confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,753
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
'''سیل عَرِم''' اس بڑے سیلاب کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے یمن میں قوم سباء پر عذاب کے طور پر نازل ہوا تھا۔سورہ سباء کی 16ویں آیت میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہوا ہے جس کے مطابق اللہ تعالی کی طرف سے مَأرَب یعنی موجودہ صنعا میں لوگوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالی نے انبیاء بھیجنے اور لوگوں کی طرف سے ان انبیاء کو ماننے سے انکار کرنے کے بعد عرم کا بند (ڈیم) ٹوٹ گیا اور پورے شہر کو اپنے لپیٹ میں لیا۔ سیلاب کی وجہ سے شہر کے مشرق اور مغرب میں موجود دو آباد باغ شورزدہ زمین میں تبدیل ہوگئے۔ | '''سیل عَرِم''' اس بڑے سیلاب کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے یمن میں قوم سباء پر عذاب کے طور پر نازل ہوا تھا۔سورہ سباء کی 16ویں آیت میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہوا ہے جس کے مطابق اللہ تعالی کی طرف سے مَأرَب یعنی موجودہ صنعا میں لوگوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالی نے انبیاء بھیجنے اور لوگوں کی طرف سے ان انبیاء کو ماننے سے انکار کرنے کے بعد عرم کا بند (ڈیم) ٹوٹ گیا اور پورے شہر کو اپنے لپیٹ میں لیا۔ سیلاب کی وجہ سے شہر کے مشرق اور مغرب میں موجود دو آباد باغ شورزدہ زمین میں تبدیل ہوگئے۔ | ||
شرق شناس اور آثار قدیمہ کے ماہرین کی تحقیقات کے مطابق عرم کا سیلاب یمن میں موجودہ شہر صنعا کے شمال مشرق میں آیا تھا۔ اور سنہ 532ء کو یہ حادثہ رونما ہوا ہے۔ | |||
==سیل عرم کا واقعہ== | |||
سیل عَرِم (عرم کا سیلاب) یمن کے شہر مارب میں ڈیم ٹوٹنے کی وجہ سے واقع ہوا اور شہر، باغات اور کھیت ویران ہوگئے۔<ref>دینوری، اخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۱۷؛ مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۶۱.</ref> تیسری صدی ہجرے کے مورخین ابن قتیبہ دینوری و علی بن حسین مسعودی کا کہنا ہے کہ [[قوم سبأ]] بھی اسی شہر میں بستی تھی۔<ref>دینوری، اخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۱۷؛ مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۶۱.</ref> [[علی بن حسین مسعودی|مسعودی]] کے مطابق سباء کی سرزمین باغات اور آبادی پر مشمل تھی۔ یمن کی سرزمین پر بہت سارے باغات اور فراوان اللہ کی نعمتیں تھیں اور یہ سب ڈیم کے پانی کی وجہ سے تھی۔<ref>مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۶۲.</ref> | |||
== | |||
سیل | |||
بر پایه برخی پژوهشها و گزارشهای تاریخی، سیل عرم در سال ۴۴۷ تا ۴۵۰ میلادی، یا ۴۰۰ سال قبل از ظهور [[اسلام]]، یا در قرن ششم میلادی رخ داده است.<ref>جعفریان، «نفوذ اسلام در یثرب»، ص۹۵؛ بیآزار شیرازی، باستانشناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ۳۳۳.</ref> همچنین برخی منابع تاریخی، تصریح کردهاند که مردم شهر، پیش از سیل متفرق شدند و به [[عراق]]، [[شام]] و [[مدینه|یثرب]] مهاجرت کردند.<ref>منهاج سراج، طبقات ناصری، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۱۸۳.</ref> | بر پایه برخی پژوهشها و گزارشهای تاریخی، سیل عرم در سال ۴۴۷ تا ۴۵۰ میلادی، یا ۴۰۰ سال قبل از ظهور [[اسلام]]، یا در قرن ششم میلادی رخ داده است.<ref>جعفریان، «نفوذ اسلام در یثرب»، ص۹۵؛ بیآزار شیرازی، باستانشناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ۳۳۳.</ref> همچنین برخی منابع تاریخی، تصریح کردهاند که مردم شهر، پیش از سیل متفرق شدند و به [[عراق]]، [[شام]] و [[مدینه|یثرب]] مهاجرت کردند.<ref>منهاج سراج، طبقات ناصری، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۱۸۳.</ref> |