مندرجات کا رخ کریں

"سورہ اسراء" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 51: سطر 51:
* [[ملائکہ]] کا [[حضرت آدم]] کے لئے سجدہ کرنا اور [[ابلیس]] کی روگردانی؛ (آیت نمبر 61-65)
* [[ملائکہ]] کا [[حضرت آدم]] کے لئے سجدہ کرنا اور [[ابلیس]] کی روگردانی؛ (آیت نمبر 61-65)
* [[حضرت موسی]] کی داستان: حضرت موسی 9 علامتیں، [[فرعون]] کے ساتھ  آپ کی گفتگو، فرعونیوں کا غرق ہونا، بنی‌اسرائیل کا [[مصر]] میں قیام (آیت نمبر 101-104)
* [[حضرت موسی]] کی داستان: حضرت موسی 9 علامتیں، [[فرعون]] کے ساتھ  آپ کی گفتگو، فرعونیوں کا غرق ہونا، بنی‌اسرائیل کا [[مصر]] میں قیام (آیت نمبر 101-104)
==بعض آیات کی شأن نزول==
سورہ اسراء کی بعض آیات کی [[شأن نزول]] درج ذیل ہیں:
===بخشش میں اعتدال (آیت 29)===
[[جابر بن عبداللہ انصاری]] نقل کرتے ہیں کہ [[پیغمبر اسلامؐ]] [[صحابہ|اصحاب]] کے درمیان تشریف فرما تھے اتنے میں ایک لڑکا آیا اور کہا میری ماں آپ کی ایک قمیص مانگ رہی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ ایک قمیص سے زیادہ نہیں رکھتے تھے گھر جا کر اسے اس لڑکے کے حوالہ فرمایا اور خود گھر میں برہنہ رہنے لگے یہاں تک کہ [[بلال]] نے اذان دی۔ [[مسلمانان]] پیغمبر اکرمؐ کے منتظر تھے لیکن آپ نہ آئے جو اصحاب کی پریشانی کا سبب بنی جس کے بعد سورہ اسراء کی آیت نمبر 29: {{قرآن کا متن|وَ لا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلى‏ عُنُقِكَ وَ لا تَبْسُطْها كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَحْسُورا؛|ترجمہ=اور (دیکھو) نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ لو اور نہ ہی اسے بالکل کھول دو کہ (ایسا کرنے سے) ملامت زدہ (اور) تہی دست ہو کر بیٹھ جاؤگے۔}} نازل ہوئی اور پیغمبر اکرم کو بخشش میں اعتدال کی رعایت کرنے کی سفارش فرمائی۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۳۵؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۹۴؛ محقق، نمونه بينات در شأن نزول آيات، ۱۳۶۱ش، ص۴۹۸.‏</ref>
===خدا کی نشانیوں کا انکار معجزات کے نزول میں مانع (آیت 59)===
از [[ابن عباس]] نقل شده [[مکه|اهل مکه]] از پیامبر اسلام(ص) خواستند [[صفا|تپه صفا]] را طلا سازد و کوه‌های مکه را برای زراعت به عقب براند تا [[ایمان]] بیاورند. [[وحی]] آمد اگر بخواهی صبر کن تا [[مؤمنان|مؤمنانی]] از ایشان برگزینیم و اگر میل داری خواسته‌هایشان را برمی‌آوریم؛ ولی پس از آن اگر منکر شوند مانند پیشینیان هلاکشان خواهیم کرد. پیامبر اسلام از [[خداوند]] خواست به آنها مهلت دهد و [[آیه]] ۵۹ سوره اسراء «وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْ‌سِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ» نازل شد که تکذیب آیات الهی توسط گذشتگان را تنها مانع فرستادن [[معجزه|معجزات]] می‌داند.<ref>واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۹۵.</ref>
=== روح کی حقیقت کے بارے میں سوال(آیت 85) ===
درباره سبب نزول آیه ۸۵ سوره اسراء «وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّ‌وحِ ۖ قُلِ الرُّ‌وحُ مِنْ أَمْرِ‌ رَ‌بِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا؛ و در باره روح از تو مى‌پرسند، بگو: روح از [سنخ‌] فرمان پروردگار من است، و به شما از دانش جز اندكى داده نشده است.» آمده است [[قریشیان]] از [[یهودیان]] خواستند سوالاتی برای طرح از [[پیامبر اسلام(ص)]] به آنها آموزش دهند. یهودیان گفتند از او راجع به [[روح]] و [[اصحاب کهف]] و [[ذوالقرنین]] سوال کنید اگر به همه جواب داد یا به هیچ یک جواب نداد پیامبر نیست؛ ولی اگر بعضی را جواب داد و از جواب برخی خودداری کرد، پیغمبر است. قریش آن سوال‌ها را پرسیدند و آیات [[سوره کهف]] درباره دو سوال نازل شد و آیه ۸۵ سوره اسراء درباره ماهیت روح آمد که علم آن را نزد پروردگار دانست.<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۷۴.</ref>


== متن اور ترجمہ ==
== متن اور ترجمہ ==
confirmed، templateeditor
9,024

ترامیم