گمنام صارف
"عبد اللہ شاہ غازی" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbasi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Abbasi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 23: | سطر 23: | ||
| دینی = | | دینی = | ||
}} | }} | ||
'''عبد اللہ شاہ غازی''' حضرت [[امام حسن علیہ السلام]] کی نسل میں سے [[حسن مثنی]] کے پوتے ہیں۔ ان کا اصل نام عبد اللہ تھا۔ اس نے اپنے والد محمد نفس زکیہ کے ساتھ مل کر مدینہ میں بنو عباس کے خلاف قیام کیا۔ عبد اللہ پاکستان کے علاقے سندھ میں | '''عبد اللہ شاہ غازی''' حضرت [[امام حسن علیہ السلام]] کی نسل میں سے [[حسن مثنی]] کے پوتے ہیں۔ ان کا اصل نام عبد اللہ تھا۔ اس نے اپنے والد محمد نفس زکیہ کے ساتھ مل کر مدینہ میں بنو عباس کے خلاف قیام کیا۔ عبد اللہ پاکستان کے علاقے سندھ میں چلے گئے جہاں ان کی وفات ہوئی۔ اس نام سے معروف مزار [[شیعیان پاکستان|پاکستان]] کے شہر کراچی میں ساحل سمندر (کلفٹن) پر واقع ہے۔ یہ مزار ایک دفعہ دہشت گرد حملوں کا نشانہ بن چکا ہے۔ | ||
==نسب و ولادت== | ==نسب و ولادت== | ||
سطر 30: | سطر 30: | ||
*'''نام''': عبد اللہ | *'''نام''': عبد اللہ | ||
*'''کنیت''': ابو محمد<ref>ابن عنبہ،عمدۃ الطالب،ص103، منشورات المطبعۃ الحيدريۃ - النجف الأشرف</ref> | *'''کنیت''': ابو محمد<ref>ابن عنبہ،عمدۃ الطالب،ص103، منشورات المطبعۃ الحيدريۃ - النجف الأشرف</ref> | ||
*'''لقب''':اشتر،<ref>ابن حاتم عاملی،الدر | *'''لقب''':اشتر،<ref>ابن حاتم عاملی،الدر النظیم،520،مؤسسۃ النشر الإسلامي التابعۃ لجماعۃ المدرسين بقم المشرفہ</ref> کابلی،<ref>ابن عنبہ،عمدۃ الطالب،ص103، منشورات المطبعۃ الحيدريۃ - النجف الأشرف۔ابن حاتم عاملی،الدر النظیم،520،مؤسسۃ النشر الإسلامي التابعۃ لجماعۃ المدرسين بقم المشرفہ</ref>، شاہ غازی | ||
باپ کا نام [[محمد نفس زکیہ|محمد]] تھا جو [[نفس زکیہ]] کے نام سے معروف ہوئے اور سب سے پہلے بنی عباس کے خلاف انہوں نے ہی قیام کیا۔ | باپ کا نام [[محمد نفس زکیہ|محمد]] تھا جو [[نفس زکیہ]] کے نام سے معروف ہوئے اور سب سے پہلے بنی عباس کے خلاف انہوں نے ہی قیام کیا۔ | ||
والدہ کا نام ام سلمہ بنت ابو محمد بن حسن بن حسن مثنی تھا۔<ref>ابن حاتم عاملی،الدر | والدہ کا نام ام سلمہ بنت ابو محمد بن حسن بن حسن مثنی تھا۔<ref>ابن حاتم عاملی،الدر النظیم،520،مؤسسۃ النشر الإسلامي التابعۃ لجماعۃ المدرسين بقم المشرفہ</ref> | ||
==زندگی نامہ== | ==زندگی نامہ== | ||
ان کی زندگی کی تفصیلات مذکور نہیں ہیں۔ بنو عباس کے خلاف قیام کے بعد کا کچھ تذکرہ کتب میں موجود ہے۔ | ان کی زندگی کی تفصیلات مذکور نہیں ہیں۔ بنو عباس کے خلاف قیام کے بعد کا کچھ تذکرہ کتب میں موجود ہے۔ | ||
[[عباسیوں]] نے ابتدا میں محمد بن | [[عباسیوں]] نے ابتدا میں محمد بن عبداللہ نفس زکیہ کی بیعت کی اور معاہدے کے تحت قرار تھا کہ امویوں کی حکومت کے سقوط کے بعد [[بنی ہاشم]] اور [[علوی]] اس کیلئے شائستہ ہیں لیکن امویوں کی شکست کے بعد انہوں نے محمد کو قبول نہیں کیا۔<ref>مہدی فرمانیان/ سید علی موسوی نژاد، زیدیہ تاریخ و عقاید، ص۳۷.</ref><ref>حسن ابراہیم حسن، تاریخ سیاسی اسلام، ترجمہ ابو القاسم پایندہ، ص۱۲۷.</ref>اس وعدہ خلافی کے خلاف علویوں نے سفاح کے دور میں خاموشی اختیار کی لیکن منصور کے خلیفہ بن جانے کے بعد سال ۱۳۶ ہ ق میں واضح طور پر محمد نفس زکیہ کی سرکردگی میں منصور کے خلاف [[قیام نفس زکیہ|قیام]] کا اقدام کیا۔<ref>محمد رضا مہدوی عباس آباد، قیام محمد بن عبداللہ (نفس زکیہ) نخستین قیام علویان علیہ عباسیان، نشریہ دانشکدہ علوم اجتماعی و انسانی دانشکدہ تبریز، ش۱۶، ۱۳۴.</ref> | ||
لہذا محمد نفس زکیہ نے [[مدینہ]] سے منصور عباسی کے خلاف قیام کیا جس میں اسکا بیٹا عبد اللہ اشتر اس کے ہمراہ تھا۔ اسی قیام کے دوران عبد اللہ کے باپ محمد نفس زکیہ نے اسے کچھ زیدیوں کے ہمراہ بصرہ روانہ کیا اور اسے کہا کہ تم وہاں سے اچھی نسل کے گھوڑے خرید کر سندھ چلے جاؤ۔ جہاں کا حاکم عمر بن حفص ان افراد میں سے تھا جنہوں نے محمد نفس زکیہ کی بیعت کی تھی اور آل ابی طالب کی طرف میلان رکھنے والوں میں سے تھا۔ عبد اللہ اشتر نے اسکے پاس پہنچ کر امان مکمل واقعے سے آگاہ کیا اور اس سے امان طلب کی۔ حاکم عمر بن حفص نے یہاں اسکے باپ کیلئے بیعت لی اور یہیں عبد اللہ اشتر کو اپنے باپ محمد نفس زکیہ اور بھائی ابراہیم کے قتل کی خبر ملی۔ سندھ کے حاکم نے عبد اللہ کو منصور عباسی کے خوف سے سندھ کے ایک مشرک حاکم کے پاس بھیج دیا جو خاندان رسالت کے نہایت احترام کا قائل تھا۔ اس کے پاس عبد اللہ اشتر نہایت عزت و احترام کے ساتھ رہے۔ <ref>طبری ،تاریخ طبری،ج6/ | لہذا محمد نفس زکیہ نے [[مدینہ]] سے منصور عباسی کے خلاف قیام کیا جس میں اسکا بیٹا عبد اللہ اشتر اس کے ہمراہ تھا۔ اسی قیام کے دوران عبد اللہ کے باپ محمد نفس زکیہ نے اسے کچھ زیدیوں کے ہمراہ بصرہ روانہ کیا اور اسے کہا کہ تم وہاں سے اچھی نسل کے گھوڑے خرید کر سندھ چلے جاؤ۔ جہاں کا حاکم عمر بن حفص ان افراد میں سے تھا جنہوں نے محمد نفس زکیہ کی بیعت کی تھی اور آل ابی طالب کی طرف میلان رکھنے والوں میں سے تھا۔ عبد اللہ اشتر نے اسکے پاس پہنچ کر امان مکمل واقعے سے آگاہ کیا اور اس سے امان طلب کی۔ حاکم عمر بن حفص نے یہاں اسکے باپ کیلئے بیعت لی اور یہیں عبد اللہ اشتر کو اپنے باپ محمد نفس زکیہ اور بھائی ابراہیم کے قتل کی خبر ملی۔ سندھ کے حاکم نے عبد اللہ کو منصور عباسی کے خوف سے سندھ کے ایک مشرک حاکم کے پاس بھیج دیا جو خاندان رسالت کے نہایت احترام کا قائل تھا۔ اس کے پاس عبد اللہ اشتر نہایت عزت و احترام کے ساتھ رہے۔ <ref>طبری ،تاریخ طبری،ج6/289،مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات - بيروت - لبنان۔ابن اثیر،الکامل فی التاریخ،5/595،596دار صادر للطباعۃ والنشر - دار بيروت للطباعۃ والنشر</ref> | ||
جبکہ ابو الفرج اصفہانی نے اس کے برعکس روایت نقل کی ہے جسکے مطابق محمد نفس زکیہ اور عبد اللہ کے بھائی ابراہیم کے قتل کے بعد عبد اللہ بن محمد بن مسعدہ (اسکا معلم) اسے سندھ لے گیا۔ جہاں سے عبد اللہ کے قتل کے بعد اسکا سر منصور کو بھیجا گیا۔ راوی کے بقول وہ عبد اللہ اشتر کے ساتھ کوفہ گیا اور پھر وہاں سے بصرہ سے ہوتے ہوئے سندھ میں منصورہ گئے اور وہاں سے قندھار (افغانستان) کے ایک قلعہ میں گئے جہاں کوئی پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا لیکن قلعہ کے لوگ نہایت بدخلق تھے۔ راوی کی عدم موجودگی میں عراق کا ایک قافلہ وہاں آ کر عبد اللہ اشتر کو منصورہ میں اسکی بیعت کرنے کی خبر دیتے ہیں اور اسے وہاں سے ساتھ لے جاتے ہیں۔<ref>ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین268/269،مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات،بیروت</ref> | جبکہ ابو الفرج اصفہانی نے اس کے برعکس روایت نقل کی ہے جسکے مطابق محمد نفس زکیہ اور عبد اللہ کے بھائی ابراہیم کے قتل کے بعد عبد اللہ بن محمد بن مسعدہ (اسکا معلم) اسے سندھ لے گیا۔ جہاں سے عبد اللہ کے قتل کے بعد اسکا سر منصور کو بھیجا گیا۔ راوی کے بقول وہ عبد اللہ اشتر کے ساتھ کوفہ گیا اور پھر وہاں سے بصرہ سے ہوتے ہوئے سندھ میں منصورہ گئے اور وہاں سے قندھار (افغانستان) کے ایک قلعہ میں گئے جہاں کوئی پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا لیکن قلعہ کے لوگ نہایت بدخلق تھے۔ راوی کی عدم موجودگی میں عراق کا ایک قافلہ وہاں آ کر عبد اللہ اشتر کو منصورہ میں اسکی بیعت کرنے کی خبر دیتے ہیں اور اسے وہاں سے ساتھ لے جاتے ہیں۔<ref>ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین268/269،مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات،بیروت</ref> | ||
منصور عباسی نے عبد اللہ کی موجودگی کی خبر پا کر | منصور عباسی نے عبد اللہ کی موجودگی کی خبر پا کر ہشام بن عمرو بن بسطام تغلبي کو حکومت سندھ کا لالچ دے کر عبد اللہ کے قتل کیلئے سندھ روانہ کیا۔ | ||
===اولاد=== | ===اولاد=== | ||
انساب و تاریخ کی کتب میں عبد اللہ اشتر کا ایک بیٹا مذکور ہے<ref> | انساب و تاریخ کی کتب میں عبد اللہ اشتر کا ایک بیٹا مذکور ہے<ref>عمدۃ الطالب - ابن عنبۃ - ص 105۔تاريخ طبري - طبري - ج 6 - ص 291</ref> اس کی والدہ ام ولد یعنی کنیز تھی، اس کا نام محمد اور کنیت ابو الحسن<ref>تاريخ الطبري - الطبري - ج 6 - ص 291</ref> تھی نیز اسی محمد کی مناسبت سے عبد اللہ اشتر کو '''ابو محمد'''<ref>عمدۃ الطالب - ابن عنبہ - ص 105</ref> بھی کہا گیا ہے۔انساب کی کتب میں تصریح ہوئی ہے کہ اسی عبد اللہ اشتر کے بیٹے محمد سے محمد نفس زکیہ کی نسل چلی ہے۔<ref>عمدۃ الطالب - ابن عنبہ - ص 105۔الدر النظيم - إبن حاتم العاملي - ص 520۔العدد القويہ - علي بن يوسف الحلي - ص 357</ref> بعض نے اس بیٹے کی جائے ولادت کابل ذکر کی ہے۔<ref>عمدۃ الطالب - ابن عنبۃ - ص 105</ref> عبد اللہ اشتر کے قتل کے بعد اس کے بیٹے محمد اور اس کی والدہ کنیز کو کو منصور کے پاس بھیجا گیا۔ منصور نے انہیں والیے مدینے کے نام ایک خط کے ہمراہ مدینہ روانہ کیا جس کے میں لکھا تھا کہ آل ابی طالب کو جمع کر کےان کے سامنے اس کے نسب کی تصدیق کرو اور انہیں ان کے حوالے کر دو۔<ref>تاريخ الطبري - الطبري - ج 6 - ص 291</ref> | ||
==وفات== | ==وفات== | ||
عبداللہ شاہ غازی کی وفات کو مؤرخین نے 151 ہجری قمری کے ذیل میں ذکر کیا ہے لیکن تاریخ و مہینے کے حوالے سے کوئی معلومات مذکور نہیں ہے۔ اس کی وفات میں درج ذیل اقوال پائے جاتے ہیں: | عبداللہ شاہ غازی کی وفات کو مؤرخین نے 151 ہجری قمری کے ذیل میں ذکر کیا ہے لیکن تاریخ و مہینے کے حوالے سے کوئی معلومات مذکور نہیں ہے۔ اس کی وفات میں درج ذیل اقوال پائے جاتے ہیں: | ||
'''پہلا قول''': سندھ کی جانب فرار کے بعد کابل کے نزدیک '''علج''' نامی پہاڑ پر قتل ہوئے اور ان کا سر منصور عباسی کو بھیجا گیا۔ حسن بن زيد بن حسن بن علی نے ان کا سر لیا۔<ref> | '''پہلا قول''': سندھ کی جانب فرار کے بعد کابل کے نزدیک '''علج''' نامی پہاڑ پر قتل ہوئے اور ان کا سر منصور عباسی کو بھیجا گیا۔ حسن بن زيد بن حسن بن علی نے ان کا سر لیا۔<ref>عمدۃ الطالب - ابن عنبۃ - ص 105</ref> | ||
'''دوسرا قول''':سندھ میں ہشام بن عمرو بن بسطام نے اسے قتل کرنے کے بعد سر منصور عباسی کو بھیجا۔<ref>مقاتل الطالبيين - أبو الفرج | '''دوسرا قول''':سندھ میں ہشام بن عمرو بن بسطام نے اسے قتل کرنے کے بعد سر منصور عباسی کو بھیجا۔<ref>مقاتل الطالبيين - أبو الفرج الأصفہانى - ص 207 - 208۔عمدۃ الطالب - ابن عنبۃ - ص 106</ref> | ||
'''تیسرا قول''':سندھ میں مہران کی ایک نہر کے کنارے ہشام بن عمرو کے بھائی سفنجا اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور سر منصور عباسی کو بھیجا گیا ایک قول کے مطابق قتل کے بعد سر جدا کئے بغیر نہر میں بہا دیا گیا۔<ref>تاريخ الطبري - الطبري - ج 6 - ص 291</ref> | '''تیسرا قول''':سندھ میں مہران کی ایک نہر کے کنارے ہشام بن عمرو کے بھائی سفنجا اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور سر منصور عباسی کو بھیجا گیا ایک قول کے مطابق قتل کے بعد سر جدا کئے بغیر نہر میں بہا دیا گیا۔<ref>تاريخ الطبري - الطبري - ج 6 - ص 291</ref> | ||
سطر 61: | سطر 61: | ||
اس مزار پر سالانہ عرس کی تقریبات 20,21,22 ذو الحجہ کو منعقد کی جاتی ہیں۔<ref>[https://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/hazrat-abdullah-shah-ghazi: ضیائی اعلام]</ref> | اس مزار پر سالانہ عرس کی تقریبات 20,21,22 ذو الحجہ کو منعقد کی جاتی ہیں۔<ref>[https://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/hazrat-abdullah-shah-ghazi: ضیائی اعلام]</ref> | ||
الیگزینڈر جان ایف بیلی اپنی کتاب کراچی: پاسٹ، پریزنٹ اینڈ فیوچر میں لکھتا ہے کہ کراچی کے تین: منگھوپیر، منوڑہ اور لیاری ندی کے کنارے واقع میراں پیر کے مزارات پر ہر سال پابندی کے ساتھ عرس منعقد ہوتے ہیں مگر اِن میں سب سے بڑا عرس مبارک کلفٹن میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کا ہوتا ہے جس میں ہندو، مسلمان کسی تفریق کے بغیر | الیگزینڈر جان ایف بیلی اپنی کتاب کراچی: پاسٹ، پریزنٹ اینڈ فیوچر میں لکھتا ہے کہ کراچی کے تین: منگھوپیر، منوڑہ اور لیاری ندی کے کنارے واقع میراں پیر کے مزارات پر ہر سال پابندی کے ساتھ عرس منعقد ہوتے ہیں مگر اِن میں سب سے بڑا عرس مبارک کلفٹن میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کا ہوتا ہے جس میں ہندو، مسلمان کسی تفریق کے بغیر شریک ہوتے ہیں۔<ref>[https://www.express.pk/story/931705/: ایکسپریس نیوز]</ref> | ||
===خود کش حملہ=== | ===خود کش حملہ=== | ||
اکتوبر2010ء میں عبد اللہ شاہ غازی کے مزار پر دو خود کش حملوں میں دسں افراد ہلاک اور پچپن سے زائد زخمی ہوئے۔ اس | اکتوبر2010ء میں عبد اللہ شاہ غازی کے مزار پر دو خود کش حملوں میں دسں افراد ہلاک اور پچپن سے زائد زخمی ہوئے۔ اس | ||
سطر 70: | سطر 70: | ||
==مآخذ== | ==مآخذ== | ||
*مہدی فرمانیان/ سید علی موسوی نژاد، زیدیہ تاریخ و عقاید۔ | |||
*ابن عنبہ،عمدۃ الطالب،ص103، منشورات المطبعۃ الحيدريۃ - النجف الأشرف۔ | |||
*ابن حاتم عاملی،الدر النظیم،520،مؤسسۃ النشر الإسلامي التابعۃ لجماعۃ المدرسين بقم۔ | |||
*حسن ابراہیم حسن، تاریخ سیاسی اسلام، ترجمہ ابو القاسم پایندہ۔ | |||
*محمد رضا مہدوی عباس آباد، قیام محمد بن عبداللہ (نفس زکیہ) نخستین قیام علویان علیہ عباسیان، نشریہ دانشکدہ علوم اجتماعی و انسانی دانشکدہ تبریز۔ | |||
*طبری ،تاریخ طبری،ج6/289،مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات - بيروت - لبنان۔ | |||
*ابن اثیر،الکامل فی التاریخ،5/595،596دار صادر للطباعۃ والنشر - دار بيروت للطباعۃ والنشر۔ | |||
*ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین268/269،مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات،بیروت۔ | |||
*العدد القويہ - علي بن يوسف الحلي۔ | |||
*https://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/hazrat-abdullah-shah-ghazi | |||
*https://www.express.pk/story/931705 | |||
*۔https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2010/10/101007_karachi_pics |