمانوں کو اعلان کیا۔<ref>مظفر، السقیفۃ، ۱۴۱۵ق، ص۶۰-۶۵.</ref>
شیعوں کے عقیدے کے مطابق غدیر خم میں پیغمبر اکرمؐ نے علیؑ کی جانشینی کو اپنی رسالت کے اکمال کے عنوان سے مسلمانوں کو اعلان کیا۔<ref>مظفر، السقیفۃ، ۱۴۱۵ق، ص۶۰-۶۵.</ref>


[[محمدرضا مظفر]] ۱۷ ایسی روایات نقل کرتے ہیں جو مختلف واقعات کے بارے میں ہیں اور ان میں پیغمبرؐ نے اپنے بعد علیؑ کی جانشینی کی طرف صریح یا اشاروں میں بیان کیا ہے۔ [[آیه انذار|دعوت ذو العشیرہ]]، [[حدیث غدیر]]، جریان [[عقد اخوت|بھائی چارگی]]، جنگوں کے واقعات جیسے [[غزوه خندق|خندق]]، [[غزوه خیبر|خیبر]]، امام علیؑ کے گھر کے دروازے کے علاوہ باقی سب دروازوں کو مسجد کی طرف بند کرنا اور اس جیسی دیگر احادیث جیسے: <font color=blue>{{حدیث|'''«إن علیا منی و أنا من علی،و هو ولی کل مؤمن بعدی»، «لکل نبی وصی و وارث و إن وصیی و وارثی علی بن ابی طالب» و «أنا مدینۃ العلم و علی بابها»'''}}</font> ان میں سے بعض موارد ہیں۔<ref>مظفر، السقیفۃ، ۱۴۱۵ق، ص۶۰-۶۶.</ref>
[[محمدرضا مظفر]] ۱۷ ایسی روایات نقل کرتے ہیں جو مختلف واقعات کے بارے میں ہیں اور ان میں پیغمبرؐ نے اپنے بعد علیؑ کی جانشینی کی طرف صریح یا اشاروں میں بیان کیا ہے۔ [[آیہ انذار|دعوت ذو العشیرہ]]، [[حدیث غدیر]]، جریان [[عقد اخوت|بھائی چارگی]]، جنگوں کے واقعات جیسے [[غزوہ خندق|خندق]]، [[غزوہ خیبر|خیبر]]، امام علیؑ کے گھر کے دروازے کے علاوہ باقی سب دروازوں کو مسجد کی طرف بند کرنا اور اس جیسی دیگر احادیث جیسے: <font color=blue>{{حدیث|'''«إن علیا منی و أنا من علی،و ہو ولی کل مؤمن بعدی»، «لکل نبی وصی و وارث و إن وصیی و وارثی علی بن ابی طالب» و «أنا مدینۃ العلم و علی بابہا»'''}}</font> ان میں سے بعض موارد ہیں۔<ref>مظفر، السقیفۃ، ۱۴۱۵ق، ص۶۰-۶۶.</ref>
[[سوره مائده]] کی آیہ نمبر 55 {{نوٹ|إِنَّمٰا وَلِیکُمُ اللّٰهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یقِیمُونَ الصَّلاٰۃَ وَ یؤْتُونَ الزَّکٰاۃَ وَ هُمْ رٰاکِعُونَ. «ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں۔»}}جو [[آیۂ ولایت]] سے مشہور ہے، [[سوره احزاب]] کی آیہ نمبر 33 {{نوٹ|إِنَّمَا یرِیدُ اللَّهُ لِیذْهِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَیطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا. «بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔»}}جو [[آیۂ تطهیر]] سے مشہور ہے، آیه ۶۱ [[سوره آل عمران]] {{نوٹ|فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل‌لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ. «پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔»}}جو [[آیۂ مباہلہ]] سے مشہور ہے اور شیعہ متکلمین نے پیغمبر اکرم کے بعد علیؑ کی جانشینی کے اثبات کو ان آیات سے بھی استناد کیا ہے۔<ref>مظفر، السقیفۃ، ۱۴۱۵ق، ص۶۶.</ref>
[[سورہ مائدہ]] کی آیہ نمبر 55 {{نوٹ|إِنَّمٰا وَلِیکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُولُہُ وَ الَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یقِیمُونَ الصَّلاٰۃَ وَ یؤْتُونَ الزَّکٰاۃَ وَ ہُمْ رٰاکِعُونَ. «ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں۔»}}جو [[آیۂ ولایت]] سے مشہور ہے، [[سورہ احزاب]] کی آیہ نمبر 33 {{نوٹ|إِنَّمَا یرِیدُ اللَّہُ لِیذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیتِ وَیطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا. «بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔»}}جو [[آیۂ تطہیر]] سے مشہور ہے، آیہ ۶۱ [[سورہ آل عمران]] {{نوٹ|فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَل‌لَّعْنَتَ اللَّہِ عَلَی الْکَاذِبِینَ. «پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔»}}جو [[آیۂ مباہلہ]] سے مشہور ہے اور شیعہ متکلمین نے پیغمبر اکرم کے بعد علیؑ کی جانشینی کے اثبات کو ان آیات سے بھی استناد کیا ہے۔<ref>مظفر، السقیفۃ، ۱۴۱۵ق، ص۶۶.</ref>


===سقیفہ اور اس کے نتائج ===
===سقیفہ اور اس کے نتائج ===
بعض محققین پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد رونما ہونے والے اکثر تاریخی واقعوں کو سقیفہ کا نتیجہ قرار دیتے ہیںاور ان میں سے اہم مندرجہ ذیل ہیں:
بعض محققین پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد رونما ہونے والے اکثر تاریخی واقعوں کو سقیفہ کا نتیجہ قرار دیتے ہیںاور ان میں سے اہم مندرجہ ذیل ہیں:
*حضرت علیؑ سے زبردستی بیعت لینے کے لئے حضرت زہراؑ کے گھر پر حملہ اور اس کا محاصرہ جس کے نتیجے میں سیدہ شہید ہوگئیں۔<ref>ابن‌شهرآشوب، المناقب، علامه، ج۲، ص۲۰۶.</ref>
*حضرت علیؑ سے زبردستی بیعت لینے کے لئے حضرت زہراؑ کے گھر پر حملہ اور اس کا محاصرہ جس کے نتیجے میں سیدہ شہید ہوگئیں۔<ref>ابن‌شہرآشوب، المناقب، علامہ، ج۲، ص۲۰۶.</ref>
*فدک غصب ہونا: بعض تحلیل کرنے والے اس بات کے قائل ہیں کہ سقیفہ کے بعد حضرت فاطمہ زہراؑ سے فدک کا چھیننا حقیقت میں اہلبیتؑ کے ساتھ اقتصادی مقابلہ کرنا مقصود تھا۔ اس اقدام سے پہلے خلیفہ کی حکومت کی بنیاد مضبوط ہوتی تھی اور اہل بیت رسول اللہ کو مقابلہ اور مبارہ کرنے سے روکتی تھا۔<ref>عسکری، سقیفه: بررسی نحوه شکل‌گیری حکومت پس از رحلت پیامبر، ۱۳۸۷، ص۱۱۵.</ref>
*فدک غصب ہونا: بعض تحلیل کرنے والے اس بات کے قائل ہیں کہ سقیفہ کے بعد حضرت فاطمہ زہراؑ سے فدک کا چھیننا حقیقت میں اہلبیتؑ کے ساتھ اقتصادی مقابلہ کرنا مقصود تھا۔ اس اقدام سے پہلے خلیفہ کی حکومت کی بنیاد مضبوط ہوتی تھی اور اہل بیت رسول اللہ کو مقابلہ اور مبارہ کرنے سے روکتی تھا۔<ref>عسکری، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل‌گیری حکومت پس از رحلت پیامبر، ۱۳۸۷، ص۱۱۵.</ref>
*[[واقعۂ عاشورا]]: بعض کے عقیدے کے مطابق سقیفہ میں رسول اللہ کے جانشین کا درست انتخاب نہ ہونے کی وجہ سے جانشینی کا راستہ غلط سمت چلا گیا اور یہ باعث بنا کہ پہلا خلیفہ کسی بھی قانون کا پابند نہ ہو۔ اسی وجہ سے کسی دن کسی دن قریش کے چند لوگ اور انصار کی بحث میں مسلمانوں کا خلیفہ بنا تو کبھی پہلے خلیفے کی وصیت پر تو کبھی چھ نفری شورا کے ذریعے سے اس کا انتخاب ہوا تو کسی دن معاویہ نے یزید کے لئے بیعت مانگی۔ اور یزید عاشورا کا موجد بنا۔.<ref>داودی و رستم نژاد، عاشورا، ریشهها، انگیزه‌ها، رویدادها، پیامدها، ۱۳۸۸ش، ص۱۱۵-۱۲۶.</ref>  
*[[واقعۂ عاشورا]]: بعض کے عقیدے کے مطابق سقیفہ میں رسول اللہ کے جانشین کا درست انتخاب نہ ہونے کی وجہ سے جانشینی کا راستہ غلط سمت چلا گیا اور یہ باعث بنا کہ پہلا خلیفہ کسی بھی قانون کا پابند نہ ہو۔ اسی وجہ سے کسی دن کسی دن قریش کے چند لوگ اور انصار کی بحث میں مسلمانوں کا خلیفہ بنا تو کبھی پہلے خلیفے کی وصیت پر تو کبھی چھ نفری شورا کے ذریعے سے اس کا انتخاب ہوا تو کسی دن معاویہ نے یزید کے لئے بیعت مانگی۔ اور یزید عاشورا کا موجد بنا۔.<ref>داودی و رستم نژاد، عاشورا، ریشہہا، انگیزہ‌ہا، رویدادہا، پیامدہا، ۱۳۸۸ش، ص۱۱۵-۱۲۶.</ref>  
شیعہ عالم [[محمدحسین غروی اصفهانی]]، (۱۲۹۶-۱۳۶۱ھ)، نے اپنے اشعار میں اس مضمون کو بیان کیا ہے۔:
شیعہ عالم [[محمدحسین غروی اصفہانی]]، (۱۲۹۶-۱۳۶۱ھ)، نے اپنے اشعار میں اس مضمون کو بیان کیا ہے۔:
{{شعر۲
{{شعر۲
|سبک نگارش=
|سبک نگارش=
سطر 147: سطر 147:
|شکل بندی اشعار=
|شکل بندی اشعار=
|شکل بندی خط اول=
|شکل بندی خط اول=
|شکل بندی ترجمه=
|شکل بندی ترجمہ=
|خط اول=
|خط اول=
|فما رَماه اِذْ رَماهُ حَرمَله|و انَما رَماهُ مَن مَهَّدَ له
|فما رَماہ اِذْ رَماہُ حَرمَلہ|و انَما رَماہُ مَن مَہَّدَ لہ
|سَهمٌ اَتی مِن جانب السقیفهقَوسُه عَلی یدِ الخلیفه
|سَہمٌ اَتی مِن جانب السقیفہقَوسُہ عَلی یدِ الخلیفہ
|و ما اصاب سَهْمُهُ نَحرَالصّبی|بَل کَبدَ الدینِ و مُهجۃ النَبی<ref>به نقل از: داودی و رستم نژاد، عاشورا، ریشه ها، انگیزه ها، رویدادها، پیامدها، ۱۳۸۸ش، ص۱۲۶.</ref>}}
|و ما اصاب سَہْمُہُ نَحرَالصّبی|بَل کَبدَ الدینِ و مُہجۃ النَبی<ref>بہ نقل از: داودی و رستم نژاد، عاشورا، ریشہ ہا، انگیزہ ہا، رویدادہا، پیامدہا، ۱۳۸۸ش، ص۱۲۶.</ref>}}
ترجمہ:[[حرملہ بن کاهل اسدی|حرمله]] نے تیر نہیں مارا بلکہ جو اس کا باعث بنا ہے اس نے تیر مارا ہے، ایک تیر سقیفہ سے نکلا جس کی کمان خلیفہ کے ہاتھ میں تھا اور یہ تیر کسی بچے کے گردن پر نہیں بلکہ پیغبمبرؐ کے دل پر پیوست ہوگیا۔
ترجمہ:[[حرملہ بن کاہل اسدی|حرملہ]] نے تیر نہیں مارا بلکہ جو اس کا باعث بنا ہے اس نے تیر مارا ہے، ایک تیر سقیفہ سے نکلا جس کی کمان خلیفہ کے ہاتھ میں تھا اور یہ تیر کسی بچے کے گردن پر نہیں بلکہ پیغبمبرؐ کے دل پر پیوست ہوگیا۔
==سقیفہ اور اجماع==
==سقیفہ اور اجماع==
[[اجماع]]، اہل سنت کے ہاں احکام استنباط کرنے کے منابع میں سے ایک ہےجو سقیفہ کے واقعے میں بھی ابوبکر کے انتخاب کی مشروعیت کی علتوں میں سے ایک کے عنوان سے استناد کیا جاتا ہے۔<ref>حسینی خراسانی، بازکاوی دلیل اجماع، ۱۳۸۵، ص۱۹-۵۷.</ref>
[[اجماع]]، اہل سنت کے ہاں احکام استنباط کرنے کے منابع میں سے ایک ہےجو سقیفہ کے واقعے میں بھی ابوبکر کے انتخاب کی مشروعیت کی علتوں میں سے ایک کے عنوان سے استناد کیا جاتا ہے۔<ref>حسینی خراسانی، بازکاوی دلیل اجماع، ۱۳۸۵، ص۱۹-۵۷.</ref>
سطر 179: سطر 179:


==شعر کے آئینے میں==
==شعر کے آئینے میں==
ابوبکر کا پیغمبر اکرم کے خلیفے کے عنوان سے انتخاب ہونا اور اہلبیتؑ کے حق کو نظر انداز کرنے کے بارے میں مختلف زبانوں کے بہت سارے شاعروں نے اپنے اشعار میں بیان کیا ہے۔.<ref>مراجعہ کریں: عسکری، سقیفه: بررسی نحوه شکل‌گیری حکومت پس از رحلت پیامبر، ۱۳۸۷، ص۷۳ و ۷۶. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲، ص۱۲۶.</ref> ان اشعار میں سے بعض میں تو سقیفہ کا واقعہ اور سقیفہ کے شورای کے بارے میں اشارہ ہوا ہے۔
ابوبکر کا پیغمبر اکرم کے خلیفے کے عنوان سے انتخاب ہونا اور اہلبیتؑ کے حق کو نظر انداز کرنے کے بارے میں مختلف زبانوں کے بہت سارے شاعروں نے اپنے اشعار میں بیان کیا ہے۔.<ref>مراجعہ کریں: عسکری، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل‌گیری حکومت پس از رحلت پیامبر، ۱۳۸۷، ص۷۳ و ۷۶. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲، ص۱۲۶.</ref> ان اشعار میں سے بعض میں تو سقیفہ کا واقعہ اور سقیفہ کے شورای کے بارے میں اشارہ ہوا ہے۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
سطر 190: سطر 190:
{{ستون آ|2}}
{{ستون آ|2}}


*ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن هبه الله، شرح نهج البلاغه، گرداورنده :شریف الرضی، محمد بن حسین، محقق:ابراهیم، محمد ابوالفضل، مکتبه آیۃ الله العظمی المرعشی النجفی (ره)، قم، ایران.
*ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ہبہ اللہ، شرح نہج البلاغہ، گرداورندہ :شریف الرضی، محمد بن حسین، محقق:ابراہیم، محمد ابوالفضل، مکتبہ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی (رہ)، قم، ایران.
*ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ،‌دار صادر، بیروت، لبنان.
*ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ،‌دار صادر، بیروت، لبنان.
*ابن‌شهرآشوب، محمد بن علی، المناقب، مصحح: رسول هاشمی، محمد حسین آشتیانی، علامه، قم، ایران.
*ابن‌شہرآشوب، محمد بن علی، المناقب، مصحح: رسول ہاشمی، محمد حسین آشتیانی، علامہ، قم، ایران.
*ابن‌قتیبه، عبدالله بن مسلم، الإمامۃ و السیاسۃ، محقق: شیری، علی،‌دار الاضواء، بیروت، لبنان، ۱۴۱۰ق.
*ابن‌قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، الإمامۃ و السیاسۃ، محقق: شیری، علی،‌دار الاضواء، بیروت، لبنان، ۱۴۱۰ق.
*ابن کثیر، البدایه والنهایه، اسماعیل بن عمر، تحقیق علی شیری، داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸م.
*ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، اسماعیل بن عمر، تحقیق علی شیری، داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸م.
*اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ، تحقیق سید هاشم رسولی محلاتی، مکتبۃ بنی هاشمی، تبریز، ایران، ۱۳۸۱ق.  
*اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، مکتبۃ بنی ہاشمی، تبریز، ایران، ۱۳۸۱ق.  
*آقابزرگ تهرانی، محمدمحسن، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، گرداورنده: احمد بن محمد حسینی،‌دار الاضواء، بیروت، لبنان.
*آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، گرداورندہ: احمد بن محمد حسینی،‌دار الاضواء، بیروت، لبنان.
*بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، محقق: محمدباقر محمودی، احسان عباس، عبد العزیز دوری، محمد حمید الله، موسسه الاعلمی للمطبوعات، بیروت، لبنان.
*بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، محقق: محمدباقر محمودی، احسان عباس، عبد العزیز دوری، محمد حمید اللہ، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت، لبنان.
*بیضون، ابراهیم، رفتارشناسی امام علی(ع)، ترجمۃ علی اصغر محمدی سیجانی، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، تهران، ایران، ۱۳۷۹.
*بیضون، ابراہیم، رفتارشناسی امام علی(ع)، ترجمۃ علی اصغر محمدی سیجانی، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، تہران، ایران، ۱۳۷۹.
*تیجانی، محمد، موتمر السقیفه، موسسه الفجر، لندن، بریتانیا، ۱۴۲۴ق.  
*تیجانی، محمد، موتمر السقیفہ، موسسہ الفجر، لندن، بریتانیا، ۱۴۲۴ق.  
*حموی، یاقوت بن عبد الله، معجم البلدان،‌دار صادر، بیروت، لبنان، ۱۹۹۵م.
*حموی، یاقوت بن عبد اللہ، معجم البلدان،‌دار صادر، بیروت، لبنان، ۱۹۹۵م.
*جوهری بصری، احمد بن عبد العزیز، السقیفۃ و فدک، محقق:امینی، محمد هادی، مکتبه نینوی الحدیثه، تهران، ایران.
*جوہری بصری، احمد بن عبد العزیز، السقیفۃ و فدک، محقق:امینی، محمد ہادی، مکتبہ نینوی الحدیثہ، تہران، ایران.
*ذهبی، محمد بن احمد، تاریخ الإسلام و وفیات المشاهیر و الأعلام، محقق: تدمری، عمر عبدالسلام،‌دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان.
*ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الإسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، محقق: تدمری، عمر عبدالسلام،‌دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان.
*زمخشری، محمود بن عمر،الفائق فی غریب الحدیث،‌دار الکتب العلمیه، منشورات محمد علی بیضون، بیروت، لبنان.
*زمخشری، محمود بن عمر،الفائق فی غریب الحدیث،‌دار الکتب العلمیہ، منشورات محمد علی بیضون، بیروت، لبنان.
*طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری: تاریخ الأمم و الملوک، محقق:ابراهیم، محمد ابوالفضل،‌دار التراث، بیروت، لبنان، ۱۳۸۷ق.
*طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری: تاریخ الأمم و الملوک، محقق:ابراہیم، محمد ابوالفضل،‌دار التراث، بیروت، لبنان، ۱۳۸۷ق.
*عبدالمقصود، عبدالفتاح، السقیفه و الخلافه،‌دار المحجه البیضاء، بیروت، لبنان، ۱۴۲۷ق.
*عبدالمقصود، عبدالفتاح، السقیفہ و الخلافہ،‌دار المحجہ البیضاء، بیروت، لبنان، ۱۴۲۷ق.
*عسکری، مرتضی، سقیفه: بررسی نحوه شکل گیری حکومت پس از رحلت پیامبر، به کوشش: دشتی، مهدی، دانشکده اصول الدین، قم، ایران، ۱۳۸۷.
*عسکری، مرتضی، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل گیری حکومت پس از رحلت پیامبر، بہ کوشش: دشتی، مہدی، دانشکدہ اصول الدین، قم، ایران، ۱۳۸۷.
* ماڈلونگ، ویلفرد، جانشینی حضرت محمد صلی الله علیه وآله، مترجم: احمد نمایی، محمدجواد مهدوی، جواد قاسمی، حیدر رضا ضابط،بنیاد پژوهش‎های اسلامی آستان قدس رضوی، مشهد، ایران، ۱۳۷۷ش.  
* ماڈلونگ، ویلفرد، جانشینی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ، مترجم: احمد نمایی، محمدجواد مہدوی، جواد قاسمی، حیدر رضا ضابط،بنیاد پژوہش‎ہای اسلامی آستان قدس رضوی، مشہد، ایران، ۱۳۷۷ش.  
*مظفر، محمدرضا، السقیفۃ، با مقدمه محمود مظفر، مؤسسۃ أنصاریان للطباعۃ و النشر، قم، ایران، ۱۴۱۵ق.
*مظفر، محمدرضا، السقیفۃ، با مقدمہ محمود مظفر، مؤسسۃ أنصاریان للطباعۃ و النشر، قم، ایران، ۱۴۱۵ق.
*معیر، زیبا و حسین مفتخری؛ صادق آیینه وند؛ علی رجبلو، «بررسی تأثیراعزام لشکر اسامه بر چگونگی مشارکت سیاسی نخبگان مهاجر و انصار درسقیفه و تثبیت خلافت»، مطالعات تاریخ اسلام،شماره۱۷، سال پنجم، تابستان ۱۳۹۲.
*معیر، زیبا و حسین مفتخری؛ صادق آیینہ وند؛ علی رجبلو، «بررسی تأثیراعزام لشکر اسامہ بر چگونگی مشارکت سیاسی نخبگان مہاجر و انصار درسقیفہ و تثبیت خلافت»، مطالعات تاریخ اسلام،شمارہ۱۷، سال پنجم، تابستان ۱۳۹۲.
*مقدسی، مطهر بن طاهر، البدء و التاریخ، مکتبه الثقافه الدینی، بی‌جا، بی‌تا.
*مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، مکتبہ الثقافہ الدینی، بی‌جا، بی‌تا.
*نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین،مکتبۃ آیۃ الله مرعشی النجفی (ره)، قم، ایران، ۱۴۰۴ق.
*نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین،مکتبۃ آیۃ اللہ مرعشی النجفی (رہ)، قم، ایران، ۱۴۰۴ق.
*نیر تبریزی، دیوان آتشکده، کتابفروشی هاتف، تبریز، ایران، ۱۳۱۹ش،  
*نیر تبریزی، دیوان آتشکدہ، کتابفروشی ہاتف، تبریز، ایران، ۱۳۱۹ش،  
*یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، بیروت، لبنان.
*یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، بیروت، لبنان.
*طبرسی، احمد بن علی،الاحتجاج، مصحح:موسوی خرسان، محمدباقر، نشر المرتضی، مشهد مقدس، ایران.
*طبرسی، احمد بن علی،الاحتجاج، مصحح:موسوی خرسان، محمدباقر، نشر المرتضی، مشہد مقدس، ایران.
{{پایان}}
{{پایان}}




==پیوند به بیرون==
==پیوند بہ بیرون==


{{ستون خ}}
{{ستون خ}}
سطر 271: سطر 271:
==بیرونی روابط==
==بیرونی روابط==
*[http://lib.eshia.ir/15070/1/1 متن کتاب السقیفۃ اثر محمد رضا مظفر]
*[http://lib.eshia.ir/15070/1/1 متن کتاب السقیفۃ اثر محمد رضا مظفر]
*[http://lib.eshia.ir/10455/1/0 متن کتاب السقیفۃ و الفدک اثر جوهری بصری]
*[http://lib.eshia.ir/10455/1/0 متن کتاب السقیفۃ و الفدک اثر جوہری بصری]
*[https://archive.org/stream/MotamirAlsaqifa?ui=embed#page/n0/mode/2up متن کتاب مؤتمر السقیفۃ نظرۃ جدیدۃ فی التاریخ الاسلامی اثر سید محمد تیجانی]
*[https://archive.org/stream/MotamirAlsaqifa?ui=embed#page/n0/mode/2up متن کتاب مؤتمر السقیفۃ نظرۃ جدیدۃ فی التاریخ الاسلامی اثر سید محمد تیجانی]
*[http://lib.eshia.ir/27833/1/0 متن کتاب حقائق السقیفۃ فی دراسۃ روایۃ أبی مخنف اثر جلیل تاری]
*[http://lib.eshia.ir/27833/1/0 متن کتاب حقائق السقیفۃ فی دراسۃ روایۃ أبی مخنف اثر جلیل تاری]
سطر 278: سطر 278:
{{پہلی صدی ہجری کے واقعات}}
{{پہلی صدی ہجری کے واقعات}}


[[fa:واقعه سقیفه بنی‌ساعده]]
[[fa:واقعہ سقیفه بنی‌ساعده]]
[[ar:واقعۃ سقيفۃ بني ساعدماڈلونگ]]
[[ar:واقعة سقيفة بني ساعده مادلونگ]]
[[en:Event of Saqifa Bani Sa'ida]]
[[en:Event of Saqifa Bani Sa'ida]]
[[tr:Sakife-i Beni Saide Vakıası]]
[[tr:Sakife-i Beni Saide Vakıası]]
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
7,196

ترامیم