مندرجات کا رخ کریں

"عصمت ائمہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 104: سطر 104:
[[حدیث سفینہ|حدیث مشہور سفینہ]] شیعوں کے متعدد مآخذ<ref>بطور نمونہ دیکھئے صدوھ، عیون اخبار الرضا(ع)، ۱۳۷۸ھ، ج۲،‌ ص۲۷؛ صفار، بصائر الدرجات، ص۲۹۷؛ خزاز قمی، کفایۃ الاثر، ۱۴۰۱ھ، ص۳۴؛ طوسی،‌ الامالی، ۱۴۱۴ھ، ص۶۰، ۲۴۹، ۴۵۹، ۴۸۲، ۵۱۳ و ۷۳۳؛ ۔بحرانی، غایۃ‌المرام، ۱۴۲۲ھ، ج۳، ص۱۳-۲۴۔</ref> اور اہلسنت<ref>بطور نمونہ دیکھئے ابن حنبل، فضائل الصحابہ،‌ ۱۴۰۳ھ، ج۲،‌ ص۷۸۵؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۳۷۳ و ج۳، ص۱۶۳؛ طبرانی، المعجم الکبیر، نشر مکتبۃ ابن‌تیمیۃ، ج۳،‌ ص۴۵؛‌ مناوی، فیض القدیر، ۱۳۵۶ھ، ج۲، ص۵۱۹ و ج۵، ص۵۱۷۔</ref> کے یہاں بہت مختصر فرق کے ساتھ اس طرح نقل ہوئی ہے: {{عربی|إِنَّمَا مَثَلُ أَہلِ بَیتِی فِیکُمْ کَمَثَلِ سَفِینَۃ نُوحٍ مَنْ رَکِبَہا نَجَی وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْہا غَرِقَ}}، بے شک میرے اہلبیت کی مثال تمہارے درمیان کشتئ نوح جیسی ہے، جو بھی اس پر سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو چھوٹ گیا وہ غرق ہو گیا۔» بعض نے اس حدیث کو متواتر جانا ہے۔<ref>موسوی شفتی، الامامۃ، ۱۴۱۱ھ، ص۲۰۹۔</ref> حاکم نیشاپوری نے بھی اسے صحیح شمار کیا ہے۔<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ھ، ج۳، ص۱۶۳۔</ref>
[[حدیث سفینہ|حدیث مشہور سفینہ]] شیعوں کے متعدد مآخذ<ref>بطور نمونہ دیکھئے صدوھ، عیون اخبار الرضا(ع)، ۱۳۷۸ھ، ج۲،‌ ص۲۷؛ صفار، بصائر الدرجات، ص۲۹۷؛ خزاز قمی، کفایۃ الاثر، ۱۴۰۱ھ، ص۳۴؛ طوسی،‌ الامالی، ۱۴۱۴ھ، ص۶۰، ۲۴۹، ۴۵۹، ۴۸۲، ۵۱۳ و ۷۳۳؛ ۔بحرانی، غایۃ‌المرام، ۱۴۲۲ھ، ج۳، ص۱۳-۲۴۔</ref> اور اہلسنت<ref>بطور نمونہ دیکھئے ابن حنبل، فضائل الصحابہ،‌ ۱۴۰۳ھ، ج۲،‌ ص۷۸۵؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۳۷۳ و ج۳، ص۱۶۳؛ طبرانی، المعجم الکبیر، نشر مکتبۃ ابن‌تیمیۃ، ج۳،‌ ص۴۵؛‌ مناوی، فیض القدیر، ۱۳۵۶ھ، ج۲، ص۵۱۹ و ج۵، ص۵۱۷۔</ref> کے یہاں بہت مختصر فرق کے ساتھ اس طرح نقل ہوئی ہے: {{عربی|إِنَّمَا مَثَلُ أَہلِ بَیتِی فِیکُمْ کَمَثَلِ سَفِینَۃ نُوحٍ مَنْ رَکِبَہا نَجَی وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْہا غَرِقَ}}، بے شک میرے اہلبیت کی مثال تمہارے درمیان کشتئ نوح جیسی ہے، جو بھی اس پر سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو چھوٹ گیا وہ غرق ہو گیا۔» بعض نے اس حدیث کو متواتر جانا ہے۔<ref>موسوی شفتی، الامامۃ، ۱۴۱۱ھ، ص۲۰۹۔</ref> حاکم نیشاپوری نے بھی اسے صحیح شمار کیا ہے۔<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ھ، ج۳، ص۱۶۳۔</ref>


[[میرحامد حسین]] نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کشتئ اہلبیتؑ لوگوں کو نجات دیتی ہے اور اس سے مخالفت سبب گمراہی ہے تو ضروری ہے کہ خود اہلبیتؑ ہر گمراہی سے محفوظ ہوں۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کی پیروی اور ان کی کشتی پر سوار ہونے کا غیر مشروط حکم گمراہی کا باعث بن جائے گا اور خدا اور رسول خدا (ص) کے لئے ایسا حکم دینا ناممکن ہے جو لوگوں کو گمراہ کرے۔<ref>میرحامد حسین، عبقات الانوار، ج۲۳، ص۶۵۵ و ۶۵۶۔</ref>
[[میر حامد حسین ہندی]] نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کشتئ اہلبیتؑ لوگوں کو نجات دیتی ہے اور اس سے مخالفت سبب گمراہی ہے تو ضروری ہے کہ خود اہلبیتؑ ہر گمراہی سے محفوظ ہوں۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کی پیروی اور ان کی کشتی پر سوار ہونے کا غیر مشروط حکم گمراہی کا باعث بن جائے گا اور خدا اور رسول خدا (ص) کے لئے ایسا حکم دینا ناممکن ہے جو لوگوں کو گمراہ کرے۔<ref>میرحامد حسین، عبقات الانوار، ج۲۳، ص۶۵۵ و ۶۵۶۔</ref>


حدیث سفینہ میں اہلبیتؑ سے مراد بارہ امام ہیں۔<ref>خزاز قمی، کفایۃ الاثر، ۱۴۰۱ھ، ص۳۴، ۲۱۰ و ۲۱۱؛ حلبی، الکافی فی الفقہ، ۱۴۰۳ھ، ص۹۷۔</ref> دسویں اور گیارہویں صدی ہجری قمری کے شافعی مذہب کے ایک عالم دین عبدالرؤوف مناوی، اہلبیتؑ سے مراد ائمہؑ اور [[حضرت زہراؑ]] کو سمجھتے ہیں۔<ref>مناوی، فیض القدیر، ۱۳۵۶ھ، ج۲، ص۵۱۹۔</ref>
حدیث سفینہ میں اہلبیتؑ سے مراد بارہ امام ہیں۔<ref>خزاز قمی، کفایۃ الاثر، ۱۴۰۱ھ، ص۳۴، ۲۱۰ و ۲۱۱؛ حلبی، الکافی فی الفقہ، ۱۴۰۳ھ، ص۹۷۔</ref> دسویں اور گیارہویں صدی ہجری قمری کے شافعی مذہب کے ایک عالم دین عبدالرؤوف مناوی، اہلبیتؑ سے مراد ائمہؑ اور [[حضرت زہراؑ]] کو سمجھتے ہیں۔<ref>مناوی، فیض القدیر، ۱۳۵۶ھ، ج۲، ص۵۱۹۔</ref>
گمنام صارف