مندرجات کا رخ کریں

"صارف:Hkmimi/تمرین" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 27: سطر 27:
[[تفسیر قرآن|مسلمان مفسروں]] نے سورہ سباء کی 16ویں آیت کی تفسیر میں سیل العرم کی تفسیر بیان کی ہے۔<ref>طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۵۳-۵۹؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۳۳۱-۳۳۳؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۳۶۲-۳۶۸.</ref>چھٹی صدی ہجری کے شیعہ مفسروں میں سے [[ابوالفتوح رازی]] کی تفسیر کے مطابق اللہ تعالی نے قوم سباء کی ہدایت کے لیے 13 انبیاءؑ بھیجے لیکن لوگوں نے انبیاء کی باتوں کو ٹھکراتے ہوئے اللہ تعالی کا انکار کیا اور شہر کی آبادی اور نعمتوں کو اپنی برتری کے مرہون منت سمجھنے لگے<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۶، ص۶۰.</ref> آیت کے معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے مفسروں نے سیل العرم کی علت اور سبب کو کفران نعمت اور لوگوں کی ناشکری بیان کیا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۳۶۲-۳۶۸؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۶، ص۶۰.</ref> ابوالفتوح رازی اور [[مکارم شیرازی]] کے کہنے کے مطابق ڈیم توڑنے کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے ایک چوہے کو مامور کیا گیا تھا۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۶، ص۶۰؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۸، ص۶۸.</ref>± چنانچہ سیلاب کی وجہ سے شہر کے دونوں طرف موجود دو سرسبز و آباد باغ ویران اور شورہ زار میں بدل گئے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۸، ص۶۸.</ref>احادیث کی کتابوں میں سے [[الکافی|کافی]] اور [[مرآة العقول (کتاب)|مرآة العقول]] جیسی کتابوں میں سیل العرم کا واقعہ اور عذاب الہی کا سبب اور کیفیت بیان ہوئے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۷۴؛ مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۹، ص۴۲۲-۴۲۴.</ref>
[[تفسیر قرآن|مسلمان مفسروں]] نے سورہ سباء کی 16ویں آیت کی تفسیر میں سیل العرم کی تفسیر بیان کی ہے۔<ref>طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۵۳-۵۹؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۳۳۱-۳۳۳؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۳۶۲-۳۶۸.</ref>چھٹی صدی ہجری کے شیعہ مفسروں میں سے [[ابوالفتوح رازی]] کی تفسیر کے مطابق اللہ تعالی نے قوم سباء کی ہدایت کے لیے 13 انبیاءؑ بھیجے لیکن لوگوں نے انبیاء کی باتوں کو ٹھکراتے ہوئے اللہ تعالی کا انکار کیا اور شہر کی آبادی اور نعمتوں کو اپنی برتری کے مرہون منت سمجھنے لگے<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۶، ص۶۰.</ref> آیت کے معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے مفسروں نے سیل العرم کی علت اور سبب کو کفران نعمت اور لوگوں کی ناشکری بیان کیا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۳۶۲-۳۶۸؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۶، ص۶۰.</ref> ابوالفتوح رازی اور [[مکارم شیرازی]] کے کہنے کے مطابق ڈیم توڑنے کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے ایک چوہے کو مامور کیا گیا تھا۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۶، ص۶۰؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۸، ص۶۸.</ref>± چنانچہ سیلاب کی وجہ سے شہر کے دونوں طرف موجود دو سرسبز و آباد باغ ویران اور شورہ زار میں بدل گئے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۸، ص۶۸.</ref>احادیث کی کتابوں میں سے [[الکافی|کافی]] اور [[مرآة العقول (کتاب)|مرآة العقول]] جیسی کتابوں میں سیل العرم کا واقعہ اور عذاب الہی کا سبب اور کیفیت بیان ہوئے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۷۴؛ مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۹، ص۴۲۲-۴۲۴.</ref>


== تحقیقات باستان‌شناسان ==
==آثار قدیمہ کے ماہرین کی تحقیقات==
بنابر تحقیق برخی از خاورشناسان و باستان‌شناسان در قرن ۱۹ میلادی، وقوع سیل عرم در شمال شرقی شهر صنعای کنونی که همان [[مأرب|مَأرَب]] بوده، رخ داده است.<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۸، ص۶۹؛ بی‌آزار شیرازی، باستان‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۳۳۱-۳۳۳؛ بلاغی، قصص قرآن، ۱۳۸۱ش، ص۳۷۹.</ref> به باور محققان مذکور، سد عرم در ارتفاع ۱۱۶۰ متری از دریا و بر اساس پیشرفته‌ترین فنون مهندسی در زمان خود ساخته شده و از سال ۴۴۷ تا ۴۵۰میلادی، مورد هجوم سیل بوده و مردم به مرمت آن می‌پرداخته‌اند، ولی سرانجام در سال ۵۳۲ میلادی درهم شکسته شده است.<ref>بی‌آزار شیرازی، باستان‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۳۳۱-۳۳۳.</ref> در نزدیکی محل سدّ، کتیبه‌ها، نقوش و خطوط فراوانی درباره تاریخچه [[قوم سبا]] و سیل عرم کشف شده است.<ref>بی‌آزار شیرازی، باستان‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۳۳۱-۳۳۳؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۸، ص۶۹.</ref> [[سید صدرالدین بلاغی]]، در کتاب خود، قصص قرآن، شرحی از حضور خاورشناسان و باستان‌شناسان در محل وقوع سیل عرم، ارائه کرده است.<ref>بلاغی، قصص قرآن، ۱۳۸۱ش، ص۳۷۹.</ref>
19ویں صدی عیسوی کے بعض مستشرقین اور آثار قدیمہ کے ماہرین کی تحقیقات کے مطابق عرم کا سیلاب یمن کے شمال مشرقی شہر صنعا (جو اس وقت مآرب کہلاتا تھا) میں آیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۸، ص۶۹؛ بی‌آزار شیرازی، باستان‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۳۳۱-۳۳۳؛ بلاغی، قصص قرآن، ۱۳۸۱ش، ص۳۷۹.</ref>مذکورہ محققین کے مطابق عرم کا ڈیم سطح سمندر سے 1160 میٹر کی بلندی پر اپنے دور کے ترقی یافتہ فن کے مطابق بنایا گیا اور سنہ 447ء سے 450ء تک سیلاب کا سامنا کرتا رہا اور لوگ اس کی مرمت کرنے لگے لیکن آخر کار 532ء کو مکمل ویران ہوگیا۔<ref>بی‌آزار شیرازی، باستان‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۳۳۱-۳۳۳.</ref>ڈیم کے محل وقوع کے نزدیک، قوم سباء اور سیل العرم کی تاریخ کے بارے میں مختلف کتیبے، نقوش اور خطوط کشف ہوئے ہیں۔<ref>بی‌آزار شیرازی، باستان‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۳۳۱-۳۳۳؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۸، ص۶۹.</ref> [[سید صدرالدین بلاغی]] نے اپنی کتاب قصص قرآن میں مستشرقین اور آثار قدیمہ کے ماہرین کا سیل العرم کی جگہ حاضر ہونے کو بیان کیا ہے۔<ref>بلاغی، قصص قرآن، ۱۳۸۱ش، ص۳۷۹.</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,753

ترامیم