مندرجات کا رخ کریں

"آیت کرامت" کے نسخوں کے درمیان فرق

عدد انگلیسی
(عدد انگلیسی)
سطر 24: سطر 24:
==متن اور ترجمہ==
==متن اور ترجمہ==
{{گفتگو
{{گفتگو
|عرض=۱۰۰
|عرض=100
|شکل بندی عنوان=line-height:200%; font-size:125%; font-weight: normal;
|شکل بندی عنوان=line-height:200%; font-size:125%; font-weight: normal;
|شکل بندی ستون راست=text-align:center; line-height:170%
|شکل بندی ستون راست=text-align:center; line-height:170%
|شکل بندی آدرس=font-size:75%;
|شکل بندی آدرس=font-size:75%;
|تورفتگی=۰
|تورفتگی=0
|تراز=وسط
|تراز=وسط
|عنوان={{عربی|وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَ حَمَلْنَاہُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنَاہُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَ فَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا}}
|عنوان={{عربی|وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَ حَمَلْنَاہُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنَاہُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَ فَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا}}
| بے شک ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت و بزرگی دی ہے اور ہم نے انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا (سواریاں دیں) پاک و پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور انہیں اپنی مخلوقات پر (جو بہت ہیں) فضیلت دی۔([[سورہ اسراء]]، آیہ ۷۰)
| بے شک ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت و بزرگی دی ہے اور ہم نے انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا (سواریاں دیں) پاک و پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور انہیں اپنی مخلوقات پر (جو بہت ہیں) فضیلت دی۔([[سورہ اسراء]]، آیہ 70)
}}
}}


==مضامین==
==مضامین==
[[سورہ اسراء]] کی آیت نمبر 70 در حقیقت [[قرآن]] کی نگاہ میں انسان کی حقیقت، تخلیق کائنات میں انسان کا مقام اور دوسرے مخلوقات پر اس کی برتری اور افضلیت کی نشاندہی کرتی ہے۔<ref>سلطانی، «کرامت انسان از نگاہ قرآن»، ص۳۰؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ہجری شمسی، ج۱۲، ص۱۹۶۔</ref> علامہ طباطبائی [[المیزان فی تفسیر القرآن (کتاب)|تفسیر المیزان]] میں تمام انسانوں(خواہ [[کفر|کافر]] یا مسلمان) کو ان خصوصیات کا حامل قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا آیت میں [[ایمان|مؤمنین]] کی قید اور شرط کا اضافہ کرنا چاہئے تھا۔<ref>طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۳ھ، ج۱۳، ص۱۵۵۔</ref> خدا اس آیت میں اپنی نعمتوں کو ذکر کرنے کے ذریعے انسان پر اپنی لطف اور احسان کی یادہانی کرنا چاہتا ہے تاکہ انسان شکر ادا کریں۔<ref>طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۳ھ، ج۱۳، ص۱۵۵۔</ref>
[[سورہ اسراء]] کی آیت نمبر 70 در حقیقت [[قرآن]] کی نگاہ میں انسان کی حقیقت، تخلیق کائنات میں انسان کا مقام اور دوسرے مخلوقات پر اس کی برتری اور افضلیت کی نشاندہی کرتی ہے۔<ref>سلطانی، «کرامت انسان از نگاہ قرآن»، ص30؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج12، ص196۔</ref> علامہ طباطبائی [[المیزان فی تفسیر القرآن (کتاب)|تفسیر المیزان]] میں تمام انسانوں(خواہ [[کفر|کافر]] یا مسلمان) کو ان خصوصیات کا حامل قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا آیت میں [[ایمان|مؤمنین]] کی قید اور شرط کا اضافہ کرنا چاہئے تھا۔<ref>طباطبائی، المیزان، 1393ھ، ج13، ص155۔</ref> خدا اس آیت میں اپنی نعمتوں کو ذکر کرنے کے ذریعے انسان پر اپنی لطف اور احسان کی یادہانی کرنا چاہتا ہے تاکہ انسان شکر ادا کریں۔<ref>طباطبائی، المیزان، 1393ھ، ج13، ص155۔</ref>
===تکریم اور تفضیل میں فرق===
===تکریم اور تفضیل میں فرق===
مفسرین کے مطابق آیت کرامت میں انسانی کرامت سے مراد انسان کی وہ خصوصیات ہیں جو دوسرے مخلوقات میں نہیں پائے جاتے۔ انسان کی وہ مخصوص خصوصیت اس کی [[عقل]] ہے جس کے ذریعے وہ اچھے اور برے، حق اور باطل اور مفید اور مضر کے درمیان تشخیص دے سکتے ہیں۔<ref name=":0">شیخ طوسی، التبیان، بی‌تا، ج۶، ص۵۰۳؛ ابن‌عربی، تفسیر ابن‌عربی، ۱۴۲۲ھ، ج۱، ص۳۸۳؛ طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۳ھ، ج۱۳، ص۱۵۵-۱۵۶؛ آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ھ، ج۱۵، ص۱۱۸؛ الزحیلی، التفسیر المنیر، ۱۴۱۸ھ، ج۱۵، ص۱۲۱؛ ثعالبی، تفسیر الثعالبی، ۱۴۱۸ھ، ج۳، ص۴۸۶۔</ref> جبکہ تفضیل میں انسان کو دوسرے مخلوقات کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے؛ یعنی جو چیزیں دوسرے مخلوقات میں بھی ہیں ان میں بھی انسان کا حصہ دوسروں سے زیادہ اور بہتر ہے اور دوسرے مخلوقات کے ساتھ انسان کا موازنہ اس کے خوراک، لباس، مسکن، شادی بیاہ، نظم و نسق اور اجتماعی زندگی سب میں قابل درک ہے؛ کیونکہ انسان ان تمام چیزوں میں ترقی اور بلند اہداف کی تلاش میں ہوتے ہیں جبکہ دوسرے مخلوقات ان چیزوں کی ابتدائی اور سادہ حالت سے بہرہ مند ہیں۔<ref>طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۳ھ، ج۱۳، ص۱۵۵-۱۵۶۔</ref>
مفسرین کے مطابق آیت کرامت میں انسانی کرامت سے مراد انسان کی وہ خصوصیات ہیں جو دوسرے مخلوقات میں نہیں پائے جاتے۔ انسان کی وہ مخصوص خصوصیت اس کی [[عقل]] ہے جس کے ذریعے وہ اچھے اور برے، حق اور باطل اور مفید اور مضر کے درمیان تشخیص دے سکتے ہیں۔<ref name=":0">شیخ طوسی، التبیان، بی‌تا، ج6، ص503؛ ابن‌عربی، تفسیر ابن‌عربی، 1422ھ، ج1، ص383؛ طباطبائی، المیزان، 1393ھ، ج13، ص155-156؛ آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج15، ص118؛ الزحیلی، التفسیر المنیر، 1418ھ، ج15، ص121؛ ثعالبی، تفسیر الثعالبی، 1418ھ، ج3، ص486۔</ref> جبکہ تفضیل میں انسان کو دوسرے مخلوقات کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے؛ یعنی جو چیزیں دوسرے مخلوقات میں بھی ہیں ان میں بھی انسان کا حصہ دوسروں سے زیادہ اور بہتر ہے اور دوسرے مخلوقات کے ساتھ انسان کا موازنہ اس کے خوراک، لباس، مسکن، شادی بیاہ، نظم و نسق اور اجتماعی زندگی سب میں قابل درک ہے؛ کیونکہ انسان ان تمام چیزوں میں ترقی اور بلند اہداف کی تلاش میں ہوتے ہیں جبکہ دوسرے مخلوقات ان چیزوں کی ابتدائی اور سادہ حالت سے بہرہ مند ہیں۔<ref>طباطبائی، المیزان، 1393ھ، ج13، ص155-156۔</ref>
[[ملف:آیه کرامت.jpg|250px|تصغیر|آیت کرامت کی خوشخطی]]
[[ملف:آیه کرامت.jpg|250px|تصغیر|آیت کرامت کی خوشخطی]]


==انسانی کرامت کا ذاتی یا اکتسابی ہونا==
==انسانی کرامت کا ذاتی یا اکتسابی ہونا==
آیت کرامت میں مذکور انسانی کرامت کی نوعیت میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مفسرین انسان کی ذاتی کرامت کے قائل ہیں اور انسان کو دوسرے مخلوقات سے افضل اور برتر مخلوق اور موجود قرار دیتے ہیں اور مذکورہ آیت میں کرامت کو بغیر کسی قید و شرط کے مطلق لانے کو اپنے مدعا پر دلیل قرار دیتے ہیں۔<ref>فضل‌اللہ، تفسیر من وحی القرآن، ۱۴۱۹ھ، ج۱۴، ص۱۷۹-۱۸۰؛ ابن‌عاشور، التحریر والتنویر، ۱۴۲۰ھ، ج۱۴، ص۱۳۰-۱۳۱؛ طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۳ھ، ج۱۳، ص۱۵۵-۱۵۶۔</ref> شیعہ مفکر اور قرآن شناس [[شہید مطہری]] بھی مذکورہ آیت میں کرامت سے انسان کی ذاتی کرامت مراد لیتے ہیں اور یہ خدا کی طرف سے یہ کرامت اور شرافت انسان کو صرف انسان ہونے کے ناطے عطا کیا گیا ہے، اور انسانی کی ذاتی کرامت اور اعلی مرتبے کے اعتراف کے ساتھ اسے دوسرے مخلوقات کے مقابلے میں صرف ایک پیچیدہ مخلوق قرار دینے کو ایک دوسرے کا ضد قرار دیتے ہیں۔ <ref>مطہری، یادداشت ہا، ج۶، ص۵۰۰۔</ref> اسی طرح آپ انسان کی ذاتی کرامت کو اس کی فطرت اور فطری قوانین کا جزء سمجھتے ہیں اور اسی فطری شرافت اور کرامت کی حفاظت کے لئے انسان کو کرامت اور شرافت و وقار کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ <ref>مطہری، فطری بودن دین، ص۱۸۶۔</ref> بعض دوسرے مفسرین کرامت اکتسابی کے قائل ہیں جو انسان میں موجود صلاحیتوں اور مثبت قوتوں کے بروئے کار لانے اور کمالات کے حصول کے لئے انسان کی سعی و تلاش کے نیتجے میں حاصل ہو جاتی ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۱۵ھ، ج۶، ص۲۷۳؛ شیخ طوسی، التبیان، بی‌تا، ج۶، ص۵۰۳؛ زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۶۸۱؛ جعفری، پیام خرد، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ص۱۰۷-۱۰۸۔</ref> معاصر شیعہ فلسفی [[محمد تقی جعفری]] اس قسم کی کرامت کو انسان کی اختیاری خصوصیت قرار دیتے ہوئے «حقیقی کرامت اور وقار» کا نام دیتے ہیں۔<ref>جعفری، پیام خرد، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ص۱۰۷۔</ref> اور ممکن ہے ایک انسان غلط اور برے اعمال کے ذریعے اس کرامت اور شرافت کو ہاتھ سے دھو بیٹھے۔<ref>جعفری، پیام خرد، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ص۱۰۸؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۱۵ھ، ج۶، ص۲۷۳-۲۷۴۔</ref> شیعہ [[تفسیر قرآن|مفسر]] قرآن [[عبد اللہ جوادی آملی|آیت ا للہ جوادی آملی]] کے مطابق کائنات میں کرامت کی تین قسمیں؛ ما ورائے فطری یا ملکوتی، فطری اور انسانی، موجود ہوتی ہیں جن میں سے ملکوتی کرامت [[ فرشتہ|فرشتوں]]،[[عرش]] خدا وغیرہ کے ساتھ مختص ہوتی ہے اور فطری کرامت مادی موجودات جیسے جمادات وغیرہ کے ساتھ مختص ہے جبکہ اعلی انسانی اقدار فطری اور ماورائے فطری اقدار کے امتزاج سے حاصل ہوتے ہیں۔<ref>جوادی آملی، صورت و سیرت انسان در قرآن، ۱۳۹۷ہجری شمسی، ص۳۲۷۔</ref>
آیت کرامت میں مذکور انسانی کرامت کی نوعیت میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مفسرین انسان کی ذاتی کرامت کے قائل ہیں اور انسان کو دوسرے مخلوقات سے افضل اور برتر مخلوق اور موجود قرار دیتے ہیں اور مذکورہ آیت میں کرامت کو بغیر کسی قید و شرط کے مطلق لانے کو اپنے مدعا پر دلیل قرار دیتے ہیں۔<ref>فضل‌اللہ، تفسیر من وحی القرآن، 1419ھ، ج14، ص179-180؛ ابن‌عاشور، التحریر والتنویر، 1420ھ، ج14، ص130-131؛ طباطبائی، المیزان، 1393ھ، ج13، ص155-156۔</ref> شیعہ مفکر اور قرآن شناس [[شہید مطہری]] بھی مذکورہ آیت میں کرامت سے انسان کی ذاتی کرامت مراد لیتے ہیں اور یہ خدا کی طرف سے یہ کرامت اور شرافت انسان کو صرف انسان ہونے کے ناطے عطا کیا گیا ہے، اور انسانی کی ذاتی کرامت اور اعلی مرتبے کے اعتراف کے ساتھ اسے دوسرے مخلوقات کے مقابلے میں صرف ایک پیچیدہ مخلوق قرار دینے کو ایک دوسرے کا ضد قرار دیتے ہیں۔ <ref>مطہری، یادداشت ہا، ج6، ص500۔</ref> اسی طرح آپ انسان کی ذاتی کرامت کو اس کی فطرت اور فطری قوانین کا جزء سمجھتے ہیں اور اسی فطری شرافت اور کرامت کی حفاظت کے لئے انسان کو کرامت اور شرافت و وقار کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ <ref>مطہری، فطری بودن دین، ص186۔</ref> بعض دوسرے مفسرین کرامت اکتسابی کے قائل ہیں جو انسان میں موجود صلاحیتوں اور مثبت قوتوں کے بروئے کار لانے اور کمالات کے حصول کے لئے انسان کی سعی و تلاش کے نیتجے میں حاصل ہو جاتی ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص273؛ شیخ طوسی، التبیان، بی‌تا، ج6، ص503؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج2، ص681؛ جعفری، پیام خرد، 1377ہجری شمسی، ص107-108۔</ref> معاصر شیعہ فلسفی [[محمد تقی جعفری]] اس قسم کی کرامت کو انسان کی اختیاری خصوصیت قرار دیتے ہوئے «حقیقی کرامت اور وقار» کا نام دیتے ہیں۔<ref>جعفری، پیام خرد، 1377ہجری شمسی، ص107۔</ref> اور ممکن ہے ایک انسان غلط اور برے اعمال کے ذریعے اس کرامت اور شرافت کو ہاتھ سے دھو بیٹھے۔<ref>جعفری، پیام خرد، 1377ہجری شمسی، ص108؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص273-274۔</ref> شیعہ [[تفسیر قرآن|مفسر]] قرآن [[عبد اللہ جوادی آملی|آیت ا للہ جوادی آملی]] کے مطابق کائنات میں کرامت کی تین قسمیں؛ ما ورائے فطری یا ملکوتی، فطری اور انسانی، موجود ہوتی ہیں جن میں سے ملکوتی کرامت [[ فرشتہ|فرشتوں]]،[[عرش]] خدا وغیرہ کے ساتھ مختص ہوتی ہے اور فطری کرامت مادی موجودات جیسے جمادات وغیرہ کے ساتھ مختص ہے جبکہ اعلی انسانی اقدار فطری اور ماورائے فطری اقدار کے امتزاج سے حاصل ہوتے ہیں۔<ref>جوادی آملی، صورت و سیرت انسان در قرآن، 1397ہجری شمسی، ص327۔</ref>


==متعلقہ مقالات==
==متعلقہ مقالات==
سطر 52: سطر 52:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
*آلوسی، محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، بہ تحقیق علی عبدالباری عطیہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ھ۔
*آلوسی، محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، بہ تحقیق علی عبدالباری عطیہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1415ھ۔
*ابن‌عاشور، محمدطاہر، التحریر والتنویر، بیروت، مؤسسۃ التاریخ العربی، ۱۴۲۰ھ۔
*ابن‌عاشور، محمدطاہر، التحریر والتنویر، بیروت، مؤسسۃ التاریخ العربی، 1420ھ۔
*ابن‌عربی، محمد بن علی، تفسیر ابن‌عربی، بہ تحقیق سمیر مصطفی رباب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۲ق
*ابن‌عربی، محمد بن علی، تفسیر ابن‌عربی، بہ تحقیق سمیر مصطفی رباب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1422ق
*ثعالبی، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر الثعالبی، بہ تحقیق علی محمد معوض، عادل احمد عبدالموجود و عبدالفتاح ابو سنہ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۱۸ھ۔
*ثعالبی، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر الثعالبی، بہ تحقیق علی محمد معوض، عادل احمد عبدالموجود و عبدالفتاح ابو سنہ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1418ھ۔
*جعفری، محمدتقی، پیام خرد، تہران، مؤسسہ کرامت، چاپ اول، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
*جعفری، محمدتقی، پیام خرد، تہران، مؤسسہ کرامت، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
*الزحیلی، وہبۃ، التفسیر المنیر فی العقیدۃ والشریعۃ والمنہج، بیروت، دار الفکر المعاصر، ۱۴۱۸ھ۔
*الزحیلی، وہبۃ، التفسیر المنیر فی العقیدۃ والشریعۃ والمنہج، بیروت، دار الفکر المعاصر، 1418ھ۔
*زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف، بہ تصحیح مصطفی حسین احمد، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۴۰۷ھ۔
*زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف، بہ تصحیح مصطفی حسین احمد، بیروت، دار الکتاب العربی، 1407ھ۔
*سلطانی، محمدعلی، [https://www۔noormags۔ir/view/fa/articlepage/17666/30/text «کرامت انسان از نگاہ قرآن»]، در مجلہ آینہ پژوہہجری شمسی، شمارہ ۱۰۲، بہمن و اسفند ۱۳۸۵ہجری شمسی۔
*سلطانی، محمدعلی، [https://www۔noormags۔ir/view/fa/articlepage/17666/30/text «کرامت انسان از نگاہ قرآن»]، در مجلہ آینہ پژوہہجری شمسی، شمارہ 102، بہمن و اسفند 1385ہجری شمسی۔
*شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، با مقدمہ محمدمحسن آقابزرگ تہرانی و تصحیح احمدحبیب عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
*شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، با مقدمہ محمدمحسن آقابزرگ تہرانی و تصحیح احمدحبیب عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
*طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ سوم، ۱۳۹۳ھ۔
*طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ سوم، 1393ھ۔
*طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ اول، ۱۴۱۵ھ۔
*طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ اول، 1415ھ۔
*[https://www۔asrehamoon۔ir/news/57673 «طراحی جالب لوگوی حقوق بشر با خط میخی و آیہ قرآن»]، پایگاہ خبری عصر ہامون، درج مطلب: ۱۵ مرداد ۱۳۹۳ہجری شمسی، بازدید: ۱۴ آبان ۱۴۰۳ہجری شمسی۔
*[https://www۔asrehamoon۔ir/news/57673 «طراحی جالب لوگوی حقوق بشر با خط میخی و آیہ قرآن»]، پایگاہ خبری عصر ہامون، درج مطلب: 15 مرداد 1393ہجری شمسی، بازدید: 14 آبان 1403ہجری شمسی۔
*فضل‌اللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک للطباعہ و النشر، ۱۴۱۹ھ۔
*فضل‌اللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک للطباعہ و النشر، 1419ھ۔
*قرآن کریم۔
*قرآن کریم۔
*مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ہجری شمسی۔
*مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1371ہجری شمسی۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}


confirmed، templateeditor
9,024

ترامیم