مندرجات کا رخ کریں

"آیت کرامت" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 41: سطر 41:


==انسانی کرامت کا ذاتی یا اکتسابی ہونا==
==انسانی کرامت کا ذاتی یا اکتسابی ہونا==
آیت کرامت میں مذکور انسانی کرامت کی نوعیت میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مفسرین انسان کی ذاتی کرامت کے قائل ہیں اور انسان کو دوسرے مخلوقات سے افضل اور برتر مخلوق اور موجود قرار دیتے ہیں اور مذکورہ آیت میں کرامت کو بغیر کسی قید و شرط کے مطلق لانے کو اپنے مدعا پر دلیل قرار دیتے ہیں۔<ref>فضل‌اللہ، تفسیر من وحی القرآن، 1419ھ، ج14، ص179-180؛ ابن‌عاشور، التحریر والتنویر، 1420ھ، ج14، ص130-131؛ طباطبائی، المیزان، 1393ھ، ج13، ص155-156۔</ref> شیعہ مفکر اور قرآن شناس [[شہید مطہری]] بھی مذکورہ آیت میں کرامت سے انسان کی ذاتی کرامت مراد لیتے ہیں اور یہ خدا کی طرف سے یہ کرامت اور شرافت انسان کو صرف انسان ہونے کے ناطے عطا کیا گیا ہے، اور انسانی کی ذاتی کرامت اور اعلی مرتبے کے اعتراف کے ساتھ اسے دوسرے مخلوقات کے مقابلے میں صرف ایک پیچیدہ مخلوق قرار دینے کو ایک دوسرے کا ضد قرار دیتے ہیں۔ <ref>مطہری، یادداشت ہا، ج6، ص500۔</ref> اسی طرح آپ انسان کی ذاتی کرامت کو اس کی فطرت اور فطری قوانین کا جزء سمجھتے ہیں اور اسی فطری شرافت اور کرامت کی حفاظت کے لئے انسان کو کرامت اور شرافت و وقار کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ <ref>مطہری، فطری بودن دین، ص186۔</ref> بعض دوسرے مفسرین کرامت اکتسابی کے قائل ہیں جو انسان میں موجود صلاحیتوں اور مثبت قوتوں کے بروئے کار لانے اور کمالات کے حصول کے لئے انسان کی سعی و تلاش کے نیتجے میں حاصل ہو جاتی ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص273؛ شیخ طوسی، التبیان، بی‌تا، ج6، ص503؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج2، ص681؛ جعفری، پیام خرد، 1377ہجری شمسی، ص107-108۔</ref> معاصر شیعہ فلسفی [[محمد تقی جعفری]] اس قسم کی کرامت کو انسان کی اختیاری خصوصیت قرار دیتے ہوئے «حقیقی کرامت اور وقار» کا نام دیتے ہیں۔<ref>جعفری، پیام خرد، 1377ہجری شمسی، ص107۔</ref> اور ممکن ہے ایک انسان غلط اور برے اعمال کے ذریعے اس کرامت اور شرافت کو ہاتھ سے دھو بیٹھے۔<ref>جعفری، پیام خرد، 1377ہجری شمسی، ص108؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص273-274۔</ref> شیعہ [[تفسیر قرآن|مفسر]] قرآن [[عبد اللہ جوادی آملی|آیت ا للہ جوادی آملی]] کے مطابق کائنات میں کرامت کی تین قسمیں؛ ما ورائے فطری یا ملکوتی، فطری اور انسانی، موجود ہوتی ہیں جن میں سے ملکوتی کرامت [[ فرشتہ|فرشتوں]]،[[عرش]] خدا وغیرہ کے ساتھ مختص ہوتی ہے اور فطری کرامت مادی موجودات جیسے جمادات وغیرہ کے ساتھ مختص ہے جبکہ اعلی انسانی اقدار فطری اور ماورائے فطری اقدار کے امتزاج سے حاصل ہوتے ہیں۔<ref>جوادی آملی، صورت و سیرت انسان در قرآن، 1397ہجری شمسی، ص327۔</ref>
آیت کرامت میں انسانی کرامت کی نوعیت میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مفسرین انسان کی ذاتی کرامت کے قائل ہیں اور انسان کو دوسرے مخلوقات سے افضل اور برتر قرار دیتے ہیں اور مذکورہ آیت میں کرامت کو بغیر کسی قید و شرط کے مطلق لانے کو اپنے مدعا پر دلیل قرار دیتے ہیں۔<ref>فضل‌اللہ، تفسیر من وحی القرآن، 1419ھ، ج14، ص179-180؛ ابن‌عاشور، التحریر والتنویر، 1420ھ، ج14، ص130-131؛ طباطبائی، المیزان، 1393ھ، ج13، ص155-156۔</ref> شیعہ مفکر اور قرآن شناس [[شہید مطہری]] بھی مذکورہ آیت میں کرامت سے انسان کی ذاتی کرامت مراد لیتے ہیں اور خدا کی طرف سے یہ کرامت اور شرافت انسان کو صرف انسان ہونے کے ناطے عطا کیا گیا ہے۔ شہید مطہری کے بقول انسانی کی ذاتی کرامت اور اعلی مرتبے کے اعتراف کے ساتھ اسے دوسرے مخلوقات کے مقابلے میں صرف ایک پیچیدہ مخلوق قرار دینا گویا اپنی بات کو مسترد کرنے کے مترادف ہے۔<ref>مطہری، یادداشت ہا، ج6، ص500۔</ref> اسی طرح شہید مطہری انسان کی ذاتی کرامت کو اس کی فطرت اور فطری قوانین کا جزء سمجھتے ہیں اور اسی فطری شرافت اور کرامت کی حفاظت کے لئے انسان کو کرامت اور شرافت و وقار کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ <ref>مطہری، فطری بودن دین، ص186۔</ref> ان کے مقابلے میں بعض دوسرے مفسرین کرامت اکتسابی کے قائل ہیں جو انسان میں موجود صلاحیتوں اور مثبت قوتوں کے بروئے کار لانے اور کمالات کے حصول کے لئے انسان کی سعی و تلاش کے نیتجے میں حاصل ہوتی ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص273؛ شیخ طوسی، التبیان، بی‌تا، ج6، ص503؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج2، ص681؛ جعفری، پیام خرد، 1377ہجری شمسی، ص107-108۔</ref> معاصر شیعہ فلسفی [[محمد تقی جعفری]] اکتسابی کرامت کو انسان کی اختیاری خصوصیت میں سے قرار دیتے ہوئے اسے حقیقی کرامت اور وقار کا نام دیتے ہیں۔<ref>جعفری، پیام خرد، 1377ہجری شمسی، ص107۔</ref> وہ کہتے ہیں کہ چونکہ انسان کی کرامت ذاتی نہیں بلکہ اکتسابی ہے اسی بنا پر یہ امکان پذیر ہے کہ ایک انسان غلط اور برے اعمال کے ذریعے اس کرامت اور شرافت کو ہاتھ سے دھو بیٹھے۔<ref>جعفری، پیام خرد، 1377ہجری شمسی، ص108؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص273-274۔</ref> شیعہ [[تفسیر قرآن|مفسر]] قرآن [[عبد اللہ جوادی آملی|آیت ا للہ جوادی آملی]] کے مطابق کائنات میں کرامت کی تین قسمیں ہیں: ما ورائے فطری یا ملکوتی کرامت، فطری کرامت اور انسانی کرامت جن میں سے ملکوتی کرامت [[ فرشتہ|فرشتوں]]،[[عرش]] خدا وغیرہ کے ساتھ مختص ہوتی ہے اور فطری کرامت مادی موجودات جیسے جمادات وغیرہ کے ساتھ مختص ہے جبکہ اعلی انسانی اقدار فطری اور ماورائے فطری اقدار کے امتزاج سے حاصل ہوتی ہیں۔<ref>جوادی آملی، صورت و سیرت انسان در قرآن، 1397ہجری شمسی، ص327۔</ref>


==متعلقہ مقالات==
==متعلقہ مقالات==
confirmed، templateeditor
9,024

ترامیم