مندرجات کا رخ کریں

"ائمہ معصومین علیہم السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 179: سطر 179:
شیعہ روایات کے مطابق امام مہدی کے غیبت کے دوران آپ کے ظہور کا انتظار کرنے کی تاکید ہوئی ہے اور انتظارِ فرج کو سب سے بہترین عمل قرار دیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۱۲۲-.</ref> احادیث کی رو سے شیعوں کا عقیدہ ہے<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۵، ح۲۱؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۳۳۶.</ref> کہ امام کے ظہور کے بعد معاشرہ عدل و انصاف سے پر ہوگا۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۱و۲۳۲.</ref> بہت ساری روایات میں ظہور کی کچھ نشانیاں بیان ہوئی ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۱۸۱-۲۷۸.</ref>
شیعہ روایات کے مطابق امام مہدی کے غیبت کے دوران آپ کے ظہور کا انتظار کرنے کی تاکید ہوئی ہے اور انتظارِ فرج کو سب سے بہترین عمل قرار دیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۱۲۲-.</ref> احادیث کی رو سے شیعوں کا عقیدہ ہے<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۵، ح۲۱؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۳۳۶.</ref> کہ امام کے ظہور کے بعد معاشرہ عدل و انصاف سے پر ہوگا۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۱و۲۳۲.</ref> بہت ساری روایات میں ظہور کی کچھ نشانیاں بیان ہوئی ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۱۸۱-۲۷۸.</ref>


==آئمہؑ کے بارے میں اہل سنت کی کتابیں==
== اہل سنت کے ہاں شیعہ ائمہ کا مقام==
شیعہ ائمہ کو اہل سنت امام اور پیغمبر اکرمؐ کے بلافصل خلیفے نہیں مانتے ہیں؛<ref>ملاحظہ کریں:‌ قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسة، ۱۴۲۲ق، ص۵۱۴؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۶۳و۲۹۰.</ref> لیکن ان سے محبت کرتے ہیں<ref>ملاحظہ کریں: بغدادی، الفرق بین الفرق، ۱۹۷۷م، ص۳۵۳و۳۵۴.</ref> [[حضرت محمد صلی الله علیه و آله|پیغمبر اکرمؐ]] کی ایک روایت جو اہل سنت مآخذ میں نقل ہوئی ہے اس کے مطابق[[آیہ مودت]]،<ref>«قُلْ لاأَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی؛ آپ(ص) کہیے کہ میں تم سے اس(تبلیغ و رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اپنے قرابتداروں کی محبت کے»‏ سوره شوری، آیه ۲۳.</ref> جن رشتہ داروں کی مودت کو واجب قرار دیا ہے ان میں [[امام علی علیه‌السلام|علی(ع)]] و [[حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها|فاطمه(س)]] اور ان کی اولاد شامل ہیں۔<ref>حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۱۸۹-۱۹۶؛ زمخشری، الکشاف،‌ ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۲۱۹و۲۲۰.</ref> چھٹی صدی ہجری کے اہل سنت مفسر اور متکلم [[فخرالدین رازی]] آیہ مودت سے استناد کرتے ہوئے نماز کے تشہد میں صلوات، سیرت نبوی، علی و فاطمہ اور ان کی آل سے دوستی کو واجب سمجھتے ہیں۔<ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۷، ص۵۹۵.</ref>
 
بعض اہل سنت علما، شیعہ ائمہ کے مزار پر زیارت کرنے جاتے تھے اور ان سے توسل کرتے تھے۔ ان میں سے تیسری صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین ابو علی خَلّال کہتے ہیں کہ جب بھی مجھے کوئی مشکل درپیش ہوتی تھی تو میں [[امام موسی کاظم علیه‌السلام|موسی بن جعفر]] کی قبر کی زیارت کرنے جاتا تھا اور ان سے متوسل ہوتا تھا تو میری مشکل ٹل جاتی تھی۔<ref> بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۳۳.</ref> تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے اہل سنت فقیہ، مفسر اور محدث [[ابوبکر محمد بن خزیمه|ابوبکر محمد بن خُزَیْمه]] سے نقل ہوا ہے کہ وہ کئی بار [[حرم امام رضا(ع)|قبر امام رضاؑ]] کی زیارت کرنے جاتے تھے اور ان کی تعظیم اور تضرع دیکھ کر لوگ حیران ہوجاتے تھے۔<ref>ابن حجر عسقلانی، تهذیب التهذیب، ۱۳۲۶ق، ج۷، ص۳۸۸.</ref> تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے اہل سنت محدث [[ابن حبان|ابن‌حِبّان]] کا کہنا ہے کہ جب میں طوس میں تھا تو جب کبھی مشکل پیش آتی تھی تو علی بن موسی الرضاؑ کی زیارت کرنے جاتا تھا، وہاں دعا کرتا تھا اور دعا مستجاب ہوتی تھی نیز مشکل دور ہوتی تھی۔<ref>ابن حبان، الثقات، ۱۳۹۳ق، ج۸، ص۴۵۷.</ref>
 
شیعہ عالم دین [[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ اہل سنت، شیعہ ائمہ کی علمی اور دینی مرجعیت کو مانتے ہیں۔<ref>سبحانی، سیمای عقاید شیعه، ۱۳۸۶ش، ص۲۳۴.</ref> مثال کے طور پر حنفی مذہب کے پیشوا [[ابو حنیفه]] سے منقول ہے کہ [[امام صادق علیه‌السلام|جعفر بن محمدؑ]] سے بڑھ کر کسی فقیہ کو نہیں دیکھا۔<ref>ذهبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۰۵ق، ج۶، ص۲۵۷.</ref> یہی جملہ پہلی اور دوسری صدی ہجری کے
اہل سنت فقیہ و محدث محمد بن مسلم بن شهاب زُهْری، [[امام سجاد علیه‌السلام|امام سجاد(ع)]] کے بارے میں بھی نقل ہوا ہے۔<ref>ابوزرعه دمشقی،‌ تاریخ ابی‌زرعة الدمشقی، مجمع اللغة العربیة، ص۵۳۶.</ref> اہل سنت محدث اور امام باقر کے صحابی عبدالله بن عطاء مکی کہتے ہیں: «میں نے علما کو جتنا [[امام محمد باقر علیه‌السلام|محمد بن علی(ع)]] سامنے علمی لحاظ سے چھوٹے اور نیچے دیکھا کسی اور کے سامنے نہیں دیکھا۔ کوفہ کے بزرگ فقیہ حَکَم بن عُتَیبه کو ان کی شاگردی اختیار کرتے دیکھا۔».<ref>ابن عساکر، تاریخ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۵۴، ص۲۷۸.</ref>
 
== کتاب شناسی ==
سطور بالا کے علاوہ، [[اہل سنت]] کے حلقوں میں بھی ائمہؑ کی شخصیت کا ذکر نہایت عزت و احترام کے ساتھ کیا جاتا تھا اور یہی احترام کبھی ان کے فضائل میں کسی کتاب کی تالیف کے اسباب فراہم کرتا تھا۔
سطور بالا کے علاوہ، [[اہل سنت]] کے حلقوں میں بھی ائمہؑ کی شخصیت کا ذکر نہایت عزت و احترام کے ساتھ کیا جاتا تھا اور یہی احترام کبھی ان کے فضائل میں کسی کتاب کی تالیف کے اسباب فراہم کرتا تھا۔


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,905

ترامیم