مندرجات کا رخ کریں

"جماع" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbashashmi
م + زمرہ جات 7 (بذریعہ:آلہ فوری زمرہ بندی)
سطر 46: سطر 46:
{{سانچہ:عائلی احکام}}
{{سانچہ:عائلی احکام}}
{{سانچہ:احکام طہارت}}
{{سانچہ:احکام طہارت}}
[[ar:الجماع]]
[[ar:الجماع]]
[[tr:Cinsel İlişki]]
[[tr:Cinsel İlişki]]
[[زمرہ:فقہی احکام]]
[[زمرہ:فقہی ابواب]]
[[زمرہ:فقہ]]
[[زمرہ:فقہا]]
[[زمرہ:فقہی اصطلاحات]]
[[زمرہ:فقہی موضوعات]]
[[زمرہ:فقہی نظریے]]

نسخہ بمطابق 23:09، 23 اگست 2018ء



جماع، انسان کی کسی دوسرے انسان یا حیوان کے ساتھ نزدیکی کو کہتے ہیں۔ اسلامی فقہ میں جماع، مواقعہ، وطی اور دخول جیسے الفاظ کو جنسی ملاپ کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ فقہی مسائل میں جماع کے احکام کے بارے میں بہت سے مطالب بیان کیے جاتے ہیں اور اس سے مراد وہ ایسا جنسی ملاپ ہے کہ جس میں حد اقل مقام ختنہ تک دخول کیا گیا ہو۔ فقہا نے جنسی ملاپ کو تین قسموں حلال جیسے ازدواج، حرام جیسے زنا اور مشتبہ (غلطی سے) میں تقسیم کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک کیلئے مختلف احکام بیان کیے جاتے ہیں۔ ان کے فتویٰ کے مطابق جنسی ملاپ خواہ سامنے سے ہو یا پیچھے سے، یہ جنابت کا موجب ہے اور اس سے پاکی حاصل کرنے کیلئے غسل جنابت بجا لانا ضروری ہے۔ مرد کے مرد سے جنسی ملاپ (لواط) کی حرمت اور عورت کے عورت سے ملاپ (مساحقہ ) کی حرمت جماع کے باب میں فقہا کے منجملہ فتاویٰ میں سے ہے۔

تعریف

فقہ میں جنسی ملاپ کو جماع، مواقعہ، وطی اور دخول کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے کہ جس کا معنی ایک انسان کی دوسرے انسان یا حیوان کیساتھ نزدیکی ہے۔[1] جماع کے احکام پر فقہ کے بہت سے ابواب جیسے طہارت، روزہ، اعتکاف، حج، ازدواج، طلاق، ظِہار، ایلاء اور حدود میں بحث کی جاتی ہے۔[2] البتہ یہ احکام اس جماع سے مخصوص ہیں کہ جس میں کم از کم ختنہ گاہ کے مقام تک دخول واقع ہوا ہو۔[3]

جماع کی انواع

جماع فقہی اعتبار سے تین اقسام حلال، مشتبہ اور حرام میں تقسیم ہوتی ہے کہ جن کے احکام مختلف ہیں۔[4]

حلال جماع

وہ جماع جو شرعی اسباب کی فراہمی کے بعد واقع ہوتا ہے، حلال جماع ہے۔ حلال جماع کے شرعی اسباب یہ ہیں: دائمی ازدواج، موقت ازدواج، ملکیت (کنیز کا مالک ہونا) اور تحلیل (اپنی کنیز سے جنسی استفادے کو دوسرے کیلئے حلال کرنا)[5]

مشتبہ جماع

مرد اور عورت کا اس گمان سے ملاپ کہ جماع کے شرعی اسباب فراہم ہو چکے ہیں، مشتبہ ملاپ یا فقہی اصطلاح میں وطی بالشبھہ کہا جاتا ہے؛ مثال کے طور پر جب کوئی شخص غلطی سے کسی عورت کو اپنی بیوی سمجھ کر اس سے ہمبستری کرے۔[6] فقہا کے فتوی کی رو سے مشتبہ جماع پر حد جاری نہیں ہوتی۔[7] اسی طرح عورت کیلئے ضروری ہے کہ اس کیلئے عدت رکھے[8] اور اسے مَہرالمثل دیا جائے گا۔[9] البتہ صاحب‌جواہر کے بقول اگر اشتباہ فقط مرد کی طرف سے ہو، یعنی عورت کو معلوم ہو کہ وہ اس کی مَحرم نہیں ہے تو اس کیلئے مہر المثل نہیں ہے۔[10]

حرام جماع

وہ جماع جو شرعی اسباب کی فراہمی کے بغیر اور حالت احتیار میں کیا جائے، اسے حرام جماع کہتے ہیں۔[11] حرام جماع کے کچھ مصداق یہ ہیں: زنا، لواط، مساحقہ، حیوان سے جماع،[12] حیض، نفاس، روزہ اور احرام کی حالت میں جماع۔[13]

جماع کے بموجب جنابت

اسی طرح ملاحظہ کیجئے: جنابت فقہا کے فتویٰ کی رو سے جماع خواہ آگے سے ہو یا پیچھے سے، جنابت کی موجب ہے۔[14] مرد کا مرد کیساتھ جنسی ملاپ اور اسی طرح حیوان کیساتھ نزدیکی بھی جنابت کا سبب ہے۔[15] جماع اور جنابت کے کچھ احکام ہیں؛ منجملہ قرآن کے خط کو لمس کرنے کی حرمت، اسم خدا اور احتیاط واجب کی بنا پر آئمہؑ کے ناموں کو مس کرنے کی حرمت، مساجد میں ٹھہرنے اور واجب سجدوں والی قرآنی سورتوں کو پڑھنے کی حرمت۔[16] جماع کرنے والا اگر کم از کم ختنہ گاہ تک دخول کرے[17]، تو اس پر لازم ہے کہ نماز اور روزے کیلئے غسل جنابت بجا لائے۔[18]

جماع کے بعض احکام

مراجع تقلید کے فتاویٰ کی رو سے جماع کے احکام اس وقت جاری ہوتے ہیں کہ جب ان میں دخول کم از کم ختنہ گاہ کی مقدار تک کیا گیا ہو۔[19] فقہی کتب میں منقول جماع کے بعض احکام یہ ہیں:

  • دائمی ازدواج میں چار ماہ سے زیادہ جماع کو ترک کرنا حرام ہے۔
  • حیوان کیساتھ نزدیکی حرام ہے اور اس پر تعزیر ہے۔
  • ایسی خاتون کیساتھ نزدیکی جو بالغ نہ ہوئی ہو، حرام ہے۔
  • اگر کوئی مرد کسی دوسرے مرد کیساتھ جنسی ملاپ کرے تو یہ حرام ہے۔ اسی طرح ماں، بہن یا بیٹی کیساتھ نکاح حرام ہے۔
  • بیوی کیساتھ دبر میں وطی جائز ہے؛ مگر سخت مکروہ ہے۔
  • سوموار، منگل، جمعرات، جمعہ اور جمعرات کی دوپہر میں جماع کرنا مستحب ہے۔

متعلقہ مضامین

  • استمتاع
  • استمنا
  • احتلام

حوالہ جات

  1. مؤسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390ش، ج1، ص161۔
  2. مؤسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390ش، ج1، ص161۔
  3. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392ش، ج1، ص267۔
  4. مؤسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390ش، ج1، ص161۔
  5. مؤسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390ش، ج1، ص161۔
  6. مؤسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390ش، ج1، ص161۔
  7. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ق، ج3، ص35۔
  8. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ق، ج3، ص35۔
  9. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1409ق، ج2، ص808۔
  10. نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج32، ص378-379۔
  11. مؤسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390ش، ج1، ص162۔
  12. شہید اول، القواعد و الفوائد، 1400ق، ج1، ص175۔
  13. مؤسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390ش، ج1، ص162۔
  14. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392ش، ج1، ص267۔
  15. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392ش، ج1، ص267و268۔
  16. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392ش، ج1، ص269۔
  17. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392ش، ج1، ص267۔
  18. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392ش، ج1، ص273۔
  19. ملاحظہ کیجئے:بنی‌ ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392ش، ج1، ص267۔

مآخذ

  • بنى‌ہاشمى خمينى‌، سيدمحمدحسين، توضیح‌المسائل مراجع مطابق با فتاوای شانردہ نفر از مراجع معظم تقلید، قم، ‌دفتر انتشارات اسلامى، چاپ ہشتم، 1424ھ۔‌
  • شہید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، تحقیق سیدعبدالہادی حکیم، قم، کتابفروشی مفید، چاپ اول، 1400ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضة البہیہ فی شرح اللمعة الدمشقیہ، شرح سیدمحمد کلانتر، قم، کتاب‌فروشی داوری، چاپ اول، 1410ق
  • طباطبائی یزدی، سیدمحمدکاظم، العروة الوثقی، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • مؤسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم‌السلام، قم، موسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، چاپ سوم، 1392شمسی۔
  • نجفى، محمدحسن، جواہر الكلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔